دور حاضر میں ایک ایسی و باچل
پڑی ہے کہ سال بھر کے 365ایام میں سے چند یوم کسی نہ کسی عنوان پر منائے
جاتے ہیں مغربی تہذیب نے یہی چیز مسلمانوں میں بھی رائج کر دی ہے۔پہلے پہل
صرف اتنا ہو تا کہ کسی کی یوم پیدائش کے دن ہر سالگرہ منائی جاتی تھی ۔یاکسی
کی یوم وفات کو سال پورا ہو نے پر کو ئی دعائید تقریب ”برس“کے نام پر منعقد
کی جاتی تھی ۔اس کے علاو ہ مسلمانون میں عیدین کے علاوہ ان منانے کا رواج
نہیں ہو تا تھا ۔مغربی ثقافت نے پورے منصوبہ بندی کے تحت اپنی معیشیت کو
ترقی دینے کے لیے مختلف قسم کی بیماریوں کے دن الگ الگ منانے کا رواج ،ان
ہی میں سے پوری دنیا میں ہر سال 11جولائی کو ”عالمی یوم آبادی “منایا جاتا
ہے۔مغربی دنیا کی طرح اسلامی ملکوں میں بھی اس روز آ بادی میں کمی کر نے کے
حوالے سے بڑے اہتمام سے مہتم چلائی جاتی ہے۔پاکستان میں بھی اس روز اخبارات
خصوصی ایڈیشن شائع کر تے ہیں۔ریڈیو و ٹیلی و یژن ہر کئی ماردن پرو گرام کیے
جاتے ہیں ۔ملک کا صدر و زیر اعظم اور وفاقی و زیر برائے محکمہ بہبود آ بادی
کی طرف سے خصوص پیغام نشر کیے جاتے ہیں۔گزشتہ دو دن پہلے اس عالمی یوم آ
بادی کے حوالہ سے حکومت پنجاب نے بھی خصوص سیپلیمنٹ تمام تر اخبارات میں
شائع کر وایا ہے۔اس خصوصی اشاعت سے بھی اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ
انسانوں کی آ بادی بہت بڑھتی جا رہی ہے۔لہذا آ بادی کو کنٹرول کر نے کا
انتظام کر نا بہت ضروری ہے۔
یہ بات حقیقت ہے کہ عالمی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا کی
آ بادی ساڑھے سا تھ ارب تک جا پہنچی ہے۔جن میں سے مسلمانوں کی آ بادی
تقریباً ایک ارب 65کروڑ ہے۔اس وقت پاکستان کی آ بادی 18کروڑ کے قریب آ بادی
کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔پاکستان کی آبادی نصف سے زائد
تقریباً! 96ملین پنجاب میں تقسیم ہے۔تازہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان
میں 15سے29سال کے نوجوان کل آ بادی کا 56فیصد حصہ ہیں ۔
حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس نسل کو تعلیم و تر بیت اور ترقی کے مواقع
فراہم کر ے تاکہ یہ ملک کو معاشی اعتبار سے ایک خو شخال ریاست بنانے میں
کردار ادا کر سکیں ۔شہید یوں کو بنیادی سہو لیات فراہم کر نا ریاست کی ذمہ
داری ہے لہذا حکومت وقت غربت کے خاتمہ ،صحت کی بہتر سہو لیات دینے اور شرح
خواندگی میں اضافہ کے لیے مضبو ط بنیادوں پر ٹھوس اقدامات کر ے لیکن اصل
بات جس کی طرف میں اپنے قارئین کی تو جہ مبذول کر انا چاہتا ہو ں وہ یہ ہے
کہ ہم آ بادی میں کمی کس بنیاد پر کر رہے ہیں....؟اگر ہماری حکومتوں کی یہ
سو چ ہے کہ ہم زیادہ آ بادی کو سنبھال نہیں سکتے ۔ان کی ضروریات پو ری نہیں
کر سکتے ۔ان کی تعلیم صحت اور روزگا ر اور رہائش کے لیے وسائل فراہم نہیں
کر سکتے ۔لہذا خاندانی منصوبہ بندی اور ضبط تولید کا سلسلہ شروع کیا جائے۔
اس سے تو صاف ظاہر ہو تا ہے کہ ہماری حکومتیں ناکام ہیں ۔حکومت کو چاہتے کہ
وہ آبادی کے اضافہ کے تناسب سے ان کی ضروریات کا انتظام کر ے ۔اپنے معاشی
منصوبوں کو ترقی دے۔عوام کو زیادہ سے زیادہ روز گار کے مواقع فر اہم کر
ے،تو ملکی معیشت ہر کو ئی برا اثر نہیں پڑے گا ۔زر مبادلہ کے ذخائر بڑھاتے
۔صرف یہ ہو کہ آبادی بڑھے گی تو ان کی رزق اور رہائش ،تعلیم وصحت کاانتظام
نہ ہو سکے گا،لہذا” نسل کشی “کا منصوبہ جاری رکھا جائے ۔تو یہ سوچ غیر شرعی
اور انسانیت کے قتل عام کی عکاسی کر تی ہے
قرآن مجیدکی سورة کا الاسراءآیت نمبر ....میں اللہ تعالیٰ کا واضح ارشاد ہے
کہ ”اور تم اپنی اولا دوں کو بھوک و افلاس کے خوف سے قتل کرو ۔ہم ہی تم کو
بھی اور ان کو بھی رزق دینے والے ہیں۔اس طرح سورة الاعراف کی آیت نمبر
....میں خالق کا ئنات ارشاد ہے“۔
”اسلامی تعلیمات کے مطالع سے معلوم ہو تا ہے کہ ہر پیدا ہو نے والا بچہ
اپنا رزق ساتھ لے کر آ تا ہے۔اور کو ئی بھی انسان اس وقت تک اجل کو لبیک
نہیں کہتا جب تک کہ وہ اپنا رزق دنیا میں ہی مکمل نہ کر لے“۔
آج ہماری حکومتیں فحاشی ،عر یانی کی فروغ کے ساتھ ساتھ ایک نعرہ یہ بھی لگا
رہی ہیں کہ ”چھو ٹا خاندان زندگی آ سان “حالا نکہ معروضی حا لات میں یہ
نعرہ بالکل بے فائدہ اور نامعقول ہے۔دنیا میں تو رزق ہر ایک نے اپنا اپنا
ہی کھانا ہے۔اور چھو ٹا خاندان ہو نے سے نہ تو بندہ معاشی تگ و دو سے جان
چھڑا سکتا ہے اور نہ ہی آسان زندگی گذار سکتا ہے۔زندگی آ سان گزارنے کے لیے
تو دین دار خاندان کی ضرورت ہے۔اگر خاندان چھوٹا ہو ،مثلا ًایک بچہ اور ایک
بچی یا دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہوں اور ان دونوں کی علم و تر بیت نہ ہو نے
کی وجہ سے ماں باپ کے لیے عذاب بن جائیں تو زندگی کہاں آسان رہے گی....؟
جب والدین بو ڑھے ہو جائیں گے تو انہیں سنبھالنے والا بھی کو ئی نہ ہو گا
۔بیٹا لند ن کے کسی ہو ٹل میں ملا زم ہو گا اور بیٹی کی شادی کر دی جائے گی
۔بوڑھے والدین ایک گلاس پانی پینے کو بھی تر سیں گے۔تو صرف چھوٹا خاندان
رکھنے سے زندگی آ سان نہیں بلکہ اجیرن بن جائے گی۔آج ہمارے ملک میں سالا نہ
کروڑ وں روپے کا بجٹ خاندانی منصوبہ بندی اور ضبط تو لید کے سلسلہ میں خرچ
کیا جاتا ہے۔مختلف قسم کی ادویات مارکیٹ میں فروخت کی جارہی ہیں کہ لوگ آ
بادی میں مزید اضافہ نہ کر یں ایک رپورٹ کے مطابق صرف پنجاب میں ”اسقاط
حمل“کی ادویات کا استعمال 33.2 فیصد کی شرح میں ہے۔
حالانکہ حکومت آ بادی کے کنٹرول کے لیے جتنا بجٹ خرچ کر تی ہے اس کو بچا کر
تعلیم و صحت اور روزگا ر فراہم کر نے پر خرچ کر ے تو اس مسئلہ کا آسانی سے
حل ہو جائے گا ۔اس کے علاوہ اس بات میں کوئی مضاتق نہیں کہ ایک آ دمی اپنے
معاشی حالا ت کے تناسب سے اپنے خاندان حجم درست رکھے ۔اور تو لیدی افزائش
میں مناسب وقف رکھے ۔لیکن یہ سو چ اور نظریہ کی اولاد کا رزق بندہ خود
ہے۔یہ غلط ہے۔سب انسان اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں وہی سب کو رزق عطاءکر نے
والا ہے بند ے تو صرف و سیلہ ہیں۔لیکن زندگی کی آ سانی اور خو شخالی دین
داری کے ساتھ ہے اس لیے ”دین دار خاندان ....زندگی آ سان“کا نعرہ عام کیا
جائے اور نئی نسل کو دین دار نبھانے کے لیے بہتر مواقع فراہم کیے جائیں ۔جب
اولا د دین دار ہوگی تو وہ والدین کے لیے سُکھ چین اور راحت کا سامن ہو
گی۔و رنہ بے دین اولاد اپنے والدین کے لیے دنیا میں ہی عذاب بن جاتی ہے۔اور
آخرت میں بھی اس کا حساب والدین سے لیا جائے گا۔ |