آخر میں نے سراغ لگا لیا

آج کا موضوع تحریر بے پناہ اذیتوں اور مصیبتوں سے گھرے ہوئے لوگوں کے اردگرد گھومتاہے۔جب اس موضوع کے متعلق میں نے زمینی حقائق جاننے کے لیے آغازِ سفر کیا تو میرا دماغ ایک دفعہ حقیقت کو جان کر سوچنے سمجھنے کے عمل سے بیزار نظر آنے لگا۔جب میں نے فکر کا دائرہ کار اس موضوع پر تنگ کرنے کی کوشش کی تو سوالات میں اضافہ ہوتا چلاگیا اور اس نے وہ رخ اختیار کر لیا جس پر میں اس کا ساتھ کبھی نہ دے پاتا۔جب میں نے قلم سے کچھ پابند کرنے کی کوشش کی تو اس کی نزاکت اور اس سے جُڑی حساسیت نے مجھے تعجب بھرے لہجے میں انکار کردیا۔جب میں نے آنکھوں کو اس موضوع کے حقائق دیکھنے کے لیے آگے بڑھایا تو نہ صرف وہ شرم سے جھک گئیں بلکہ ان سے بہنے والے زارو قطار اور میرے بس سے باہرآنسو مجھے ایسا نہ کرنے کا اندیہ دیتے رہے۔جب زبان نے سے اس کے متعلق کسی سے کُچھ پوچھنے کی گذارش کی تو کلمہ گو اس زبان نے نہ صرف اس عمل میں میرا ساتھ دینے سے انکار کردیا بلکہ میری قوتِ گویائی تک چند لمحے کے لیے چھین کر مجھے خاموش کردیا۔میرے قدم جب اس سے متعلق معلومات کی تلاش میں آگے بڑھانے کے لیے کہے گئے تو انہوں نے معذوری کا اظہار کیا اوراس کے ساتھ میرے قدم لڑکھڑانے لگے۔میرے ہاتھ جب اس عمل کو روکنے کے لیے آگے بڑھائے گئے تو نہ جانے ان میں کیوں رشوت تھمانے کی ناکام کوشش نے ان کو بھی آگے آنے سے منع رکھا۔اب اس موضوع کے متعلق میرا ساتھ دینے والے تمام تر سہارے مجھ سے ٹوٹ کر ایک طرح سے الگ ہوگئے تھے۔اب مقابلہ کرنا کافی مشکل دکھائی دیا مگر اس وقت میرا دل اور میرے شوقِ صحافت جو کہ میرے لیے ایک عبادت سے کم نہ تھا میرے ہمسفر بنے اور اس سفر کا ایک بار پھر آغاز ہوا۔اب کی بار نہ قدم لڑ کھڑائے ،نہ ہاتھ کو رشوت نظر آئی ،نہ سوچوں میں خلل پیدا ہوا۔اور میں آخر کار چند سرکاری ہسپتالوں میں سے ہو آیا ۔اور وہاں کے چند اصول بھی دیکھے۔ہسپتال میں جب کوئی بھی مریض زخمی حالت میں لایا جائے تو اس کو داخل کرنے سے پہلے اس کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے کہ آیا وہ کسی لڑائی جھگڑے کا نشانہ تو نہیں بنااور اگر ایسا ہوا ہوتو اس کے بعد اس کی ایک رپورٹ بنائی جاتی ہے جسے MLCکہتے ہیں۔اس ڈیوٹی پر معمور ڈاکٹر بناتا ہے۔اسکا مقصد مریض کے زخم کی نوعیت کو بیان کرنا اس سے متعلق پولیس کو قانونی معاونت فراہم کرنا۔اس عمل کے لیے پولیس اور ہسپتال انتظامیہ میں کافی ذیادہ روابط رہتے ہیں۔ یہاں تک تو تھیں اصول کی باتیں جس کا پاکستان میں کوئی تصور تک نہ ہے۔اب اگر زمینی حقائق جانے جائیں تو ہسپتالوں میں موجودعملے نے اپنے گروہ بنا رکھے ہیں۔اور جب ایسی حالت میں کوئی مریض آئے اور اگر اس کی حالت اس قابل نہ ہو کہ اس کے زخم سے دوسری پارٹی پر مقدمہ درج ہوسکے تو پھر ہسپتال میں موجود لوگ اپنی مخصوص جگہ پرمریض کو لے جاکر پیسوں کے عوض اس کے زخم کو بڑھا دیتے ہیں۔اس کی قیمت زخموں کی تعداد اور نوعیت کے حساب سے مختص کی جاتی ہے۔انسانوں کے جسم میں غیر قانونی چیڑپھاڑ سے لیکر ان کی انگلیاں توڑنے اور بازو تک توڑنے کی سہولت ےہاں دی جاتی ہے۔اس کے بعد مرحلہ آتا ہے رپورٹ کا جس کے لیے کم ازکم فیس دس سے پندرہ ہزار ہے اوراس کی بالائی حد کوئی بھی مقررنہ ہے۔کھلے عام اس طرح کے دھندے نہ صرف ہسپتال کا عام عملہ بلکہ ڈاکٹر صاحبان بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔اوران کو کوئی بھی روکنے والا نہ ہے جس کی دو وجوہات ہیں سب سے بڑی ےہ کہ اس میں ہسپتال کا اعلیٰ عملہ بھی ملوث ہوتا ہے۔اور اس عمل میں حاصل ہونے والے پیسوں میں پولیس کے لیے خاطر خواہ حصہ بھی رکھا جاتا ہے۔اس عمل سے ذاتی طور پر میں چار گواہوں کی موجودگی میں ایک شخص کو گزرتے دیکھ چُکا ہوں ۔مگر کوئی پُرسان حال نہ ہے۔ذمہ داران کو اس سے متعلق آگاہ کرنے کی بے حد کوشش کی مگر تاحال اس میں کامیابی نصیب نہ ہوئی۔مگر اب کی بار میری سوچ میں خاصہ فرق آگیا ہے۔ اب کی بار میرے رویہ اور ان کے متعلق میرے تمام تر خیالات تبدیل ہوگئے تھے۔میرا مسیحا پر اعتماد اُٹھ گیا تھا۔مجھے ان سے گھن آنے لگی۔وہ ہمارے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے ہمارے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کر رہے ہیں۔جس سے نہ صرف عوام میں لڑائی جھگڑوں کے رُجحان میں اضافہ ہوتا ہے ساتھ ہی ساتھ حکومتی عہدیداروں سے اعتماد بھی اُٹھ رہا ہے۔جسے اگر جلد از جلد نہ روکا گیا تو اس سے حاصل ہونے والے نتائج شاید ہمارے لمحوں کی سزا میں ہماری صدیوں میں کو سزاوار قرار دے دیں۔اب کی بار اسے نہ روکا گیا تو اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جاسکتاہے کہ مقامی حکومت کے ساتھ ساتھ صوبائی اور وفاقی حکومت بھی ایسے کاموں اور ایسے لوگوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
Zia Ullah Khan
About the Author: Zia Ullah Khan Read More Articles by Zia Ullah Khan: 54 Articles with 51500 views https://www.facebook.com/ziaeqalam1
[email protected]
www.twitter.com/ziaeqalam
www.instagram.com/ziaeqalam
ziaeqalam.blogspot.com
.. View More