براعظم ایشیا کا سب سے غریب ملک
برما جسے میانمار بھی کہا جاتا ہے اسکی سرحدیں بنگلہ دیش، بھارت، چین، لاﺅس
اور تھائی لینڈسے ملتی ہیں سوا چھ کروڑ نفوس پر مشتمل یہ ملک دنیا کا واحد
بدھ مت اکثریت کا ملک ہے جسکی کل آبادی کا 85 فیصد بدھ مت کے پیروکا راور
پانچ فیصد سے کچھ زائد مسلمان ہیں اسکا کل رقبہ چھ لاکھ چھہتر ہزارپانچ سو
اٹھتر مربع کلو میٹر ہے یہاں کی حکومت غریب اور پسماندہ ہونے کے باوجود سب
سے زیادہ خرچ فوج اور سیکورٹی فورسز پر کرتی ہے جنکے ذریعے اکثر و بیشتر
مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جاتے ہیں-
مسلمانوں کی کل ۵ فیصد آبادی بنگلہ دیشی سرحد کے ساتھ آباد ہے یہ مسلمان
طلوع اسلام کے آغاز میں ہی خلافت راشدہ کے دور میں ہی یہاں آباد ہوگئے تھے
کہا جاتا ہے کہ یہاں اسلام کی روشنی لانے والوں میں دیگر مسلمان اکابرین کے
ساتھ حضرت علی ؓ کے فرزند محمد ؓ بھی تھے مسلمانوں کی زیادہ تر آبادی اسی
خطے میں رہی جہاں آجکل انکی اکثریت ہے-
برما میں جب برطانوی راج قائم ہوا تو 1891 کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں
کی کل آبادی 58255 شمار ہوئی 1911 یہ آبادی 178647 نفوس شمار ہوئی یہاں کے
مسلمان بہت ہی پسماندہ تھے نہایت کم اجرت پر مزدوری کرتے اور زندگی کی
سانسیں پوری کرتے رہے اسی عرصے میں راکھنیے بودھوں کی مسلم دشمنی پروان
چڑھتی رہی اور وہ مسلمانوں پر حملہ آور ہوتے رہے دوسری جنگ عظیم کے دوران
برطانیہ نے یہ علاقہ چھوڑ دیا اور جاپان نے برما پر قبضہ کرلیا یہ مسلمانوں
پر بد ترین دور ثابت ہوا اور صرف 28 مارچ 1942 ایک دن کے اندر ۵ہزار سے
زائد مسلمانوں کو منبیا اور مروبانگ کے علاقوں میں بودھوں نے قتل کردیا-
بودھوں کے ساتھ ساتھ جاپانیوں نے بھی ہزاروں مسلمانوں کو شہید کر ڈالا
بےشمارعور توں کی عصمت دری کی گئی اور سینکڑوں بستیاں جلادی گئیں ہزاروں
مسلمان بنگلہ دیش کی طرف بھاگے اور چٹاگانگ کا رخ کر لیااور ہزاروں نے برما
بنگلہ دیش کے درمیان جنگلوں، ساحلی پٹیوں اور دلدلی زمینوں میں بسیرا کرلیا
اور آج تک انکا یہی مسکن ہے -
برما کے صوبے راکھنیے جسکا پرانا نام اراکان تھا جسے چند ماہ قبل ہی تبدیل
کیا گیا ہے یہاں کے مسلمان بلا شک و شبہ دنیا کے سب سے مظلوم بے بس اور
مجبور انسان ہیں انکی بے بسی،بے کسی اور مظلومیت کا حال اس قدر خستہ ہے کہ
اسکا اعتراف اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ جیسے 100
فیصد مغرب نواز اور اسلام دشمن ادارے بھی کرتے ہیں ان لوگوں کی اس سے بڑی
بے بسی اور کیا ہوگی کہ ان 10 سے 15 لاکھ برمی روہنگیا مسلمانوں کے پاس
برما سمیت دنیا کے کسی بھی ملک کی شہریت نہیں ہے کیونکہ برما انہیں اپنا
شہری نہیں بلکہ بنگلہ دیش کی بنگالی نسل کہتا ہے اور انہیں بنگلہ دیش کی
طرف مار بھگاتا ہے اور دوسری طرف بنگلہ دیش بھی انہیں تسلیم نہیں کرتا بلکہ
مار مار کر واپس دھکیلتا ہے یوں یہ مسلمان چکی کے دو پاٹوں میں پس رہے ہیں
-
یہ دنیا کی وہ واحد قوم ہے جسکے پاس اپنی شناخت کے کوئی کاغذات ہیں نہ کوئی
دستاویزات یہ نہ سرکاری ملازمت کر سکتے ہیں اور نہ ہی پرائیویٹ ، نہ انکے
بچے تعلیم حاصل کرسکتے ہیں اور نہ ہی یہ کسی دوسرے ملک کا سفر کر سکتے ہیں
انکو کوئی قتل کردے انکے گھر جلادے یا انکی عزت پامال کردے انکی کوئی رپورٹ
درج نہیں ہوسکتی اسی لئے تو برما کے طاقتور اور ظالم بودھ جب چاہیں انہیں
گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیتے ہیں اور کوئی ان سے معمولی بازپرس بھی
نہیں کر سکتا-
برما میں کسی مسلمان کو پختہ گھر بنانے کی اجازت نہیں ہے سارے مسلمان گھاس
پھونس کے جھونپڑوں میں رہتے ہیں یہاں کے مسلمان اسقدر مجبور و مقہور ہیں کہ
لاکھوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود انہیں زمین، جائیداد،گاڑی یا کسی بھی
چیز کی ملکےت کی اجازت نہیں ہے یہانتک کہ وہ کوئی ایسی کھانے کی چیز تک
نہیں خرید سکتے کہ انکے جسم کے موٹا یا طاقتور ہونے کا امکان ہو صورتحال
ایسی ہے کہ مسلمان انڈہ تک نہیں خرید سکتے یہاں کے مسلمانوں کو علاج
ومعالجہ تک کی اجازت نہیں ہے یہاں کے مسلمانوں کیلئے نہ کوئی اسکول ہے نہ
کوئی اسپتال نہ کوئی سڑک ہے اور نہ ہی کوئی سہولت - |