مغرب شریعت سے خوفزدہ کیوں

قارئین میں آپ کے سامنے چار خبریں پیش کرتا ہوں یہ چار مختلف خبریں ہیں اور یہ تمام خبریں گزشتہ ایک ماہ کے دوران مختلف تاریخوں میں اخبارات میں شائع ہوئی ہیں۔ پہلی خبر انگلینڈ کی ہے اور خبر کے مطابق وہاں جو ہسپتال مرد و عورت کا ایک ہی جگہ علاج کرتے تھے ان کو وارن کی گیا ہے کہ وہ اس بات سے گریز کریں اور عورتوں اور مردوں کے لیے الگ الگ شعبہ جات قائم کریں ورنہ ان کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔ دوسری خبر بھارت سے متعلق ہے اور یہ خبر بھی گزشتہ ماہ اخبارات میں شائع ہوئی تھی خبر کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک ہندو انتہا پسند تنظیم نے ایک پب میں ڈانس گرلز کو زدو کوب کیا اور ان کو وارننگ دی کہ عورتوں کا ڈانس بار میں آنا اور فحاشی پھیلانا برداشت نہیں کیا جائے گا۔ تیسری خبر بھی بھارت سے متعلق ہے اور اس خبر کے مطابق اسی ہندو انتہا پسند تنظیم نے ویلنٹائن ڈے منانے والو ویلنٹائین ڈے منانے سے منع کیا ہے اور خبر کے مطابق انہوں نے یہ کہا کہ یہ سب ہماری ثقافت اور تہذیب کے خلاف ہے اور ویلنٹائین ڈے پر ساتھ دیکھے جانے والے جوڑوں کو مندر لیجا کر زردستی شادی کردی جائے گی اور شادی سے انکار کی صورت میں لڑکی کو لڑکے کے ہاتھ میں راکھی بندھوا کر ان کو بہن بھائی بنا دیا جائے گا۔چوتھی خبر پاکستان سے متعلق ہے اور اس خبر پر پوری دنیا سے متضاد رد عمل آیا ہے وہ خبر سوات میں حکومت اور شدت پسندوں میں مذاکرات میں کامیابی کے بعد سوات میں نفاذ شریعت کا اعلان کردیا گیا ہے۔

یہاں ہم اس بات پر بحث نہیں کریں گے کہ یہ فیصلہ درست ہے یا نہیں اور حکومت کو کیا کرنا چاہیے تھا یا کیا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ بلکہ ہمارے پیش نظر ان خبروں میں حیرت انگیز تعلق ہے اور قدر مشترک ہے۔ بظاہر تو یہ چاروں خبریں تین مختلف مذاہب، مختلف خطوں اور مختف تہذیبوں کی ہیں لیکن ان سب میں ایک قدر مشترک ہے کہ ان میں غیر فطری طرز زندگی سے بیزاری کا اظہار کیا گیا ہے۔آگے بات کرنے سے پہلے ہم ایک اور خبر کی بات کریں گے اگرچہ یہ خبر کافی پرانی ہے اور اس وقت ہمارے سامنے اس کا کوئی حوالہ بھی نہیں ہے لیکن اپنی بات کو سمجھانے کے لیے ہم اس کو ذکر کرتے ہیں “اطلاعات کے مطابق اسرائیل میں ان کی حکومت نے انٹرنیٹ کے عام استعمال کر پاببندی عائد کر دی ہے اور اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ انٹر نیٹ کے آزادانہ استعمال سے نو عمر لڑکے اور لڑکیوں کے اخلاق پر برے اثرات مرتب ہورہے ہیں‘

اب ان تمام خبرو کا تجزیہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ چار مختلف خطوں، مذاہب، اور ثقافتوں کا مشترکہ مسئلہ معاشرے میں بے حیائی،اور بے راہ روی کا بڑھنا ہے اور غیر فطری رسم رواج کا فروغ پانا ہے اور ان چاروں معاشروں میں کہیں عوام اور کہیں خواص نے اس کے خلاف مزاحمت کی ہے اور اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہر معاشرے میں لوگ فطری زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔اور فطری زندگی صرف اور صرف دین میں ہی ہے، اور بالخصوص شرم و حیا اور بے راہ روی سے پرہیز انسانی فطرت میں شامل ہے۔ یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ تمام مذاہب اور تہذیبوں میں سب سے زیادہ زور شادی پر دیا گیا ہے اور تجرد کی زندگی اور ناجائز تعلقات کی ممانعت کی گئی ہے۔اگرچہ تمام الہامی مذاہب میں اللہ تعالیٰ نے شریعت اور عائلی قوانین میں کچھ فرق رکھا ہے لیکن بنیادی بات اللہ کی واحدانیت، اللہ کی اطاعت، بندوں کے حقوق، اور مرد و عورت کی مخلوط سوسائٹی سے پرہیز کا حکم دیا گیا، چاہے وہ یہودی ہوں یا عیسائی یا ہندو یا مسلم۔ ان تمام تہذیبوں کا تفصیلی مطالعہ کریں تو ان لب لباب یہی چار احکامات نظر آتے ہیں۔ اگر انسان اپنے اپنے دین پر مکمل عمل کرے تو اس کو بہت سی پریشانیوں سے نجات مل جاتی ہے، کیوں کہ مذہبی قوانین، چاہے عیسائیت ہو، یہودیت ہو یا اسلام ان سب کی بنیاد الہامی ہوتی ہے اور اور وہ رب اچھی طرح جانتا ہے کہ انسان کی فطرت کیا ہے، یہاں ہم یہ بات بھی بتا دیں کہ ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب نے اپنی مشہور تصنیف (اینڈ آف ٹائم ) میں کہتے ہیں کہ اس وقت دنیا میں سب سے کم جرائم سعودی عرب، ویٹیکن سٹی، اور اسرائیل میں ہوتے ہیں یعنی وہ تین ممالک کہ جہاں ان کے شرعی قوانین نافذ ہیں وہاں دنیا میں سب سے کم جرائم ہوتے ہیں اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ شریعت ہی میں امن ہے، شریعت ہی میں سکون ہے اور شریعت ہی میں عافیت ہے (یہاں یہ واضح رہے کہ ہم اس شریعت کی بات نہیں کر رہے ہیں کہ جس میں خواتین کی تعلیم گاہیں بند کردی جائیں، خواتین سے غیر انسانی سلوک کیا جائے) کیوں کہ شریعت تو یہ ہے کہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس فاطمہ نامی ایک خاتون چوری کے الزام میں لائی جاتی ہیں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شرعی قانون کے مطابق اس کے ہاتھ کاٹنے کی سزا سناتے ہیں اس کے رشتہ دار کی سفارش کرتے ہیں اور اس ان خاتون کا تعلق بھی ایک بڑے اور مالدار قبیلے سے تھا بنی مہربان نے فرمایا کہ خدا کی قسم اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو اس کے ہاتھ قلم کردئے جاتے، تم سے پہلے کی قومیں اسی لیے تباہ ہوئیں تھیں کہ جب ان کا کوئی مالدار جرم کرتا تھا تو اس کو چھوڑ دیا جاتا تھا اور اگر کوئی نادار جرم کرتا تھا تو اس کو پکڑ لیا جاتا ہے-اس حدیث مبارکہ کو سامنے رکھیں اور سوچیں کیا آج دین سے دوری کے باعث ہمارا معاشرہ بھی تباہی کی طرف گامزن نہیں ہے، کیا آج یہی صورتحال نہیں ہے کہ با اثر لوگ تو جرم کر کے بھی معزز ہیں اور نادار اور غریب لوگ ناکردہ کرم کی سزا بھی بھگتتے ہیں۔ ہم تو اسی شریعت کی بات کرتے ہیں، لیکن جب بھی اس شریعت کی بات کیجاتی تو ظالم اور استحصالی طبقہ کو تکلیف ہوتی ہے کیوں کہ شرعی نظام میں ہٹو بچو کا شور نہیں ہوتا، اس نظام میں ایک خلیفہ اور عام آدمی برابر ہوتے ہیں اور اس نظام میں ایک عام فرد خلیفہ کا دامن پکڑ کر کہتا ہے کہ اے عمر آپ کے حصے میں مال غنیمت سے جو کپڑا آیا تھا وہ تو کم تھا لیکن آپ کے کرتے میں تو کپڑا زیادہ لگا ہوا ہے یہ زیادہ کپڑا کہاں سے آیا؟ِ اور اس نظام میں خلیفہ اس شخص کو جھڑکتا نہیں ہے اس کو جیل میں نہیں ڈال دیتا کہ اس نے سب کے سامنے میرا دامن کیوں پکڑا بلکہ اس نظام میں خلیفہ نہایت عاجزی سے اس کی وضاحت کرتا ہے۔ ہم تو اس نظام شریعت کی بات کرتے ہیں۔ جب لوگ اس نظام کی بات کرتے ہیں تو استحصالی طبقہ فوراً ہشیار ہوجاتا ہے اور اس کے خلاف سازش شروع کرتا ہے اور بڑی صفائی سے اس استحصالی طبقے اور اس کے گماشتوں نے دنیا کو یہ باور کرادیا کہ یہ تو تہذیبوں کی جنگ ہے، یہ لوگ تو دہشت گرد ہیں۔ یہ لوگ تو دقیانوسی لوگ ہیں؟ اور اس طرح کی بات کر کے یہ لوگ عوام کو دین سے دور کرنےکی کوشش کرتے ہیں۔

بہر حال یہ ایک اچھی پیشرفت ہے اور ان شاء اللہ، اللہ میں لوگوں کو کامیاب کرے گا۔ یہاں یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ شریعت کے نفاذ کا فیصلہ تو پاکستان کے صرف ایک چھوٹے سے حصے میں کرنے کا معاہدہ ہوا ہے کہ لیکن مشرق سے لیکر مغرب تک امریکی استحصالی نظام کے پرزے اس کےخلاف اکھٹے ہوگئے ہیں اور انہوں نے حکومت پر اس معاہدے کی منسوخی کے لیے زور دینا شروع کردیا ہے ۔ہماری دعا ہے کہ اللہ ان کو اپنے ارادوں میں ناکام کرے اور یہ معاہدہ کامیابی سے ہمکنار ہو آمین
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1521147 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More