لیلۃ القدر کے فضائل و اعمال

اللہ تبارک و تعالٰی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:۔
انا انزلنہ فی لیلۃ القدر ہ وما ادرک ما لیلۃ القدر ہ لیلۃ القدر ہ خیر من الف شھر ہ تنزل الملئکۃ والروح فیھا باذن ربھم من کل امر ہ سلم ھی حتی مطلع الفجر ہ

بیشک ہم نے اسے شب قدر میں اتارا اور تم نے جانا کیا شب قدر ؟ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر، اس میں فرشتے اور جبرئیل اترتے ہیں اپنے رب کے حکم سے ہر کام کیلئے وہ سلامتی ہے صبح چمکنے تک۔
حضرات ! شب قدر کس قدر اہم اور برکت والی رات ہے کہ اس کی شان مبارکہ میں پوری ایک سورت نازل فرمائی گئی اور قرآن جیسی اہم اور مقدس کتاب بھی اسی رات میں اتاری گئی، اور اس رات کی عبادت کو ایک ہزار مہینوں کی عبادت سے بھی افضل قرار دیا گیا، ایک ہزار مہینے کے تراسی سال چار ماہ ہوتے ہیں اب اندازہ لگائیے کہ جس نے زندگی میں صرف ایک بار اگر شب قدر کی سعادت حاصل کر لی تو گویا اس نے تراسی سال چار ماہ سے بھی زیادہ عرصہ کی عبادت کی۔ اور اس زیادتی کا علم تو اللہ اور اس کے رسول ہی کو ہے۔

سبحان اللہ ! یہ ہے اس رات کی عظمت و رفعت کا مقام، لٰہذا ہم سب مسلمانوں کو چاہئیے کہ اس رات کی اہمیت کو سمجھے، اور اس رات کو غفلت میں نہ گزاریں بلکہ اس رات کو عبادت، توبہ اور استغفار کی خوب خوب کثرت کریں۔


شان نزول واقعہ کی روشنی میں
اس سورہ مبارکہ کا شان نزول بیان کرتے ہوئے بعض مفسرین کرام نے ایک نہایت ہی ایمان افروز حدیث بیان کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سامنے بنی اسرائیل کے ایک ولی اور عابد شب زندہ دار حضرت شمعون رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ (تفسیر روح البیان میں شمسون آیا ہے) کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت شمعون نے ہزار ماہ اس طرح عبادت کی کہ رات کو قیام اور دن کو روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالٰی کی راہ میں کفار کے ساتھ جہاد کرتے تھے، حضرات صحابہ کرام نے جب ان کی عبادت و ریاضت کا یہ حال سنا تو انہیں حضرت شمعون پر بڑا رشم آیا اور ماہِ نبوت آقائے رحمت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا، یارسول اللہ ! ہمیں تو بہت تھوڑی عمر ملی ہے، اس میں بھی کچھ حصہ نیند میں گزر جاتا ہے، تو کچھ طلب معاش میں، تو کچھ کھانے پکانے اور دیگر امور دنیوی میں صرف ہو جاتا ہے، لٰہذا ہم تو حضرت شمعون کی طرح عبادت کر ہی نہیں سکتے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم لوگ بنی اسرائیل سے عبادت میں بڑھ ہی نہیں سکتے ہیں ! اور نہ ان کا ہم مقابلہ کر سکتے ہیں !

چنانچہ اُمت کے غمخوار آقائے دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم یہ سن کر غمگین ہوئے، مگر اللہ کو اپنے محبوب کا غم کیونکر پسند ہو چنانچہ اسی وقت سدرہ کے مکین جبرئیل امین علیہ السلام حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا، اے پیارے حبیب (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) آپ رنجیدہ نہ ہوں، آپ کی اُمت کو اللہ نے ہر سال میں ایک ایسی رات عنایت فرما دی کہ اگر وہ اس رات میں میری عبادت کریں گے تو حضرت شمعون کے ہزار ماہ کی عبادت سے بھی بڑھ جائیں گے۔ (فیضان سنت صفحہ 1206)

لیلۃ القدر کی وجہ تسمیہ
لیلۃ القدر کو لیلۃ القدر اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں بندوں کی قضاء و قدر مقدر ہوتی ہے، اللہ تعالٰی فرماتا ہے، “فیھا یفرق کل امر حکیم“ اس میں ہرا مرحکیم کا فرق لکھا جاتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی اس سال کا رزق، نارش، حیات اور موت (یعنی زندہ رکھنا اور مارنا) وغیرہ اسی رات میں آنے والے سال کیلئے مقدر فرما کر ملائکہ مد برات الامور کے سپرد فرما دیتا ہے، رزق، نباتات اور بارش کا دفتر حضرت میکائیل علیہ السلام کو، جنگیں، ہوائیں، زلزلے، صواعق اوع خسف (دھنسبا) کا دفتر جبرئیل علیہ السلام کو، اعمال کا دفتر اسرافیل علیہ السلام کو اور مصائب کا عزرائیل علیہ السلام کو سپرد کیا جاتا ہے۔ (تفسیر روح البیان، جلد 15 صفحہ 482 )

لیلۃ القدر حدیث کی روشنی میں
(1) حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بار جب ماہِ رمضان شریف آیا تو تاجدار مدینہ، سرور قلب و سینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے پاس ایک مہینہ آیا ہے جس میں ایک رات ایسی بھی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا گویا تمام کی تمام بھلائی سے محروم رہ گیا اور اس کی بھلائی سے محروم نہیں رہتا مگر وہ شخص جو حقیقۃً محروم ہی ہے۔ (ابن ماجہ)

(2) ایک طویل حدیث میں حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے روایت کیا ہے کہ، سرکار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، جب شب قدر آتی ہے تو اللہ عزوجل کے حکم سے حضرت جبرئیل علیہ السلام ایک سبزہ جھنڈا ئے فرشتوں کی بہت بڑی فوج کے ساتھ زمین پر نزول فرماتے ہیں اور اس سبز جھنڈے کو کعبہ معظّمہ پر لہرا دیتے ہیں، حضرت جبرئیل علیہ السلام کے سو بازو ہیں جن میں سے دو بازو صرف اسی رات کھولتے ہیں وہ بازو مشرق و مغرب میں پھیل جاتے ہیں، پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کو حکم دیتے ہیں کہ جو کوئی مسلمان آج رات قیام میں نماز یا ذکر اللہ میں مشغول ہے اس سے سلام و مصافحہ کرو، نیز ان کی دعاؤں پر آمین بھی کہو، چنانچہ صبح تک یہی سلسلہ رہتا ہے صبح ہونے پر حضرت جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کو پھر واپس چلنے کا حکم صادر فرماتے ہیں، فرشتے عرض کرتے ہیں اے جبرئیل علیہ السلام ! اللہ نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی اُمت کی حاجات کے بارے میں کیا کیا ؟ حضرت جبرئیل علیہ السلام فرماتے ہیں اللہ نے ان لوگوں پر خصوصی نظر کرم فرمائی اور چار قسم کے لوگوں کے علاوہ تمام لوگوں کو معاف فرما دیا، صحابہ کرام نے عرض کیا، یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ! وہ چار قسم کے لوگ کون سے ہیں ؟ ارشاد فرمایا
(1) شراب کا عادی
(2) والدین کے نافرمان
(3) قطع رحم کرنے والے (یعنی رشتہ داروں سے رشتہ توڑنے والے)
(4) جو آپس میں بغض و کینہ رکھتے ہیں، اور آپس میں قطع تعلق کرتے ہیں۔

(3) رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، جس نے شب قدر میں تین مرتبہ پورا کلمہ پڑھا یعنی لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) پڑھا تو پہلی مرتبہ پڑھنے سے اللہ تعالٰی مغفرت فرما دیتا ہے اور دوسری مرتبہ پڑھنے سے اللہ تعالٰی جہنم سے آزاد فرما دیتا ہے، اور تیسری مرتبہ پڑھنے سے داخل جنت فرما دیتا ہے۔ (فیضان سنت بحوالہ درۃ الناصحین)

(4) رسول مکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو زندہ رکھے گا تو اللہ تعالٰی اس کے لئے ستائیس ہزار سال کا ثواب لکھتا ہے، اور اللہ تعالٰی اس کیلئے جنت میں گھر بناتا ہے جن کی تعداد اللہ تعالٰی ہی جانتا ہے۔ (فیضان سنت بحوالہ فضائل الشہور والایام)

(5) رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے شب قدر کو پایا تو اللہ تعالٰی اس پر دوزخ کی آگ حرام فرما دے گا اور اللہ تعالٰی اس کی تمام حاجتوں کو پورا فرمائے گا۔ (فیضان سنت بحوالہ فضائل الشہور ولایام)

(6) مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں، جو کوئی شب قدر میں سورہء قدر سات بار پڑھتا ہے اللہ اسے ہر بلا سے محفوظ فرما دیتا ہے، اور ستر ہزار فرشتے اس کیلئے جنت کی دعاء کرتے ہیں اور جو کوئی (جب کبھی) جمعہ کے روز نماز جمعہ سے قبل تین بار پڑھتا ہے اللہ اس روز کے تمام نماز پڑھنے والوں کی تعداد کے برابر نیکیاں لکھتا ہے۔ (فیضان سنت بحوالہ نزہۃ المجالس)

(7) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتی ہیں، میں نے اپنے سرتاج صاحب معراج صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا، یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اگر مجھے شب قدر کا علم ہو جائے تو کیا پڑھوں ؟ سرکار مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، اس طرح دعاء مانگو اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی یعنی اے اللہ بیشک تو معاف فرمانے والا ہے اور معافی دینے کو پسند بھی کرتا ہے لٰہذا مجھے بھی معاف فرما دے۔ (مشکوٰۃ شریف، تفسیر روح البیان جلد 15)

اس رات کے نوافل کا مرتبہ
جو کوئی شب قدر میں چار رکعت اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ تکاثر ایک بار اور سورہء اخلاص گیارہ بار پڑھے تو اللہ اس کو سکرات موت میں آسانی فرما دے گا، نیز عذاب قبر سے بھی محفوظ فرما دےگا، اور نور کے چار ایسے ستون عطا فرمائے گا کہ ہر ستون میں ایک ہزار محل ہوں گے۔ (فیضان سنت بحوالہ نزہۃ المجالس)

اس رات میں جو کوئی بیس رکعتیں اس ترتیب سے پڑھے کہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد اکیس بار سورہء اخلاص پڑھے، وہ اپنے گناہوں سے اس طرح پاک ہو جائے گا گویا ابھی ابھی پیدا ہوا ہے، نیز ہر حرف کے عوض جو اس نماز میں پڑھا ہے اس کیلئے جنّت میں ایک شہر بنایا جائے گا، اور اس شہر میں اس قدر حوریں ہوں گی کہ ان کا شمار صرف اللہ عزوجل ہی کو معلوم ہے۔ (فیضان سنت بحوالہ تذکرۃ الواعظین)

جو کوئی اسلامی بھائی یا بہن شب قدر میں دو رکعت نماز اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سات مرتبہ سورہء اخلاص پڑھے اور سلام پھیرنے کے بعد ستر مرتبہ “استغفراللہ واتوب الیہ“ پڑھے تو اپنی جگہ سے اٹھنے سے پہلے اللہ تعالٰی اس کو اور اس کے والدین کو بخش دیتا ہے، اور اللہ تعالٰی فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ جنت میں اس کیلئے باغ لگائیں اور اس کے لئے مکانات بنائیں اور نہریں جاری کردیں وہ دنیا سے نہیں جاتا جب تک یہ سب کچھ دیکھ نہیں لیتا۔ (فیضان سنت بحوالہ درۃ الناصحین)

لیلۃ القدر کی رات کون سی ہے ؟

(1) ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ اصحاب رسول میں سے چند افراد کو خواب کی حالت میں شب قدر آخری سات راتوں میں دکھائی دی، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میرے خیال میں تمہارے خواب آخری سات راتوں میں متفق ہوگئے ہیں بنا بریں اس کا تلاش کرنے والا اس آخری سات ساتوں میں ڈھونڈے۔ (بخاری شریف، باب نمبر 1253، حدیث نمبر 1878 )

(2) ابو سلمہ روایت کرتے ہیں ابو سعید جو میرے دوست تھے میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے بتایا ہم نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ درمیان عشرہ میں اعتکاف کیا، آپ بیس کی صبح کو باہر نکلے اور ہم سے خطاب کیا فرمایا کہ مجھے شب قدر دکھائی گئی، پھر میں اسے بھول گیا یا بھلا دیا گیا، چنانچہ اسے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ (بخاری شریف حدیث نمبر 1880 )

(3) ابن عباس روایت کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو اور وہ ان راتوں میں ہے جب تقریباً سات یا پانچ راتیں باقی رہ جائیں۔ (بخاری شریف، حدیث نمبر 1885 )

(4) عبادہ بن صامت روایت کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے تاکہ ہمیں شب قدر کے بارے میں بتائیں، لیکن فلاں آپس میں جھگڑ پڑے اس لئے اس کا علم مجھ سے اٹھا لیا شاید اس میں تمہاری بھلائی ہو، اس لئے اسے آخری عشرے کی نویں ساتویں اور پانچویں راتوں میں ڈھونڈو۔ (بخاری شریف، حدیث نمبر 1887 )

(5) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، لیلۃ القدر کو رمضان شریف کے آخری دس دنوں میں تلاش کرو، اور وہ اکیسویں، تیسیوں، پچیسویں، ستائیسویں، انتیسویں اور آخری رات ہے۔ (ترمذی شریف، باب نمبر 536)

حدیث بالا کی روشنی میں اس رات کی تعین کے سلسلے میں علمائے کرام کا بے حد اختلاف پایا جاتا ہے۔ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قول یہ ہے کہ رمضان المبارک کی ستائیسویں شب، شب قدر ہے۔ حضرت سیدنا امام شافعی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نزدیک مضبوط قول یہ ہے کہ اکیسویں شب رمضان المبارک کو شب قدر ہونی چاہئیے۔ امام مالک اور امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالٰی عنہما کے نزدیک شب قدر رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ہوتی ہے، مگر اس کیلئے کوئی ایک رات مخصوص نہیں ہر سال ان طاق راتوں میں گھومتی رہتی ہے، یعنی کبھی تو اکیسویں شب لیلۃ القدر ہو جاتی ہے، تو کبھی تئیس، کبھی پچیسویں شب، تو کبھی ستائیسویں شب۔ اور کبھی کبھی انتیسویں شب بھی شب قدر ہو جایا کرتی ہے۔ (فیضان سنت)

بہرحال اگرچہ بزرگان دین اور مفسرین و محدثین کا شب قدر کے تعین میں اختلاف ہے تا جمہور علماء کی رائے یہی ہے کہ ہر سال شب قدر ماہ رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو ہی ہوتی ہے۔ اور اسی شب کے قائل حضور پیرانِ پیر، روشن ضمیر، شیخ عبدالقادر غوث الاعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی ہیں۔
تفسیر عزیزیہ میں حضرت شیخ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں، کہ شب قدر رمضان شریف کی ستائیسویں رات ہی کو ہوتی ہے، اور اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ لیلۃ القدر کا لفظ نو حروف پر مشتمل ہے اور یہ کلمہ سورہء قدر میں تین مرتبہ استعمال کیا گیا ہے اس طرح تین کو نو سے ضرب دینے سے حاصلِ ضرب ستائیس آتا ہے جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شب قدر ستائیسویں کی شب ہے۔ (تفسیر عزیزیہ)

لیلۃ القدر پوشیدہ کیوں ؟
اللہ رب العزت کی سنّت کریمہ ہے کہ اس نے بعض اہم ترین معاملات کو اپنی مشیت سے بندوں پر پوشیدہ رکھا ہے مثال کے طور پر خوشنودی کو نیکیوں میں، اپنی ناراضگی کو گناہوں میں، اپنے اولیاء کو اپنے بندوں میں اور صلاۃ وسطی کو پانچ نمازوں میں پوشیدہ رکھا ہے۔ جس کا مطلب یہی ہے کہ بندہ کسی بھی نیکی کو غیر اہم سمجھ کر نہ چھوڑے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اللہ تعالٰی کس نیکی پر راضی ہو جائے اسی طرح بندہ کسی گناہ کو چھوٹا سمجھ کر نہ کر بیٹھے پتہ نہیں اللہ تعالٰی کس گناہ پر ناراض ہو جائے، اسی طرح انسان کو چاہئیے کہ وہ ہر انسان کی تعظیم بجا لائے، کیا پتہ اللہ کا ولی کون ہے ؟؟ ہو سکتا ہے کہ جس کو ہم عام آدمی سمجھ رہے ہیں وہی اللہ کا ولی ہو، اس لئے اللہ نے ایک بہت بڑی حکمت کے تحت کچھ چیزوں کو پوشیدہ رکھا۔

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
چنانچہ اسی طرح بیشمار مصلحت کے پیشِ نظر لیلۃ القدر کو بھی پوشیدہ رکھا گیا ہے، تاکہ اللہ کے نیک بندے اس کی تلاش میں سارا سال ہی لگے رہیں اور اس طرح وہ نیکیاں کمانے میں کوشاں رہیں، گویا شب قدر کو مخفی رکھ کر اپنے بندوں کو ہر رات میں کچھ نہ کچھ عبادت کرنے کی ترغیب عطا فرمائی گئی ہے، اگر شب قدر کسی ایک رات میں مخصوص فرما کر صراحۃً اس کا علم ہمیں عطا فرما دیا جاتا تو پھر اس بات کا مکمل طور پر امکان ہے کہ ہم سال کی دیگر راتوں کے معاملے میں غافل ہو جاتے، صرف ہم اسی ایک رات کا اہتمام کرتے۔ مگر اب چونکہ اسے مخفی رکھا گیا ہے۔ اس لئے عقلمند وہی ہے جو تمام سال اس عظیم الشان رات کی جستجو میں رہے کہ نہ جانے کون سی رات شب قدر ہو۔ اس طرح سے وہ شب قدر بھی پالے گا اور نیکیاں بھی بہت حاصل کرلے گا۔

خلاصہ
حدیث و قرآن کی روشنی میں ہم سب کو معلوم ہو گیا کہ شب قدر کی اہمیت اور اس کی برکت و عظمت کا مقام کتنا بلند و بالا ہے۔ اس لئے ہم سب مسلمانوں کو چاہئیے کہ اس عظیم رات کو غفلت میں نہ کھوئیں، بلکہ زیادہ سے زیادہ عبادت کریں، اپنے گناہوں سے توبہ کریں، رو رو کر دعائیں کریں، گریہ زاری کریں، تفسیر روح البیان میں لکھا ہے کہ اس گریہ زاری سے فرشتے بھی تمہاری زیارت کیلئے بیتاب ہوتے ہیں، اور حدیث قدسی ہے اللہ فرماتا ہے، لاین المذنبین احب الی من زجل المسبحین یعنی مجھے گنہگاروں کے رونے کی آواز تسبیح کہنے والوں کی آواز سے زیادہ پسند ہے۔ اس لئے فرشتے آپس میں کہتے ہیں کہ زمین پر جاکر ان لوگوں کو دیکھیں جن کے رونے کی آواز اللہ تعالٰی کو محبوب ہے، ذرا ہم بھی ان کے رونے کی آواز اپنے کانوں سے سن لیں کہ ہماری تسبیح پڑھنے کی آواز سے ان کی آواز اللہ تعالٰی کو زیادہ پسند ہے تو کیوں اور کیسے !

علامہ صاحب روح البیان فرماتے ہیں کہ دراصل رونے کی آواز کو اللہ تعالٰی اس لئے پسند کرتا ہے کہ تسبیح پڑھنے والوں کے کمال کا اپنا اظہار ہے اور گنہگار کے رونے میں رب العالمین کی غفار کا اظہار ہے۔ (روح البیان ج15 ص489 )

اپنے ماں باپ سے اپنی گستاخی کی معافی کرائیں، کسی مسلمان بھائی کو آپ سے کسی موقعہ پر تکلیف پہنچی ہو تو اس سے بھی معافی مانگیں، اس طرح سے ایک دوسرے مسلمان بھائی آپس میں ایک دوسرے سے گلے ملکر وقتاً فوقتاً جو آپسی اختلاف ہو جاتے ہیں جن کی وجہ سے ایک دوسرے کو تکلیف ہوتی ہے اس سے معافی مانگیں اس کے بعد اس رات میں عبادت کریں تو انشاءاللہ عزوجل ضرور آپ کی عبادت قبول ہوگی اور اللہ تعالٰی رحم کرنے والا ہے اپنے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے صدقے میں ہم سب پر رحم و کرم فرمائے گا اور ہماری اور آپ سب کے گناہوں کو بخش دے گا اور اس رات کی برکتوں سے مالا مال فرمائے گا۔ آمین ثم آمین
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1381167 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.