4-اعتکاف کے فضائل و مسائل
اعتکاف رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے، آپ صلی اللہ
تعالی علیہ وآلہ وسلم اعتکاف کا خوب اہتمام فرماتے تھے، آپ کا یہ معمول تھا
کہ ہر رمضان کے عشرہ آخر (یعنی آخری دس دن) کا اعتکاف فرمایا کرتے اور اسی
سنت کریمہ کو زندہ رکھتے ہوئے امہات المومنین بھی اعتکاف کرتی رہیں۔ چنانچہ
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہما فرماتی ہیں کہ میرے
سرتاج صاحب معراج صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کے آخری
عشرہ (یعنی دس دن) کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے آپ
صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو وفات (ظاہری) عطا فرمائی، پھر آپ صلی
اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے بعد آپ کی ازواج مطہرات اعکاف کرتی رہیں۔
بخاری و مسلم
(1) رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ایک دن کے اعتکاف کے بارے
میں فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالی کی خوشنودی کیلئے ایک دن کا اعتکاف کرے گا
اللہ تعالی اس کے جہنم کے درمیان تین خندق حائل کر دے گا جن کی مسافت آسمان
و زمین کے فاصلے سے بھی زیادہ ہوگی۔ (بحوالہ کنزالعمال)
(2) رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، جو شخص خالص
نیت سے بغیر ریا اور بلا خواہش شہرت ایک دن اعتکاف بجالائے گا اس کو ہزار
راتوں کی شب بیداری کا ثواب ملے گا اور اس کے اور دوزخ کے درمیان کا فاصلہ
پان سو برس کی راہ ہوگا۔ (بحوالہ تذکر الواعظین)
(3) رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، جو شخص مسجد میں
مغرب سے لیکر عشا ک معتکف رہے نماز اور قرآن کی تلاوت کے سوا کلام نہ کرے
تو اللہ تعالی پر لازم ہے کہ اپنے کرم سے اس معتکف کیلئے جنت میں محل تیار
کرے۔ کشف الغمہ
(4) رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، جو شخص خالصا لوجہ
اللہ رمضان شریف میں ایک دن اور ایک رات اعتکاف کرے تو اس کو تین سو شہیدوں
کا ثواب ملے گا۔ ( تذکر الواعظین
سبحان اللہ ! چند گھنٹوں کے اعتکاف کی اس قدر فضیلت ہے تو جو رمضان شریف
میں پورے اخر عشرہ کا اعتکاف کرتے ہیں ان کی فضیلت کا کیا کہنا ہے !
(5) حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی
اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، اعتکاف کرنے والا گناہوں سے محفوظ ہو
جاتا ہے اور اس کی تمام نیکیاں اسی طرح لکھی جاتی ہیں جیسے وہ ان نیکیوں کو
خود کرتا رہا ہو۔ مشکو شریف
(6) ایک مقام پر سرکار مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، جس
نے رمضان المبارک میں دس دن کا اعتکاف کرلیا تو ایسا ہے جیسے دو حج اور دو
عمرے کئے۔ (بیہقی شریف)
سبحان اللہ ! احادیث بالا کی روشنی میں ثابت ہوگیا کہ اعتکاف کی فضیلت اور
اس کی اہمیت کا مقام کتنا بلند و بالا ہے۔ اور اللہ رب العزت کس قدر اعتکاف
کرنے والوں پر اپنا فضل فرماتا ہے اس لئے ہم سب مسلمان بھائیوں کو چاہئیے
کہ اگر کوئی معقول اور خاص مجبوری نہ ہو تو ماہِ رمضان کے آخری عشرہ کے
اعتکاف کی سعادت ضرور حاصل کریں اگر ہر سال نہ ہو سکے تو کم از کم زندگی
میں ایک ہی بار صحیح مگر ضرور کرنا چاہئیے۔
اعتکاف کے چند ضروری مسائل
اعتکاف کی تعریف :۔ اعتکاف کی نیت سے اللہ کے واسطے مسجد میں ٹھہرنے کا نام
اعتکاف ہے۔
اعتکاف کی تین قسمیں ہیں:۔
(1) اعتکاف واجب (2) اعتکاف سنت (3) اعتکاف نقل یا مستحب
اعتکاف واجب :۔ یہ نذر کا اعتکاف ہے، جیسے کسی نے اعتکاف کی نذر مانی تو اب
جنے دن کا کہا ہے اتنے دن کا اعتکاف کرنا واجب ہو گیا۔ اعتکاف واجب کیلئے
روزہ شرط ہے بغیر روزہ کے صحیح نہیں ہوگا۔ قانون شریعت
اعتکاف سنت:۔ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف سنت الموکدہ علی
الکفایہ ہے۔ یعنی پورے شہر میں کسی ایک نے کرلیا تو سب کی طرف سے ادا
ہوگیا، اور اگر کسی ایک نے بھی نہ کیا تو سبھی مجرم ہوئے۔ بہار شریعت، بیان
اعتکاف
رمضان کے اعتکاف میں یہ ضروری ہے کہ رمضان المبارک کی بیسویں تاریخ کو غروب
آفتاب سے پہلے پہلے مسجد کے اندر بہ نیت اعتکاف چلا جائے، اور انتیس کے
چاند کے بعد یا تیس کے غروب آفتاب کے بعد مسجد سے باہر نکلے۔ اگر غروب
آفتاب کے بعد مسجد میں داخل ہوئے تو اعتکاف کی سنت موکدہ ادا نہ ہوئی بلکہ
سورج ڈوبنے سے پہلے پہلے مسجد میں تو داخل ہونا ضروری ہے۔ (بہار شریعت)
اعتکاف کی نیت :۔ رمضان شریف کے اعتکاف کی نیت اس طرح کریں میں اللہ عزوجل
کی رضا کیلئے رمضان المبارک کے آخری عشرہ کے سنت اعتکاف کی نیت کرتا ہوں۔
(فیضان سنت)
اعتکاف نفل :۔ اس کیلئے نہ روزہ شرط ہے نہ کوئی وقت کی قید ہے، جب بھی مسجد
میں داخل ہوں اعتکاف کی نیت کر لیں۔ جب تک مسجد میں رہیں گے مفت بغیر محنت
کے ثواب ملتا رہے گا، جب مسجد سے باہر نکلیں گے اعتکاف ختم ہو جائے گا۔
اعتکاف کی نیت کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے، نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں
اگر دل ہی میں آپ نے ارادہ کرلیا کہ میں سنت اعتکاف کی نیت کرتا ہوں، یہی
کافی ہے، زبان سے نیت الفاظ ادا کرنا بہتر ہے، اپنی مادری زبان میں بھی نیت
ہو سکتی ہے، اگر عربی میں نیت نہ ہو تو مگر عربی میں بہتر و مناسب ہے۔
اعتکاف کی نیت عربی میں یہ ہے:۔ نویت سنت الاعتکاف ترجمہ :۔ میں نے سنت
اعتکاف کی نیت کی۔
مسئلہ :۔ مسجد کے اندر کھانے پینے اور سونے کی اجازت نہیں ہوتی ہے، مگر
اعتکاف کی نیت کرنے کے بعد اب ضمنا کھانے پینے اور سونے کی بھی اجازت ہو
جاتی ہے، لہذا معتکف راتوں دن مسجد ہی میں رہے وہیں کھائے، پئیے، اور سوئے
اور اگر ان کاموں کیلئے مسجد سے باہر ہوگا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ عام کتب
فقہ
مسئلہ :۔ اعتکاف کیلئے تمام مساجد سے افضل مسجد حرام ہے، پھر مسجد نبوی
شریف، پھر مسجد اقصی (بیت المقدس) پھر ایسی جامع مسجد جس میں پنچ وقتہ
باجماعت نماز ہوتی ہو، اگر جامع مسجد میں جماعت نہ ہوتی ہو تو پھر اپنے
محلہ کی مسجد میں اعتکاف کرنا افضل ہے۔ بحوالہ ردالمحتار
مسئلہ :۔ اعتکاف کا اہم ترین رکن یہ ہے کہ آپ اعتکاف کے دوران مسجد کی حدود
ہی میں رہیں، اور حوائج
ضروریہ کے سوا ایک لمحے کیلئے بھی مسجد کی حدود سے باہر نہ نکلیں، کیونکہ
اگر معتکف ایک لمحہ کیلئے بھی شرعی اجازت کے بغیر حدود مسجد سے باہر چلا
جائے تو اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔
مسجد کے حدود کا تعین
عموما ہمارے اسلامی بھائی حدود مسجد کا مطلب ہی نہیں سمجھتے اور اس بنا پر
ان کا اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے اس لئے جب کسی اسلامی بھائی کا کسی مسجد میں
اعتکاف کرنے کا ارادہ ہو تو اسے سب سے پہلے یہ کام کرنا چاہئیے کہ مسجد کے
بانی یا متولی سے مسجد کے احاطے کا ٹھیک ٹھیک حدود معلوم کرلیں، اور خوب
اچھی طرح حدود مسجد کا مطلب سمجھ لیں۔
دیکھئے ! عام بول چال میں تو مسجد کے پورے احاطے کو مسجد ہی کہتے ہیں لیکن
شرعی اعتبار سے پورا احاطہ مسجد ہونا ضروری نہیں بلکہ شرعا صرف وہ حصہ مسجد
ہوتا ہے جسے بانی مسجد نے مسجد قرار دیکر وقف کیاہو۔ استنجا کی جگہ، نماز
جنازہ پڑھنے کی جگہ، امام و موذن اور خادم صاحبان کے حجرے پرشرعا مسجد کے
احکام جاری نہیں ہوتے۔ بلکہ یہ خارج مسجد ہوتے ہیں، وضو خانہ بھی مسجد کا
حصہ نہیں ہوتا اس لئے معتکف کیلئے ضروری ہے کہ بغیر شرعی ضرورت کے وہاں نہ
جائیں۔
اسی طرح مسجد میں جوتے اتارنے کی جگہ، مسجد میں داخل ہونے کے زینے، بعض
مسجدوں کے صحن میں حوض بنا ہوتا ہے وہ حوض، اور بعض مسجدوں میں نماز جنازہ
پڑھنے کی جگہ بنی ہوتی ہے وہ جگہ یہ سب کے سب خارج مسجد کہلاتے ہیں۔
مسئلہ :۔ بعض مساجد میں اصل مسجد کے بالکل ساتھ ہی بچوں کو قرآن پاک پڑھانے
کے لئے مدرسہ بناتا جاتا ہے اس جگہ کو بھی جب تک بانی مسجد نے مسجد قرار نہ
دیا ہو اس وقت تک معتکف کیلئے اس میں جانا جائز نہیں۔
مسئلہ:۔ دوران اعتکاف مسجد کے اندر ضرورتا دنیوی بات کرنے کی اجازت ہے،
لیکن حتی الامکان دھیمی آواز کے ساتھ اور احترام مسجد کو ملحوظ رکھتے ہوئے
ہی بات کرنی چاہئیے۔
مسئلہ :۔ صحن مسجد اور اس کی چھت دونوں مسجد کا ہی حصہ ہے، اس لئے چھت پر
جانا اور صحن میں بیٹھنا جائز ہے، مگر شرط یہ ہے کہ چھت پر جانے کا راستہ
مسجد کے اندر سے ہو اور اگر باہر سے ہے تو جائز نہیں۔ اگر جائے گا تو
اعتکاف فاسد ہو جائے گا۔ فیضان سنت بحوالہ فتاوی رضویہ
نوٹ :۔ فتاوی عالمگیری میں ہے کہ مسجد کی چھت پر بلا ضرورت چڑھنا مکروہ ہے
کہ یہ بے ادبی ہے۔
مسئلہ:۔ آپ نے رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف کیا اور کسی وجہ سے
اگر ٹوٹ گیا تو دس دن کی قضا کرنا ضروری نہیں، آپ کے ذمہ صرف ایک دن ہی کی
قضا ہے جس دن اعتکاف ٹوٹا ہے۔ یہ حکم ہے سنت موکدہ اعتکاف کا۔
مسئلہ :۔ اگر نفل اعتکاف توڑ دے تو اس کی قضا نہیں اور اگر منت کا اعتکاف
توڑا تو اگر کسی مقررہ مہینہ کی منت تھی تو باقی دنوں کی قضا کرے ورنہ اگر
علی الاتصال واجب ہوا تھا تو سرے سے پھر سے اعتکاف کرے اور اگر علی الاتصال
واجب نہ تھا تو باقی کا اعتکاف کرے۔ قانون شریعت |