رمضان ایک مقدس مہینہ ہے۔ اس میں
قرآن پاک نازل ہوا۔ اس ماہ ِ مقدس میں اللہ سے ڈرنے والے دن میں روزہ،
تلاوت اور راتوں کوقیام کے ذریعہءاللہ پاک کی رحمتوں کو سمیٹتے ہیں۔ کیونکہ
یہ مہینہ گناہوں کی بخشش اور مغفرت طلب کرنے کا ہے۔ حضرت ابن ِ مسعودؓ ایک
روایت ہے کہ رمضان کی ہررات میں ایک منادی پکارتا ہے کہ اے خیر کے تلاش
کرنے والے متوجہ ہواور آگے بڑھ اوراے برائی کے طلب گاربس کر اور آنکھیں
کھول۔ اس کے بعد وہ فرشتہ کہتا ہے کوئی مغفرت کا چاہنے والا ہے کہ اس مغفرت
کی جائے کوئی توبہ کرنے والا ہے کہ اس کی توبہ قبول کی جائے،کوئی دعا کرنے
والا ہے کہ اس کی دعا قبول کی جائے، کوئی مانگنے والا ہے کہ اس کا سوال
پورا کیا جائے۔
دُنیا بھر میں رمضان کریم کے موقع پر خصوصی آفرز، خصوصی ڈسکاﺅنٹ کا اہتمام
کیا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں سب کچھ اُلٹ ہوتا ہے۔ رمضان کریم کی آمد سے
کچھ روز قبل پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ کی صورت میں عوام کوتحفہ دیا۔ تو
دوسری طرف زیادہ سے زیادہ منافع کے چکر میں اشیاءضرورت کی مصنوعی قلت پیدا
کردی گئی ہے۔کیونکہ تاجرسمجھتا ہے کہ یہی تو ایک مہینہ ہے سال بھر کی کمائی
کا۔ روزہ اپنی جگہ، بزنس اپنی جگہ، ہم سمجھتے ہیں کہ آدمی کاروبار کرتا ہے
تو اس کا مقصد نفع کمانا ہوتا ہے۔ تجارت میں دین کا کیا کام؟کامیاب تاجرتو
وہ ہے جوکم تولے، کم ناپے، قسم کھاکے بولے کہ چیزخالص ہے۔جی بھر کے ملاوٹ
کرے اور زیادہ سے زیادہ کمائے۔بیج ،اناج ،دودھ، گھی، آٹا، مرچ، مصالحہ ہرشے
میں ملاوٹ ،لیکن ملاوٹ کرنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ آخر اس کا اثرکیا
ہوگا۔
گھی میں ملاوٹ خریدنے والا مرتا ہے تو مرے اسے توصرف اور صرف نفع سے غرض
ہے۔ دودھ میں پانی اور ظالم انسان پانی بھی گندا ملاتے ہیں کہ دودھ کا
بھاری پن باقی رہے۔ گندے پانی میں جراثیم ہوںتوکیا؟چھوٹے چھوٹے دودھ پینے
والے بچے گندے پانی والا دودھ پینے سے بیمار ہوں یا مرجائیںدووھ بیچنے والے
کو توپیسوں سے غرض ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ رحم ، ہمدردی، شرافت، اخلاقی ذمہ
داری کا کسی شعبہ زندگی میں نام ونشا ن تک باقی نہیں رہا۔
ہم سب چور، ڈاکو سے لیکرحکمرانوں،سیاست دانوں کوتوبدکردار ، ظالم، سفاک
کہتے اور سمجھتے ہیں لیکن چوربازار، ملاوٹ کرنے والے اور ذخیرہ اندوز کے
بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ ناجائز منافع خورکوہماری سوسائٹی اور معاشرہ
کیاکہتا ہے ؟ دودھ میں پانی ملانے والے بے رحم گوالے کو آپ کیاسمجھتے ہیں؟
انجیکشنوں اور دواﺅں میں ملاوٹ کرنے والے بے درد، بے رحم،سفاک کے بارے میں
کیا خیال ہے؟ ممکن ہے ہم زبانی کلامی برا بھلا کہہ دیں۔ لیکن کیا ہم اُسے
سماج دُشمن سمجھتے ہیں؟ اگر ایسا سمجھتے ہیں تو ایسے افراد کو دوست بنانے
میں فخرکیوں محسوس کرتے ہیں، اگر یہی منافع خور افطاری کی دعوت دے تو کیوں
دوڑے چلے جاتے ہیں۔کیونکہ ! ہم دل سے ان کے معترف ہیں اور ہم سب کسی نہ کسی
طرح اس دھوکے اور فریب کے سلسلہ کا حصہ اور شراکت دار ہیں۔
دودھ والا، سبزی،پھل،مرچ مصالحہ،کریانہ، دھوبی،درزی،اسی طرح دوابنانے
اوربیچنے، قصاب،سرکاری ملازم،اہل غرض کو دھوکہ دینے اور لوٹنے میں لگے
ہیں۔نہ دودھ دینے والا گندا پانی ملا کر شرمندہ، نہ آٹے میں ملاوٹ کرنے
والاشرمندہ، نہ دوائیںبنانے والااور نہ ہی مرچوں میں ملاوٹ کرنے والے کو
پرواہ۔ اس طرح ہم سب اخلاقی پستی کے شکار ہوچکے ہیں۔ دھوکے فریب کا ایک
سلسلہ ہے جومسلسل اور مستقل ہے ۔
ہرکوئی معیار ِ زندگی بلندکرنے کے چکر میں ہے چاہے یہی معیار جہنم میں لے
جائے۔کوئی معاشرہ، ملک اُس وقت تک ترقی اور کامیابی حاصل نہیں کرسکتاجب تک
اخلاقی معیار بہتر نہ ہو۔ جب اخلاقی معیار بہتر ہوگا تو خوشحالی ہوگی اور
معاشرے کی اصلاح بھی ممکن ہوگی۔جب معاشرے کا ہر فردچھوٹا ،بڑا ایک دوسرے کو
لوٹنے میں لگے ہوںتو اصلاح کیسے ممکن ہے۔صرف کہنے کی حد تک ہم اسلامی اقدار
اور اسلامی معاشرے کے خواہش مندہیں ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اپنی اصلاح کے
بارے میں سوچنے سے بھی گھبراتے ہیں۔ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ نے تو ہمیں
صاف بتا دیا ہے کہ کم تولنے، کم ناپنے والے جھوٹی قسمیں کھا کے مال بیچنے
والے، ذخیرہ اندوزی کرنے والے،چوربازاری اور ملاوٹ کرنے والے قیامت کے دن
بڑی سخت پکڑ میں ہوں گے۔
سنن ابن ماجہ میں ہے ۔ غلے کو مہنگا بیچنے کے لئے ذخیرہ کرنے والا لعنتی
ہے۔ ارشاد ِ نبوی ﷺ کامفہوم ہے۔ جواپنے جسم کی پرورش حرام مال سے کرتا ہے۔
یعنی ناجائز آمدنی کے ذریعے وہ ضرور سزا پائے گا۔ جو لوگ ذخیرہ اندوزی کرتے
ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم چالاکی سے روپیہ کما رہے ہیں۔ لیکن یہ نہیں
سمجھتے کہ آخر یہ چالاکی کس سے
ہورہی ہے اللہ سے۔ اللہ تو ہر طرح کی چال چلنے والوں کو خوب جانتا ہے۔جامع
ترمذی میں حضرت رفاعہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا۔جس کامفہوم
کچھ یوں ہے۔ تاجرقیامت کے دن بدکار اُٹھائے جائیں گے۔ کون سے تاجر؟ مصنوعی
قلت پیدا کرنے والے، ملاوٹ کرنے والے، زیادہ نفع لینے والے۔
حضرت انسؓ بن مالک روایت کرتے ہیں آنحضرت ﷺ نے فرمایاحلال روزی کمانا
ہرمسلمان پر واجب ہے۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓروایت کرتے ہیںآنحضرتﷺ نے
فرمایا ، حلال روزی کمانے کے لئے محنت کرنا نماز کے بعد سب سے بڑا فریضہ
ہے۔ آج بھی اللہ کے کچھ بندے ضرور ہوں گے جودیانت داری سے کاروبار کرتے ہوں
گے لیکن کون جانے اُن کی تعداد کتنی ہے۔
سوداگروں، تاجروں،آڑھتیوں اور بیوپاریوں کی بڑی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ ان کا
بڑا سخت حساب ہوگا۔ ضروری نہیں کہ صرف آخرت میں پکڑ ہو۔ جھوٹے اور چور تاجر
دُنیامیں بھی اطمینان قلب سے محروم،روگ، بیماریاں، گھر والے بری عادتوں کے
شکار ہوجاتے ہیں۔قانون ِ قدرت کسی نہ کسی طرح اعمال ِ بد کی سزا دیتی ہے۔
ایسے لوگ کبھی دل کا چین اور زندگی کی راحت نہیں پاتے۔ ابن عساکر نے لکھا
ہے۔ حضرت عبداللہؓنے ارشاد نبوی ﷺ سنایاکہ۔۔۔جس تاجرنے ایک رات بھی یہ تمنا
کی کہ مال مہنگا ہوجائے اور اس خیال سے اسے روک رکھا تو اللہ تعالیٰ اس کے
چالیس سال تک کے نیک اعمال ضائع کردے گا۔
وہ مایوس تمنا کیوں نہ ہوئے آسماں دیکھے۔۔۔کہ جومنزل بمنزل اپنی محنت
رائیگاں دیکھے |