محمد ﷺ کی محبت دین حق کی شرط اول ہے

پو ری کا ئنات میں رب ذو الجلال کے بعد کو ئی ہستی عظمتو ں اور فضیلتو ں کا حوالہ ہے تو وہ آپ ﷺ کی ذات بابرکات ہے ۔ خالق نے یہ کا ئنات اپنے پیا رے محبوب حضرت محمد ﷺ کی بدولت تعمیر کی ہے ۔ اس دنیا کا نظام یہ چہل پہل یہ ہجر و شجر یہ ریگستان و آبشار یہ چر ند پر ند یہ قا عدہ قانو ن یہ مراعات و اقتدار یہ مو ت و حیات غر ض کہ ہر شے اللہ رب العزت نے اپنے محبوب کی محبت اورصدقے سے ہمیں عطا کی ہیں
انسا ن کا دنیا میں وجو د اور اشر ف المخلو قات ہو نے کا سبب رحمت الا العالمین کے وسیلہ سے نصیب ہوا ہے ۔ اسلامی نظر یات اور عقائد میں اقتدار اعلیٰ کا تصور اور منبع و حدہ ہو لا شر یک ذات ہے جس کے قبضہ قدرت میں ہماری جان ہے۔ اسلامی جمہو ریہ سلطنت میں معا شرتی بنیا دیں اور تقا ضے عین اس وقت پو رے ہو تے ہیں کہ جب اپنی خوا ہشتا ت اور منشاءکو خا لق کے احکامات اور وضح کردہ اصو لو ں کے مطابق کر دیے جا ئیں ۔ اسلام کے لغوی معنی مقید کر نا یعنی اپنے آپ کو پیش کر دینا ہیں اس نظریہ اور تشر یح کے تحت مسلمان کی تعریف اس و قت پا ئیہ تکمیل کو پہنچتی ہے جب اس کا اوڑھنا بچھو نا ، کھا نا پینا ، جا گنا سونا ، ہنسنا رونا ، اٹھنا بیٹھنا ، جینا مرنا سب اس کے خا لق کی تا بع خو شنودی اور زیر سا ئیہ پروان چڑھتا ہے ۔ یعنی کہ مکمل طو ر پر ایک مسلما ن مو من ایسے تمام اعمال کی طرف قائل ہو تا ہے جو اس پر اس کے رب نے لاگو کر دئیے ہیں۔ وہ ان با تو ں کی پیروی ضروری سمجھتا ہے جو خا لق نے اس پر نا فذ کر دی ہیں ۔ان اصولو ں اور قوانین کا با غی بنتا ہے جن سے اس کے مالک نے منع فرما دیا ہے ۔آج کو ئی اپنی مر ضی سے آسا نی کے لیے دین کا نصا ب تبدیل کر نا چا ہے یا رب ذوالجلال کے بنائے ہو ئے قا نو ن اور قاعدہ کو تبدیل یا اس سے ٹکرانے کی کو شش کر ے تو وہ بے ایمان اور دائرہ اسلام سے خا رج ہے اور مومن کہلو انے کے بھی لا ئق نہیں ۔اسلا می جمہو ریہ پا کستان جو پو ری دنیا میں ایک اسلامی قلعہ کی حثیت رکھتا ہے ایک اسلامی سٹیٹ اور منفرد و معتبر مقام رکھنے کے با وجو د ہماری بد قسمتی ہے کہ یہا ں پر طبقوں اور عہد وں کی تقسیم کے ساتھ ساتھ دور جد ید میں مذ ہب کو بھی تقسیم کر دیا گیا ہے اور ایک مخصو ص لابی سے وا بستہ رکھ کر مذ ہبی اقدار اور شا ئر اسلامی کا تشخص پا مال کیا جا رہا ہے ۔ملک میں کوئی فو جی آمر کی حکو مت ہو یا نام نہاد سیا سی لیڈر سیا ست اور شر یعیت کو جدا جدا پیش کیا جا تا ہے ۔ نا صرف وطن عزیز میں سیا سی بنیا دیں فنا ہو رہی ہیں بلکہ اسلا ف کی سو چ اور طر یقہ کار سے بھی رو گردانی برتی جا رہی ہے مسلسل اس عمل کی باز گشت ہمارے ایوانوں میں بد امنی اور تبا ہی کی فضا ءپیدا کر رہی ہے ۔اسلا می جمہو ریہ پا کستان میں امراءاور مخصو ص طبقہ کے سیا سی اور حکمران لا بی کے احباب دین سے وابستگی اور تعلق کو بھی اپنی تو ہین سمجھتے ہیں۔جو مذ ہب سے زیا دہ دور ،بیذار اور روشن خیال طبقہ ہے اسے زیا دہ معتبر اور قابل اعتما د سمجھا جا تا ہے ۔ ایسی خو ش فہمیو ں کی بد ولت معا شرے میں بد عملی اور نحو ستیں پھیلتی چلی جا رہی ہیں اسلامی ریاست کا تشخص اور مسلما نیت کا و جو د خطر ے میں دکھا ئی دینے لگا ہے ۔ اسلامی ریا ست میں شر یعیت اور قرآن و حد یث کا قا نو ن زیا دہ معتبر اور مقرب سمجھا جا تا ہے جو ہما رے ملک میں زوال کا شکار ہے ۔ آج نام نہاد تر قی پسندی اور روشن خیالی کا بہکا وا دے کر بین الا قوامی دنیا سے اپنے را بطے مضبوط اور ان کی خو شنودی و داد کے حصول کے لیے قرآن و حد یث اور قا نو ن شریعیت کا مزاق اڑا یا جا رہا ہے ۔ اقتدار کے حصول کا معیار ہی اپنے مغر بی آقا ﺅ ں اور سپر طا قتو ں کی گڈ بک میں شمولیت سے منصو ب ہے ۔ امور دینیہ سے دوری کا حامل لیڈر اور آمر ہی اس ملک کا حکمران بن سکتا ہے ۔ ہما رے مو جو دہ حکمرانو ں کی نا اہلی اور عدل و انصاف کی عدم مو جو دگی کی و جہ سے ہما رے ملک میں ایک ایسا اہم واقع رونما ہوا ہے جس پر سیا سی حلقو ں اور حکمرانو ں کی پر اسرار خا مو شی اور عدم د لچسپی ایک نا گہا نی صورت حال کا پیش خیمہ دکھا ئی دیتی ہے۔ کفر و شرک سے جڑ ی ہو ئی خفیہ طا قتو ں کے خوف اور دبا ﺅ کی وجہ سے اس مسئلہ کو اجا گر ہو نے سے روکا جا رہا ہے ۔ سیا لکو ٹ میں محض دو بھا ئیو ں کے قتل کو پو ری دنیا میں شہرت حا صل ہو جا تی ہے جبکہ دوسری جا نب ایک گستاخ رسول اور تو ہین رسالت کے مر تکب گورنر پنجاب سلیمان تا ثیر کے قتل پر یک طرفہ خا مو شی کہا ں کا انصاف ہے ۔ جماعت اہلسنت ، جماعت اسلامی ، سنی تحریک ، تحفظ نا موس رسالت محا ظ اور تمام مذ ہبی تنظیمیں اپنے مذ ہبی فر یضہ کے تحت اس معاملہ کو سرفہرست کر نے کی کو شش کر رہی ہےں اور اس حوالہ سے عوامی ردعمل بھی خا صہ ابھر کر سامنے آیا ہے لیکن خدا جا نے کو ن سی طا غوتی اور سہونی طا قتیں اس مقصد کے پیچھے کا ر فرما ہےں کو ن سے سیا سی اور ذا تی مفا دات کی وجہ سے اس معاملہ کو اوپن نہیں ہو نے دیا جا رہا ہے ۔ ایسی خطر ناک صو رتحال میں ملکی میڈ یا یعنی با الخصو ص الیکڑ انک اور پر نٹ میڈ یا کا غیر جا نبدار کردار بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔گذ شتہ ادوار میں اکثر و بیشتر گستا خ رسول اور تو ہین رسالت کے مر تکب افراد کو مغر بی آقا ﺅ ں اور حکمرانو ں کو خو ش کر نے کے لیے یو رپ امریکہ اور یہو دی لابی کے سپرد کر دیا جا تا تھا ۔ خو ش قسمتی سے ایک اہم پیش رفت ملعو ن آسیہ مسیح کی تو ہین رسالت پر پکڑ اور پھر موت کی سزا کے بعد پا کستانی عدالت کے حکم کے با وجود گورنر سلیمان تا ثیر اور شیری رحمان کی اس سے وابستگی اور ہمدردی کا اظہار عا شقا ن رسول ﷺ کے جذ بات اور احسا سات پر نمک پا شی کے مترادف تھا ۔ نا موس رسالت کے قا نو ن میں لچک کی بحث اور اسے کالے قا نو ن سے تعبیر کر نے کی پا داش میں گورنر کو اپنی جان سے ہا تھ دھونا پڑے ۔ تحفظ نا موس رسالت کا قا نو ن 295 C حقیقی معنو ں میں انبیاءؑ اور رسول ﷺ کی عظمت اور فضیلت کی اساس ہے ۔ جسے رد کرنا یا برا بھلا کہنا تمام پیغمبروں ؑ کی نا فرما نی اور انکار ہے جس کی سزا صرف اور صرف موت ہے ۔ حکمرا نو ں کی ہٹ دھرمی اور اس معاملہ میں عد م دلچسپی کی وجہ سے مجا ہد اہلسنت غا زی ممتاز حسین قا دری نے گو رنر کو و اصل جہنم کر دیا ۔ اور شرق و غرب میںپو ری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ کو ئی صدر ہو یا وزیر اعظم کوئی گو رنر ہو یا و زیر اعلیٰ ہمارا ایمان اجازت نہےں دیتا کہ وہ حضور اکرم نور مجسم ﷺ کی شان میں گستا خی کی جرات بھی کرے ۔
محمد ﷺ ہے متاع عالم ایجاد سے پیارا
پدر ، مادر ، برادر ، جاں، اولاد سے پیارا

آپ ﷺ کے دور سے لیکر صحا بہ کرام ؓ اور مسلمان سپہ سالاروں نے حر مت رسول ﷺ پر پورا پہرہ دیا ہے اور اپنی محبت اور وابستگی کاحق ادا کیا بر صغیر پا ک و ہند میں ہندو راجپال گستا خ رسول، غا زی علم الدین شہید ؒ کے ہا تھو ں واصل جہنم ہوا ، پا لا چل سنار غا زی محمد صدیق کے ہا تھو ں ، سردار ویدا سنگھ غا زی احمد دین کے ہا تھو ں ، چنچل سنگھ غا زی محمد عبداللہ کے ہا تھو ں ، نتھو رام غا زی عبدالقیوم کے ہا تھو ں اور سلیمان تا ثیر غا زی ممتاز قادری کے ہا تھو ں جنہیں راولپنڈی انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت نے مو ت کی سزا سنا دی ہے ۔3 بے گناہ مسلمانو ں کے قاتل ریمنڈ ڈیو س کو رات و رات امریکی غنڈوں کے ہا تھو ں فر وخت کیا گیا جبکہ ایک عا شق صا دق کو دو بار موت کی سزا سنانا کہا ں کا انصا ف ہے۔
اقبال ؒ فرماتے ہیں
وہ دا نا ئے سبل ختم رسل مو لائے کل جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآن ، وہی فرقاں ، وہی یسیٰن وہی طحہٰ

تحر یک طالبان اور دہشتگردوں کی حو صلہ افزائی سے غا زی ممتاز قادری کی رہا ئی منسوب کرنے والے ذرا ہوش کے ناخن لیں اور اپنے قبلے درست کریں عسکریت پسندی ، انتہا پسندی اور بنیاد پر ستی کو عا شقان رسول ﷺ پر تھو پنا انسانیت کی بد ترین تو ہین ہے ۔ اما م الا نبیاءاور رحمت العا لمین کی شا ن میں گستا خی اور ان کے مجرمو ں کے ساتھ ہمدردی ایک بہت بڑا جرم اور شر یعیت کے منافی عمل ہے جس کی سزا دنیا یا آخرت میں لازمی ہے ۔ دین پر بحث آسان کام نہیں ہے یہ عمل ان لوگو ں کو زیب دیتا ہے جو اس کے رمو ز و اوقاف کا علم رکھنے والے لوگ ہیں ۔ جن کو اپنے روزہ مرہ معمولات کے حو الے سے خبر نہیں ہو تی ان سے دین کے حوالہ سے فتویٰ مانگنا کہا ں کی عقل مندی ہے ۔ شر یعیت کا فیصلہ ان علماءدین اور مفتیان سے لینا چا ہیے جنہو ں نے کئی سال علوم دینیہ کے حصول کے لیے نہ صرف وقف کیے ہیں بلکہ اس پر مکمل دستر س بھی حا صل کی ہے ۔ نام نہاد روشن خیال اور مغرب کے پا لتو ں سکالرز اور دانشورجب دین کے معاملہ میں بحث کر تے ہیں تو بڑا معیوب لگتا ہے ۔ ہمارے وطن عزیز میں مختلف شعبو ں کے حوالہ سے اس بات کا خا صہ فقدان رہا ہے کہ یہا ں پر جس شعبہ سے متعلقہ فرد ہو تا ہے اسے اس کے مخا لف قلمدان سونپا جا تا ہے ۔ جو ہماری تباہی و بربادی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ تما م شعبہ جات کو تقسیم کر تے وقت ان با تو ں کو مد نظر رکھا جا ئے کہ جس ذمہ دار کو یہ عہدہ دیا جا رہا ہے یا اس پر بحث کے لےے چنا ﺅ کیا جارہا ہے اس کا اس پر عبور کتنا ہے ۔ اور وہ کس حد تک اس کا علم رکھتا ہے ۔ ہمارے ملک میں بے شما ر مسا ئل محض اس مسئلہ کی بدولت پیدا ہو تے ہیں ۔ایک ایسے شخص کو نگران یا ترجمان بنایا جا تا ہے جو کم اہلیت اور کم علم کا مالک ہو تا ہے ۔ چا ہے کشمیر کا مسئلہ ہو یا لو ڈ شیڈنگ ، پیٹرول کا مسئلہ ہو یا سیا سی و معاشی بحران، خا رجہ پا لیسی ہو یا دفاع وطن ، لاءاینڈ آرڈر کا مسئلہ ہو یا حکومت و اقتدار ایسے لو گو ں کو سونپاجا تاہے جو اپنی کم عقلی اور لا علمی کی وجہ سے نقصان پہنچا تے ہیں اور پھر دین جیسے اہم معاملہ میں غور فکر کون کرے گا کون شان رسالت کی تعلیم عام کرے گا اور کون امور دینیہ کی تبلیغ و تر ویج کے لیے نمایاں خدمات سرانجام دے گا۔
اللہ سے کر ے دور ، تو تعلیم بھی فتنہ
املا ک بھی اولا د بھی جا گیر بھی فتنہ
نا حق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ
S M IRFAN TAHIR
About the Author: S M IRFAN TAHIR Read More Articles by S M IRFAN TAHIR: 120 Articles with 106185 views Columnist / Journalist
Bureau Chief Monthly Sahara Times
Copenhagen
In charge Special Assignments
Daily Naya Bol Lahore Gujranwala
.. View More