درود شریف کی فضیلت
امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عُمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے
فرمایا: ''دعاء آسمان و زمین کے درمیان مُعلََّق رَہتی ہے اس میں سے کچھ
بھی اوپر نہیں چڑھتا (یعنی دعاء قَبول نہیں ہوتی) جب تک تُو اپنے نبی پر
دُرود نہ بھیجے۔
(جامع ترمذی ،ج٢،ص ٢٨،حدیث٤٨٦)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !
صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمَّد
سنت کی فضیلت
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ رَمَضانُ الْمبارَک میں جہاں ہمیںبے شمار
نعمتیں مُیسَّر آتی ہیں انہی میں تراویح کی سنّت بھی شامِل ہے اور سنّت کی
عظمت کے کیا کہنے ! اللہ کے پیارے رسول، رسولِ مقبول، سیِّدہ آمِنہ کے گلشن
کے مہکتے پھول عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم و رضی
اللہ تعالیٰ عنہا کا فرمانِ جنّت نشان ہے،''جس نے میری سنّت سےمَحَبَّتکی
اُس نے مجھ سےمَحَبَّتکی اور جس نے مجھ سے مَحَبَّت کی وہ جنّت میں میرے
ساتھ ہو گا۔''
(جامع ترمذی، ج٤،ص٣١٠،حدیث٢٦٨٧)
رمضان میں 61 بار ختم قرآن
تراویح سنّتِ مُؤَکَّدَہ ہے اور اس میں کم از کم ایک بار ختمِ قراٰن بھی
سنّتِ مُؤَکَّدَہ ۔ ہمارے امامِ اعظم سیِّدُناامام ابو حنیفہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ رَمَضانُ الْمبارَک میں اِکسٹھ بار قراٰنِ کر یم خَتْم کیا
کرتے۔تیس دن میں ،تیس رات میں اور ایک تراویح میں نیز آپ رضی اللہ تعالیٰ
عنہ نے پَینتالیس برس عشاء کے وُضُو سے نمازِ فجر ادافرمائی ۔ (بہارِ شریعت،
حصہ ٤ ،ص ٣٧)
ایک اور روایت کے مطابِق امامِ اعظم علیہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الاکرمنے زندگی
میں 55 حج کئے اور جس مکان میں وفات پائی اُس میں سات ہزار بار قراٰنِ مجید
خَتْم فرمائے تھے۔ ( عقود الجمان، ص ٢٢١)
تلاوت اور اہل اللّٰہ
میرے آقا ا علیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:امام الائمہ
سیِّدُنا امام اعظم (ابو حنیفہ )رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تیس برس کا مل ہر
رات ایک رکعت میں قراٰنِ کریم خَتْم کیا ہے۔ ( فتاوٰی رضویہ تخریج شدہ، ج
٧،ص٦ ٤٧)
عُلَمائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تعالٰی نے فرمایا ہے، سَلَف صالحین(
رَحِمَہُمُ اللّٰہُ المبین )میں بعض اکابر دن رات میں دو خَتْم فرماتے بعض
چار بعض آٹھ، میزانُ الشَّریعۃ از امام عبد الوہاّب شَعرانی(قُدِّسَ
سِرُّہُ النُّورانی) میں ہے کہ سیِّدی علی مرصفی قُدِّسَ سرُّہُ الرَّبّانی
نے ایک رات دن میں تین لاکھ ساٹھ ہزار خَتْم فرماتے۔
( المیزانُ الشریعۃ الکبرٰی ،ج ١ ،ص ٧٩ )
آثار میں ہے، امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ مولائے کائنات، علیُّ المُرتَضٰی
شیرِ خدا کَرَّمَ اللّٰہُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم بایاں پاؤں رِکاب میں
رکھ کر قراٰنِ مجید شروع فرماتے اور دَہنا( سیدھا)پاؤں رکاب تک نہ پہنچتا
کہ کلام شریف خَتْمہو جاتا۔ بلکہ خود حدیث شریف میں ارشاد ِ مصطَفٰے صلَّی
اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے کہ حضرت سیِّدُناداود عَلٰی نَبِیِّنا
وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام اپنی سواری تیار کرنے کا حکم فرماتے
اوراس سے پہلے کہ سواری پر زین کس دی جائے (یہ ) زبورشریف ختم فرما
لیتے۔(صحیح بخا ری، ج٢ ،ص٤٤٧ ،حدیث٣٤١٧)
محترم قارئین کرام!ہو سکتا ہے کسی کووسوسہ آئے کہ ایک دن میں کئی بار بلکہ
لمحہ بھر میں خَتْمقراٰنِ پاک یا خَتْمزبور و توراۃشریف کیسے ممکن ہے ؟ اِس
کا جواب یہ ہے کہ یہ اولیاء کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تعالٰیکی کرامات اور
حضرت سیِّدُنا داودعَلٰی نَبِیِّنا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکا
معجزہ ہے اور معجزہ اور کرامت وہی ہوتی ہے جو عقلاً مُحال یعنی ناممکن ہو۔
حرف چبانا
افسوس!آج کل دینی مُعَامَلات میں سُستی کادَور دورہ ہے،عُمُوماً تراویح میں
قراٰنِ مجید ایک بار بھی صحیح معنوں میں خَتْم نہیں ہو پاتا ۔ قراٰنِ پاک
ترتیل کے ساتھ یعنی ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہیے، مگر حال یہ ہے کہ اگر کوئی
ایسا کرے تو لوگ اُس کے ساتھ تراویح پڑھنے کیلئے تیّار ہی نہیں ہوتے۔اب
وُہی حافِظ پسند کیا جاتا ہے جو تَراویح سے جلد فار ِغ کردے۔ یاد رکھیئے !
تر اویح کے علا وہ بھی تِلاوت میں حَرْ ف چبا جا نا حرام ہے۔ اگرجلدی جلدی
پڑھنے میں حافِظ صاحِب پورے قراٰنِ مجیدمیں سے صِرْف ایک حَرْف بھی چبا گئے
تو خَتمِ قرٰانکی سنّت ادا نہ ہو گی۔لہٰذاکسی آیت میں کوئی حَرْف ''چَب''
گیا یا اپنے ''مَخْرَج'' سے نہ نکلا تو لوگوںسے شرمائے بِغیرپلٹ پڑیئے اور
دُرُست پڑھ کر پھر آگے بڑھئے ۔ ایک افسو س ناک اَمْریہ بھی ہے کہ حُفّا ظ
کی ایک تعداد ایسی ہوتی ہے جسے تر تیل کے ساتھ پڑھنا ہی نہیں آتا! تیزی سے
نہ پڑ ھیں تو بے چارے بھو ل جا تے ہیں ! ایسوں کی خد مت میں ہمدردانہ مَدَ
نی مشورہ ہے، لوگوں سے نہ شر ما ئیں،خدا کی قسم! اللہ عزوجل کی ناراضگی
بَہُت بھاری پڑے گی لہٰذا بلا تاخیر تجوید کے ساتھ پڑھانے والے کسی قا ری
صاحِب کی مدد سے از اِبتِداء تا اِنتِہااپنا حفِْظ دُرُست فر ما لیں۔
مَدولین (واؤ،ی اور الف ساکن اورما قبل کی حرکت موافق ہو تو اس مد اور
واؤاور ی ساکن ماقبل مفتوح کو لین کہتے ہیں۔(نصاب التجوید ص٩المدینۃ
العلمیۃ باب المدینہ)،(یعنی واؤ کے پہلے پیش اور ی کے پہلے زیر اور الف کے
پہلے زبر۔) کا خیا ل رکھنا لا زِمی ہے نیز مَد،غُنَّہ، اظہار ،اِخفا وغیرہ
کی بھی رعایت فرمائیں۔ صاحبِ بہارِشریعت حضرت صدرُ الشَّریعہ بدرُ
الطَّریقہ علّامہ مولٰینامفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی
فرما تے ہیں،''فر ضو ں میں ٹھہر ٹھہر کر قِرا ء َت کرے اور تر اویح میں
مُتَوَ سِّط (یعنی درمیا نہ ) انداز پر اور رات کے نوافِل میں جلد پڑھنے کی
اجازت ہے، مگر ایسا پڑھے کہ سمجھ میں آسکے یعنی کم سے کم ''مَدّ'' کا جو
دَرَجہ قا رِیو ں نے رکھا ہے اُس کو ادا کرے ورنہ حرام ہے ۔اس لئے کہ
تَرتیل سے (یعنی خوب ٹھہر ٹھہر کر) قراٰن پڑھنے کا حُکُم ہے ۔ ''(الدُّرُّ
المُخْتارو رَدُّالْمُحْتار،ج٢،ص ٢ ٦ ٢)
پارہ ٢٩ سورۃُ اْلمُزَّمِّلکی چو تھی آیت میں ارشا د ِرباّنی ہے:
وَرَتِّلِ الْقرُاٰنَ تَرْتِیْلاً 0ط
ترجَمہ کنزالایمان: اور قراٰن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔
میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کمالین علی حاشیہ جلا لین کے
حوالے سے '' ترتیل '' کی وضاحت کرتے ہوئے نَقل کرتے ہیں: یعنی قراٰنِ مجید
اِس طرح آہِستہ اور ٹھہر کر پڑھو کہ سننے والا اِس کی آیات و الفاظ گن سکے۔
( فتاوٰی رضویہ تخریج شدہ ،ج ٦،ص٦ ٢٧)
نیزفرض نَماز میں اس طرح تِلاوت کرے کہ جدا جدا ہر حرف سمجھ آئے، تروایح
میں مُتَوَسِّط طریقے پر اور رات کے نوافل میں اتنی تیز پڑھ سکتا ہے جسے وہ
سمجھ سکے ۔(دُرِّمُختَار، ج١، ص ٨٠)
مدارک التنزیل میں ہے: قراٰن کو آہستہ اور ٹھہر کر پڑھو ، اس کا معنیٰ یہ
ہے کہ اطمینان کے ساتھ حروف جدا جدا ، وقف کی حفاظت اور تمام حرکات کی
ادائیگی کا خاص خیال رکھنا ہے'' ترتیلا'' اس مسئلہ میں تاکید پیدا کر رہا
ہے کہ یہ بات تلاوت کرنے والے کے لئے نہایت ہی ضروری ہے۔
( تفسیر مدارک التنزیل، ج ٤ ،ص ٢٠٣ ،دارالکتب العربیہ بیروت، فتاوٰی رضویہ
تخریج شدہ ،ج ٦،ص٨ ٢٧،٢٧٩)
تراویح بغیر اجرت پڑھائے
پڑھنے پڑھانے والوں کو اپنے اندر اِخلاص پیدا کرنا ضَروری ہے اگر حافظ اپنی
تیزی دکھانے، خوش آوازی کی داد پانے اور نام چمکانے کیلئے قراٰنِ پاک پڑھے
گا تو ثواب تو دُور کی بات ہے، اُلٹا حبِّ جاہ اور ریاکاری کی تباہ کاری
میں جا پڑے گا ۔اِسی طرح اُجرت کا لین دین بھی نہ ہو۔طے کرنے ہی کو اُجرت
نہیں کہتے بلکہ اگر یہاں تراویح پڑھانے اِسی لئے آتے ہیں کہ معلوم ہے کہ
یہاں کچھ ملتا ہے اگرچِہ طے نہ ہوا ہو تو یہ بھی اُجرت ہی ہے۔اُجرت رقم ہی
کا نام نہیں بلکہ کپڑے یا غلّہ وغیرہ کی صورت میں بھی اُجرت،اُجرت ہی
ہے۔ہاں اگر حافِظ صاحِب اصلا حِ نیّت کے سا تھ صاف صاف کہہ دیں کہ میں کچھ
نہیں لوں گا یا پڑھوانے والا کہہ دے، نہیں دوں گا۔پھر بعد میں حافِظ صاحِب
کی خدمت کردیں تو حرج نہیں کہ حدیثِ مبارَک میں ہے، اِنّما الْاَعْمَالُ
بِالنِّیَّات یعنی اعمال کا دارومدار نیّتوں پر ہے۔
(صحےح بخاری ،ج١،ص٦،حدیث١)
تلاوت و ذکر و نعت کی اجرت حرام ہے
میرے آقا اعلیٰ حضرت،امامِ اہلسنّت مولٰینا شاہ احمدرضاخان علیہ
رحمۃالرحمٰن کی بارگاہ میں اُجرت دے کرمیِّت کے ایصالِ ثواب کیلئے خَتْمِ
قراٰن وذکرُ اللہ عزوجل کروانے سے مُتَعَلِّق جب اِسْتِفتاء پیش ہوا تو جوا
باً ارشاد فرمایا:'' تلاوتِ قراٰن وذکرِ الہٰی عزوجل پر اُجرت لینا دینا
دونوں حرام ہے۔لینے دینے والے دونوں گنہگار ہوتے ہیں اور جب یہ فِعلِ حرام
کے مُرتَکِب ہیں تو ثواب کس چیز کا اَموات (یعنی مرنے والوں) کو بھیجیں
گے؟گناہ پر ثواب کی اُمّید اور زیادہ سخت واَشَد(یعنی شدید ترین جُرم)
ہے۔اگر لوگ چاہیں کہ ایصالِ ثواب بھی ہو اور طریقہئِ جائزہ شَرْعِیہ بھی
حاصِل ہو (یعنی شرعاً جائز بھی رہے ) تو اُوس کی صورت یہ ہے کہ پڑھنے والوں
کو گھنٹے دو گھنٹے کے لئے نوکر رکھ لیں اور تنخواہ اُتنی دیر کی ہرشَخْص کی
مُعَیَّن(مقرّر) کردیں ۔مَثَلاً پڑھوانے والا کہے ،میں نے تجھے آج فُلاں
وَقْت سے فُلاں وَقْت کیلئے اِ س اُجرت پر نوکر رکھا (کہ)جو کام چاہوں گا
لوں گا۔وہ کہے ، میں نے قَبول کیا۔اب وہ اُتنی دیر کے واسطے اَجِیر(یعنی
مُلازِم) ہوگیا۔جو کام چاہے لے سکتا ہے اس کے بعد اُوس سے کہے فُلاںمَیِّت
کے لئے اِتنا قراٰنِ عظیم یا اِس قَدَر کلِمہئِ طیِّبہ یا دُرُود پاک پڑھ
دو۔ یہ صورت جواز (یعنی جائز ہونے) کی ہے۔'' (فتاویٰ رضویہ، ج١٠،ص١٩٣،١٩٤ )
فیضان سنت کا فیضان ۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔
یا اللہ عزوجل ماہ رمضان کے طفیل برما کے مسلمانوں
کی جان و مال ،عزت آبرو کی حفاظت فرما۔اٰمین
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف وکرم سے مجھے
بس ایک بار کہا تھا میں نے یا اللہ مجھ پر رحم کر مصطفی کے واسطے |