الحمد للہ ماہِ رمضان ہر سال
جلوہ فگن ہوتا ہے اور امت مسلمہ اس ماہ کی سعادتوں اور برکتوں سے بقدرِ
توفیق فیضیاب بھی ہوتی ہے مگر بہت کم لوگ ہیں جو اس ماہ کو ایمان و احتساب
کے تقاضوں کے ساتھ گزارتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سالہا سال روزہ رکھنے کے
باوجود بھی ہماری زندگیوں میں وہ تبدیلی پیدا نہیں ہوتی جس کا تقاضا یہ ماہ
مبارک کرتا ہے۔ جس کی وجہ یا تو ہماری غفلت ہے یا اس ماہِ مبارک کے اعمال
سے ناواقفیت، جبکہ سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر
تمہارا روزہ تمہیں جھوٹ اور دوسری برائیوں سے باز نہیں رکھتا تو اللہ کو
تمہارے بھوکے اور پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ماہِ رمضان در اصل ایک
روحانی تربیت کا مہینہ ہے جس میں انسان ان تمام خصائلِ حمیدہ سے آراستہ
ہوجاتا ہے جو شجر تقویٰ کے برگ و بار کی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ روزہ کی
فرضیت کا بنیادی مقصد ہی شجر تقویٰ کی آبیاری ہے۔ قرآن عظیم کا ارشاد ہے
”یٰٓاَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ
عَلَی الَّذِینَ مِن قَبلِکُم لَعَلَّکُم تَتَّقُونَ“ (سورہ بقرہ: پ۲، آیت
183)
روزہ امتِ محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰة و السلام سے پہلے بھی تمام انبیائے
کرام کی امتوں پر فرض تھا اس لئے کہ روحانی اور اخلاقی تربیت کے لئے روزہ
بہت ضروری ہے۔ وہ مذاہب جو رہبانیت یعنی ترکِ دنیا اور ترکِ لذات و نوازع
ذکریہ کی تعلیم دیتے ہیں وہ روحانی ارتقا کے لئے پوری زندگی مجرد رہنے اور
دنیاوی علائق سے بے نیاز ہو جانے کا حکم دیتے ہیں لیکن رہبانیت ایک طرح سے
’فرار عن الحیات‘ ہے جب کہ اسلام زندگی کا مذہب ہے اورپورے عالمِ انسانی کا
مذہب ہے۔ اگر تمام انسان رہبانیت اختیار کر لیں تو قافلہ حیات آگے نہ بڑھ
سکے گا اس لئے اسلام میں رہبانیت کی گنجائش نہیں۔ فرمایا گیا ”لَا
رَہبَانِیَةَ فِی الاِسلَامِ“ البتہ ارتقائے روحانی کے لئے ماہِ رمضان عطا
فرمایا گیا تاکہ امت مسلمہ اس ماہ مبارک میں روزہ رکھ کر زندگی بھر رہبانیت
کے ذریعہ روحانی منازل طے کرنے والوں سے زیادہ بلند روحانی مقام حاصل کر لے۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن عظیم نے لیلة القدر کو ہزار مہینے کی راتوں سے بہتر
قرار دیا ہے۔ سرکارِ دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کا فرمانِ گرامی ہے
کہ اس ماہ کا اول رحمت، وسط مغفرت اور آخری حصہ جہنم سے آزادی ہے۔ رحمت،
مغفرت اور جہنم سے آزادی کی ترتیب میں ایک فطری ربط پایا جاتا ہے۔اللہ
تبارک و تعالیٰ رحمن و رحیم ہے وہ ساری کائنات کی پرورش اس لئے کرتا ہے کہ
یہ اس کی صفت رحمن و رحیم کا تقاضا ہے۔ وہ اپنے بندوں کے گناہ اپنی رحمت بے
پایاں سے معاف فرمائے گا۔ سرکارِ دوعالم علیہ الصلوٰة و السلام نے فرمایا
کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میری رحمت کے ۰۰۱حصے ہیں، میں
نے اس کا ایک حصہ اپنی مخلوق کو عطا فرمایا ہے۔ جب سے وہ دوسروں کے ساتھ
رحم و کرم کا معاملہ کرتی ہے حتیّٰ کہ جانور اپنے بچوں کی پرورش کرتے ہیں۔
اور ننانوے (۹۹) حصے میں نے قیامت کے دن اپنے بندوں کے لئے مخصوص فرما رکھا
ہے۔(مفہوماً)اس سے معلوم ہوا کہ مغفرت بغیر رحمت کے ممکن نہیں۔ چنانچہ
رمضان کے پہلے عشرے میں بندے کو چاہئے کہ رحمت طلب کرے تاکہ دوسرے عشرے میں
مغفرت کا حقدار بن جائے اور دوسرے عشرے میں طلب مغفرت کے بعد گناہوں سے پاک
و صاف ہو جائے اورتیسرے عشرے میں جہنم سے آزاد ہو کر جنت میں جانے کا مستحق
ہو جائے۔ اصل میں جنت میں انسان گناہوں کی گندگی کی وجہ سے داخل نہیں ہو
سکے گا اس لئے دخولِ جنت کے لئے مغفرت ضروری ہے۔ہر سال ماہِ رمضان میں
لاکھوں افراد کے گناہ معاف ہوتے ہیں اور انہیں مستحق جنت قرار دیا جاتا ہے۔
اس لئے سرکارِ دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ”مَن
صَامَ رَمَضَانَ اِیمَاناً وَّ اِحتِسَاباً غُفِرَ لَہ مَا تَقَدَّمَ مِن
ذَنبِہ“
(بخاری شریف: 2551) |