جنوبی ایشیا دنیا کے خطرناک ترین
خطوں میں سے ایک ہے کیونکہ یہاں دو ایٹمی قوتیں واقع ہیں اور دونوں کے
باہمی تعلقات ہمیشہ نا خوشگوار بلکہ خطرناک حد تک کشیدہ رہتے ہیں۔ جنگیں ،
تنازعات اور جھڑپیں یہ سب یہاں کامعمول ہیں۔ دونوں ممالک اپنے بجٹ کا بڑا
حصہ دفاع پر خرچ کرتے ہیں جبکہ عوام سوائے غربت اور بے بسی کے کچھ نہیں
کماتے ۔ یہ تو ہیں خطے کے حالات لیکن ان حالات کا اگر ایماندارانہ تجزیہ
کیا جائے تو نتیجہ یہی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ان کی سب سے بڑی وجہ کشمیر ہے۔
وہ کشمیر جو مسلمان اکثریتی ریاست تھی لیکن اسے کسی نہ کسی طرح سے بھارت نے
ہڑپ کر لیا اور یوں مسلمان ریاست کو ہندو مملکت کا غلام بنا دیا گیالیکن اس
فیصلے کو ظاہر ہے کہ مسلمان کشمیریوں نے قبول نہیں کیا اور نہ ہی یہ
پاکستان کے لیے قابل قبول تھا۔ یہ ریاست جو اس نوزائیدہ مملکت کے لیے شہ رگ
کی حیثیت رکھتی تھی کا ٹ دی گئی اور یوں ایک ایسی جنگ کا آغاذ کر دیا گیا
جو کبھی سرد اور کبھی گرم ہر وقت جاری رہتی ہے۔ باوجود اقوام متحدہ کی قرار
دادوں کے بھارت اس مسئلے کو حل کرنے پر تیار نہیں۔ کشمیری عوام پینسٹھ سال
سے اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیںاور مسلسل اپنی جانیں گنوارہے ہیں ،چونکہ
یہ ظلم و ستم بھارت میں ہو رہا ہے اس لئے عالمی طاقتوں کو یہ ریاستی دہشت
گردی نظر نہیں آرہی اور نہ ہی ایسٹ تیمور کی طرح ان مسلمانوں کی کوئی مدد
کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور نہ ہی سوڈان جیسے سقہ مسلمان ملک کی طرح یہاں
کے مسلمانوں کے حقوق کی پامالی انہیں بے چین کرتی ہے اور یوں جدید دنیا کی
سب سے بڑی جمہوریت میں ان کشمیریوں کا خون پانی کی طرح بہہ رہا ہے ،ان کی
بیٹیوں بہنوں کی عزتیں پامال ہو رہی ہیں ۔ صرف 2010-11 میں 210 خواتین کی
بے حرمتی کی گئی جبکہ 746 اغوا کے واقعا ت ہوئے لیکن لاپتہ افراد کی فہرست
کی طوالت سے نہ بھارتی حکومت ہلی اور نہ عالمی طاقتوں میں جُنبش ہوئی۔
خواتین بیوہ اور بچے یتیم ہوں تو بھارتی حکومت کے لیے ان پر ہاتھ اٹھانا
اور آسان ہو جاتا ہے اور زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ حکومتی اور
فوجی سرپرستی میں ہوتا ہے بلکہ فوج کو تو ایسے لا محدود اختیارات حاصل ہیں
کہ جن کے تحت وہ کشمیریوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کے بلاشرکت غیرے
مالک ہیں۔ انہیں آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ کے تحت ایسے اختیارات دیئے گئے
ہیں کہ کشمیری ان کے سامنے انسان کے درجے سے اُتر کر جانور سے بد تر ہو گئے
ہیں کہ ان کے مظالم پر فریاد کرنے کا حق بھی نہیں رکھتے۔ حتٰی کہ عدالت سے
رجوع کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ایسے ہی ایک مقدمے میں بھارتی
سپریم کورٹ نے اُن فوجیوں جن میں چار افسران شامل ہیں کو چھوڑ دیا جن کو
مجسٹریٹ ملزم تسلیم کر چکے تھے اور سرینگر ہائی کورٹ نے بھی اس مقدمے کی
اجازت دے دی تھی لیکن AFSPA کے کالے قانون نے ان فوجیوں کومزید کشمیریوں کے
قتل عام کے لیے آزاد چھوڑ دیا بلکہ نوبت یہاں تک پہنچی ہوئی ہے کہ جموں
کشمیر کو لیشن آف سول سوسائٹی JKCCS کی رپورٹ کے مطابق پولیس میں ترقیاں
اور انعامات زیادہ سے زیادہ کشمیریوں کے قتل پر دئیے جا رہے ہیں یعنی قانون
کے رکھوالے جوبظاہر انسانی زندگیوں اور جان و مال کی حفاظت پر معمور ہیں
درحقیقت قتل عام کا لائسنس اپنے ہاتھوں میں لیے پھرتے ہیں ۔ مذکورہ بالا
مقدمہ جس میں فوجیوں کو قانون سے بالا قرار دے دیا گیا یہ ایک جعلی مقابلے
کی بابت تھا جوپتری بل میں سال 2000 میں سٹیج کیا گیا 2006 تک تو اس پر
کوئی کا روائی ہی نہ ہوئی اور ہوئی تو آخری فیصلہ دنیا کی سب سے بڑے جمہوری
ملک میں یہ کیا گیا کہ فوج کسی بھی کشمیری کو کسی بھی وقت گولی کا نشانہ
بنائے یا ہوس کا انہیں کھلی چھٹی ہے ،بقول سید علی شاہ گیلانی اس مقدمے کے
فیصلے نے فوج کے ہاتھوں معصوم لوگوں کے قتل عام کو قانونی تحفظ فراہم کردیا
ہے یعنی بے خوف ہو کر اپنا کام کیے جائو ۔ اس فیصلے نے ان دعوئوں کی قلعی
بھی کھول دی ہے کہ بھارت میں عدلیہ آزاد ہے اور فوج جمہوری اداروں اور
عدلیہ کے سامنے مجبور ہے۔ ہو سکتا ہے ایسا ہو لیکن کشمیر کے معاملے میں
ایسا نہیں ۔ حکومت اور فوج نے عدالت کو یوںپابند کر رکھا ہے کہ وہ کشمیر
میں فوجیوں کے کسی اقدام کی سرزنش بھی نہیں کر سکتی۔ سید علی گیلانی نے
عالمی بردادری سے اپیل کی ہے کہ جنگی جرائم میں ملوث اہلکاروں کو سزادلوانے
میں مدد کرے جس طرح بوسنیا کے معاملے میں کیا گیا ۔ لیکن لگتا یہی ہے کہ
اُن کی آواز صدا بصحراہی ثابت ہوگی کیونکہ عالمی برادری کے بہت سارے مفادات
بھارت سے وابستہ ہیں۔ ایک ارب سے زا ئد آبادی کے اس اژدہام والے ملک میں ان
کی مصنوعات کی عظیم الشان منڈی ہے اور ساتھ ہی ساتھ وہ ان کے اسلحے کا ایک
بڑا خریدار بھی ہے اگر کشمیر کا مسئلہ حل ہوگیا تو پاکستان کے ساتھ اس کے
دوسرے چھوٹے موٹے مسائل بھی خود بخود ہی طے پا جائیں گے اور جب تنازعات نہ
رہیں گے تو جنگ کہاں ہوگی اور ان کا اسلحہ کہاں بکے گا۔ اگر کشمیر کا مسئلہ
حل ہوا تو بھارت اپنے ہاں ہونے والی ہر دہشت گردی کا الزام پاکستان کے سر
کیسے دے سکے گا۔ خود اپنے شہریوں کے ثبوت شدہ جرائم بھی وہ بڑی دیدہ دلیری
سے پاکستان کے کھاتے میں نہ ڈال سکے گا۔ بھارت میں خون مسلم کی ارزانی صرف
کشمیر میں ہی نہیں پورے بھارت کے مسلمان اس کی زد میں ہیں لیکن اُس کو
پوچھنے والا کوئی نہیں صرف اس لیے کہ عالمی طاقتوں نے قرآن کے عین مطابق
دنیا کو کفر اور اسلام کے دو بلاکوں میں تقسیم کر رکھا ہے یہاں تک کہ بانڈی
پورہ کشمیر میں قرآن پاک کی بے حرمتی بھی انہیں نظر نہ آئی لیکن کسی مسلمان
ملک میں کسی غیر مسلم کے کسی دشمنی یا تنازعے کے نتیجے میں قتل کو بھی دہشت
گردی کے زمرے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ راجیش کھنہ کی موت
پر صف ماتم بچھانے والا ہمارا میڈیا ایسے واقعات پر چپ سادھ لیتا ہے بلکہ
کسی کو خبر بھی نہیں ہو پاتی کہ ایسے قبیح اور مکروہ اسلام مخالف منصوبے
بنتے بھی ہیں اور رویہ عمل بھی ہوتے ہیں۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کشمیر
پاکستان کی شہہ رگ ہے اس کی رگوں میں دوڑنے والا پانی کشمیر سے ہی آتا ہے
وہاں کے کروڑوں مسلمان ہم سے بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہم ان کی
آواز میں آواز ملائیں اور اُن کے حقوق کے لیے آواز اُٹھائیں۔ |