جہیز کا رواج ہمارے معاشرے میں ایک المیہ

لالچ اور حوس کی وجہ سے شادی جیسا مقدس بندھن ایک کاروبار کی شکل اختیار کر گیا ہے۔

جہیز عربی زبا ن کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ۔اسباب یا سامان۔۔۔ یہ اس سامان کو کہتے ہیں جو لڑکی کو نکاح کے وقت ماں باپ کی طرف سے دیا جاتا ہے ۔جہیز کا لفظ جہز سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی تیار کرنے کے ہیں۔جہیز دینے کی رسم پرانے زمانے سے چلی آرہی ہے۔ہر ملک ، ہر علاقے میں جہیز مختلف صورتوں میں دیا جاتا ہے۔ہندی میں جہیز کو استری دھن کہتے ہیں۔استری ۔ عورت۔ دھن ۔دولت ۔ جہیز عام طور پر زیورات ، کپڑوں ، نقدی اور روز مرہ استعمال کی چیزوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ شروع شروع میں جہیز امیر خاندانوں کی طرف سے اپنی بیٹیوں کی شادی کے وقت انھیں قیمتی سامان دیا جاتا تھا ۔تاکہ ان کی بیٹی پر تعیش زندگی گزار سکے ۔مختلف راجاﺅں کی طرف سے جہیز دینے کی مثالیں ملتی ہیں۔1661ءمیں ممبئی میں شہزادی کیتھرین کی کنگ چارلس سے جب شادی ہوئی تو شہزادی کو بادشاہ کی طرف سے قیمتی سازو سامان دے کر رخصت کیا گیا ۔شادی جو ایک خوبصورت رشتہ ہے ۔دو خاندانوں کے ملاپ کا ذریعہ ہے۔جہیز کی لالچ کی وجہ سے کاروبار کی شکل اختیار کر گیا ہے۔کتنی ہی عورتیں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے گھر میں بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہو جاتی ہیں۔کم جہیز کی وجہ سے کئی عورتوں کی زندگی عذاب بن جاتی ہے۔مارپیٹ اور جلائے جانے کے وقعات عام ہیں ۔ لڑکے والے یہ جاننے کے باوجود کہ لڑکی والوں کی اتنی حیثیت نہیں لڑکی والوںسے بھاری جہیز کا تقاضہ کرتے ہیں۔دوسری طرف امیر گھرانے اپنی بیٹیوں کو بیاہتے ہوئے مختلف قسم کے تحائف اور نقدی رقم جہیز میں دیتے ہیں۔تاکہ معاشرے میں ان کی امیری کا رعب قائم رہے۔ان کے اسی رویے کی وجہ سے جہیز غریب گھرانوں کے لیے ایک بڑے مسئلے کی شکل اختیار کرگیا ہے ۔غریب لوگ اپنی بیٹیوں کی شادی اور جہیز کے لیے بھاری رقم قرض لینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ جس کے بعد نتیجے میںان کی ساری زندگی لیے ہوئے قرض کو چکانے میں گزر جاتی ہے۔ہمارے معاشرے میں اکثر والدین یہ سمجھتے ہیں۔ کہ اگر وہ اپنی بیٹی کو زیادہ جہیز دیں گے تو سسرال میں اسے عزت ملے گی ، قدر ہوگی اور خاندان میں ان کی ناک اونچی ہوگی۔جس کے لیے وہ قرض لے کر اپنی بیٹیوں کو بھاری جہیز دے کر رخصت کرتے ہیں۔ خدا نخواستہ اگر بیٹی کا اپنے شوہر سے نباہ نہ ہوتو میکے والوں کے طعنے ساری زند گی لڑکی کو سہنے پڑتے ہیں۔ہمارے ہاں آئے روز ایسے واقعات اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں”جہیز نہ لانے پر سسرال والوں نے دلھن کو جلا دیا“ ، ”جہیز نہ ملنے پر سسرالیوں نے لڑکی کو تشدد کا نشانہ بنا ڈالا“

”شادی یا کاروبار“
شادی جو دو افراد کے درمیان پیار کا بندھن ہے۔آج کے دو ر میں جہیز کے لالچ نے اس مقدس بندھن کے معنی بدل کر رکھ دیے ہیں۔شادی ایک رشتے سے زیادہ کاروبار لگنے لگا ہے۔آج کل جب غریب آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی کمانا بہت مشکل ہے ایسے میں غریب آدمی کا اپنی بیٹی کو جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے دیکھ کر خوف محسوس کرنے لگا ہے ۔بیٹی کی شادی میں تاخیر ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب یا حل بہت مشکل ہے۔ بلاشبہ جہیز مڈل کلاس فیمیلیز کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔

”تِلک اور جہیز میں فرق“
ماں باپ ضروریات زندگی کی مختلف اشیاءمثلاً زیورات، برتن، بستراور مختلف سامان لڑکی کو دے کر اس کے سسرال بھیجتے ہیں۔یہ لڑکی کا جہیز کہلاتا ہے ۔آج کل ہمارے معاشرے میں ہندوﺅں کے ”تِلک“ جیسی رسم بھی چل نکلی ہے۔ کہ شادی کرتے وقت ہی یہ شرط لگا دیتے ہیں کہ جہیز میں فلاں فلاں سامان اور اتنی رقم دینی پڑے گی۔جس کی وجہ سے بہت سی لڑکیا ں اس لیے بیاہی نہیں جارہی ہیں کہ ان کے ماں باپ لڑکے والوں کی جہیز کی مانگ پوری کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں۔جبراً ماں باپ کو مجبور کر کے زبر دستی جہیز مانگنا ناجائز اور مکروہ عمل ہے ۔مسلمانوں کو اس بری رسم سے اجتناب کرنا چاہئے۔

” اسلام میں جہیز کا تصور“
جہیز ماں باپ کی محبت و شفقت کی نشانی ہوتی ہے ۔ہمارے پیارے نبی ﷺ نے اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ ؓ کو جہیز میں کچھ سامان دے کر رخصت کیا تھا ۔ جس میں ایک چادر، ایک مشکیزہ اور چمڑے کا ایک تکیہ دیا تھا ۔ بعض روایات کے مطابق پینے کا پیالہ بھی اس سامان میں شامل تھا۔رسول اللہ ﷺ نے متعدد شادیاں کیں لیکن آپ کی ازواج مطہرات میں سے کوئی بھی اپنے ساتھ جہیز نہیں لائیں۔اسلام میں جہیز ماں باپ کی حیثیت اور استطاعت کے مطابق دینے کا تصور پایا جاتا ہے۔ ماں باپ کی طرف سے بیٹی کو جہیز دینا فرض یا واجب نہیں۔

”کنواری لڑکیوں کی بڑھتی ہوئی خطرناک شرح“
ایک سروے کے مطابق ساﺅتھ ایشیا کے ممالک ، بھارت ، پاکستان ، بنگلہ دیش میں کنواری لڑکیوں کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے ۔ والدین جہیز نہ ہونے کی وجہ سے اپنی بیٹیوں کی شادی نہیں کر پاتے جس کی وجہ سے دن بدن کنواری لڑکیوںکی شرح خطرناک حد تک بڑھتی جارہی ہے۔بلاشبہ یہ ایک خطر ناک مسئلے کی شکل اختیار کر گیا ہے ۔

”دنیا میں سب سے زیادہ دلہنیں یہاں زندہ جلا دی جاتی ہیں“
بھارت دنیا کا ایسا ملک ہے۔جہاںجہیز نہ لانے کی پاداش میں سب سے زیادہ خواتین کو زندہ جلا دیا جاتا ہے۔2010ءمیں 8391خواتین کو قتل کیا گیا۔انڈین نیشنل کرائم ریکارڈ بیوروکے اعداد و شما ر کے مطابق 2008ءمیں جہیز نہ لانے کی وجہ سے 3876خواتین کو جلا دینے کے واقعات ہوئے ۔جن میں سے 1948افراد کو سزا ہوئی۔یاد رہے کہ 2001ءمیں اس ”جرم“ میں قتل کی جانے والی خواتین کی تعداد سات ہزار تھی۔خاتون اپنے ہی گھر میں اپنے ہی شوہر کے ہاتھوں قتل کردی جاتی ہے۔مٹی کا تیل چھڑکا جاتا ہے اور آگ لگا دی جاتی ہے۔1993ءسے یہ بھارت کا سب سے بڑا ظلم بن چکا ہے۔80ءکی دہائی میں ایسی ہلاکتوںکی تعداد تقریباً 400ہوتی تھی ۔90ءکی دہائی میں یہ تعداد بڑھ کر 6ہزار تک سالانہ تک پہنچ گئی تھی۔اس طرح کے واقعات میں صرف تیس فیصد مجرموں کو سزا ملی۔جہیز نہ لانے کے ”جرم“میں خواتین گھریلو تشد د کا نشانہ بنتی ہیں، انھیں خود کشی پر مجبور کر دیا جاتا ہے ۔ یا پھر انھیں قتل کر دیا جاتا ہے۔ہر روز دو درجن ”کچن میں آگ لگنے سے “ جھلس کر ہلاک ہوتی ہیں۔حالانکہ ایسے تمام واقعات آگ لگا کر ہلاک کرنے والے ہوتے ہیں۔اس طرح کے واقعات زیاد ہ تر متوسط یا اس سے نچلے طبقے کے گھرانوں میں ہوتے ہیں۔

”جہیز کے مطالبے پر دس منٹ بعد علیحدگی“
یہ واقعہ بنگلہ دیشن کے جنوبی ضلع برگونہ میں اس وقت پیش آیا جب فرزانہ یاسمین نامی نوبیاہتا خاتون کے سسرال والوں نے اس وقت تک رخصتی کرنے سے انکا ر کر دیا ۔ جب تک انھیں ٹی وی اور ریفریجریٹر جیسے تحائف نہیں دیے جاتے۔جس کے بعد فرزانہ نے اپنے شوہر کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا ۔انسانی حقوق کی تنظیم آسک رائٹس گروپ سے وابسطہ سلطانہ کمال کا کہنا ہے کہ ” فرزانہ یاسمین نے جہیز کے مطالبے کی صورت میں کیے جانے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ہے“ یا د رہے کہ بنگلہ دیش میں جہیز لینا اور دینا قانوناً جرم ہے ۔ لیکن یہ روایت اور چلن آج بھی قائم ہے۔

”جہیز کی وجہ سے خود کشی کی کوشش “
2009ءمیں پیش آنے والا واقعہ کچھ اس طرح ہے ۔ کہ راولپنڈی کی رہائشی تین بہنوں نے جہیز نہ ہونے پر خان پور نہر میں چھلانگ لگا دی تھی۔تفصیلات کے مطابق راولپنڈی کی رہائشی تین حقیقی بہنوں ۔ سیمرا، صائمہ ، آسیہ نے غربت اور جہیز نہ ہونے کی وجہ سے خان پور نہر میں چھلانگ لگا دی تھی ۔تاہم موقع پر موجود لوگوں نے ان کو بچا لیا تھا۔ہوش آنے پر لڑکیوں نے بتایا تھا کہ ان کی منگنیاں ہو چکی ہیں۔لیکن لڑکے والوں کی جہیز کی مانگ پوری نہ کرنے کی وجہ سے ان کی شادیاں نہیں ہورہی ۔

”جہیز کا قانون“
2005ءمیں سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے مذہبی امور کے اس وقت کے چیئر مین مولانا سمیع الحق نے بے جا جہیز کی لعنت کو کنٹرول کرنے کے لیے جہیز کی حد بندی کے بل کی منظوری دی تھی ۔ جس کے تحت پچاس ہزار روپے سے زائد کا جہیز دینے پر پابندی لگائی گئی تھی۔ فیملی کورٹس کے ججز کو اس قانون کی خلاف ورزی پر ایک سال کی قید اور جرمانے کا اختیار دیا تھا ۔لیکن آج تک اس قانون پر کوئی عمل در آمد نہیں ہوسکا ۔اور آج تک یہ رواج اسی طرح جاری ہے۔قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جارہی ہے۔

”جہیز طلاق کی ایک بڑی وجہ“
ایک محتاط اندازے کے مطابق 40 فیصد طلاقوں میںجہیز کا عمل دخل ہوتا ہے۔جب کہ سسرال کی طرف سے تشد د کا نشانہ بننے والی 90فیصد خواتین یہ ظلم صرف اس لیے سہتی ہیں ۔ کہ ان کے والدین سسرالیوں کی خواہشات پوری کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ ہمارے معاشرے میں اسی خواتین کی تعداد میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ جن کی عمر 25 برس سے تجاوز کر چکی ہے اور شادی میں رکاوٹ محض جہیز کی کمی ہے۔اگر ہم جہیز کے سامان کو نظر انداز کر کے لڑکیوں کی تعلیم اور ان کے کردار کو مد نظر رکھیںتو بہت سارے خاندان آباد ہو سکتے ہیں۔لڑکی کو جہیز کی بنیا د پر نہیں، حسن اخلاق، سلیقہ مندی اور تعلیم کی بنیاد پر پرکھیں تو کئی لڑکیوں کے گھر آباد ہو سکتے ہیں۔یہی وہ قیمتی اثاثہ ہے جس کے باعث رویوں میں تبدیلی او ر لچک پیدا کریں تو کوئی لڑکی محض جہیز نہ ہونے کے سبب اپنے والدین کی دہلیز پر بیٹھی نہ رہے۔

”خواتین کی رائے“
پنجاب یونیورسٹی کی پروفیسر نبیلہ رحمان جو دو بیٹیوں کی ماں بھی ہیں کےمطابق جہیز کے خاتمے کے لیے میڈیا نے وہ کردار ادا نہیں کیا جو اسے کرنا چاہئے تھا۔معاشرے میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح خطر ناک ہے۔ڈاکٹر ندرت کا کہنا ہے کہ۔ ” موجودہ دور میں لڑکیوں کی شادی میں سب سے بڑی رکاوٹ جہیز ہے اس دور میں مہنگائی عروج پر ہے ایک عام انسان کے لیے بیٹیوں کو جہیز دینا نا ممکن ہے “ مس فاطمہ جو ایک گھریلو خاتون ہیں ان کے مطابق۔ جہیز دینے میں ماں باپ کی محبت و شفقت کااظہار ہوتا ہے ۔ماں باپ کو اپنی حیثیت کے مطابق اپنی بیٹیوں کو جہیز دینا چاہئے۔القمر فاﺅنڈیشن کی سر براہ مسز پروین کا کہنا ہے کہ اسلام میں جہیز کا تصور موجود ہے ۔ مگر جہیز میں قیمتی اور اپنی پسند کی چیزوں کا تقاضہ جائز نہیں ہے۔

”ایمنسٹی انٹر نیشنل کی رپورٹ “
ایمنسٹی انٹر نیشنل کی رپورٹ کے مطابق 1999ءمیں پاکستان میں جہیز کی وجہ سے 1ہزار چھ سو دلھن جلانے کے واقعات پیش آئے ۔ان میں 60خواتین کا مقدمہ چلایا گیا جن میں سے دو مقدموں کا فیصلہ ہوا ۔پروگریسو وومین ایسوسی ایشن کی ترجمان کے مطابق پاکستان میں300خواتین کو ہر سال جلا دیا جا تا ہے۔جن میں سے 70فیصدواقعات جہیز کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔اور سسرال کی طرف سے دلھن جلانے کے واقعات کو ” چولھا پھٹ گیا“ کے واقعات کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ایسوسی ایشن کے مطابق ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ چولہا پھٹنے کے واقعات کی متاثرہ خواتین کے زخم چولھا پھٹنے سے پیدا ہونے والے زخموں سے مطابقت نہیں رکھتے ۔

”میرا نام جہیز ہے“
میری پیدائش ۔۔۔۔ حرص اور لالچ کے جذبے سے ہوئی ۔
میری پرورش۔۔۔ ۔ امیروں کے محلوں میں ہوئی۔
میری عمر ۔۔۔۔ کی کوئی حد نہیں۔
میرا کام ۔۔۔۔ غریب لڑکیوں کے غریب والدین کے دل و دماغ کا سکو ن چھیننا ہے۔
میری خاطر۔۔۔۔ معاشرے میں لڑکیاں جلائی جارہی ہیں۔
میرا سکّہ ۔۔۔۔ پوری دنیا میں چل رہا ہے
میری آرزو۔۔۔۔ میں ہر جوان کے دل میں رہوں اور میری موت کبھی نہ ہو۔

”لوگوں کا دہرا رویہ“
ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو دیکھنے میں انتہائی با اخلاق و مذہبی ہیں۔ اور اٹھتے بیٹھتے آیت قرآنی اور احادیث نبوی بیان کرتے نہیں تھکتے لیکن معاملہ اپنے بیٹے کی شادی کا ہو تو ساری آیتیں اور احادیث بھلا کر اس کے دام وصول کر نے لگتے ہیں۔معاشرے میں لوگوں کی اکثریت یہ دہر ا رویہ اپناتے نظر آتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں جہیز شادی کا لازمی حصہ بن چکا ہے ۔والدین بھی اپنی جگہ سچے ہیں اگر بیٹی کو جہیز کم دیا تو سسرال والے طعنے دے کر اس کا جینا دو بھر کر دیں گے۔ اس طرح شادی ایک کاروبار کی شکل اختیار کر چکی ہے۔اپنی بچیوں کو جہیز دیتے وقت اپنی استطاعت کو مد نظر رکھنا چاہئے ۔ مادی اشیاءکے ساتھ ساتھ اچھی تعلیم و تربیت اور اخلاق کا جہیز بھی دینا چاہئے۔حکومت کو چاہئے کہ وہ جہیز کی حد پر سختی سے عمل کروائے ۔ علماءکرام اور میڈیا کے ادارے لوگوں میں آگاہی پیدا کریں ۔ شادی ایک ایسے بندھن کا نام ہے جس میں بندھ کر دو افراد کو ساری عمر ایک ساتھ گزارنی ہوتی ہے ۔جو رشتے مادی اشیاءکی بنیاد پر قائم کیے جاتے ہیں وہ زیادہ دیر قائم نہیں رہتے۔ لڑکے والوں کو اپنے بیٹوں کے رشتے دیکھتے وقت نبی پاک کی اس حدیث کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔آپ ﷺ نے فرمایاکہ! عورت سے شادی کرنے میں چار چیزیں دیکھو۔ 1 دولت مندی -2خاندانی شرافت-3خوبصورتی -4دین داری”لیکن تم دین داری کو ان سب چیزوں پر مقدم سمجھو“ قرآن و حدیث میں شادی جیسے اس قد ر پاکیزہ اور مقدس رشتے کے متعلق واضح احکاما ت ہونے کے باوجودہم جہیز کو ہی لڑکیوں کی کامیاب ا ور خوش گوار زندگی کا ضامن سمجھتے ہیں۔اس حوالے سے زیادہ ضرورت تعلیم و تربیت کے شعبوں کو فعال اور مﺅ ثر کرنے کی ہے۔
Farrukh Shahbaz Warraich
About the Author: Farrukh Shahbaz Warraich Read More Articles by Farrukh Shahbaz Warraich: 119 Articles with 126920 views


فرخ شہباز

پنجاب یونیورسٹی سے جرنلزم میں گریجوایٹ ہیں۔انٹرنیشنل افئیرز میں مختلف کورسز کر رکھے ہیں۔رائل میڈیا گروپ ،دن میڈیا گروپ اور مختلف ہ
.. View More