رمضان المبارک ، شب قدر،فضائل اور عبادات حصہ اول

حضرت سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان المبارک کی آمد پر شعبان کے آخری دن وعظ فرمایا۔
اے لوگو ۔ تمھارے پاس نہایت پر عظمت اور بابرکت مہینہ تشریف لا رہا ہے ۔ اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے اللہ تعالی نے اس کے روزے تم پر فرض کئے ہیں ۔اسکی راتوں میں نماز(تراویح) پڑھنا سنت قرار دیا ہے ۔جس نے ایک(نفل) نیکی کی (تو اس کا ثواب اتنا ہے) گویا دوسرے کسی مہینے میں فرض ادا کیا اور جس نے ایک فرض ادا کیا جیسے اس نے کسی دوسرے مہینے میں ستر فرض ادا کئے ۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے غریبوں اور محتاجوں کے ساتھ ہمدردی کرنے کا مہینہ ہے ۔اس میں مومن کا رزق بڑھ جاتا ہے ۔اس میں جو کوئی شخص کسی روزہ دار کو افطار کرائے اسکے گناہوں کی بخشش ہو جاتی ہے ۔دوزخ سے آزاد کردیا جاتا ہے اور اسکو اتنا ہی ثواب ملتا ہے جتنا روزہ دار کو ملتا ہے لیکن اس کا ثواب کم نہ ہو گا ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم میں سے ہر شخص تو افطار کرانے کی توفیق نہیں رکھتا تو آپ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی یہی ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو کسی کو ایک گھونٹ دودھ یا ایک کھجور یا ایک پیالہ پانی سے افطار کرائے گا اور جس نے کسی کو پیٹ بھر کر کھلایا اللہ تعالی اس کو میرے حوض کوثر سے پانی پلائے گا جس کے بعد اسے جنت میں داخل ہونے تک پیاس نہ لگے گی ۔اس کا پہلا عشرہ سراسر رحمت ، دوسرا عشرہ بخشش و رحمت ، تیسرا عشرہ دوزخ سے آزادی کا ہے ۔
جو شخص اس مہینہ میں اپنے غلام یا ملازم سے تھوڑا کام لے گا اللہ تعالی اس کو بخش دے گا اور دوزخ سے آزاد فرمائے گا (بیقی بحوالہ مشکو)
پہلے عشرے کی دعا :۔ ربِ اغفِرورحم وانت خیر الر احِمیِن
دوسرے عشرے کی دعا:۔ استغفِر اللہ ربِی مِن کلِ ذنب و اتوب اِلیہِ
تیسرے عشرے اور شب قدر کی دعا :۔ اللھم اِنک عفو تحِب العفو فاعف عنِی یا غفور یا غفور یا غفور ۔ (ابن ماجہ ، ترمذی)
سحری کا انمول تحفہ
لا اِلہ اِلا اللہ الحی القیوم القائِم علی کلِ نفس م بِما کسبت ۔
فضیلت
جو کوئی اس دعا کو سحری کے وقت سات مرتہ پڑھے گا اس کو ہر ستارے کے بدلے ہزار نیکیاں ملیں گی اس کے ہزار گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ،اور اتنے ہی درجے بلند کر دئیے جائیں گے ۔
شب قدر۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا شب قدر میں آسمان کے دروازے کھلے رہتے ہیں جو بندہ شب قدر میں نماز پڑھتا ہے تو اللہ تعالی اس کو ایک ایک تکبیر کے بدلے (یعنی اللہ اکبر کے بدلے) میں جنت میں ایک ایسا سایہ دار درخت عطا فرمائے گا کہ اگر چلنے والا سو سال تک اس کے سائے میں چلے تو اس کا سایہ طے نہ کر سکے گا ۔ اور ہر رکعت کے بدلے میں جنت میں ایک مکان موتیوں یا قوت اور زبرجد کا عطا فرمائے گا ۔ اور ہر سلام پھیرنے کے بدلے جنتی چادروں میں سے ایک عطا فرمائے گا ۔ (در الناصحین (
دعاں کی قبولیت ۔شب قدر میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ جو دعا مانگی جائے قبول ہوتی ہے ۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں میں نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر میں شب قدر کو پالوں تو کون سی دعا مانگوں تو پیارے آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے مندرجہ ذیل دعا تعلیم فرمائی :۔ اللھم اِنک عفو تحِب العفو فاعف عنِی یا غفور یا غفور یا غفور ۔ (ابن ماجہ ، ترمذی)
محترم مسلمانو ! شب قد ر کی تلاش کے لیے خوش نصیب مسلمان رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے ہیں یہ بہت عظیم عبادت ہے ۔ احادیث مبارکہ اعتکاف کے فضائل سے مالا مال ہیں رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف سنت موکدہ علی الکفایہ ہے ۔ اس کے بے شمار فضایل ہیں چند فضائل پیش کئے جاتے ہیں ۔
:۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے رمضان شریف میں دس دن کا اعتکاف کر لیا تو ایسا ہے جیسے دو حج اور دو عمرے کئے۔(بہیقی)
:۔ اللہ عزوجل کے محبوب دانا ئے غیوب صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں ۔ جو شخص رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اخلاص کے ساتھ اعتکاف کر لے گا اللہ تعالی اس کے نامہ اعمال میں ہزار سال کی عبادت درج فرمائے گا ۔ اور قیامت کے دن اس کو اپنے عرش کے سایہ میں جگہ دے گا ۔ (تذکرالواعظین )۔
شب قدر کے نوافل
بارہ رکعت نفل ۔بارہ رکعت نماز تین سلام سے اسطرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد انا انزلنا ایک بار سورہ اخلاص پندرہ مرتبہ پڑھے۔اور سلام کے بعد ستر مرتبہ استغفار پڑھیں۔
فضیلت:اللہ تعالی اس نماز کے پڑھنے والوں کو نبیوں کی عبادت کا ثواب عطا فرمائے گا۔
چاررکعت نفل ۔چاررکعت نفل پڑھے ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد سور التکاثر ایک مرتبہ اور سور اخلاص تین دفعہ پڑھے تو موت کی سختیوں سے آسانی ہو گی اور عذاب قبر سے محفوظ رہے گا ۔ ( نزہتہ المجالس جلد نمبر صفحہ )
دورکعت نفل۔دورکعت نفل پڑھے کہ ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد سور القدر ایک بار اور سور اخلاص تین بار پڑھے تو اللہ تعالی اس کو شب قدر کا ثواب عطا فرمائے گا ۔اور ثواب حضرت ادریس علیہ السلام،حضرت شعیب علیہ السلام ، حضرت داد علیہ السلام، حضرت ایوب علیہ السلام ، حضرت نوح علیہ السلام جیسا عطا ہو گا ۔اور اس کو جنت میں مشرق سے مغرب تک ایک شہر عنایت فرمائے گا ۔ (فضائل الشہور)
شب قدر کا تحفہ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جو شخص شب قدر میں سور قدر سات مرتبہ پڑھے گا ۔ اللہ تعالی اسے ہر بلا سے محفوظ فرما دیتا ہے اور ستر ہزار فرشتے اس کے لیے جنت کی دعا کرتے ہیں ( نزہتہ المجالس)
3۔شبِ قدر
شبِ قدر کی ایک بڑی فضیلت یہ ہے کہ اس کے متعلق قرآن کریم میں پوری سور نازل ہوئی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہوا،''بے شک ہم نے اسے(قرآن کو) شبِ قدر میں اتار۔ اور تم نے کا جانا کیا ہے شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر (ہے) اس میں فرستے اور جبرئیل اترتے ہیں اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لیے۔ وہ سلامتی ہے صبح چمکنے تک''۔ (سور القدر ،کنزالایمان)
اس سورہ سے معلوم ہوا کہ شبِ قدر ایسی بابرکت اور عظمت وبزرگی والی رات ہے:
١۔ جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
٢۔ اسی رات میں قرآن حکیم لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر نازل ہو۔
٣۔ اسی رات میں فرشے اور جبرئیل علیہ السلام زمین پر اترتے ہیں۔
٤۔ اسی رات میں صبح طلوع ہونے تک خیروبرکت نازل ہوتی ہے اور یہ رات سلامتی ہی سلامتی ہے۔
شبِ قدر ملنے کا سبب
امام مالک رضی اللہ تعالی عنہ، فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب پہلی امتوں کے لوگوں کی عمروں پر توجہ فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کے لوگوں کی عمریں کم معلوم ہوئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خیال فرمایا کہ جب گزشتہ لوگوں کے مقابلے میں ان کی عمریں کم ہیں تو ان کی نیکیاں بھی کم رہیں گی اس پر اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شبِ قدر عطا فرمائی جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ (موطا امام مالک ص ٠٦٢)
حضرت مجاہد رضی اللہ تعالی عنہ، فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک نیک شخص کا ذکر فرمایا جس نے ایک ہزار ماہ تک راہِ خدا میں جہاد کے لیے ہتھیار اٹھائے رکھے۔ صحابہ کرام کو اس پر تعجب ہوا تو اللہ تعالی نے یہ سور نازل فرمائی اور ایک رات یعنی شبِ قدر کی عبادت کو اس مجاہد کی ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر قرار دیا۔ (سنن الکبری بیہقی ج ٤ ص ٦٠٣،تفسیر ابنِ حریر)
لیل القدر کی وجہ تسمیہ
اس مقدس اور مبارک رات کا نام لیل القد رکھے جانے کی چند حکمتیں پیش خدمت ہیں۔
١۔ قدر کے ایک معنی مرتبے کے ہیں اس بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس رات کی عظمت و بزرگی اور اعلی مرتبے کی وجہ سے اس کا نام لیل القد یعنی اعلی مرتبے والی رات رکھا گیا ہے۔ اس رات مین عبادت کا مرتبہ بھی بہت اعلی ہے جو کوئی اس رات میں عبادت کرتا ہے۔ وہ بارگاہِ الہی میں قدر و منزلت والا ہوجاتا ہے۔ اور اس رات کی عبادت کا مرتبہ یہ ہے کہ وہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ ایک اور حکمت لیل القدر کی یہ ہے کہ اس رات میں عظمت و بلند مرتبہ والی کتاب نازل ہوئی ہے کتاب اور وحی لے کر آنے والے فرشتے جبرئیل علیہ السلام بھی بلند مرتبے والے ہیں اور یہ عطیم الشان کتاب قرآن حکیم جس محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی وہ بھی بڑی عظمت اور بلند مرتبے والے ہیں۔ سور القدر میں اس لفظ ''قدر'' کے تین مرتبہ آنے میں شاید یہی حکمت ہے۔
٢۔ ''قدر'' کے ایک معنی تقدیر کے بھی ہیں اور چونکہ اس رات میں بندوں کی تقدیر کا وہ حصہ جو اس رمضان سے اگلے رمضان تک
پیش آنے والا ہوتا ہے۔ وہ متعلقہ فرشتوں کوسونپ دیا جاتا ہے۔ اس لیے بھی اس رات کو شبِ قدر کہتے ہیں۔
نزول قرآن
اللہ تعالی نے شبِ قدر کی بڑی وجہ فضیلت یہ بیان فرمائی ہے کہ یہ نزول قرآن کی رات ہے۔ سور الدخان میںارشاد باری تعالی ہے کہ قرآن کریم کو مبارک رات میںنازل کیا۔ اس مبارک معض مفسرین کرام نے شبِ برت مراد لی ہے جیسا کہ پہلے مذکور ہوا۔ اور یہ بھی مشہور ہے کہ قرآن حکیم تیئیس برس کی مدت میں بتدریج نازل ہوا نیز اس کا نزول ربیع الاول میں شروع ہوا۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ نے ان اقوال میں خوب تطبیق کی ہے وہ فرماتے ہیں،''شبِ قدر میں قرآن کریم لوحِ محفوظ سے یکبارگی آسمانِ دنیا پر بیت العزت میں نازل ہوا جب کہ اس کے نزول کا اندازہ اور لوحِ محفوظ کے نگہبانوں کو اس کا نسخہ نقل کرکے آسمانِ دنیا پر پہنچانے کا حکم اسی سال کی شبِ برت میں ہوا۔ گویا قرآن حکیم کا نزول حقیقی ماہِ رمضان میں شبِ قدر کو ہوا اور نزول تقدیری اس سے پہلے شبِ برت میں ہوا۔ اور سینہء مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول قرآن کا آغاز ربیع الاول میں پیر کے دن ہوا اور تیئیس سال میں مکمل ہوا۔ (تفسیر عزیزی پارہ ٠٣ ص ٨٣٤)
ہزار مہینوں سے بہتر
شبِ قدر کی دوسری وجہء فضیلت یہ ہے کہ اس رات کی عبادت کا ثواب ایک ہزار مینوں کی عبادت سے بہتر ہے۔ یہ نکتہ قابلِ توجہ
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ایک ہزار مہینوں کے تراسی سال اور چار ماہ بنتے ہیں پس اگر کوئی شخص ٣٨ سال اور چار ماہ تک دن رات مسلسل اخلاص کے ساتھ اللہ تعالی کی عبادت کرے تو بھی ایک شبِ قدر کی عبادت اتنی طویل مدت کی عبادت سے افضل بہتر ہے جب کہ اس طویل مدت میں کوئی شب قدر نہ ہو۔ اسی طرح یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی شخص شبِ قدر میں عبادت کرے تو گویا اس نے ٣٨ سال اور چار ماہ اللہ تعالی کی عبادت میں گزار دیے بلکہ اسے اس سے بہتر اجر ملے گا پھر اس پر بس نہیں،اگر طلب سچی ہو تو ہر سال شب قدر نصیب ہودسکتی ہے گویا ذرا سی محنت اور لگن سے کئی ہزار مہینوں سے زیادہ اجر و ثواب حاصل کیا جاسکتا ہے۔
نزولِ ملائکہ
نورِ مسجم رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب شبِ قدر آتی ہے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کے جھر مٹ میں زمین پر اترتے ہیں اور اس شخص کے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں جو کھڑا یا بیٹھا اللہ تعالی کی عبادت کررہا ہو۔ (مشکو ج ١ ص ٣٥٤،شعب الایمان للبیہقی ج ٣ ص ٣٤٣)
دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام اور فرشتے اس شب میں عبادت کرنے والوں سے مصافحہ کرتے یں اور ان کی دعا ں پر آمین کہتے ہیں یہاں تک کہ صبح ہوجاتی ہے''۔ (فضائل الاوقات للبیہقی ص ٥١٢)
علما فرماتے ہیں کہ شبِ قدر میں عبادت کرنے والوں سے جب حضرت جبرئیل علیہ السلام اور فرشتے سلام و مصافحہ کرتے ہیں تو اس کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں دلِ خشیت الہی آخری عشرے میں ہے اور وہ ٧٢ ویں شب ہے پھر آپ نے قسم فرمایا،''شب قدر ستائیسویں رات ہے''۔ (صحیح مسلم،مشکو جلد ١ ص ١٥٤)
٣۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں کہ ایک بار حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ، نے صحابہ کرام سے شبِ قدر کے متعلق پوچھا تو سب نے مختلف جواب دیے۔ میں نے عرض کی یہ آخری عشرے کی ساتویں رات یعنی ٧٢ ویں شب ہے کیونکہ اللہ تعالی کا پسندیدہ عدد سات ہے۔ اللہ تعالی نے سات آسمان پیدا فرمائے۔ سات زمینیں بنائیں۔ انسان کی تخلیق سات درجات میں فرمائی اور سات چیزیں بطور اس کی غذا کے پیدا فرمائیں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ، نے فرمایا میرا بھی یہی خیال ہے کہ ٧٢ ویں شب لیل القدر ہے۔ (شعب الایمان للبیہقی جلد ٣ ص ٠٣٣)
٤۔ دوسری روایت میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ، سے یہ بھی منقول ہے کہ اللہ تعالی نے سبع مثانی(سورہ فاتحہ) عطا فرمائی جس کی ٧ آیتیں ہیں جن عورتوں سے نکاح حرام ہے وہ بھی سات ہیں۔ قرآن میں میراث میں سات لوگوں کے حصے بیان فرمائے۔ سفا مروہ کے چکر سات ہیں۔ طواف کے چکر بھی سات ہیں۔ (تفسیر در المنثور)
٥۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے یہ بھی روایت ہے کہ ''لیل القدر'' میں کل نو حروف ہیں اور یہ سور القدر میں تین مرتبہ آیا ہے ٩ کو ٣ سے ضرب دیں تو ٧٢ آتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لیل القدر مین ٧٢ ویں شب ہی ہے۔ (تفسیر کبیر)
٦۔ حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ تعالی عنہ، کا ایک غلام بحری جہازوں کا ملاح رہا تھا وہ ان سے کہنے لگا ایک چیز میرے تجربے میں بہت عجیب ہے وہ یہ کہ سال میں ایک رات سمندرکا کھارا پانی میٹھا ہوجاتا ہے۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ، نے فرمایا جب وہ رات آئے تو مجھے ضرور بتانا رمضان کی ستائیسویں شب کو اس نے کہا یہ وہی رات ہے۔ (تفسیر کبیر،تفسیر عزیزی)
٧۔ جلیل القدر تابعی حضرت عبدہ بن ابی لبابہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں،''میں نے رمضان المبارک کی ستائیسویں شب میں سمندر کا پانی چکھا تو وہ نہایت میٹھا تھا''حضرت یحیی بن ابی میسرہ رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں،''میں نے ٧٢ ویں شب میں خانہء کعبہ کا طواف کیا میں نے دیکھا کہ فرشتے فضا میںبیت اللہ کا طواف کررہے ہیںض''۔ (شعب الایمان للبیہقی جلد ٣ ص ٢٣٣)
٨۔ غوث اعظم سیدنا عبد القادر جیلانی قدس سرہ بھی اسی خیال کے قائل تھے کہ ٧٢ ویں شب کو شبِ قدر ہوتی ہے۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں بعض علما و فقہا کے نزدیک رمضان کی ستائیسویں شب میں قرآن کریم ختم کرنا مستحسن ہے تاکہ شب قدر کی برکتیں بھی حاصل ہوجائیں کیونکہ اکثر محدثین نے احادیث بیان کی ہیں کہ ٧٢ ویں شب میں شبِ قدر ہے''۔ (ماثبت من السنہ ٥١٢)
اس تمام گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ اول تو ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم ماہِ رمضان کی تمام راتوں کے آخری حصہ میں ذوق و شوق کے ساتھ اللہ تعالی کی عبادت کریں اور خوب دعائیں مانگیں۔ کم از کم نمازِ تہجد پورا ماہ ضرور ادا کریں۔ پھر کوشش کرکے آخری عشرہ کی تمام راتوں کو عبادتِ الہی میں گزاریں اور شبِ قدر تلاش کریں۔ ورنہ کم از کم ٧٢ ویں شب کو تو ضرور تمام رات رضائے الہی کے لیے عبادت و دعا میں مصروف رہیں۔ رب تعالی ہم سب کو شبِ قدر کی برکتیں نصیب فرمائے۔ آمین
شبِ قدر مخفی کیوں؟
لوگ اکثر یہ سوال پوچھتے ہیں کہ شبِ قدر کو مخفی رکھنے میں کیا حکمتیں ہیں؟ جواب یہ ہے کہ اصل حکمتیں تو اللہ تعالی اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔ یہ وہ جواب ہے جو صحابہ کرام علیہم الرضوان بارگاہِ نبوی میں اس وقت دیا کرتے جب انہیں کسی سوال کے جواب کا قطعی علم نہ ہوتا۔ وہ فرماتے اللہ و رسولہ اعلم۔ (بخاری،مسلم،مشکو کتاب الایمان)
غیب بتانے والے آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فیوض و برکات سے اکتساب فیض کرتے ہوئے علمائے کرام نے شبِ قدر کے مخفی ہونے کی بعض حکمتیں بیان فرمائی ہیں جو درج ذیل ہیں۔
١۔ اگر شبِ قدر کو ظاہر کردیا جاتا تو کوتاہ ہمت لوگ اسی رات کی عبادت پر اکتفا کرلیتے۔ اور دیگر راتوں میں عبادات کا اہتمام نہ کرتے۔ اب لوگ آکری عشرے کی پانچ راتوں میں عبادت کی سعادت حاصل کرلیتے ہیں۔
٢۔ شبِ قدر ظاہر کردینے کی صورت میں گر کسی سے یہ شب چھوٹ جاتی تو اسے بہت زیادہ حزن و ملال ہوتا اور دیگر راتوں میں وہ
دلجمعی سے عبادت نہ کر پاتا۔ اب رمضان کی پانچ طاق راتوں میں سے دو تین راتیں اکثر لوگوں کو نصیب ہو ہی جاتی ہیں۔
٣۔ اگر شبِ قدر کو ظاہر کردیا جاتا تو جس طرح اس رات میں عبادت کا ثواب ہزار ماہ کی عبادت سے زیادہ ہے اس طرح اس رات میں گناہ بھی ہزار درجہ زیادہ ہوتا۔ لہذا اللہ تعالی نے اس رات کو مخفی رکھا تاکہ اس شب میں عبادت کریں وہ ہزار ماہ کی عبادت سے زیادہ اجر و ثواب پائیں اور اپنی جہالت و کم نصیبی سے اس شب میں بھی گناہسے باز نہ آئیں تو انہیں شبِ قدر کی توہیں کرنے کا گناہ نہ ہو۔
٤۔ جیسا کہ نزولِ ملائکہ کی حکمتوں میں ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ تعالی فرشتوں کو مومن کی عظمت بتانے کے لیے زمین پر نازل فرماتا ہے اور اپنے عبادت گزار بندوں پر فکر کرتا ہے۔ شبِ قدر ظاہر نہ کرنے کی صورت میں فخر کرنے کا زیادہ موقع ہے کہ اے ملائکہ دیکھو! میرے بندے معلوم نہ ہونے کے باوجود محض احتمال کی بنا پر عبادت و اطاعت من اتنی محنت و سعی کررہے ہیں اگر انہیں بتا دیا جاتا کہ یہی شبِ قدر ہے تو پھر ان
کی عبادت و نیاز مندی کا کیا حال ہوتا۔
٥۔ شبِ قدر کا مخفی رکھنا اسی طرح سمجھ لیجئے جیسے موت کا وقت نہ بتانا۔ کیونکہ اگر موت کا وقت بتا دیا جاتا تو لوگ ساری عمر نفسانی خواہشات کی پیروی میں گناہ کرتے اور موت سے عین پہلے توبہ کرلیتے اس لیے موت کا وقت مخفی رکھا گیا تاکہ انسان ہر لمحمہ موت کا خوف کرے اور ہر وقت گناہوں سے دور اور نیکی میں مصروف رہے اسی طرح آخری عشرے کی ہر طاق رات میں بندوں کو یہی سوچ کر عبادت کرنی چاہیے کہ شاید یہی شبِ قدر ہو اس طرح شبِ قدر کی جستجو میں برکت والی پانچ راتیں عبادت الہی میں گزارنے کی سعادت نصیب ہوتی ہے۔
اللہ تعالی نے بے شمار حکمتوں اور مصلحتوں کے باعث بہت سی اہم چیزوں کو مخفی رکھا ہے۔ امام رازی رحمتہ اللہ علیہ تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں کہ
١۔ اللہ تعالی نے اپنی رضامندی کو عبادت و اطاعت میں مخفی رکھا ہے تاکہ لوگ تمام امور میں اللہ تعالی کی اطاعت کریں۔
٢۔ اس نے اپنے غصہ کو گناہوں میں مخفی رکھا ہے تاکہ لوگ ہر قسم کے گناہوں سے بچیں۔
٣۔ اپنے اولیا کو مومنوں کو مخفی رکھا ہے تاکہ لوگ سب ایمان والوں کی تعظیم کریں۔
٤۔ دعا کی قبولیت کو مخفی رکھا تاکہ لوگ کثرت کے ساتھ مختلف دعائیں مانگا کریں۔
٥۔ اسمِ اعظم کو مخفی رکھا تاکہ لوگ اللہ تعالی کے ہر نام مبارک کی تعظیم کریں۔
٦۔ صلوِ الوسطی (درمیانی نماز) کو مخفی رکھا تاکہ لوگ سب نمازوںکی حفاظت کریں۔
٧۔ موت کے وقت کو مخفی رکھا تاکہ لوگ ہر وقت خدا سے ڈرتے رہیں۔
٨۔ توبہ کی قبولیت کو مخفی رکھا تاکہ لوگ جس طرح ممکن ہو توبہ کرتے رہیں۔
٩۔ ایسے ہی شبِ قدر کو مخفی رکھا تاکہ لوگ رمضان کی تمام راتوں کی تعظیم کریں۔
شبِ قدر کی اہمیت
شبِ قدر اتنی زیادہ خیر و برکت والی رات ہے کہ غیب بتانے والے آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،''ماہِ رمضان میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جو اس رات سے محروم رہا وہ ساری خیر سے محروم رہا''۔ (سنن نسائی،مشکو جلد ١ ص ٦٢٤)
مذکورہ حدیث پاک حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ، سے مروی ہے جب کہ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ، سے روایت ہے کہ نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،''اس ماہ میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ جو اس رات سے محروم رہا وہ ساری بھلائی سے محروم رہا۔ اور جو اس کی بھلائی سے محروم رہا وہ ببالکل ہی محروم او ر کم نصیب ہے''۔ (سنن ابنِ ماجہ،مشکو جلد ١ ص ٧٢٤)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ،''جو شبِ قدر من ایمان و اخلاص کے ساتھ عبادت کرتا ہے اس کے تمام پچھلے گناہ بخش دیے جاتے ہیں''۔ (بخاری و مسلم،مشکوجلد ١ ص ٥٢٢)
بعض احادیث مبارکہ سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ جو شخص ماہِ رمضان میں مغرب اور عشا کی نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کرتا رہے تو اسے شب قدر کی کچھ برکتیں ضرور نصیب ہوتی ہیں۔
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ، سے روایت ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،''جس نے رمضان کے پورے مہینے میں مغرب اور عشا کی نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کیں اس نے شبِ قدر کا کسی قدر حصہ پالیا۔ (شعب الایمان للبیہقی ج ٣ ص ٠٤٣)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ، سے روایت ہے کہ آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جس نے پورے ماہِ رمضان میں عشا کی نمازجماعت کے ساتھ پڑھی گویا اس نے شبِ قدر کو پالیا''۔ (ایضا)
ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ شبِ قدر کی برکتوں سے فیضیاب ہونے کے لیے کم از کم اہتمام ضرور کیا جائے کہ ماہِ رمضان میں ان تمام نمازوں اور خصوصا مغرب اور عشا کی نمازیں ضرور بالضرور جماعت کے ساتھ پڑھیں اور اس اہتمام کے علاوہ آخرے عشرے کی طاق راتوں میں شب قدر کی جستجو بھی ضرور کریں۔
ہم سب کے آقا و مولی حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کا ماہِ رمضان میں یہ معمول تھا کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عبادت میں اس قدر مشقت فرماتے جو دیگر ایام میں نہ کرتے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرے کی تمام راتوں میں نہ صرف شبِ بیداری کرتے بلکہ اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے تھے۔ (بخاری،مسلم،مشکو جلد١ ص ١٥٤)
غور فرمائیے جب اللہ تعالی کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہ جن کے صدقے و طفیل ہم گناہگاوں کی بخشش ہونی ہے،آخری عشرے میں عبادات میں مشقتیں اٹھاتے تھے تو ہم اور آپ آخری عشرے میں اللہ تعالی کی رضا کے لیے اپنے آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ سنت کیوں نہ اپنائیں۔
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1381209 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.