رمضان المبارک ۔۔۔دنیاوی و اخروی کامیا بی کا مہینہ

حضرت عبادہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور پاک ﷺ نے رمضان المبارک کے قریب ارشاد فرمایا ! کہ رمضان کا مہینہ آگیا ہے جو بڑی برکت والا ہے حق تعالیٰ شانہ اس میں تمہاری طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اپنی رحمت خاصہ نازل فرماتے ہیں ،خطاﺅں کہ معاف کرتے ہیں، دعاکو قبول کرتے ہیں،تمہارے تنافس (باہمی مقابلہ ) کو دیکھتے ہیں اور ملائکہ پر فخر کرتے ہیں پس اللہ کو اپنی نیکی دکھاﺅں ۔بدنصیب ہے وہ شخص جو اس مہینہ میں بھی اللہ کی رحمت سے محروم رہ جائے (طبرانی )

ابو ہریرہ ؓ نے حضور پاک ﷺ سے نقل کیا کہ میری امت کو رمضان شریف کے بارے میں پانچ چیزیں مخصوص طور پر دی گئی ہیں جو پہلی امتوں کو نہیں ملی
(1) یہ کہ انکے منہ کی بدبو اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے ۔
(2)یہ کہ ان کےلئے دریا کی مچھلیاں تک دعا کرتی ہیں اور افطار کے وقت تم کرتی رہتی ہیں ۔
(3)جنت ہر روز ان کےلئے آراستہ کی جاتی ہے پھر حق تعالیٰ شانہ فرماتے ہیں کہ قریب ہے کہ میرے نیک بندے دنیا کی مشقتیں اپنے اوپر سے پھینک کر تیری طرف آئیں ۔
(4)اسمیں سرکش شیاطین قید کردئیے جاتے ہیں کہ وہ رمضان میں ان برائیوں کی طرف نہیں پہنچ سکتے جن کی طرف غیر رمضان میں پہنچ سکتے ہیں۔
(5)رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کےلئے مغفرت کی جاتی ہے صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ یہ شب مغفرت شب قدر ہے ؟؟ فرمایا نہیں بلکہ دستور ےہ کہ کہ مزدور کو کام ختم ہونے کے وقت مزدوری دیدی جاتی ہے ۔(رواہ احمد و ابزاروالبیہقی)

ہمارا روزہ کس طرح کا ہونا چاہیے اس بارے میں امام غزالی رحمة اللہ نے روزہ کے اسرارو رموز بیان کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ روزہ کی بنیادی طور پر تین قسمیں ہیں 1۔عمومی روزہ 2۔ خصوصی روزہ 3۔نہایت خصوصی روزہ۔ عمومی روزہ کا مطلب واضح ہے کہ ازروئے فقہ جن اعما ل کے ارتکاب سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ان سے بچا جائے ۔ یہ عام لوگوں کا روزہ ہوتا ہے ۔خصوصی روزہ کا مطلب یہ ہے کہ مفسدات روزہ سے بچنے کے ساتھ ساتھ اعضا ءو جوارع کو بھی ہر طرح کے گناہوں سے محفوظ رکھا جائے یہ صلحا ءکا روزہ ہوتا ہے ۔نہایت خصوصی روزہ کا مفہوم یہ ہے کہ ظاہری و باطنی مفسدات سے بچنے کے علاوہ دل کو غیر اللہ کے ساتھ ہونے تک سے محفوظ رکھا جائے ۔ یہ درجہ حضرات انبیا ءصدیقین اور مقربین بارگاہ کو حاصل ہوتا ہے ۔(احیاءالعلوم) بیان کردہ ان تین قسم کے روزوں میں سے کون سا روزہ ہمیں رکھ کر کون سا درجہ حاصل کرنا چائیے یہ ہم پرہی منحصر ہے۔

چونکہ رمضان کا مہینہ دوسرے تمام مہینوں سے الگ ہے اس لئے اس مہینے میں ہمارا روز مرہ کا معمول بھی الگ ہونا چائیے تاکہ ہم اللہ کا قرب حاصل کر کے اللہ کے پسندیدہ کاموں کو احسن طریقے سے سر انجام دے سکیں اسی حوالے سے حضرت مولانا مفتی عبدالستار صاحب رحمة اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک میں خصوصیت کے ساتھ کرنے والے کاموں کی تفصیل کچھ ایسے بیان کی :1۔ پورے ذوق و شوق سے روزے اور تراویح کا اہتمام کیا جائے ۔2۔مسجد میں تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز با جماعت کی پابندی کا عزم کیا جائے کہ کوئی نماز فوت ہوگی نہ جماعت چھوٹے گی 3۔کلمہ طیبہ کے ذکر ، درودشریف اور توبہ استغفار کی کثرت کی جائے ۔4۔تلاوت قرآن پاک کا خصوصی اہتمام کیا جائے ،5۔روزے کا ایک مقصد حصول تقویٰ ہے اگر گناہوں کو نہیں چھوڑا تو روزہ رکھنا گوےا بے جان ہے ۔6۔نظر کو گناہوں سے بچانا ہے ، زبان کی حفاظت کرنی ہے ، ہاتھ پاﺅں حتیٰ کہ دل و دماغ کے گناہوں سے بھی روزے کو پاک اور محفوظ رکھنا ہے جیسے کھانے پینے سے روزہ رکھ چھوڑا ہے کہ نہ کھائیں گے نہ پئیں گے اسی طرح گناہوں سے بھی روزہ رکھا جائے کہ روزہ رکھ لیا ہے گناہ نہیں کریں گے ۔7۔مغفرت و رحمت خدا وندی کے حصول میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرنی چائیے کہ اس ماہ مبارک میں مولا کریم اپنے بندوں کی باہمی دوڑ دیکھنا چاہتے ہیں ۔8۔بازار اور گھریلو کام کاج سے جس قدر جلدی ہو سکے فراغت حاصل کر کے زیادہ سے زیادہ اوقات مسجد کے لئے فارغ کرلینے چاہئیں دس دن کے اعتکاف کے علاوہ جتنا وقت بھی مل سکے مسجد میں گزاریں ۔9۔ماہ مبارک اہل اللہ کی صحبت اور خدمت میں گزارنے کا اہتمام کرنا بہت مفید ہے جیسے کہ ہمارے اکابر کا معمول تھا ۔10۔ اپنے ملازمین کے لئے کام میں سہولت کرنا بھی مطلوب ہے ۔11۔ اپنے پڑوسیوں نیز غرباءو مساکین کی خدمت اور دلداری بھی اس ماہ مبارک کا خصوصی عمل ہے ۔حدیث پاک ﷺ میں ہے کہ ماہ مبارک میں حضور پاک ﷺ کا جودو سخا بہت بڑھ جاتا تھا آپ چلتی ہوا سے بھی زیادہ سخی ہوجاتے تھے۔12۔اسلام کی سر بلندی علماءو مدارس دینیہ کی حفاظت اور مظلوم مسلمانوں کی حماےت و نصرت کی خوب خوب دعائیں کی جائیں کیونکہ رمضان المبارک کے فضائل اور اسکے حقوق و اعمال کی طرف متوجہ کرنے کے لئے ہمیشہ اولیاءکرام اور مشائخ عظام نے اپنے نورانی مواعظ سے لوگوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کی کوشش کی ہے ۔

حضور پاک ﷺ نے فرمایا کہ روزہ جہنم سے بچنے کے لئے ڈھال ہے ۔ ہاں اگر کسی نے ڈھال کو پھاڑ ڈالاتو جہنم سے نہیں بچے گا۔صحابہ کرام ؓ نے فرمایا یا رسول اللہ ﷺ یہ ڈھال پھٹتی کیسے ہیں ؟؟ آپ ﷺ نے فرمایا جھوٹ یا غیبت سے۔ایک روایت میں ہے کہ حضور پاک ﷺ کے زمانے میں دو عورتوں نے روزہ رکھا تو دن کے آخر میں ان کو سخت پیاس اور بھوک لگنے لگی اور اتنی حالت خراب ہوئی کہ جان نکلنے کا خوف ہوگیا انہوں نے حضور پاک ﷺ سے افطار کی اجازت طلب کرنے کے لئے آدمی بھیجا تو آنحضرت ﷺ نے ان کے پاس ایک پیالہ بھیجا کہ وہ دونوں اس میں قے کریں پس ایک نے قے کی تو آدھا خون اور آدھا تازہ گوشت نکلا اسی طرح دوسری نے قے کی ۔ حتیٰ کہ پیالہ بھر گیا لوگوں کو تعجب ہوا اس پر حضور پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ان دونوں عورتوں نے حلال چیز سے روزہ رکھا اور حرام پر افطار کیا یہ دونوں بیٹھی لوگوں کی غیبت کرتی رہیں ، یہ (خون اور گوشت )اسی غیبت کا مظہر ہے ۔(احیا ءالعلوم)

ذرا غور فرمائیں کیا ہمار ا روزہ واقعی ان خرابیو ں سے محفوظ رہتا ہے ؟؟ حقیقت ےہ کہ روزہ رکھ کر بظاہر ہمارے معمولات اور مشاغل اور عادات میں کوئی تغیر نہیں آتا ہے سوچنے کا مقام ہے کہ کیا ہم ان کوتاہیوں کے باوجود اپنے آپ کو رحمت خداوندی کا مستحق قرار دے سکتے ہیں ؟؟حکومت یا سسٹم کی خرابی کا شکوہ کرنے کے بجائے ہم اس ماہ رمضان کو مفید بنا کر اللہ کو راضی کرلیں تو یہ ہمارے لئے بہت ہی بڑی کامیابی ہو گی اور کامیابی بھی وہ جس کا نعم البدل کوئی نہیں ۔
Nusrat Aziz
About the Author: Nusrat Aziz Read More Articles by Nusrat Aziz: 100 Articles with 86028 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.