جال۔ در ۔ جال قسط ١٠۔

گُذشتہ سے پیوستہ۔

تمام واقعات جان کر شہریار مجددی نے رشک بھری نِگاہوں سے فرقان کو دیکھتے ہُوئے کہا،، فرقان میرے بھائی تُم نہایت عظیم ہُو۔ جس نے حسان صاحب کی صحبت میں رِہ کر خُدا کی رضا و نافرمانی کی معرفت حاصِل کرلی۔ آج سے تُم اس لڑائی میں تنہا نہیں ہُو۔ میں ایک حقیقی بھائی کی طرح تمہارے شانہ بشانہ چلنے کو اپنے لئے اعزاز سمجھوں گا۔ میں آج اِسی وقت اپنے قابل احترام بُزرگ کے رُوبرو تُمہارے ساتھ اپنی پارٹنر شپ کا اعلان کرتا ہُوں۔ اِس تمام پروجیکٹ میں آپ میرے نصف حِصہ کے شراکت دار ہیں۔ میں کل ہی اپنے منیجر کی مُلاقات تُم سے کروا دُونگا۔ جسکے فوری بعد آپ اپنی جگہہ پر کنسٹریکشن شروع کروا دیجئے گا۔

حَسان صاحب نے شہریار مجددی کی فراخدلانہ پیشکش کے بعد اپنے دونوں ہاتھ بُلند فرمادیئے اور بُہت دیر تک دونوں کی خیر و بھلائی کیلئے انتہائی رِقت سے دُعا مانگتے رہے۔

اَب مزید پڑھیئے۔

اگلے دِن حسبِ وعدہ شہریار مجددی نے فرقان کی مُلاقات اپنے بزنس منیجر آغا بابر سے کروانے کے بعد فرقان کو بتایا کہ وہ اپنا کاروبار سمیٹنے کی خاطر آج شام ہی کو چند دِنوں کے لئے دُبئی جارہا ہے۔ آغا بابر چہرے مُہرے سے ہی ایک تجربہ کار اور سمجھدار اِنسان نظر آتا تھا۔ لیکن جِس رفتار سے آغا بابر نے فرقان کے پلاٹ کیلئے نقشہ ڈرافٹ کروایا۔ اُور دوسری جانب پلاٹ کے ایک مُناسب اِحاطے پر کنسٹرکشن کا خام مال حِفاظت سے رکھنے کیلئے عارضی شیڈ تیار کروا رَہا تھا۔ فرقان بھی دِل سے آغا بابر کو داد دیئے بغیر نہ رِہ سکا۔ فرقان سُوچنے لگا۔ آغا بابر کا شُمار بِلا شُبہ اُن لوگوں میں ہُوتا ہے۔ جو وقت کے ایک ایک لمحے کی قدر کرنا جانتے ہیں۔ شائد اِسی وجہ سے فرقان دِن بدِن آغا بابر کا گرویدہ ہُوتا چلا جارہا تھا۔

صرف چند دِن کے اندر اندر آغا بابر نے شہر کی مشہور ومعروف تعمیراتی کمپنیوں سے کوٹیشن حاصِل کرنے کے بعد فرقان کے مشورے سے تعمیراتی کام کا ٹھیکہ ایک کمپنی کو دیدیا۔ جسکے نرخ دوسری تمام کمپنیوں سے کافی کم تھے۔ فیکٹری کےتعمیراتی کام کا ٹھیکہ دینے کے دوسرے دِن ہی آغا بابر نے فرقان سے مُلاقات کی اُور اُسے بتایا کہ ہمیں تعمیراتی میٹریل ابھی سے اِسٹاک کرلینا چاہیئے۔ کیونکہ دُوماہ بعد بجٹ آرہا ہے۔ جسکے بعد مُلک بھر میں گورنمنٹ کے رُکے ہُوئے کام دوبارہ سے شروع ہُوجایئنگے۔ جسکے بعد یقینی طُور پر ایک طرف خام مال کے ریٹ بڑھ جانے کا اندیشہ ہے۔ تُو دوسری طرف کام کی زیادتی کیوجہ سےمیٹریل کے شارٹ ہوجانے کا بھی خطرہ موجود ہے۔ فرقان پہلے ہی آغا بابر کی پرسنالٹی سے کافی مُتاثر ہُوچکا تھا۔ لیکن آج وہ آغا بابر کی دُور اندیشی کا بھی قائل ہُوچکا تھا۔

فرقان کی منظوری کے بعد ابتدائی طُور پر تین لاکھ اینٹوں کیساتھ ریتی ، سیمنٹ ، اور سریا بھی فیکٹری کے اِحاطے میں اُترنے لگا۔ جبکہ آغا بابر کا خیال تھا کہ سریا بھی بجائے ڈیلر کے کارخانوں سے خریدنا زیادہ فائدہ مند رہے گا۔ یہاں بھی فرقان کے پاس آغا بابر کی تائید کے سِوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

تمام معاملات بڑے بہترین انداز سے انجام پزیر ہُورہے تھے۔ آغا بابر کی موجودگی میں فرقان خُود کو بُہت ہلکا پھلکا محسوس کررہا تھا۔ اُس رات وہ اپنے کمرے میں لیٹا یہی سُوچ رَہا تھا۔ کہ اگر آغا بابر کا ساتھ نہ ہُوتا تُو وہ کبھی بھی اتنی سُرعت کیساتھ فیکٹری کی تعمیرات شروع نہ کرواسکتا تھا۔ تبھی اُسکے مُلازم نے اسکے دروازے پر دستک دے کر اُسے اطلاع دِی کہ کوئی صاحب آپ سے مُلاقات کیلئے آئے ہیں۔ میں نے اُنہیں کہا بھی کہ یہ وقت فرقان صاحب کے آرام کا ہے۔ مگر وہ صاحب بضد ہیں کہ آپ سے اِسی وقت مُلاقات کریں گے۔

فرقان نے گھڑی کی جانب دیکھا ۔ رات کے پُونے گیارہ بجنے کو تھے۔ مگر حسان صاحب کی تربیت کی وجہ سے فرقان نے بستر چھوڑ دِیا کہ نجانے کون پریشان حال انسان ہُو۔ جِسے اس وقت اُسکی مدد دَرکار ہُو۔ ویسے بھی حسان صاحب فرمایا کرتے تھے۔ کہ ایسے وقت جب بستر کو چھوڑنے کو دِل نہ چاہے اللہ کریم اپنے نیک بندوں کو بعض اُوقات اپنے فرشتوں کی صورت آزماتا ہے۔ تاکہ سب پر واضح ہُوجائے کہ اللہ والے اپنے آرام پر مخلوقِ خُدا کی خِدمت کو فوقیت دیتے ہیں۔

دروازہ کھولنے پر فرقان کی نِگاہ جس شخص پر پڑی وُہ کوئی انجان شخص نہیں بلکہ ٹھیکیدار عبدالرحمن تھا۔ جِس نے نعمان و فرقان کی پہلی فیکٹری کی تعمیر اول تا آخر کی تھی۔ فرقان نے سلام کے بعد ٹھیکیدار عبدالرحمن کو اندر آنے کی دعوت دی۔ جِسے ٹھیکیدار عبدالرحمن نے فرقان کا شُکریہ ادا کرتے ہُوئے قبول کرلی۔

ڈرائینگ رُوم میں بیٹھ کر بعد چند رسمی جُملوں کے بعد ہی ٹھیکیدار عبدالرحمن نے شِکایت بھرے لہجے میں فرقان کو مُخاطب کرتے ہُوئے کہا ،، کیا آپ میرے کام سے مطمئین نہیں تھے جو اس مرتبہ فیکٹری کی تعمیرات کا کام انتہائی مناسب نرخ ہُونے کے باوجود بھی آپ نے مجھے نہیں دیا۔۔۔؟

نہیں عبدالرحمن بھائی ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ مجھے تو معلوم بھی نہیں تھا کہ آپ نے بھی کُوٹیشن فارم بھرا ہے۔۔۔۔۔ اسلئے جس کمپنی کے نرخ مجھے سب سے کم نظر آئے ہم نے اُسی کمپنی کو ٹھیکہ دیدیا۔۔۔۔۔۔ فرقان نے ٹھیکیدار عبدالرحمن کی دلجوئی کرتے ہُوئے کہا۔۔۔

سب سے کم نرخ۔۔۔۔۔؟ لیکن جہاں تک میری معلومات ہیں حماد اینڈ سننز کے ریٹ تُو ہماری کمپنی سے ۴۰ فیصد زائد تھے۔ پھر بھی قرعہ فال اُسی کے نام نِکلا۔۔۔۔۔۔ٹھیکیدار عبدالرحمن نے تعجب کا اظہار کرتے ہُوئے کہا۔

لیکن عبدالرحمن بھائی میں نے خُود تمام کوٹیشنز کو پڑھا تھا۔ اُور حماد اینڈ سنز کے ریٹ ہی سب سے کم تھے ۔۔۔ ویسے آپ نے فارم کس نام سے بھرا تھا۔۔۔۔؟ فرقان نے ٹھیکیدار عبدالرحمن سے حیرت کے عالم میں استفسار کیا۔۔۔

فرقان صاحب نام تو وہی پُرانا والا ہے ۔۔۔ (اے، آر ، سی ،سی) میں نے تُو سوچا تھا کہ آپ نام پڑھتے ہی پہچان جائیں گے۔۔۔ ٹھیکیدار عبدالرحمن نے جواب دیتے ہُوئے شکوہ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن عبدالرحمن بھائی مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس نام کا تُو کوئی کُوٹیشن فارم سرے سے موجود ہی نہیں تھا اُن تمام فارمز میں۔ فرقان نے اپنے ذِہن پر زُور ڈالتے ہُوئے کہا۔۔۔۔ لیکن کل آپ سائٹ پر ہمارے عارضی آفس میں تشریف لے آئیے گا۔ میں دوبارہ تمام کوٹیشن چیک کرلونگا۔ اور اسطرح آپ بھی مطمئین ہُوجایئنگے۔

بُہت اچھی بات ہے ۔فرقان صاحب میں کل ضرور حاضِر ہُوجاؤنگا۔ یہ کہہ کر ٹھیکیدار عبدالرحمن مصافحہ کیلئے اُٹھ کھڑا ہُوا۔ فرقان دروازے تک ٹھیکیدار عبدالرحمن کو چھوڑنے کیلئے آیا۔ تبھی ٹھیکیدار عبدالرحمن نے چُونکتے ہُوئے دوبارہ فرقان کو مُخاطب کرتے ہُوئے کہا۔۔ اچھا ہُوا ۔ مجھے ابھی یاد آگیا۔۔ فرقان صاحب آپ چُونکہ میرے دیرینہ مہربان ہیں۔ اسلئے آپ کو ایک مشورہ دینا چاہتا ہُوں،، کہ آپ جو دونمبر کوالٹی کی اینٹیں اور ایکسپائر سیمنٹ عمارت میں استعمال کرنے جارہے ہیں۔ یہ عمارت کو بُہت جلد بوسیدہ کردے گی۔ میرے خیال میں آپکو اپنی فیکٹری میں چند لاکھ کے فائدے کیلئے ایسا گھٹیا میٹریل استعمال نہیں کرنا چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔

گھٹیا اور دونمبر میٹریل۔۔۔۔۔۔؟ بھلا میں کیوں اپنی فیکٹری میں ایسا میڑیل استعمال کرنے لگا۔ آپکو ضرور کوئی غلط فہمی ہُوئی ہُوگی عبدالرحمن بھائی۔۔۔ فرقان نے ہنستے ہُوئے کہا۔

لیکن میں نے خُود آپکی فیکٹری میں ۲ نمبر میٹریل اُترتے دیکھا ہے۔ جِسے دیکھ کر مجھے حیرت بھی بُہت ہُوئی تھی۔ کیونکہ آپ نے تُو اُس وقت بھی گھٹیا میٹریل استعمال نہیں کیا تھا۔ جب آپ نعمان صاحب کیساتھ اپنی پہلی فیکٹری بنا رہے تھے ۔ حالانکہ کہ مجھے خُوب یاد ہے اُس وقت تو اکثر رقم کی کمی کے باعث آئے دِن کام بھی بند ہُوجایا کرتا تھا۔ تُو اَب کیوں تمام شہر کا ایکسپائر سیمنٹ آپکی فیکٹری میں جمع ہُورہا ہے۔۔۔۔؟ کیا فیکٹری کا میٹریل آپ خُود نہیں خرید رہے ہیں۔۔۔۔؟ ٹھیکیدار عبدالرحمن نے اپنی حیرت کا اِظہار کرتے ہُوئے کہا۔

فرقان نے ایک خیال کے تحت ٹھیکیدار عبدالرحمن سے مُخاطب ہُوتے ہُوئے کہا۔۔ عبدالرحمن بھائی کیا آپ کل فجر کی نماز کے فوراً بعد سائٹ پر آسکتے ہیں۔۔۔۔۔؟ ٹھیکیدار عبدالرحمن کے حامی بھرنے کے بعد فرقان ٹھیکیدار عبدالرحمن کو رخصت کرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر اپنے کمرے میں آکر لیٹ گیا۔ لیکن اب اُسکی آنکھوں میں اِضطراب کے سائے لہرا رہے تھے۔ وہ سُوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ کہ آغا بابر جیسا بُردبار شخص ایسی کِسی گھٹیا حرکت کا مرتکب بھی ہُوسکتا تھا۔ لیکن ٹھیکیدار عبدالرحمن کی گُفتگو نے فرقان کے ذِہن میں بُہت سے سوالات پیدا کردیئے تھے۔ جنہوں نے فرقان کے ذہن کو بہرحال پراگندہ کردیا تھا۔

(جاری ہے)

مُحترم قارئین کرام ،، آپ سب سے دُعاؤں کیلئے ملتمس ہُوں۔

پلکوں سے دَرِ یار پہ دستک دینا
اُونچی آواز ہُوئی عُمر کا سرمایہ گیا
ishrat iqbal warsi
About the Author: ishrat iqbal warsi Read More Articles by ishrat iqbal warsi: 202 Articles with 1096027 views مجھے لوگوں کی روحانی اُلجھنیں سُلجھا کر قَلبی اِطمینان , رُوحانی خُوشی کیساتھ بے حد سکون محسوس ہوتا ہے۔
http://www.ishratiqbalwarsi.blogspot.com/

.. View More