یہ ہمارے نصیب کی بُلندی نہیں تو
اور کیا ہے کہ ماہِ صیام ایک بار پھر ہماری زندگی کا حصہ بن گیا ہے! سال
بھر ہم بھلے ہی ”زمیں جُنبد، نہ جُنبد گل محمد“ کی تصویر بنے رہیں، اِس ماہِ
مبارک کی آمد کے ساتھ ہی ہماری زندگی میں بہت کچھ بدل، بلکہ پلٹ جاتا ہے۔
جو سال بھر اللہ کی یاد سے غافل رہتے ہیں وہ بھی کِسی نہ کِسی بہانے اللہ
کو یاد کرلیتے ہیں اور سجدے میں جاکر، تھوڑا بہت گِڑگِڑا رب کو ایک خاص حد
تک منا ہی لیتے ہیں۔ اور رب کو منانا کون سا مُشکل کام ہے، وہ تو مَننے کے
لیے ہر دم آمادہ رہتا ہے۔ اللہ کی رحمت تو بہانہ جُو ہے اور جُویائے رحمت
جانتے ہیں کہ رحمتِ ربّانی سے کِس طور بہرہ مند ہوا جاسکتا ہے۔
ماہِ صیام حدِ فاصل ہے .... نیکی و بدی کے درمیان، اللہ کی یاد سے غافل
رہنے اور اللہ کو ہر دم یاد رکھ کر اُس کے غضب سے لرزاں و ترساں رہنے والوں
کے درمیان، بُخل اور سخاوت کے درمیان۔ ماہِ صیام رحمت اور کرم کے دریا کے
مانند ہے۔ دریا کا کام بہنا ہے۔ یہ تو اِس دریا کے کنارے بسنے والوں کو طے
کرنا ہے کہ کِسے سیراب ہونا ہے اور کِسے تشنہ لبی ہی کو مُقدّر بنائے رکھنا
ہے!
ماہِ مبارک لوگ میں اپنے اپنے مُقدّر کی کمائی کھاتے ہیں۔ جو جیسا چاہتا ہے
ویسا ہے پاتا ہے کیونکہ اعمال اور اُن کے نتائج کا مدار نیتوں پر ہے۔ جس کی
نیت میں کھوٹ نہیں ہوتی وہ اللہ کو یاد رکتھے ہیں اور جن کی نیت میں فتور
ہو اُن سے رمضان میں بھی ایسی حرکات سرزد ہوتی ہیں کہ اِن حرکات کو دیکھ کر
لوگ عبرت پکڑتے اور کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں! رمضان عبادت کے سَودے میں
رحمت کا نفع کمانے کا مہینہ ہے مگر بہتوں کی بد بختی اِن ساعتوں میں بھی
پیچھا نہیں چھوڑتی اور وہ عُقبٰی کا خالص نفع چھوڑ کر دُنیا کا خام منافع
کمانے پر کمر بستہ رہتے ہیں! اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ رمضان میں شیاطین کے
مُقیّد کردیئے جانے سے شرم ناک سرگرمیوں کو نکیل پڑتی ہے تو اُسے یاد رکھنا
چاہیے کہ ماہِ مبارک میں اِنسان جو کچھ بھی کرتا ہے وہ ”از خود نوٹس“ کے
تحت ہوتا ہے اور وہی مکمل طور پر اِس کا ذمہ دار بھی ہوتا ہے! اِس اعتبار
سے ماہِ صیام کے دوران اِنسان کو یہ آسانی تو میسر ہی رہتی ہے کہ وہ جو کچھ
بھی غلط کرتا ہے اُس کے ممکنہ منطقی نتائج سے بے خبر نہیں رہتا۔ کچھ بھی
غلط کرتے وقت دل کو خوب اندازہ ہوتا ہے کہ خمیازہ کیا اور کِتنا بُھگتنا
پڑے گا۔ مگر اے وائے ناکامی! اِس پر بھی حضرتِ اِنسان سُدھرنے کا نام نہیں
لیتے۔ ثابت ہوا کہ مُقیّد ہو جانے پر بھی شیاطین اپنے اثرات اِنسانی فِطرت
پر برقرار رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں!
رمضان کی مسعود ساعتیں بھی کیسے کیسے مُقدّر لیکر نازل ہوتی ہیں۔ کچھ ایسے
ہیں جنہیں وہی سال بھر والی روش راس رہتی ہے۔ چشم فلک ایسے بد بخت بھی
دیکھتی ہے جو رمضان کے مُبارک لمحات میں دوسروں کو دھوکا دینے کے نام پر
اپنے آپ کو فریب دینے سے باز نہیں آتے۔ اُن کے نزدیک دین کا مہینہ دُنیا
کمانے کے سنہرے موقع سے بڑھ کر کچھ نہیں! یعنی اُن کی نظر میں رمضان محض
ایک ”سیزن“ ہوتا ہے! ایسوں کی نظر میں زیادہ سے زیادہ مال و زر کا حصول ہی
سب کچھ ہوتا ہے۔ اِس سے آگے اُن کی نظر دیکھتی ہی نہیں۔ اِنسان کو وہی کچھ
دِکھائی دیتا ہے جو وہ دیکھنا چاہتا ہے۔ اور مِلتا بھی وہی ہے جس کی تمنا
کی جاتی ہے۔ رب کا معاملہ تو یہ ہے کہ جو کچھ بھی اِنسان چاہتا ہے وہی اُسے
نوازتا ہے۔ دنیا مانگیے تو دنیا، دین مانگیے تو دین، علم مانگیے تو علم،
دولت مانگیے تو دولت، توقیر مانگیے تو توقیر، ذلت مانگیے تو ذلت ہی ملے گی۔
اللہ نیت کے مطابق ہی تو دیتا ہے کہ عدل کا یہ بھی ایک تقاضا ہے۔ اگر کوئی
اپنے اعمال کے نتائج کو بُرا سمجھتا ہے تو اعمال اور اُن کی بُنیاد بننے
والی نیت یا عزائم کی نوعیت پر غور کرنے کی زحمت بھی گوارا کرے!
اللہ کے خزینہ رحمت کا مُنہ کُھل گیا ہے۔ اب جسے دنیا اور عُقبٰی کی نعمتیں
اپنے دامن میں سمیٹنی ہیں، سمیٹ لے۔ رب سے قُربت اختیار کرنے کا یہی مہینہ
ہے۔ اپنی کوتاہیوں، جرائم اور گناہوں پر شرمسار ہونے اور استغفار کی یہی
ساعتیں ہے۔ ہم جو کچھ سال بھر کرتے ہی رہتے ہیں وہ سب کچھ اِس ماہ میں نہ
کریں یا کم کم کریں تو اچھا ہے۔ رمضان کی ساعتیں اللہ کے حضور سَر بسجود
رہنے کے لیے ہیں تاکہ دُنیا کے جھمیلوں سے دُوری اور اللہ کی بارگاہ سے
قُربت نصیب ہو۔
کھانا پینا تو سال بھر لگا رہتا ہے۔ رمضان نَفس کو مارنے اور جسم کو غِذائی
اعتبار سے متوازن رکھنے کا مہینہ ہے۔ دانش کا تقاضا یہ ہے کہ دن بھر بھوک
پیاس کی تکلیف سہہ کر جسم میں پیدا کئے جانے والے توازن کو افطار کے وقت
متنوع اشیاءغیر معمولی مقدار میں یا بے عجیب تناسب سے معدے میں اُتار کر
زائل نہ کیا جائے۔ روزے کی حالت میں جسم کو جو فائدہ پہنچتا ہے اُسے ہم
افطار کے وقت شدید بے اعتدالی سے ٹِھکانے لگا دیتے ہیں۔
رمضان المبارک کے تینوں عشرے استغفار کرنے اور اللہ کی رحمت سمیٹنے کے ہیں۔
گناہوں کی گٹھڑی کا وزن کم کرنے کا یہ نادر موقع ہم ایسی سرگرمیوں میں ضائع
کردیتے ہیں جن سے دامن بچانا کِسی نقصان کا باعث نہیں بن سکتا۔ جس عشرے میں
ہمیں اللہ کے حضور سَر بسجود رہتے ہوئے مغفرت کا اہتمام کرنا چاہیے اُسی
عشرے میں ہمیں عید شاپنگ کی پڑی رہتی ہے! شاپنگ بھی ضروری ہے کہ عید مسرت
کے اظہار کا موقع بھی ہے مگر اِس سے کہیں بڑھ کر یہ تشکر کے اظہار کا موقع
ہے۔ ہمیں رمضان کو خصوصی پکوانوں سے لذت پانے اور عید کی تیاریوں کا ایونٹ
بنانے کے بجائے اللہ کی عنایات اور کرم کا شکر ادا کرنے کا موقع بنانے پر
زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ رب کا مقصود بھی یہی ہے۔
رمضان کے تمام فیوض و برکات سے بہرہ مند ہونا ہمارے اختیار اور بس کی بات
ہے۔ عبادات میں مشغول رہ کر ہم رمضان سے متعلق اپنا مُقدّر خود سنوار سکتے
ہیں۔ کِس کو کیا ملے گا یہ مُقدّر کی بات ہے مگر مُقدّر خود طے کرنا اور
سنوارنا ہے۔ نیت دُنیوی منافع کی ہو تو تھوڑا سا زر ہمارا مقسوم ہوگا اور
اُخروی نفع پانے کی خواہش دِل میں جاگ اُٹھے تو سمجھ لیجیے رب کے حضور سُرخ
رُو ہونے کا سُنہرا موقع ہاتھ آگیا ہے۔ |