مکرمی، تسلیمات
الحمرا کا مئی 2012 کا شمارہ موصول ہوا۔گزشتہ شمارے کی رسید نہ دے
سکاتھا۔خاکسار کے مکتوب کو پروفیسر جمیل آذر نے خلوص و پسندیدگی کی سند
بخشی، ان کا شکر گزار ہوں۔ تازہ شمارے میں پروفیسر صاحب کا مضمون
’غالب۔پہلا علامتی شاعر‘ خاصے کی چیز رہی۔امید ہے کہ پروفیسر صاحب’ غالب
بطور امیجسٹ ‘ سے بھی جلد نوازیں گے۔ڈاکٹر خورشید رضوی کا مضمون ’حکیم نیر
واسطی‘ ایک نابغہ روزگار شخصیت کی یادوں کو سموئے ہوئے ہے۔ حال ہی میں
ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی نے اپنے خاکوں کے مجموعے ’کہاں سے لاؤں انہیں‘ میں
حکیم صاحب کا عمدہ خاکہ تحریر کیا ہے۔مظہر شیرانی صاحب نے حکیم نیر واسطی
کو نباض المک بجا طور پر کہا ہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی کا مضمون پڑھ کر ذہن و
قلب میں ’جہان دانش‘ کی یاد تازہ ہوگئی۔ احسان دانش کو حکیم صاحب کے پاس
پہلی مرتبہ اختر شیرانی لے کر گئے تھے۔ حکیم صاحب کا لاہور میں نام تھا،
مقام تھا، بڑے بڑے رئیس ان کے یہاں آتے تھے۔ جہان دانش میں ایک واقعہ تو
ایسا پڑھا تھا کہ جس نے خون رلا دیا، اور جو آج تک ذہن پر نقش ہے احسان
دانش بیان کرتے ہیں کہ: " ایک دن حکیم صاحب کے مطب میں ایک مفلوک الحال اور
نادار قسم کا انسان آیا اور نہایت عاجزی سے کہنے لگا حکیم صاحب! میری لڑکی
بیمار ہے آپ اللہ کے لیے اسے چل کر دیکھ لیں۔ اس فقرے کے ادا کرتے کرتے اس
کی پتلیاں آنسوؤں میں ڈوب گئیں۔ وہ بیکو کمپنی کا ایک مزدور تھا جو حکیم
صاحب کے مطب سے چار فرلانگ کے فاصلے پر رہتا تھا۔حکیم نیر واسطی نے ایک نظر
اس کی طرف دیکھا اور خاموشی سے اٹھ کر اس کے ساتھ ہولیے۔ میں (احسان دانش)
حیران تھا کہ یہ تو بڑے بڑے امرا کے یہاں اس طرح نہیں جاتے اور پھر اس وقت
جب مطب مریضوں سے بھرا ہوا ہے۔حکیم صاحب اس کے کوارٹر میں گئے، میں ان کے
ساتھ تھا، دیکھا کہ ایک کمزور مگر جوان لڑکی ایک جھلنگے کے چوکھٹے میں ڈوبی
ہوئی لیٹی ہے اور ٹانگوں پر پرانے اخباری کاغذ ڈھکے ہوئے ہیں۔حکیم صاحب نے
پوچھا یہ اس کی ٹانگوں پر اخبار کیوں ڈالے ہوئے ہیں، پھر خفگی سے کہا ہٹاؤ
انہیں۔لڑکی کے باپ نے جھکی ہوئی آنکھوں سے جواب دیا حکیم جی! بے پردگی کے
خیال سے کاغذ ڈھک دیے ہیں، بچی کا پاجامہ کئی جگہ سے پھٹا ہوا ہے۔
حکیم صاحب تو یہ سن کر سناٹے میں آگئے، کھڑے کھڑے آنسوؤں سے گلا بھر گیا
اور ہونٹ کانپنے لگے۔ بمشکل ضبط کیا اور نبض دیکھ کر کچھ اور سوالات کیے جو
لڑکی کی بیماری سے متعلق تھے۔ اس کے فورا" بعد لڑکی کے باپ کو ساتھ لے کر
مطب گئے اور اپنے دوا ساز سے جلد دوا تیار کرنے کے لیے تاکید کرکے اپنے
زنان خانے میں گئے اور دوا کے تیار ہونے تک اپنی بیگم کے دو نئے جوڑے، ایک
چادر اور بیس روپے دیتے ہوئے مزدور سے کہا دیکھو یہ کپڑے اس بچی کو پہناؤ،
چادر اڑھاؤ اور اس معمولی سی رقم سے کھانے پینے کا سامان لا کر گھر میں
رکھو، بلاناغہ دوا خانے سے آکر دوا لے جانا، اور بھی کسی چیز کی ضرورت ہو
تو بتانا۔
پھر نہ جانے کب تک دوا جاتی رہی۔" (جہان دانش)
لیجیے ڈاکٹر خورشید صاحب! یہ واقعہ لکھتے لکھتے آنکھوں کی خوب صفائی ہوگئی۔
|
|
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے جناب مشفق خواجہ کو یاد کیا ہے۔ عرض کرتا چلوں
کہ حیدرآباد (دکن) یونیورسٹی میں ایک صاحب مشفق خواجہ پر پی ایچ ڈی کررہے
ہیں، انہوںنے خاکسار سے رابطہ کیا تھا۔ان کی بہتیری مدد تو لاہور میں مقیم
’کتاب گھر ‘کے حسن علی کرہی چکے تھے، مشفق خواجہ کی تصاویر و دیگر مواد کی
فراہمی کی ذمہ داری راقم کے ذمے آئی ہے۔
الحمراءمیں قسط وار شائع ہونے والی آپ بیتیاں سہج سہج آگے بڑھ رہی ہیں،
قارئین کو انتظار رہتا ہے۔محمودہ احمد بشیر صاحبہ اپنے شوہر کی یاداشتوںکو
سمیٹ رہی ہیں ، یہ مستحسن کام ہے، یوں تو ’ دل بھٹکے گا‘ اور ’جو ملے تھے
راستے میں‘ کے مطالعے کے بعد احمد بشیر صاحب کی زندگی ایک کھلی کتاب کی
مانند قاری کے سامنے آجاتی ہے لیکن ان کی اہلیہ کے لکھے واقعات کی اہمیت
اپنی جگہ ہے۔
الحمراءمیں خطوط کا گوشہ بھی کچھ ا لگ ہی مزہ دیتا ہے۔ مضمون لکھنے کے
بجائے مکتوب لکھ بھیجئے، کچھ خاص فرق تو نہیں۔ گھر بیٹھے ادبی دنیا کی
معلومات آپ کے دروازے پر پہنچ جاتی ہیں۔ اس مرتبہ محفل احباب کے سرخیل جناب
ڈاکٹر انور سدید کے خطوط سے آغاز ہوا ہے۔ آپ لکھتے ہیں:” میں نے پچھلے دنوں
آپ سے حیدرآباد دکن کے ڈاکٹر ”جاوید مقدر“کا ذکر کیا تھا جنہوں نے راجہ
مہدی علی خاں پر مقالہ لکھ کر عثمانیہ یونیورسٹی دکن سے پی ایچ ڈی کی ڈگری
لی ہے۔ یہ مقالہ چھپ گیا ہے لیکن پاکستان میں کسی کے پاس نہیں پہنچا۔“
ڈاکٹر صاحب! ادب کا یہ طالب علم اس لحاظ سے خود کو خوش قسمت تصور کرتا ہے
کہ ماہ اپریل میں مذکورہ مقالہ ایک کرم فرما کے توسط سے اس کی دسترس میں
آگیا تھا۔ بلاشبہ یہ راجہ مہدی علی خاں صاحب پر اپنی نوعیت کا پہلا کام ہوا
ہے۔ مقالہ نگار کا درست نام ” ڈاکٹر عبدالقدیر مقدر“ ہے۔اب اس کی کچھ تفصیل
عرض کرتا ہوں۔اپریل کی 15 تاریخ کو میرے ایک کرم فرما کی رہائش گاہ پر
موجود ’خاتون‘ و حضرات نے نظام آباد دکن سے آئے ہوئے بزرگ صحافی جناب فرید
تبسم خاں کو خوش آمدید کہا۔ فرید صاحب روزنامہ مارننگ ٹائمز سے وابستہ
ہیں۔شرکاءکی موجودگی ایک ادبی نشست میں تبدیل ہوجائے گی، اس بات کا علم
مجھے پہلے سے نہ تھا۔ دکنی شیروانی میں ملبوس حیدرآبادی نستعلیق لب و لہجے
کے مالک فرید تبسم خاں اپنے ہمراہ ایک قیمتی کتاب لیتے آئے تھے۔ قیمتی اس
لیے کہ یہ بمبئی فلمی صنعت سے وابستہ گیت کار و شاعر راجہ مہدی علی خاں پر
پی ایچ ڈی کا پہلا تحقیقی مقالہ تھا ۔ راجہ صاحب پر اس سے قبل تحقیق نہیں
کی گئی تھی اور مصنف نے ہندوستان و پاکستان میں اس بات کی تصدیق کے بعد ہی
اس موضوع پر اپنے کام کا آغاز کیا۔ پاکستان میں ان کا رابطہ ڈاکٹر جمیل
جالبی سے تھا۔ ’راجہ مہدی علی خاں کی ادبی خدمات‘ کے عنوان سے زیر تحت لکھی
یہ کتاب سن 2006 میں دکن سے شائع ہوئی تھی۔میں سمجھتا تھا کہ شاید یہ کام
حال ہی کیا گیا ہوگا۔ ڈاکٹر مقدر نے اس کے ساتھ ہی راجہ صاحب کے خطوط کو
بھی یکجا کرکے کتابی شکل میں شائع کردیا ہے۔
متذکرہ مقالہ 540 صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں راجہ صاحب کی نادر تصاویر
بھی شامل کی گئی ہیں۔راجہ مہدی علی خاں کا غیر مطبوعہ کلام بھی اس ضخیم
کتاب میں شامل ہے۔ اللہ بخشے راجہ صاحب کو، کیا باغ و بہار انسان تھے ۔پژمردہ
لوگوں کو پل میں جی اٹھنے پر مجبور کر د ینے والے۔ افسوس کہ ان کی عمر اور
ایک عاقبت نااندیش رشتہ دار نے ان سے وفا نہ کی۔راجہ صاحب کو ذیا بطیس کا
مرض لاحق ہوگیا تھا،اس رشتہ دار نے انہیں چونا ملا ہوا پانی پینے کا مشورہ
دیا، وہ اس پر باقاعدگی سے عمل کرنے لگے تھے۔اس کے نتیجے میں ان کے گردے
خراب ہوگئے ، ان دنوں گردوں کا عصری علاج نہ تھا ، سو 23 ستمبر 1915 کو
وزیر آباد میں پیدا ہونے والا ہنس مکھ انسان، افسانہ نگاررام لعل اور کنہیا
لال کپور کا بے تکلف دوست،27 جولائی 1966 کو محض اکیاون برس کی عمر میں
انتقال کرگیا۔ یہاں مجھے ممتاز مفتی یاد آرہے ہیں جن کو کسی معمولی بیماری
کی شکایت ہونے پر ایسے ہی کسی عقل مند نے چونا ملا پانی پینے کا مشورہ دیا
تھا۔ممتاز مفتی پرانی دیواریں تاکتے تھے،ان سے چونا اتار ، پانی میں گھول،
غٹ غٹ پی جاتے تھے، دن میں کئی کئی گلاس ٹھکانے لگا دیا کرتے تھے۔نتیجہ یہ
ہوا کہ وہ تکلیف تو ویسے کی ویسی ہی رہی، ساتھ کوئی اور بیماری چمٹ گئی۔
یوں تو راجہ صاحب نے بمبئی کی فلم نگری کے لیے ایک سے ایک گیت لکھے لیکن جب
جب بھی راجہ صاحب کا لکھا،لتا منگیشکر کا گایا ، مدن موہن کا کمپوز کیا ہوا
” آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے“ سنتا ہوں، بے اختیار بیس برس کی
عمر میں لاہور میں ’پھول ‘ اور ’تہذیب نسواں‘ کو ایڈٹ کرنے والے ،انسان
دوست، راجہ مہدی علی خاں کی یاد آجاتی ہے۔ راقم 2007 میں جناب اے حمید سے
ملاقات کی غرض سے لاہور گیا تھا اور اس درویش صفت انسان کی ہم نشینی میں
کافی وقت گزارا اور جہاں ان سے اور کئی موضوعات پر بات ہوئی، وہاں راجہ
مہدی علی خان کا احوال بھی ان کی زبانی سنا۔گرچہ یہ ہم بہت عرصہ قبل ان کے
ایک مضمون میں پڑھ چکے تھے۔یاد کیجیے اے حمید صاحب کا بیان کردہ دہلی کے
تیس ہزاری کوارٹرز کا دلچسپ احوال جہاں کرشن چندر، راجہ مہدی علی خاں،اوپند
ناتھ اشک، منٹو، ن م راشد جیسی شخصیات مقیم تھیں۔
بمبئے ٹاکیز کے تحت بننے والی فلم ’آٹھ دن‘ میں منٹو ،میرا جی اور اشک کے
ساتھ ساتھ راجہ صاحب نے بھی ایک مختصر سا کردار ادا کیا تھا۔
خاکسار الحمراءکے زیر تبصر ہ شمارے کے لیے مکتوب نہ بھیج سکا ،اور نہ ہی
ایک ماہ سے ڈاکٹر انور سدید کی ”تنہائی جگمگا اٹھنے “ کا سبب بنا۔ وجہ
ٹھہری جناب ابن صفی پر اپنی کتاب کی تیاری ۔اس کام میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے
’غرق ‘ہوں۔یہ صفی صاحب پر 1972 سے 2012 کے درمیانی عرصے میں لکھے گئے اہم
مضامین کے انتخاب پر مشتمل ہے۔ مضمون نگاروں میں پروفیسر مجنوں گورکھپوری،
ڈاکٹر ابو الخیر کشفی، سرشار صدیقی، رئیس امروہوری، دہلی کے ادیب و مدرس
ڈاکٹر خالد جاوید، نصر اللہ خاں، الہ آباد کے پروفیسر مجاور حسین رضوی ،پروفیسر
انوار الحق،شکیل عادل زادہ، زاہدہ حنا، حسن نثار،عارف وقار و دیگر مشاہیر
ادب شامل ہیں۔ کتاب کے حواشی کے لیے تو جان لڑا دی ہے۔پاک و ہند کے ادب
دوستوں کی جانب سے برابر کمک پہنچتی رہی۔ یہ صفی صاحب کے ایک ادنی پرستار ،جو
ان پر ایک محقق کی حیثیت سے جانا جاتا ہے، کی جانب سے اس شخص کو ایک خراج
تحسین و عقیدت ہے جس کی تحریریوں نے آج کے بہتیرے اد یبوں اور نقادوں کو
اردو ادب کی جانب مائل کیا تھا۔
پروفیسر عبدالکریم نے سعادت حسن منٹو کو بروقت یاد کیا۔حال ہی میں منٹو صدی
زور و شور سے منائی گئی ہے۔ اس سلسلے میں آپ کو ایک اہم اطلاع دیتا
چلوں۔امریکہ میں مقیم بزرگ ادیب جناب ابو الحسن نغمی نے سعادت حسن منٹو پر
ایک کتاب لکھی ہے۔یہ نغمی صاحب کی منٹو کے آخری تین برسوں سے جڑی یادوں پر
مشتمل ہے۔ کتاب کا مسودہ خاکسار کے پاس ہے اور عنقریب یہ کتاب کراچی سے
شائع ہوگی۔
محمد ابراہیم خلیل صوابی کی تجویز کہ الحمراءانٹرنیٹ پر ہو اور اس کا ایک
عدد ای میل بنوایا جائے، نہایت مناسب ہے۔میںاس کی پر زور تائید کروں گا۔ اب
تو کتابوں پر بھی مصنفین کے ای میل کو درج کیے جانے کا رواج عام ہوچلا
ہے۔چند روز قبل جسٹس حاذق الخیری کی خودنوشت’جاگتے لمحے‘ شائع ہوئی۔کراچی
میں اس کی تقریب رونمائی منعقد کی گئی۔ہم ایسے طالب علموں کی آسانی کی خاطر
جسٹس صاحب نے اپنا ای میل کتاب میں درج کیا ہے۔خودنوشت دلچسپ ہے،چھوٹے
چھوٹے واقعات کو اس طور بیان کرتے چلے گئے ہیں کہ آغاز سے اختتام تک، قاری
ہلنے نہ پائے۔ کچھ کتاب کی دلچسپی کی وجہ سے اور کچھ جسٹس صاحب کے خوف
سے۔ایک جگہ جسٹس صاحب نے لکھا ہے کہ فلاں کی حویلی کے باہر ہاتھی ” جھوما“
کرتے تھے ۔ہمیں آسانی ہوگئی، جسٹس صاحب کو جھٹ ایک ای میل روانہ کیا اور ،گرچہ
کہ وہ اب ریٹائر ہوچکے ہیں، جان کی امان مانگ کر عرض کیا کہ حضور! ہاتھی
جھولا کرتے تھے، یہ ترکیب تو ہم نے پڑھی تھی ،حویلی کے باہر کہیں وہ ہاتھی
آپ کے کسی عدالتی فیصلے کو سن کر تو نہیں جھومتے تھے ؟ خدا نہ کرے کہ وہ اس
گستاخانہ تبصرے کا ازخود نوٹس لے لیں۔جناب اختر تنویر سے درخواست ہے کہ اس
سلسلے میں بھی راہنمائی فرمائیں۔’استفادہ حاصل کرنا‘ کی ترکیب کے سلسلے میں
ڈاکٹر اختر تنویر کی ’کمک‘ نے ڈھارس بندھائی، اب مجھے کس بات کی فکر، دھڑلے
سے استعمال کروں گا۔ویسے کچھ عرصے قبل اجمل کمال صاحب نے بھی اسی سلسلے میں
خاکسار کی تشفی کردی تھی۔ اجمل صاحب سے فیس بک پر مستقل رابطہ رہتا ہے اور
رہا سوال ملاقات کا تو اس کے لیے صدرکراچی کے علاقے ریگل چوک میںواقع پرانی
کتابوں کا اتوا ر بازار کافی ہے جہاں ہر اتوا ر کی صبح راقم کا ’پھیرا ‘
ایک طے شدہ معمول ہے ، اجمل صاحب وہاں اکثر علی الصبح ٹہلتے ٹہلتے آ نکلتے
ہیں۔ڈاکٹر اختر تنویر سے عرض ہے کہ ’چاکیواڑہ میں وصال‘ علی گڑھ پہنچی اور
پروفیسر اطہر صدیقی نے پڑھ ڈالی، مگر اس کو کیا کیجیے کہ انہوں نے یہ ناول
زولوجی کے ایک پروفیسر کی آنکھ سے پڑھا اور اس کو کچھ خاص نہ پایا۔ جبکہ
خالد صاحب کی تحریریں پڑھتے وقت ادھر اپنا وہی حال ہوتا ہے جو بانو قدسیہ
صاحبہ کا ہوتا تھا کہ بقول اشفاق احمد مرحوم، وہ پڑھتی جاتی تھیں اور ہنستی
جاتی تھیں۔گزشتہ برس میں طارق روڈ قبرستان میں خالد صاحب کی قبر ڈھونڈتا
تھا جو بلاآخر ایک گھنٹہ کی محنت کے بعد اس شان سے ملی کہ پھولوں کی ایک
شاخ میں چھپے کتبے پر جلی حروف میں لکھا دیکھا: ” چاکیواڑہ کا درویش“۔گزشتہ
دنوں محمد خالد اختر کے ناول ’ چاکیواڑہ میں وصال‘ کا عنوان بہت یاد
آیا۔کئی معصوم بے گناہ لوگوں کا لیاری آپریشن میں چاکیواڑہ میں ’وصال ‘ہی
تو ہوا۔
الحمراءکے اپریل کے شمارے سے سلسلہ شروع ہوا جناب مستنصر تارڑ کے ذکر کا
اورمئی تک اس کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ ڈاکٹر انور محمود خالد کے خط میں
بارے جناب تارڑ تبصرہ بھی نظر سے گزرا۔ نیلم احمد بشیر نے تو اپنے مضمون
میں خود کو ’پدی‘ ڈکلئیر کر ہی دیا(نیلم صاحبہ افسانہ ایک منجھی ہوئی
افسانہ نگار ہیں، اگر وہ خود کو پدی کہنے پر مصر ہیں تو پھر اگلی سطور میں
احقرجو لکھنے کی جسارت کررہا ہے اسے ’پدی کا شوربہ‘ ہی سمجھا جائے تو بہتر)۔۔
یونس جاوید نے جوابی مضمون سے نوازا۔غرض یہ کہ جناب تارڑ کا تذکرہ چہار سو
ہے۔چلتے چلتے یہ خاکسار بھی بقدر ظرف اس میں اپنا حصہ ڈال دے۔۔۔ فروری 2012
میں ایک انگریزی روزنامے میں مستنصر حسین تارڑ کا انٹرویو شائع ہوا۔ ماسکو
یونیورسٹی کی Professor Galina Dushenko کے لیے پاکستان یا تو فیض کی شاعری
ہے یا پھر مستنصر کا ناول۔ان کے الفاظ میں:
For us, Pakistan is Faiz’s poetry and Tarrar’s novels”
فیض کی شاعری تک تو بات سمجھ میں آتی ہے، البتہ خاتون پروفیسر کے بیان کے
دوسرے حصے کو پڑھ کر ماسکو اور اسلام آباد کے خراب تعلقات کا سبب اب ذرا
واضح طور پر سمجھ میں آیا ہے۔ گزشتہ 35 برس میں تو ایک وقت ایسا بھی آیا
تھا جب یہ یہ حالات خطرناک حد تک خراب ہوگئے تھے، خبریں گرم تھیں کہ روس کی
جانب سے حملہ اب ہوا کہ تب ہوا۔یہ بات بھی قابل تشویش ہے کہ خاتون پروفیسر
کے لیے پاکستان، تارڑ صاحب کا ناول ہی ہے، اس کے سوا کچھ نہیں، خاتون نے
ناول کا نام نہیں لکھا۔ یہاں ایک مطلب تو سیدھا سیدھا یہ نکلتا ہے کہ شاید
خاتون کا اشارہ یہاں تارڑ صاحب کے ناول راکھ کے عنوان کی جانب ہے کہ وطن
عزیز میں گزشتہ چند برسوں سے جو کچھ ہورہا ہے اس کے پیش نظر خیال "راکھ"
اور ’خس و خاشاک‘ ہی کی جانب جاتا ہے۔ ماسکو یونیورسٹی میں 35 برس سے تارڑ
صاحب کی چند تحریریں نصاب میں شامل ہیں۔ یونیورسٹی کی سطح پر تحقیقی کام
عموما سارا سال ہی ہوتے رہتے ہیں اور ان کے عوض پی ایچ ڈی کی سند بھی جاری
کی جاتی ہے، ہمیں امید ہے کہ یہ تارڑ صاحب کی تحریروں پر بھی پی ایچ ڈی کی
جائے گی یا ہوسکتا ہے کہ اب تک کی جاچکی ہو۔
خامہ بگوش نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ:
"مہذب اور ترقی یافتہ ممالک میں جن کاموں پر سزا ہوسکتی ہے، انہی کاموں پر
بعض پسماندہ ایشیائی ممالک میں پی ایچ ڈی کی ڈگری دی جاتی ہے۔ تارڑ صاحب کے
معاملے میں مندرجہ بالا بیان کو الٹ کر (مہذب ممالک سے ایشیائی ممالک کے
الٹ پھیر کے ساتھ) پڑھا جائے تو مفہوم واضح ہوتا نظر آتا ہے۔
الحمراءکی محفل احباب کے کرم فرما سوچ رہے ہوں گے اب تک ہم نے تارڑ صاحب کی
تحریروں کے بارے میں اپنی ذاتی رائے کیوں محفوظ کر رکھی ہے سو اس بارے عرض
ہے کہ ہم اوائل عمری ہی سے ان کے بڑے مداح رہے ہیں، نکلے تری تلاش میں خانہ
بدوش،، اندلس میں اجنبی،جپسی ، پیار کا پہلا شہر ، ہنزہ داستان، کے ٹو
کہانی تو ہم نے گھول کر پیے ہوئے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ان کے بعد کے
سفرناموں اور ناولوں نے گھلنے سے انکار کردیا، لیکن ساتھ ہی ساتھ یہاں ہمیں
اپنے محبوب مصنف جناب ابن صفی کا تحریر کردہ ایک واقعہ یاد آرہا ہے جسے درج
کرنے میں ہمیں کوئی قباحت نظر نہیں آتی:
ایک بار کا ذکر ہے کہ انگریزی کے مشہور مصنف ایڈگر ویلس نے اپنے مداحوں کے
ایک مجمع میں بڑے خلوص سے کہا۔ " پچاس ناول لکھنے کے بعد ہی مجھے ناول
لکھنے کا سلیقہ ہوا ہے۔
چھوٹتے ہی ایک صاحبزادی نے فرمایا " کاش ایسا نہ ہوا ہوتا! اب تو آپ بور
کرنے لگے ہیں۔ شروع شروع کی کتابوں کا کیا کہنا۔ کاش آپ ماضی میں چھلانگ
لگا سکیں۔"
واللہ اعلم بالصواب
خیر اندیش
راشد اشرف
کراچی سے |