اسارہ کی مسلم پنچایت

ایک باشعورملّت کی حیثیت سے ہمارا یہ فرض ہے کہ اپنی صالح سماجی اقدارکی حفاظت کریں۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ رسم و رواج کے طور پر معاشرے میں جو کجروی پائی جاتی ہے ان کا بھی بچاﺅ کیا جائے اور جو لوگ ان طور طریقوں کے خلاف راہ نکالیں ان کو دھونس بٹہ دیا جائے۔خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب بعض ایسی سماجی قدروں پر اصرار کیا جاتا ہے جن کی کوئی اصل نہیں۔یہ خرابی اس وقت معصیت بن جاتی ہے جب یہ اصرار شریعت کی واضح منشاءسے متصادم ہو۔ بسا اوقات اعتراض صالح اقدار کی حفاظت کی کوششوں پر بھی ہوتا ہے۔ مگر ان پر ہنگامہ عموماًاسی وقت ہوتا ہے جب تدبیر کرنے والے حکمت کے بجائے کوڑااٹھالیتے ہیں اور اپنی عجلت پسندی میں یہ بھول جاتے ہیں کہ انتہائی اقدامات کا نتیجہ منفی بھی ہوسکتا ہے۔ عموماً ایسے مواقع پر ہنگامہ وہ عناصر زیادہ کرتے ہیں جو اپنی فکری غذا کہیں اور سے حاصل کرتے ہیں اور فاسد نظریات کو اعلا و ارفع تصور کرنے لگتے ہیں ۔ ضلع باغپت کے ایک مسلم اکثریتی گاﺅں اسارہ میں گزشتہ دنوں منعقدہ ایک پنچایت میں وہاں کے باشندوں نے اپنی بعض سماجی قدروں کی حفاظت کےلئے جو اقدامات تجویز کئے ہیں اور ان پر میڈیا میں جو ردّعمل سامنے آیا ،وہ اس کی تازہ مثال ہے۔

نوجوان نسل کی بے راہ روی پر فکرمند باشندگان موضع اسارہ نے جن اقدار کی پامالیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے ان سب کو ”طالبانی “ کا لیبل لگاکر نہ تو مسترد کیا جاسکتا ہے اور نہ مسلم سماج کا مقدس فریضہ سمجھ کر ان سب کی تائید کی جاسکتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے ہماری ملی اور مذہبی قیادت گومگو کا شکار ہے اور دو ٹوک پیغام دینے سے گریز کرتی ہے۔ ان کو بتانا چاہئے کہ معاشرے میں درآئی بعض برائیاں ، جن پر وہ فکر مند ہیں،واقعی قابل گرفت ہیں اور ان کو روکا جانا چاہئے۔ لیکن بعض ایسی چیزیں جن کی مخالفت پر وہ تلے ہوئے ہیں ،شریعت میں مباح ہیںاس لئے ان کو عیب سمجھ کر ان کی مخالفت کرنا درست نہیں۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ شریعت میں مباح چیزوں کی یہ مخالفت مداخلت فی الدین کے زمرے میں آجائے گی۔استغفراللہ۔ قبول اسلام کے باوجود اگرکوئی برادری اپنے سابقہ طور طریقوں پر قائم رہنا چاہتی ہے اور اپنی نادانی سے منشائے شریعت سے ٹکرارہی ہے تو ہمارا یہ فرض ہے کہ ان کو صائب بات بتادیںتا کہ وہ اپنے عائلی معاملات میں غیراسلامی نظریات کو نہیں بلکہ احکام شریعت کو اپنا رہنما بنانے کی طرف راغب ہوں۔ہماری نظر میں نہ تو اس پنچائت کی ساری تشویشات حق بجانب اور ان کے ارادے درست ہیں اور نہ ان پر ایسی تنقید کی گنجائش ہے جیسی میڈیا میں کی گئی۔کارپوریٹ ملکیت والے میڈیا کا تو کام ہی یہ ہے بات کا بتنگڑ بناکر پیش کریں اور اپنا ٹی آر پی بڑھائیں۔ ساتھ میں اگر اسلام کو بھی بدنام کیا جاسکے تو یہ ان کے لئے دوہری رغبت کا مسالا ہوجاتا ہے۔ لیکن افسوس کی بات ہے خود ہمارے کچھ دانشور اورصحافی اس رو میں بہ جاتے ہیں۔اسارہ کے معاملے میں یہ بات غنیمت ہے ضلع انتظامیہ اور ریاستی حکومت نے سوجھ بوجھ سے کام لیا ہے۔ ہرچند کہ مرکزی وزیر داخلہ نے بہکی بہکی باتیں کی ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے ورلڈ بنک کی امداد اور فکر کی مغرب زدگی ذہنوں کو مسموم کئے ہوئے ہے۔

کچھ اسارہ کے بارے میں
اسارہ مغربی یوپی کا ایک بڑا مسلم اکثریتی گاﺅں ہے جس کی آبادی 16000 سے زاید ہے۔ علم کی روشنی اس دور دراز گاﺅں میں اسوقت پہنچ گئی تھی جب مسلم معاشرے میں جدیدتعلیم کا چرچا نہیں تھا۔ اندازہ لگائے کہ مسلم یونیورسٹی کی بنیاد1920میں پڑی تھی اوراس گاﺅں میں اس کے صرف چار سال بعد 1924میں ایک مسلم کالج قائم ہوگیا تھا ۔یہ الگ بات ہے کہ یہ انٹرکالج اس عرصہ میں ایسی ترقی نہیں کرسکا۔ پچاس سال پہلے جب میں اس کالج میں پڑھتا تھا تقریباً 350طلباءتھے ۔ اب یہ تعداد تقریباً600 ہے۔ یہ ایک کو ایجوکیشن کالج ہے ۔ لیکن مجھے یاد نہیں اس زمانے میں اسارہ کی کوئی مسلم لڑکی اس میںپڑھتی ہو، البتہ آس پاس کے گاﺅں سے غیر مسلم لڑکیاں ضرور آتی تھیں۔ اس تاریخی کالج کے علاوہ گاﺅں کی وسیع و عریض قدیم جامع مسجد میں ایک بڑادینی مدرسہ بھی عرصہ سے چل رہا ہے۔اب کئی دیگر مدارس قائم ہوچکے ہیں۔ آبادی میں اضافہ کے ساتھ مساجد بھی بڑھی ہیں اور نمازیوں کی تعداد بھی قابل لحاظ ہے۔ اگرچہ گاﺅں سے تعلق رکھنے والے افراد خاصی بڑی تعداد میںاعلا تعلیم یافتہ ہیں مگر ان کی اکثریت شہروں میں جا بسی ہے اور گاﺅں میں جو خاندان رہتے ہیں وہ زیادہ تر کاشتکارپیشہ مسلم جاٹ ہیں۔ہرچند کہ نماز، روزہ اور تبلیغ کی خوب چرچا ہے مگر اتنا حوصلہ کسی میں نہیں کہ دور جاہلیت کے ان طور طریقوںاور قدروں کو جوصریحاً شریعت سے متصادم ہیں ،ترک کردیا جائے اور اگر یہ بس کا نہ ہو تو کم سے کم ان کو ترک کردینے والوں پر اعتراض ہی نہ کیا جائے۔

درست فیصلہ
گزشتہ چند دہائیوںمیں سبھی جگہ تعلیم کا غلغلہ بڑھا ہے۔ چنانچہ اسارہ کی بچیاں بھی اسکول جانے لگی ہیں۔برقعہ پردہ تو پہلے بھی نہیں تھا،البتہ خواتین کا لباس ایسا ہوتا تھا جس سے حجاب کی شرعی منشاءپوری ہوجاتی ہے۔ حد یہ ہے کہ چھوٹی بچیوں کا بھی سرکھلا ہوا نہیں رہتا تھا۔ اب نوجوان خواتین اور لڑکیاں بے حجاب بازاروں میں پہنچ جاتی ہیں۔اسکول جانے والی بہت سی لڑکیاں موبائل کا شوق بھی فرماتی ہیں اور ہیڈ فون ان کے کانوں سے لگے رہتے ہیں۔وہ اباحیت جو جدید میڈیا پھیلارہا ہے، خصوصاً الیکٹرانک میڈیا جس کو گھر گھر پہنچا رہا ہے، اس سے دیہات کا ماحول بھی زہر آلود ہورہا ہے۔بعض واقعات ایسے بھی پیش آئے کہ لڑکیاں بہک گئیں اور عشق کے بخار میں اپنے خاندان کی عزت کو خاک میں ملا کر فرار ہو گئیں۔ یہ باتیں نہ تو برداشت کرنے کے لائق ہیں اور نہ ہمارا معاشرہ اس کو قبول کرنے کے لئے آمادہ ہے مغرب زدہ میڈیا لاکھ چلاتا رہے اور وزیر داخلہ صاحب لاکھ بیان دیتے ہیںبین مذہبی عشقیہ شادیوں اور ہم جنس پرستوں کو روکا ٹوکا نہ جائے جائے، مگر کوئی غیرتمند سماج اس فسادی ذہنیت کی تائید نہیں کرسکتا۔اس طرح کی فکر رکھنے والے دانشور جس فلسفہءقانون کو اپنی بائبل تصور کرتے ہیں اس کو ہم مسترد کرتے ہیں۔ چنانچہ اس طرح کی گمراہی کی روک تھام کےلئے جو فکر مندی باشندگان اسارہ نے دکھائی ہے وہ مستحسن ہے۔ جو اقدام احتیاط کے طور پر تجویز کئے گئے ہیں وہ بھی بڑی حد تک حق بجانب ہیں۔ مثلاً کوئی نوجوان خاتون تنہا بازاروں میں گھومتی نہ پھرے اور گھر سے نکلے تو اوڑھنی (چادر) اوڑھ لے تاکہ جسم کے خد وخال ڈھکے رہےں اور حجاب کا تقاضا پورا ہوجائے۔ یہ اقدامات حکیمانہ ہیں ، شریعت کے عین مطابق ہیں اورہماری سماجی اقدار کے بھی مطابق بھی ہیں۔ اس لئے بغیر کوئی شرمندگی محسوس کئے ہوئے ہمیں کہنا چاہئے کہ ان پر اعتراض غلط ہے۔ گواہاٹی میں ایک خاتون کے ساتھ سربازار بیہودگی کا جو واقعہ پیش آیا ہے اس کے بعد قومی کمیشن برائے خواتین کی صدر نشین محترمہ ممتا شرما نے بھی ہماری بہنوں، بیٹیوں اور بہوﺅں کو یہی مشورہ دیا ہے کہ وہ لباس کے معاملے میں احتیاط برتیں۔ دہلی کے ایک اعلا پولیس آفیسر بھی یہ کہہ چکے ہیں خواتین کے ساتھ دست درازی کے معاملات روکنے کےلئے خواتین کومناسب کپڑے پہننے چاہیں۔ اس لئے اسارہ کی پنچائت کے اس مشورے پر ’طالبانی ڈریس کوڈ‘ کی پھبتی کسنا محض مغرب کی ذہنی غلامی ہے۔ وہ نگاہیں یقینا فاسد ہیں جو خواتین کے نیم عریاں جسموں میں اپنے لئے ٹھنڈک تلاش کرتی ہیں۔ہندوستانی روائتی معاشرے میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔

ایک ہی بستی کی شادی
ایک دوسرا مسئلہ اپنی ہی بستی میں یا اپنے ہی خاندان میں شادی کا ہے۔ اس پر اعتراض کا شریعت کی رو سے کوئی جواز نہیں۔ ہمارے لئے سب سے بڑا اسوہ رسول اکرم ﷺ کا ہے جن کی پہلی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت خدیجہ ؓ اوردوسری زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے بارے میں ہر کوئی جانتا ہے وہ مکہ کی باشندہ تھیں اور حضور بھی وہیں کے باشندہ تھے۔ آپنے اپنی سب سے پیاری بیٹی حضرت فاطمہ زہرا ؓ کا نکاح حضرت علیؓ سے کیا جو آپ کے خاندان کے ہی فرد تھے۔ اس لئے اگر کسی کے دل میں اس لئے تردد محسوس ہوتا ہو کہ لڑکا اور لڑکی ایک ہی بستی میں رہتے ہیں یا انکا تعلق ایک ہی خاندان سے ہیں تو اس کو اپنے نظریہ کی اصلاح کرلینی چاہئے۔قرآن نے کھول کر بتادیا ہے ازدواجی رشتہ کہاں کہاں نہیںہوسکتا۔ اس کے علاوہ ہر رشتہ مباح ہے چاہے وہ خاندان کا ہو، اپنی ہی بستی کو ہو، اپنی برادری کا ہو یا غیر برادری کا۔ اس کے علاوہ کفو کی بنیاد ترجیحات کو چھوڑ (جن کے بیان کا یہاں موقع نہیں) کوئی بھی کراہت مناسب نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجاﺅ اور رسول کے اسوہ کا اتباع ہم پر لازم کیا گیا ہے۔ اسارہ کی پنچائت میں ان دو امور میں جو فیصلے کئے ہیں وہ صریحا خداسے بغاوت ہیں ،ان کو یہ کہہ کر ٹالا نہیں جاسکتا کہ یہ ان کا اپنا سماجی مسئلہ ہے۔ سماج اگر صدیوں سے غلط ڈھرے پر چل رہا ہے تو اس سے کراہت کم نہیں ہوجاتی۔اس کو شدت سے مٹانے کی کوشش ہونی چاہئے۔

شادی میں اپنی پسند
ایک نازک مسئلہ پسند سے شادی کا بھی ہے۔ یہ رواج اور اس پر اصرار صریحاً غلط ہے کہ شادی طے کرنے کا حق اور اختیار صرف اہل خاندان کو ہی ہے، لڑکی اور لڑکے کی پسند کی ضرورت نہیں۔ اسلام نے بالغ لڑکی اور لڑکے کو حق دیا ہے کہ نکاح طے کرنے سے پہلے ان کی پسند معلوم کرلی جائے۔ اس سے آگے کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی عاقل بالغ لڑکی کسی ایسے لڑکے کو پسند کرتی ہے جس میںکوئی عیب نہیں ہے تو اس بنا پر ضد پکڑ لینا کہ لڑکی کی پسند ہے، نہیں کریں گے، ہرگز درست رویہ نہیں۔لڑکی کے ورثا کو ٹھنڈ ے دماغ سے لڑکی یا لڑکے کی پسند پر غور کرنا چاہئے اور اگرلڑکی اور لڑکا ہم پلہ ہیں تو شادی کردینی چاہئے۔ اس کی کم از کم دو مثالیں تاریخ اسلام میں موجود ہیں۔ اول توام المومنین حضرت خدیجہ ؓ کی ہی مثال ہے۔ جب ان کا رجحان حضرت محمد کی طرف ہواتو ایک خاتون کے ذریعہ یہ بات حضورﷺ کو پہنچائی گئی۔ آپ نے خوب غور و خوض اور مشورے کے بعد اس کو قبول کرلیا۔ دوسری مثال قرآن کی 28ویں سورہ ’القصص‘ کی آیت 22 تا 28میں بیان ہوئی ہے ،جو دو نبیوں حضرت شعیب ؑ اور حضرت موسیٰ ؑکے اسوہ مبارکہ سے تعلق رکھتی ہے۔حضرت موسیٰ جب فرعون کے چنگل سے بچ کر مدین حضرت شعیب ؑ کے گھر پہنچ گئے تو کچھ دنوں کے بعدحضرت شعیبؑ کی ایک صاحبزادی نے اپنے والد سے عرض کیا کہ ابا جان آپ کو ایسے ہی آدمی کی تلاش تھی اس کو ٹھہر الیجئے۔ حضرت شعیب ؑ اپنی صاحبزادی کی یہ بات سن کر بھڑک نہیں اٹھے بلکہ پیغمبرزادی کی پسند پر سنجیدگی سے غور کیا اور حضرت موسیٰ کو اپنا داماد بنالیا۔(اس واقعہ کی تفصیل قرآن میں ضرورپڑھئے۔) قرآن میںمذکور دو نبیوں کی اورسیرت رسول ﷺکی یہ مثالیں ہماری رہنما ہونی چاہیں نہ کہ فرسودہ نظریات جو دور جاہلیت سے ہمارے ساتھ چلے آتے ہیں۔البتہ پسند کی شادی کا مطلب یہ نہیں کہ لڑکی اور لڑکا چوری چھپے شادی رچالیں اور معروف طریقے کو ترک کرکے دونوں خاندانوں کو خجالت میں مبتلا کردیں۔یا اگر کوئی شادی ایسی ہوگئی ہے تو ان کو گاﺅں سے نکالنے کی دھمکی دی جائے۔ یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ دھمکی دینے والوں کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ملک کا قانون ان کو کہاں تک جانے کی اجازت دیتا ہے؟ بلاوجہ کا ٹکراﺅالٹا اثر ڈالے گا اور اس سے غلط روی کی حوصلہ افزائی ہوگی۔

ہمارا رویہ
ان چیزوں کی طرف ہماری توجہ اسی لئے نہیں جاتی کہ ہمارے درمیان محض حصول ثواب کےلئے کتاب سننے کی رسم پڑ گئی ہے۔ ہرسال رمضان میں ہم قرآن اسی طرح سن لیتے ہیں جس طرح مسجد کے ستون نے سنا اور ہمارے عمل میں رتی بھر اصلاح نہیں ہوتی۔تلاوت کا اجر و ثواب اپنی جگہ ہے۔ مگر قرآن محض تلاوت سے حصول ثواب کےلئے نہیں بلکہ عمل کےلئے نازل ہوا ہے اور عمل اس وقت تک ہو نہیں سکتا جب تک ہم اس کو سمجھ سمجھ کر نہ پڑھیں۔ ہمارے جن جید فاضل علماءنے قرآن کے تراجم کئے ہیں وہ بھی اسی لئے ہیں ہم یہ سمجھ سکیں کہ قرآن ہم سے کیا چاہتا ہے۔

اسلام میں ہجرت کی بڑی فضیلت ہے۔ آج ہماری ہجرت یہ ہے کہ غیر اسلامی نظریات سے ناطہ توڑ کر شریعت کی منشاءکی طرف پلٹیں۔ہجرت میں اسلام کی سربلندی کےلئے کچھ چیزیں جو محبوب ہوتی ہیں چھوڑدینی پڑتی ہیں۔ رَمَضان کا مبارک مہینہ ہم پر سایہ فگن ہے۔ آئیے کہ ہم اس ہجرت کا عزم کریں ، قرآن کی صرف تلاوت ہی نہ کریں، اس کو صرف تراویح میں سن ہی نہ لیں بلکہ اس کو اپنی زندگی میں اتارنے والے روزے رکھیں۔ قرآن میں روزہ کا مقصد یہ بتایا گیا ہے”تاکہ تم میں تقوٰی پیدا ہو“ ، اس تقوا کا تقاضا ہے کہ قرآن کی منشاءکے سامنے ہمارا دل موم ہوجائے ، منشائے الہی اور اسوہ انبیاءکے سامنے ہمارے کندھے اطاعت سے جھک جائیں اور ہمارا نفس کتنا ہی ہم کو کیوں نہ ورغلائے شیطٰن کے چنگل سے خودکو آزاد کرلیں۔ اللہ ہماری مددفرمائے اس ماہ رمضان کریم میں تقوٰی کا لطف حاصل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین۔
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 180584 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.