رمضان کا احترام ، ملک عزیز میں؟

ملک عزیز پاکستان میں عوام کی حالت زار یعنی بھوک، رشوت، دہشت گردی، مہنگائی وغیرہ سے بہ آسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بحیثیت پاکستانی ہمارا وقار پوری دنیا میں کتنا بلند اور باعزت جانا جاتا ہے۔یعنی اس مملکت کو معرض وجود میں آئے ہوئے64سال گزرنے کے باوجود، اب تک ہم نے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا نہیں سیکھا اور ترقی کے حوالے سے تعلیم، صحت ،معیشت، امن و آمان جو کسی بھی ملک کے عوام کی بنیادی ضروریات ہیں ان اداروں کا مظبوط ہونا ملک مستحکم ہونے کی دلیل ہے۔زندگی کے ہر شعبے میں ہم جس لاپرواہی سے کام لے رہے ہیں اس لاپرواہی اور کرپشن کی وجہ سے ہی تو محترم سفیر نے کہا تھا کہ میں نے واقعی پاکستان میں ”خدا کو دیکھا ہے“ اور یہ جملے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں محاورے کے طور پر استعمال کئے جارہے ہیں۔یہ تو ایک مختصر سی جھلک تھی جو ایک لمحہ میں ہم نے آئینہ دیکھا تو معلوم ہوا کہ ہماری شکل تو وہ نہیں جو ہم اکثر اپنے آئینے میں دیکھتے ہیں اور یہ جو ضمیر کا آئینہ ہے یہ تو سب کچھ دکھاتا ہے ۔ہم کتنے فیصد زندہ قوم ہیں اور اپنے وطن سے کتنا محبت اور خلوص رکھتے ہیں یہ تو مذکورہ سطور میں سرسری طور پر جائزہ لیا گیا۔ اب ہم” بحیثیت مسلمان“ جس جوش و جذبے سے اپنے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور پوری دنیامیں بھی ہم خود کو اسلام کاس ٹھیکہ دار کہلاتے ہیں،تو آئیں ذرا حقیقت کے آئینے پر ایک نظر ڈالتے ہیں کہ ہم کتنے فیصد مسلمان ہیں ۔لیکن ساتھ میںماہ مبارک رمضان شریف جو سال میں ایک مرتبہ نصیب والوں کو نصیب ہوتا ہے اور اس مبارک مہینے کی فضیلتیں اور برکتیں تو ان گنت ہیں جو خصوصی طور پر بندہ اور اُس کے پروردیگار کا رابطہ ہوتا ہے اور خدا فرماتا ہے اے میرے بندے تو اس ماہ صیام میں مجھ سے مانگ کر تو دیکھ میں تم پر برکتیں اور رحمتوں کی بارش نہ کردوں تو کہنا۔تیس دن کا مہمان اور ہماری عاقبت سنوارنے والا ماہ مبارک سالہا سال کی طرح اگست2011ءمیں بھی خدا کی جانب سے بےشمار تحائف لے کر آیا ہوا ہے اور اسی ماہ میں وہ فضیلت والی رات بھی آنی ہے جسے خدا نے خود ”شب قدر“ کا نام دیا ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے تودیکھتے ہیں کہ جو ماہ، خدا کی جانب سے اپنے بندوں کو خصوصی طور پر انعامات سے نواز رہا ہے رمضان شریف کے ذریعے تو ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ ہم اپنی بساط کے مطابق جتنا ہوسکے احترام رمضان میں کوئی کثر باقی نہیں رہنے دیں۔”وطن عزیز میںرمضان شریف کا حشر“ کیا نظر آتا ہے یعنی ہم اس ماہ کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے رویے میں اپنے خیالات میں کیا تبدیلی لاتے ہیں اور اس تبدیلی کی وجہ سے غیر مسلموں کے اندر ہمارے متعلق کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں کہ واقعی مسلمان ماہ رمضان میں تو ایک اچھے انسان ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ رمضان المبارک میں ساحل سمندر سے لےکر خنجراب تک ملک عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جس طرح ہم رمضان گزارتے ہیں ،آئیں ذرا اس حقیقی آئینے میں دیکھتے ہیں کہ وہ ہمیں کیا دکھاتا ہے۔ہم اس آئینے میں دیکھنے والے مناظر کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلا حصہ رمضان کی آمد سے قبل استقبال کی تیاری،دوسرا رمضان کو ہم کس انداز سے لیتے ہیں اور تیسرا حصہ عید کی تیاریاں۔رمضان کی آمد سے قبل مل مالکان،چودہری حضرات، بڑے زمیندار، جاگیر دار، اشیاءخوردنی کے بیوپاری سے لے کر فروٹ فروش تک ہر سال اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کوئی بات نہیں، رمضان آنے دو اگلا پچھلا خسارہ ایک دم سے پورا کریں گے۔رمضان میں مال مہنگا فروخت کرنے کی خاطر ذخیرہ اندوزی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں لگے رہتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ وہ اشیاءجو عام دنوں میں فروخت نہیں کیے جاسکتے ہیں یعنی گلے، سڑے، غیر میعاری،اور ایکسپائر تاریخ والی چیزیں بھی بڑے اعتماد کے ساتھ مارکیٹ کی زینت بناتے ہیں ۔فروٹ، پکوڑے اور سڑی ہوئی بیسن یہ سب رمضان کے مبارک ماہ میں فروخت کی جاتی ہیں۔اور اشیاءضروریہ کی قیمتیں آسمان پر ہر چیز کی قیمت دوگنی بلکہ تِگنی لینا جائز سمجھتے ہیں۔شاہ سے فقیر تک اور فقیر سے شاہ تک سب لوگ اس طرح رمضان کا استقبال کرتے ہیں۔ٹرانسپورٹ والے کرایہ بڑھانے میں کسی سے پیچھے نہیں،ذخیرہ اندوز حضرات ذخیرہ اندوزی میں آگے،مہنگے فروش مہنگائی بڑھانے میں آگے،رشوت، کرپشن، لُوٹ مار، یعنی رمضان میں ہمارے اندر سے انصاف نام کی کوئی شئے موجود نہیں رہتی ہے ہر جانب میرا اور مجھے بس میں ہی کھاﺅں گا والا نقشہ نظر آرہا ہے۔پاکستان میں رمضان کا جو حشر نظر آرہا ہے اُسے دیکھ کر پاکستان میں موجود غیر مسلم برادری تو پاکستانی ہونے کے ناطے پردہ بھی ڈال رہی ہے، مگر باہر کے ممالک میں ہمارے مسلمانیت کے چرچے خوب ہورہے ہیں کہ پاکستانی مسلمان اپنے بابرکت مہینے کا استقبال کس انداز سے کررہے ہیں اور دوران رمضان یہ لوگ اپنے اسلامی اصولوں کے کس حد تک پابند ہوتے ہیں۔بعض کا کہنا ہے کہ حیرت کی بات ہے کہ ماہ مبارک میں دہشت گردی میں بھی کوئی فرق نہیں پڑتا ہے مسلمان قتل جیسی قبیح فعل سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔سڑکوں میں لوٹ مار اُسی طرح رواں دواں ہے، موبائل چھینے کا سلسلے اُسی طرح جاری ہے، اس مبارک ماہ کا احترام ہم جیتے جاگتے انسانوں کو زندہ جلا کر کیا کرتے ہیں،دفاتروں میں لوٹ مار کرپشن وغیرہ میں کوئی کمی کی گنجائش نہیں۔جبکہ انتہائی پریشان کن اور افسوسناک بات یہ ہے کہ ماہ رمضان میں ہنزہ جیسے پرامن علاقے میں ہماری پولیس نے ریاستی دہشت گردی کا وہ ثبوت دیا جسے علاقے کا ہر باضمیر انسان ملامت کئے بنا نہیں رہ سکتا ہے ، یہ کیسا معاشرہ ہے ہمارا یہ کیسی انسانیت ہے ہماری، یہ کونسا اسلام ہے ہمارا ،کس مذہب کے پیروکار ہیں ہم جبکہ ہماری یہ حرکتیں دنیا کے کسی بھی مذہب سے نہیں ملتی ہیں آخر ہمارا بھی دنیا کے دیگر اقوام کی طرح کوئی اصول، کوئی ضابطہ اخلاق کیوں مرتب نہیں؟۔ رمضان میںاگر کوئی افطاری لے کر جارہا ہے تو اُسے اپنے غریب ، ضرورت مند پڑوسی کا احساس تک نہیں کہ میں تو گوشت اور فروٹ سے لطف اندوز ہورہا ہوں میرا پڑوسی جو مشکل سے دن بسر کرتا ہے۔ اگر کسی کے گھر میں اچھے اچھے طعام پک رہے ہوں تو اِن کی خوشبو غریب ہمسائے کے گھر ضرور پہنچتی ہے اپنے ضرورت مندوں کا اس ماہ مبارک میں خیال رکھنے کے بجائے بلکہ دکھا دکھا کر کھانے پینے کی اشیاءاپنے اپنے گھروں کو لے جاتے ہیں۔رمضان ایثار کا مہنہ ہے، قربانی کا مہینہ ہے، ایک دوسرے کی دکھ درد اور تکلیف باٹنے کا مہینہ ہے۔جبکہ اُمراءکو روزے کی حالت میں پیاس لگے، بھوک لگے تو انہیں اس بات کا احساس ہو گاکہ غریب لوگ کس طرح دن بسر کر رہے ہیں۔ہم نے روزے کا مطلب فقط فاقہ کشی کو سمجھا ہے۔ جبکہ روزہ کھانے پینے کی پابندی کے ساتھ ساتھ انسان کے ہاتھ، پیر، آنکھ، کان،ناک، زبان، ایک ایک اعضاءکا روزہ ہونا ضروری ہے کوئی منفی حرکت سرزد نہ ہونے پائے ۔ اسی طرح انسان کے خیالات میں منفی قسم کی سوچ پیدا نہ ہو۔ جھوٹ، ضد، حسد، چغلی، حرام خوری، زیادہ منافع خوری، یہ سب چیزوں سے پرہیز ضروری ہے تب جاکر انسان مکمل روزہ دار بن جاتا ہے۔ اب آجائیں عید پر ہم کیا کرتے ہیں،جب عید کے قریب ہماری خریداری عروج پر ہوتی ہے توصاحب حیثیت لوگ اپنے اہل خانہ ،بال بچوں کو مہنگے سے مہنگا سوٹ خریدتے ہیں مگر کوئی نہیں سوچتا ہے کہ اُس کے آس پاس رہنے والے غریب انسان کے بچوں کے پیروں میں چپل تک نہیں ، جبکہ عید کے دنوں میں کھلونے ، کپڑے ، جوتی اور کاسمیٹک کے سامان کی قیمیت دس گناء اضافہ ہوتی ہیں یعنی رمضان کے شروع سے لوٹ مارکا جو سلسلہ جاری رہتا ہے وہ جاکر رمضان کے انتہاءتک اپنے انتہا کو پہنچتا ہے ۔ غرض ہم ہر طرح سے رمضان میں غریبوں کی دل آزاری کے علاوہ کچھ نہیں کرتے ہیں بہت ہی قلیل تعداد میں لوگ ہونگے جو رمضان کا صحیح معنوں میں احترام کرتے ہیں اس کے علاوہ باقی لوگ یو ںرمضان کا حق ادا کرتے ہیں اور خدا کی خصوصی عطا کردہ نعمتوں کواس انداز سے حاصل کرتے ہیں۔رمضان کا حشر ہمارے ملک میںجو نظر آتا ہے اس سے یہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم کس قدر مسلمان ہیں۔معمولی معمولی باتوں پر مار دھاڑ عام دنوں سے زیادہ رمضان میں ہوتا ہے۔لگتا ایسا ہے کی رمضان بچارہ خدا سے فریاد کر رہا ہوگا اے میرے پروردیگار اہلیان پاکستان کو میرے علاوہ وہ تمام برکتیں و رحمتیں عطا کر جتنا کہ ان کا حق ہے مگر ۔۔۔مگر مجھے کم از کم پاکستان میں نہیں جانا ہے، انہیں بغیر روزے کے وہ ثواب عطا کر جو روزے داروں کو ملتا ہے کم از کم ”میں رمضان“ کی بے حرمتی اور آپ کی حکم عدولی تو نہیں ہوگی ؟،جو حشر میرا ساحل سمندر سے خنجراب تک ہوتا ہے میں بیان نہیں کرسکتا ہے۔ رمضان شریف خدا سے گلہ کرتا ہوگا کہ اے خدا یا یہ کس طبع کے مسلمان ہیں جن کی حیات کا مقصد ہی کفران نعمت ہے جو ہر لمحہ خدا سے بغا وت کئے بناءنہیں رہتے ہیں۔ اس ملک میں تو آپ او ر آپ کے رسولﷺ کے بتائے ہوئے احکامات کی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں ہر چیز خدا اور رسول کے حکم کی منافی چل رہی ہے۔برادران اسلامی خیر نام کی حد تک تو ہم مسلمان ہیں نا اگر ہم چند ساعتوں کے لیے صدق دل سے غور کریں اور خود احتسابی عمل سے گزریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہم کتنے فیصد انسان ہیں، کتنے فیصد پاکستانی اور کتنے فیصد ہم مسلمان ہیں۔ جو عذاب پورے ملک میں دہشتگردی کی شکل میں ،مہنگائی کی شکل میں، لودشیڈنگ کی صورت میں نظر آرہی ہے وہ ہماری حرکتوں کی وجہ سے ہی ہے ۔میں تو کہتا ہوں پھر بھی کم ہے یہ جو کچھ ہمارے ساتھ ہورہا ہے۔جبکہ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم خالصتاً مسلمان ہیں ،جبکہ ہم سے تو رمضان المبارک کا احترام تک نہیں ہوتااور رمضان شریف کا حشر پاکستان میں اچھوت سے بھی بد تر نظر آتا ہے بلکہ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ کسی جنگی قیدی، یا غلام کا بھی وہ حشر نہیں ہوتا ہے جو رمضان شریف کا ہمارے ملک میں کیا جاتا ہے۔ جبکہ یورپ میں کرسمس کے ایام جو ان کے مذہبی معتبر دن ہوتے ہیں اہلیان یورپ وہ تمام اشیائے ضروریہ بہت ہی مناسب ریٹ پر بلکہ نصب قیمت پر دیتے ہیں وہ اس لئے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے مقدس دنوں میں وہ انسانوں کی خدمت کریں اور یوں اپنے مذہبی ایام کا احترام کریں ،کرسمس کے دنوں میں ہر مال اتنا سستا ہوتا ہے کہ غریب انسان بھی با آسانی اپنی ضرورت پوری کرسکتا ہے۔ ایک دوسرے کو اچھے اچھے تحائف اور گلدستے پیش کئے جاتے ہیں اور بہت پیار اور محبت سے کرسمس کے دن منائے جاتے ہیں، اگر مسلمانوں کااحترام رمضان اور غیر مسلموں کااحترام کرسمس کا معازنہ کرایا جائے تو یقیناً ہمیں سر جھکانا ہی پڑے گا۔ مگر خدا کی ذات کو دیکھو پھر بھی چہل پہل برقرار ہے، نہ آسمان ٹوٹا اور نہ آگ کا عذاب نازل ہوا۔ اگر ہمارا رویہ اسی طرح جاری رہا تو ایک دن ہم بہت بڑے عذاب سے دو چار ہونگے۔ اس سے قبل ہمیں اپنا قبلہ درست کرنا ہوگا ورنہ جس انداز سے اسلامی اصولوں کی دھجیاں ہم اُڑاتے ہیں شاید اس کی مثال کہیں اور نہ ملے۔آئیں مل کر دعا کریں کہ پروردگار عالم ہمیں صحیح معنوں میں انسان پھر ایسا مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے جسے دیکھ کر دنیا آرزو کرے، پروردِگار عالم ہم سب کو رزق حرام سے محفوظ رکھ تاکہ ہماری نسلیںصراطِ مستقیم پر چل سکیں(آمین)
YOUSUF ALI NASHAD
About the Author: YOUSUF ALI NASHAD Read More Articles by YOUSUF ALI NASHAD: 28 Articles with 23610 views i am belong to gilgit working a local news paper as a asstand editor and some local newspapers for writting editorial pag... View More