چند دن پہلے کی بات ہے کہ شدید
گرمی اور حبس میں دوپہرکے وقت کسی عزیزکی عیادت کے لئے باہر نکلی ۔جونہی
گاڑی اشارے پر رُکی تو خیرات مانگنے والوں نے دھاوا بول دیا ۔جب ایک فقیر
نے گاڑی کے شیشے کو طبلہ سمجھ کربجانا شروع کر دیا تو میں نے دروازے کاشیشہ
تھوڑا سا نیچے سرکایا اور چِڑ کر کہا ”معاف کرو بابا“ ۔فقیر تو چلا گیا
لیکن ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے میرے میاں نے اچانک قہقہہ لگادیا ۔میں نے حیرت
سے پوچھا ”کیا ہوا“؟۔ہنستے ہوئے کہنے لگے ”مجھے آج تُم بالکل ہیلری کلنٹن
لگی ہو“ ۔ میں نے کہا ”کیا مطلب“؟۔ کہنے لگے ”تُم نے بھی فقیر سے ویسی ہی
معافی مانگی ہے جیسی ہیلری کلنٹن نے پاکستان سے مانگی تھی“۔تب سے اب تک میں
یہی سوچ رہی ہوں کہ میاں کے اس مزاحیہ جملے میں کتنی تلخ سچائیاں مضمر تھیں
۔ہیلری کلنٹن کے بیان کے فوری بعد امریکی وزارتِ خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ
نو لینڈ سے صحافیوں نے جب ہیلری کلنٹن کی پاکستان سے معافی مانگنے کے متعلق
سوال کیا تو وہ ہنستے ہنستے دہری ہو گئی اور کہا ”میں وہ نہیں کہوں گی جو
آپ میرے مُنہ سے کہلوانا چاہتے ہیں“۔بعد میں کچھ صحافیوں کی ضد سے تنگ آ
کراُس نے کہا ”اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کو سانحہ سلالہ پر افسوس ہے“۔
دوسری طرف ہمارے حکمرانوں نے خوشی کے شادیانے بجانے شروع کر دیئے ۔حکومتی
حواری کاسہ لیس لکھاری دھڑا دھڑاپنے کالموں اور ٹاک شوز میں یہ ثابت کرنے
پر تُل گئے کہ آخر کار پاکستان نے امریکہ کو ناک رگڑنے پر مجبور کر دیا ۔وزیرِ
اطلاعات قمر الزماں کائرہ (جوچوہدری برادران کی مہربانی سے وزیرِ اعظم بنتے
بنتے رہ گئے) دلائل سے مسلح ہو کر پریس کانفرنس میں حکومت کے اس عظیم ترین
کارنامے پر داد و تحسین وصول کرنے آ دھمکے ، الیکٹرونک میڈیا کی چاندی ہو
گئی اورہر ٹاک شو میں یہی سوال زیرِ بحث کہ Sorry کا مطلب کیا ہوتا
ہے؟۔سارے جہاں کے بزرجمہر ، ارسطو اور افلا طون سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ
امریکہ نے معافی مانگی یا نہیں ۔لیکن کسی نے شایدہیلری کلنٹن کے بیان پر
توجہ نہیں دی ۔ ہیلری نے کہا کہ جب پاکستانی وزیرِ خارجہ حنا رُبانی کھر نے
اُنہیں ٹیلی فون کرکے بتلایا کہ پاکستان نیٹو سپلائی بحال کررہا ہے تب میں
نے سانحہ سلالہ پر Sorry کہا اور جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کیا۔گویا
پہلے نیٹو سپلائی بحالی کی خوشخبری اور پھر معافی کی وصولی۔ایسی معافی تو
گینیزبُک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کی جانی چاہیے ۔حنا ربانی صاحبہ نے سانحہ
سلالہ پربڑی نخوت سے کہا تھا ”صرف معافی ہی کافی نہیں تلافی بھی ضروری ہے“
۔ سات ماہ پہلے وہ بلندی اور آج یہ پستی کہ معافی نہ تلافی۔ شاید ہماری
وزیرِ خارجہ کے بار بار ”گداگرانہ“ سوال پر ہیلری کلنٹن نے بھی سر پر ہاتھ
مارتے ہوئے کہہ دیا ہو گا ”جا بابا! معاف کر“۔
قمر الزماں کائرہ صاحب فرماتے ہیں کہ قومی غیرت کا تقاضہ یہی تھا کہ نیٹو
سپلائی بحالی پر کوئی معاوضہ طلب نہ کیا جاتا ۔انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ
اگر ہم تیس ، چالیس کروڑڈالر وصول کر بھی لیتے تو ہمارا تو کچھ نہ بنتا
لیکن قومی دامانِ غیرت تار تار ہو جاتا ۔۔۔درست فرمایا ، واقعی پاکستان کے
عدیم النظیر حکمرانوں کے لئے یہ اونٹ کے مُنہ میں زیرے کے مترادف ہی ہوتا ۔لیکن
آپس کی بات ہے ”اندر کھاتے“ کیا کچھ وصول کیا ؟۔اُدھریوانِ صدر میں بیٹھے
شاطروں نے قوم کی توجہ ہٹانے کے لئے عین موقعے پر توہینِ عدالت کا بِل
پارلیمنٹ اور سینٹ سے منظور کروا لیا حالانکہ جانتے وہ بھی ہیں کہ سپریم
کورٹ نے اسے پہلے ہلے میں ہی ”پھڑکا کے“ رکھ دینا ہے لیکن اس بِل سے بہرحال
نواز لیگ اور تحریکِ انصاف کی آنکھوں میں چمک آ گئی ۔دونوں جماعتیںہی
پریشان تھیں کہ براہِ راست امریکی مخاصمت کیسے مول لی جائے ۔ اب وہ اپنا
سار ا وزن ”توہینِ عدالت بِل“پر ڈال کر امریکی غیض و غضب کا نشانہ بننے سے
بال بال بچ گئے ۔اُدھر امریکی سفیر کیمرون منٹر نے جاتے جاتے یہ کہہ کر بیچ
چوراہے بھانڈا پھوڑ دیا کہ ”نواز شریف اور عمران خاں نے یقین دلایا ہے کہ
وہ امریکہ کے حامی ہیں “۔ نواز لیگ تو خیر پہلے بھی امریکی مخالفت کی کبھی
ڈھنڈورچی نہیں رہی اور نہ ہی کوئی سیاسی جماعت امریکہ حمایت کے بغیر
”کُرسی“ کا خواب دیکھ سکتی ہے ۔لیکن ا مریکہ پر کڑی تنقید کرنے اور ڈرون
حملوں کے خلاف دھرنے دینے والے کپتان صاحب سے نوجوان نسل یہ سوال کرنے میں
حق بجانب ہے کہ "Brutus you too?"
اُدھر ”مولوی صاحبان“ بھی بڑے کائیاں نکلے ۔انہوں نے ”حکومتی شرارت “ پرکان
نہ دھرتے ہوئے نیٹو سپلائی کے خلاف اسلام آباد تک لانگ مارچ کا اعلان کر
دیا ۔شاید ان کے مخبروں نے اُنہیں یہ غلط اطلاع فراہم کر دی ہو گی کہ نیٹو
کنٹینر پارلیمنٹ ہاؤس ، ایوانِ صدر اور وزیرِ اعظم ہاؤس میں کھڑے ہیں جنہیں
روکنا ”عین عبادت ہے“۔رحمٰن ملک صاحب نے جب طورخم یا چمن کی بجائے اسلام
آباد کی طرف لانگ مارچ کا سُنا تو کھِلکھلاتے ہوئے فرمایا ”اے آمدنتِ باعثِ
آبادیِ ما“۔شنید ہے کہ اُنہوں نے تو ”لانگ مارچیوں“ کے لئے ”منجی بسترے“ کا
انتظام بھی کر رکھا تھا ۔ایسے انتظام و انصرام پر پہلے تو میں ٹھٹھکی کہ
کہیں ایسا تو نہیں کہ دفاعِ پاکستان والوں کی بذریعہ شیخ رشید صاحب رحمٰن
ملک سے کوئی ”ڈیل“ ہو گئی ہو اور انہوںنے ملک صاحب کو چُپکے چُپکے کہہ دیا
ہو کہ ہم اپنا کام کرتے ہیں اور تُم ”لگے رہو مُنا بھائی“۔کیونکہ جس دن
لانگ مارچ عازمِ سفر تھا عین اسی دن نیٹو کنٹینر افغان سرحد عبور کر رہے
تھے ۔لیکن بعد میں ،مَیںنے اِس خیالِ فاسد کو ذہن سے جھٹک دیا ۔ویسے اِس
میں تھوڑا تھوڑا یہ خوف بھی شامل تھا کہ اگر ”مولوی صاحبان “ ناراض ہو گئے
تو کل کلاں کسی نے میری تو ”نمازِ جنازہ“ بھی نہیں پڑھانی ۔سچ تو یہی ہے کہ
ہم لاکھ چیں بچیں کریں، ہمیں بہرحال کبھی نہ کبھی اور کہیں نہ کہیں مولوی
صاحبان کا محتاج تو ہونا ہی پڑتا ہے ۔ شاید اکابرینِ دفاعِ پاکستان کونسل
کوبھی اسلام آباد پہنچ کر یہ احساس ہو گیا کہ وہ غلط جگہ آ گئے ہیں اس لئے
اس لانگ مارچ کا نتیجہ تو یہی نکلا کہ ”صاحب نے کھایا پیا کچھ نہیں ، پیالی
توڑی ، بارہ آنے“۔اب شنید ہے کہ 14 ،15 جولائی کو چمن اور 17،18 کو طُورخم
میں براہِ راست نیٹو سپلائی روکی جائے گی ۔مجھے یقین ہے کہ’ ’ شریر“ رحمٰن
ملک صاحب ان چاروں ایام میں نیٹو سپلائی روک کر مُسکراتے ہوئے یہ کہیں گے
”اب اُنہیں دھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر“
البتہ انتہائی محترم فرید احمد پراچہ کا ایک ٹاک شو میں یہ بیان ضرور حوصلہ
افزاءہے کہ ”نیٹو سپلائی بندہو نہ ہو لیکن ہمارے لانگ مارچوں سے حکومت گھر
ضرورچلی جائے گی “۔میں شاید اِس بیان کو زیادہ اہمیت نہ دیتی لیکن حکومتی
ایوانوں کے انتہائی قریب محترم نذیر ناجی کی گھبراہٹ دیکھ کر کچھ حوصلہ ہوا
ہے ۔اُنہوں نے آج اپنے کالم میں فرمایا ہے ”دفاعِ پاکستان کونسل اگر سپلائی
روٹ دوبارہ بند کرنے میں کامیاب نہ بھی ہوئی تو کم از کم حکومت کو ضرور لے
بیٹھے گی“۔ ہم تو محترم نذیر ناجی صاحب کو یہی کہہ سکتے ہیں کہ ”تیرے مُنہ
میں گھی شکر“۔ |