رمضان المبارک کا مہینہ نہایت ہی
برکتوں اورسعادتوں والا مہینہ ہے۔ حدیث پاک ہے : الرمضان شہر اللہ (رمضان
اللہ کا مہینہ ہے)۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک
سے بہت زیادہ محبت فرماتے اور اس کے پانے کی اکثر دعا کیا کرتے تھے۔ حضور
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مبارک مہینے کا خوش آمدید کہہ کر
استقبال کرتے۔ جب رمضان المبارک کا مہینہ آیا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے دریافت کیا کہ تم کس کا استقبال کر
رہے ہو اور تمہارا کون استقبال کر رہا ہے؟ (یہ الفاظ آپ نے تین دفعہ فرمائے)
(الترغیب والترہیب، 2 : 105)۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا
رسول اللہ (صل اللہ علیہ وآلہ وسلم )! کیا کوئی وحی اترنے والی ہے یا کسی
دشمن سے جنگ ہونے والی ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں
ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم
رمضان کا استقبال کر رہے ہو جس کی پہلی رات میں تمام اہل قبلہ کو معاف کر
دیا جاتا ہے۔ (الترغیب والترہیب، 2 : 105)۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کا استقبال ماہ شعبان
میں ہی روزوں کی کثرت کے ساتھ فرماتے تھے۔ جب رمضان المبارک شروع ہوتا تو
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولاتِ عبادت و ریاضت میں عام
دنوں کی نسبت کافی اضافہ ہو جاتا۔ ذیل میں ہم رمضان المبارک میں حضور صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چیدہ چیدہ معمولات بیان کرتے ہیں کیونکہ آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولاتِ رمضان پر عمل ہی ہماری کامیابی کا ذریعہ
ہے اور انہی معمولات کی روشنی میں ہی ہم اس مہینے کی برکتوں اور سعادتوں سے
بہرہ یاب ہوسکتے ہیں۔
رمضان المبارک کا چاند دیکھنے پر خصوصی دعا :
جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کا چاند دیکھتے تو
فرماتے : یہ چاند خیر و برکت کا ہے، یہ چاند خیر و برکت کا ہے، میں اس ذات
پر ایمان رکھتا ہوں جس نے تجھے پیدا فرمایا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، 10 : 400،
رقم : 9798)۔
سحری و افطاری کا معمول :
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بالالتزام روزے کا آغاز سحری کھانے سے فرمایا
کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو تلقین فرمائی کہ سحری ضرور
کھایا کرو خواہ وہ پانی کا ایک گھونٹ ہی کیوں نہ ہو۔ حضرت انس بن مالک رضی
اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سحری کھایا
کرو، کیونکہ سحری میں برکت ہے (صحیح البخاری، 1 : 257، کتاب الصوم، باب برک
السحور من غیر ایجاب، رقم حدیث : 1823)۔ ایک دوسری حدیث میں حضور صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے اہل کتاب اور مسلمانوں کے روزے کے درمیان فرق کی وجہ
بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں سحری کھانے
کا فرق ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب فضل السحور، رقم حدیث : 1096)۔ آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : سحری سراپا برکت ہے اسے ترک نہ
کیا کرو۔ (مسند احمد بن حنبل، 3 : 12)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ
بھی فرمایا : سحری کرنے والے پر اللہ کی رحمتیں ہوتی ہیں۔ (مسند احمد بن
حنبل، 3: 12)۔
رمضان المبارک میں پابندی کے ساتھ سحری و افطاری بے شمار فوائد اور فیوض و
برکات کی حامل ہے۔ روحانی فیوض و برکات کے علاوہ سحری دن میں روزے کی تقویت
کا باعث بنتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : دن کو
قیلولہ کرکے رات کی نماز کے لئے مدد حاصل کرو اور سحری کھا کر دن کے روزے
کی قوت حاصل کرو۔ (سنن ابن ماجہ : 123، کتاب الصیام، باب ما جا فی السحر،
رقم حدیث : 1693)۔
امام نووی رحم اللہ علیہ سحری میں برکت کے فوائد کے حوالے سے لکھتے ہیں :
سحری میں برکت کی وجوہات ظاہر ہیں جیسا کہ یہ روزے کو تقویت دیتی ہے اور
اسے مضبوط کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے روزے میں زیادہ کام کرنے کی رغبت پیدا
ہوتی ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کا تعلق رات کو جاگنے کے ساتھ ہے اور
یہ وقت ذکر اور دعا کا ہوتا ہے جس میں اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور
دعا اور استغفار کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحم اللہ
علیہ فرماتے ہیں کہ سحری کھانے کی برکت کئی طرح سے حاصل ہوتی ہے، مثلا
اتباع سنت، یہود و نصاری کی مخالفت، عبادت پر قوت حاصل کرنا، آمادگی عمل کی
زیادتی، بھوک کے باعث جو بدخلقی پیدا ہوتی ہے اسکی مدافعت، سحری میں کئی حق
داروں اور محتاجوں کو شریک کرلینا جو اس وقت میسر آ جاتے ہیں۔ تاہم سحری
کھانے کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ جانوروں کی طرح بے تحاشا کھایا جائے۔ علامہ
ابن دقیق العید رحم اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ روزے کا مقصد چونکہ پیٹ اور
شرم گاہ کی خواہشات کو توڑنا اور درجہ اعتدال میں لانا ہے لیکن اگر آدمی
اتنا کھا جائے کہ جس سے روزے کے مقاصد پورے نہ ہوں بلکہ ختم ہی ہو جائیں تو
یہ روزہ کی روح کے خلاف ہے۔ جبکہ عیش پسند لوگ ایسا کرتے ہیں کہ دن بھر کی
کسر شام کو اور رات بھر کی کسر سحری کو نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
افطاری میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر اوقات کھجوروں سے روزہ افطار
فرمایا کرتے تھے۔ اگر وہ میسر نہ ہوتیں تو پانی سے افطار فرما لیتے تھے۔
حضرت سلیمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کوئی روزہ افطار کرے تو اسے چاہئے کہ
کھجور سے کرے کیونکہ اس میں برکت ہے، اگر کھجور میسر نہ ہو تو پانی سے
کیونکہ پانی پاک ہوتا ہے۔ (جامع الترمذی، 1 : 83، کتاب الزکو، رقم حدیث :
658)۔ ہمارے ہاں اکثر و بیشتر افطاری کے وقت عجیب مضحکہ خیز صورت نظر آتی
ہے۔ ہماری مجلسی زندگی کا خاصہ ہے، جو الا ماشا اللہ افراتفری، بدنظمی اور
ذہنی انتشار کی آئینہ دار ہے۔ ادھر مغرب کی اذان بلند ہوئی، اس کے ساتھ ہی
ایک ہنگامہ شروع ہو گیا اور افطاری کے لئے بھاگم دوڑ مچ گئی۔ کوئی جلدی سے
کھانے کی طرف لپک رہا ہے اور کلی کر کے مسجد کی طرف بھاگ رہا ہے۔ مذن کے
اذان سے فارغ ہونے کے فورا بعد مغرب کی نماز کھڑی ہو گئی۔ اس افراتفری میں
افطاری کرنے والوں میں سے کسی کو دوسری اور کسی کو آخری رکعت میں جماعت
ملی۔ بدنظمی اور عدم توازن پر مبنی یہ صورت حال ہماری کج فہمی کی پیداوار
ہے، ہم اپنی لاعلمی کی بنا پر نماز مغرب میں غیر ضروری عجلت کو روا گردانتے
ہیں، حالانکہ نماز کا وقت اتنا تنگ بھی نہیں، جتنا ہم سمجھ بیٹھے ہیں۔
افطاری میں جلدی کرنا :
سحری کرنے میں تاخیر اور افطاری کرنے میں جلدی کرنا آنحضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کا زندگی بھر معمول رہا۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے
ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت کے لوگ
بھلائی پر رہیں گے جب تک وہ روزہ جلد افطار کرتے رہیں گے۔ (صحیح مسلم، 1 :
350، کتاب الصیام، باب فضل السحور، رقم حدیث : 1098۔ ) اسی طرح دوسری حدیث
میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کوئی
اذان سنے اور برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو اپنی ضرورت پوری کئے بغیر اسے نہ
رکھے۔ (سنن ابی داد، 1 : 328، کتاب الصوم، رقم حدیث : 2350)۔ حدیث قدسی ہے
کہ : اللہ تعالی فرماتا ہے : میرے بندوں میں مجھے پیارے وہ ہیں جو افطار
میں جلدی کریں۔ (جامع الترمذی، 1 : 88، کتاب الصوم، باب ما جا فی تعجیل
الافطار، رقم حدیث : 700)۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب تک اس امت کے لوگوں
میں یہ دونوں باتیں ( یعنی افطار میں جلدی اور سحری میں تاخیر کرنا) رہیں
گی تو اس وقت تک سنت کی پابندی کے باعث اور حدود شرع کی نگرانی کی وجہ سے
خیریت اور بھلائی پر قائم رہیں گے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے
کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے روزہ جلدی
افطار کرنے اور سحری میں تاخیر کا حکم دیا گیا ہے۔ (السنن الکبری، 4 :
238)۔ صحابہ رضی اللہ عنہ کا معمول بھی یہی تھا کہ وہ آفتاب غروب ہوتے ہی
افطاری سے فارغ ہو جاتے تھے۔
قیام اللیل :
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دوسرا مبارک معمول رمضان المبارک
کی راتوں میں تواتر و کثرت کے ساتھ قیام، نماز تراویح، تسبیح و تہلیل اور
ذکر الہی میں محویت سے عبارت ہے۔ نماز کی اجتماعی صورت جو ہمیں تراویح میں
دکھائی دیتی ہے، اسی معمول کا حصہ تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
رمضان المبارک میں قیام کرنے کی فضیلت کے باب میں ارشاد فرمایا : جس نے
ایمان و احتساب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اور راتوں کو قیام کیا وہ
گناہوں سے اس دن کی طرح پاک ہو جاتا ہے، جس دن وہ بطنِ مادر سے پیدا ہوتے
وقت بے گناہ تھا۔ (سنن نسائی، 1 : 308، کتاب الصیام، رقم حدیث : 2208)۔ اس
ارشاد گرامی کی رو سے روزے کے آداب کی بجا آوری اور اس میں عبادت اور ذکر
الہی کے لئے کھڑے رہنے سے انسان کے گناہ بارگاہ ایزدی کی طرف سے عفو و کرم
سے اس طرح مٹا دیئے جاتے ہیں، گویا وہ ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔ رات
کے قیام کے لئے جو محبوب عمل سنت نبوی سے ثابت ہے نماز تروایح ہے جس میں
قرآن مجید کی تلاوت کی جاتی ہے۔
تراویح کی شرعی حیثیت :
نماز تراویح کا سنت مکدہ ہونا نصِ حدیث سے ثابت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے نماز تراویح مسجد میں باجماعت اور انفرادی طور پر گھر میں بھی
ادا فرمائی۔ اس کا باجماعت ادا کرنا سنت کفایہ کے ذیل میں آتا سے۔ بصورت
دیگر موجودہ نماز تراویح خلفائے راشدین کی سنت بھی ہے، جس نے اجماعِ امت کا
درجہ اختیار کر لیا ہے۔ رمضان المبارک میں قیام کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ جتنا
قیام تنہا اس مہینے کیا جاتا ہے، وہ سال کے باقی گیارہ مہینوں میں نہیں
ہوتا۔ منشا ایزدی اس سے یہ ہے کہ بندہ رمضان المبارک میں راتوں کی زیادہ سے
زیادہ ساعتیں اس کے حضور عبادت اور ذکر و فکر میں گزارے اور اس کی رضا کا
سامان مہیا کرے، قیامِ رمضان کا تقاضا ذکر و استغفار کی کثرت اور ذوق و شوق
سے عبادت اور یاد الہی میں انہماک و استغراق ہے۔ رمضان المبارک کی رات کی
ہر ساعت اتنی فضیلت اور قدر و منزلت کی حامل ہے کہ ہمارے لئے اس کا اندازہ
کرنا محال ہے۔
معمول ختم قرآن :
رمضان و قرآن میں گہرا باہمی ربط و تعلق پایا جاتا ہے، جیسا کہ ارشاد ربانی
ہے : رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے۔ (البقر، 2 : 185)۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دورانِ رمضان المبارک ایک بار ختمِ قرآن
کا معمول تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو بھی اسی اعتدال پر
چلنے کی تعلیم و تلقین فرمائی ہے۔ اسلام سادہ اور فطرت سے ہم آہنگ دین ہے
اور تعلیماتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی اسی فطری سادگی کی
جھلک نظر آتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے دین
میں تنگی پیدا نہ کرو۔ اسی لئے ہر امتی کی سہولت کے پیش نظر آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم ماہ صیام میں ایک بار قرآن پاک ختم کرنے کے معمول پر زندگی
بھر کاربند رہے، حفاظ و قرا کرام قرآن کریم کو اتنی مقدار میں نہ پڑھیں کہ
ترتیل کے ساتھ تلاوت ممکن نہ رہے۔ قرات میں اعتدال اور میانہ روی اختیار
کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ نماز تراویح کی جماعت میں بچے اور بوڑھے بھی
شامل ہوتے ہیں۔ اس بنا پر قرات کو اتنا طول دینا ہرگز مناسب نہیں، جو ان کی
برداشت سے باہر ہو جائے۔ صرف اتنی مقدار پر کفایت کی جائے کہ ہر شخص
اطمینان و سکون کے ساتھ نماز تراویح کے دوران قرات کو سن سکے۔ حضور صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ کو رمضان المبارک میں ایک ختم
قرآن پر اِکتفا کرنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک صحابی حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کا
معمول ہر روز ایک قرآن ختم کرنے کا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
صحابی موصوف کو بلایا اور حسبِ دستور اس مہینے میں ایک قرآن ختم کرنے کی
ہدایت فرمائی۔ انہوں نے عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اس
سے زیادہ کی استطاعت ہے اور مجھے حافظ قرآن ہونے کے پیشِ نظر زیادہ کی
اجازت مرحمت فرمائی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے زیادہ اصرار
پر پہلے بیس دن، پھر دس دن اور آخر میں ہر سات دن کے بعد ایک قرآن ختم کرنے
کی اجازت ان الفاظ میں عطا فرما دی : سات دن میں ایک قرآن پڑھ لیا کرو۔
(مسند احمد بن حنبل، 2 : 162)۔
اس سے یہ نکتہ بڑی صراحت کے ساتھ واضح ہو جاتا ہے کہ ایک ایک دن میں قرآن
مجید کے شبینے کرانے کا رواج صریحا خلافِ سنت ہے۔ بہرحال اگر شبینہ کرانا
مقصود ہو تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق ختم قرآن کے لئے
زیادہ سے زیادہ سات سے دس دن یا کم از کم تین رات کی محفل شبینہ کا اہتمام
کیا جائے لیکن اس بات کا لحاظ رکھا جائے کہ تلاوت کردہ قرآنی الفاظ کو سننے
والے اس کی نشست و برخاست اور مطالب و معانی کے ساتھ سمجھ سکیں۔ رفتار اتنی
تیز نہ ہو کہ الفاظ گڈمڈ ہو جائیں اور سننے والے کے کچھ بھی پلے نہ پڑے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جبرئیل علیہ السلام کے دور ختم قرآن کا
معمول :
صحیحین کی متفق علیہ حدیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہر رمضان المبارک میں
رات کے وقت حضرت جبرئیل علیہ السلام قرآن پاک کا دور کرنے کے لئے آقائے
دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حجرہ مبارکہ میں تشریف لاتے جہاں باری
باری ان دونوں ہستیوں میں سے ایک کلام پاک کی تلاوت کرتی تو دوسری سماعت
فرماتی۔ یہ معمول ہر رمضان میں جاری رہا، یہاں تک کہ وصال مبارک سے پہلے
آخری رمضان آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سابقہ معمول کے برعکس دو
مرتبہ قرآن پاک کا دور جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ فرمایا۔ حفاظ و قرا کرام
کی کتنی خوش قسمتی ہے کہ وہ دوران تراویح ہر رمضان میں قرات اور سماعت کا
فریضہ ادا کر کے بیک وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جبرئیل علیہ
السلام کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔
معمولِ تہجد :
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز تہجد میں آٹھ رکعت ادا فرماتے، جس میں
وتر شامل کر کے کل گیارہ رکعتیں بن جاتیں۔ تہجد کا یہی مسنون طریقہ حضور
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
ارشاد فرمایا : تم پر رات کا قیام (نماز تہجد) لازمی ہے کیونکہ تم سے
صالحین کا یہ عمل رہا ہے۔ (سنن الترمذی، 2 : 194، کتاب الدعوات، رقم حدیث :
3549)۔ نماز تہجد تمام نفلی نمازوں میں افضلیت کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کی
فضیلت کا ذکر کرتے ہوئے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مومن
کی بزرگی قیام اللیل میں ہے اور عزت لوگوں سے استغنا میں ہے۔ (سنن الترمذی،
2 : 194، کتاب الدعوات، رقم حدیث : 3549)۔ نماز تہجد میں مداومت اختیار
کرنے سے بندہ اپنے رب کی نظر میں وہ مقام و مرتبہ حاصل کر لیتا ہے کہ اسے
عزت و وقار اور شانِ استغنا نصیب ہوتی ہے، جس کے صلے میں اسے دنیا میں کسی
کے آگے دستِ سوال دراز کرنے کی حاجت نہیں رہتی اور اس کی جبینِ نیاز آستانہ
خداوندی کے سوا اور کسی در پر نہیں جھکتی۔ بندہ جب اپنے رب سے تعلق آشنائی
محکم و پختہ تر کر لیتا ہے تو اس کی زندگی علامہ اقبال رحم اللہ علیہ کے اس
شعر کی عملی تفسیر بن جاتی ہے :
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
راتوں کی تنہائی میں خدا سے راز و نیاز اور اس کے آگے گڑگڑا کر خشوع و خضوع
کے ساتھ دعائیں مانگنے سے بندہ دنیا سے مستغنی ہو جاتا ہے اور کسی فرعون کو
خاطر میں نہیں لاتا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کے شب
زندہ دار اور نماز تہجد کی خاطر قیام اللیل کرنے والوں کی شان بیان کرتے
ہوئے ارشاد فرمایا : میری امت کے برگزیدہ افراد وہ ہیں جو قرآن کو (اپنے
سینوں میں) اٹھائے ہوئے ہیں اور شب بیداری کرنے والے ہیں۔ (شعب الایمان، 2
: 557، رقم حدیث : 2703)۔ امت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہ پاک
باز اور قدسی صفاتِ مردانِ باخدا ہیں، جن کے بارے میں اللہ رب العزت نے
قرآن مجید میں ارشاد فرمایا : بے شک رات کا اٹھنا نفس کو سختی سے روندتا ہے
اور (وقتِ دعا دل و زبان کی یکسانیت کے ساتھ) سیدھی بات نکلتی ہے۔ (المزمل،
73 : 6)۔ ان نفوس قدسیہ کی راتیں یوں بسر ہوتی ہیں کہ ان کے پہلو شب کی
خلوت میں بستروں سے الگ رہتے ہیں، جب دوسری خدائی خواب گراں کی لذتوں میں
غلطاں ہوتی ہے، وہ اپنے رب کو منانے کے لئے اس کے حضور پیکر عجز و نیاز بنے
گڑگڑا رہے ہوتے ہیں۔
رمضان المبارک کی راتوں میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول یہ تھا
کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز عشا و تراویح ادا کرنے کے بعد سونے کے
لئے تشریف لے جاتے، پھر رات کے کسی حصے میں نماز تہجد کے لئے بیدار ہوتے تو
بشمول وتر گیارہ رکعتیں نماز کی ادا فرماتے۔ نماز تہجد کے لئے نماز عشا کے
بعد کچھ سونا شرط اور مسنون ہے، یہی عمل افضل و مستحب ہے، جو سنتِ صحابہ
رضی اللہ عنہ اور سنتِ صالحین سلف سے ثابت ہے، بغیر نیند کے نماز تہجد کا
ادا کرنا مکروہ ہے۔ حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحم اللہ علیہ اپنی کتاب غنی
الطالبین میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز تہجد کے بارے میں حضرت
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کرتے ہیں : جو شخص آخر عشا کے بعد
دو رکعت اس طرح ادا کرے کہ ایک مرتبہ فاتحہ الکتاب اور بیس مرتبہ قل ھو
اللہ احد پڑھتا ہے اللہ تعالی اس کے لئے جنت میں دو محل بنائے گا، جن کا
جنت والے مشاہدہ کریں گے۔ (الدر المنثور، 6 : 415)۔
کثرتِ صدقات و خیرات :
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ وہ ہر وقت
صدقہ و خیرات کثرت کے ساتھ کیا کرتے تھے، کوئی سوالی ان کے در سے خالی نہیں
لوٹتا تھا۔ لیکن رمضان المبارک میں صدقہ و خیرات کی مقدار باقی مہینوں کی
نسبت اور زیادہ بڑھ جاتی۔ اس ماہ صدقہ و خیرات میں اتنی کثرت ہو جاتی کہ
ہوا کے تیز جھونکے بھی اس کا مقابلہ نہ کر سکتے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ
عنہ سے مروی ہے کہ جب جبرئیل امین (علیہ السلام) آجاتے تو آپ کی سخاوت کی
برکات کا مقابلہ تیز ہوا نہ کر پاتی۔ (صحیح البخاری، 1 : 255، کتاب الصوم،
رقم حدیث : 1803)۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام چونکہ اللہ تعالی کی طرف سے
پیغام محبت لیکر آتے تھے اور رمضان المبارک میں چونکہ عام دنوں کی نسبت
کثرت سے آتے تھے اس لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے آنے
کی خوشی میں صدقہ و خیرات بھی کثرت سے کرتے۔ اس حدیث پاک سے کئی فوائد اخذ
ہوتے ہیں : مثلا
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جود و سخا کا بیان،
رمضان المبارک میں کثرت سے صدقہ و خیرات کے پسندیدہ عمل ہونے کا بیان،
نیک بندوں کی ملاقات پر جود و سخا اور خیرات ہونے کا بیان،
نیک بندوں سے ملنے کے بعد ان کی ملاقات کی خوشی میں صدقہ و خیرات،
قران مجید کے شرح درس و تدریس کے لئے مدارس کے قیام کا جواز۔ (شرح نووی، 15
: 69)۔
معمول اِعتکاف :
رمضان المبارک میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑی باقاعدگی کے
ساتھ اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ زیادہ تر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری
عشرے کا اعتکاف فرماتے، کبھی کبھار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے اور
دوسرے عشرے میں بھی اعتکاف فرمایا۔ لیکن جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کومطلع کر دیا گیا کہ شب قدر رمضان کے آخری عشرے میں ہے۔ اس کے
بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ آخری عشرے میں ہی
اعتکاف فرمایا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپ کے معمولِ اعتکاف کا ذکر
کرتے ہوئے فرماتی ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان
المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم للہ تعالی سے جا ملے۔ (صحیح البخاری، 1 : 271، کتاب
الاعتکاف، رقم حدیث : 1922) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک
مرتبہ آخری عشرہ کے علاوہ رمضان المبارک کے پہلے اور دوسرے عشرے میں بھی
اعتکاف فرمایا۔ حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان المبارک کا پہلا عشرہ اعتکاف
فرمایا، پھرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درمیانی عشرہ اعتکاف فرمایا اور
یہ اعتکاف ایسے ترکی خیمہ میں تھا جس کے دروازے پر بطور پردہ چٹائی تھی جس
کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مبارک ہاتھ سے پکڑ کر خیمہ کی طرف ہٹایا
اور پھر اپنا سر اقدس نکال کر صحابہ کرام کو اپنے قریب آنے کے لئے فرمایا :
جب وہ قریب آگئے تو فرمایا میں نے لیل القدرکی تلاش میں پہلاعشرہ اعتکاف
کیا، پھر میں نے درمیانی عشرہ اعتکاف کیا، پھر مجھے بتایا گیا کہ وہ آخری
عشرہ میں ہے۔ تم میں سے جو اعتکاف جاری رکھنا چاہتا ہے وہ اسے جاری رکھے۔
(صحیح مسلم، 1 : 370، کتاب الصیام، رقم حدیث : 1167) وصال مبارک کے سال آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیس دن اعتکاف فرمایا : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر سال رمضان
المبارک میں دس دن تک اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ لیکن جس سال آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے وصال فرمایا اس سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیس دن
تک معتکف رہے۔ (صحیح البخاری، 1 : 272، کتاب اعتکاف، رقم حدیث : 1939)۔
اعتکاف میں انسان دنیاوی معاملات سے علیحدگی اختیار کرکے خدا کی رضا کی
تلاش میں گوشہ تنہائی اختیار کرتا ہے۔ صوفیا کرام اور اولیا کرام حضور نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی میں
چلہ کشی کے عمل کو اختیار کرتے ہیں تاکہ وہ اس عمل کے ذریعے خدا کو راضی
کرسکیں اور تزکیہ نفس کے مقام کو حاصل کرسکیں۔
رمضان المبارک میں ہمارا معمول۔ ۔ ۔ ایک لمحہ فکریہ :
رمضان المبارک کی ہر ہر ساعت ہمارے لئے سعادتوں کی پیامبر اور خدائے
ذوالجلال کی بے پایاں رحمتوں کی نوید بن کر آتی ہے، لیکن کیا ہم ان سے
مستفیض ہو کر اپنے لئے اخروی نجات اور کامیابی کا توشہ و سامان فراہم کرتے
ہیں؟ کیا ہم اس ماہ مقدس کے شب و روز کے سعید لمحوں کو غنیمت جان کر اپنی
عاقبت سنوارنے کا اہتمام کرتے ہیں؟ ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانک کر سوچنا
چاہئے کہ ہم اس ماہ مبارک کا حق کہاں تک ادا کر پاتے ہیں۔
ہمیں اپنا یہ معمول بنانا چاہئے کہ جب ہم سحری کے لئے بیدار ہوں تو باوضو
ہو کر کچھ وقت نماز تہجد کی ادائیگی کے لئے نکالیں اور پھر پورا ماہ اس کی
پابندی کے لئے کوشاں رہیں۔ کیا بعید ہے کہ اس مشق سے ہماری نماز تہجد کی
عادت مداومت اختیار کر جائے اور ہماری بقیہ زندگی میں تہجد کا معمول اس قدر
راسخ ہو جائے کہ پھر اسے ترک کرنے کا تصور بھی نہ ہو سکے۔ رمضان المبارک کو
یہ شرف اور فضیلت حاصل ہے کہ نماز تراویح اور نماز تہجد کے درمیان سونے کا
وقفہ بھی شامل عبادت تصور کر لیا جاتا ہے۔ گویا اس مقدس اور مبارک مہینے کی
ہر ہر ساعت فیوض و برکات کی حامل ہو کر نامہ اعمال میں بطور عبادت لکھ دی
جاتی ہے۔ |