از قلم:حافظ وقاری مولانا محمد
شاکر علی نوری صاحب(امیر سنی دعوت اسلامی)ممبئی،انڈیا
آج اگر پوری دنیا کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات نظر آئے گی کہ ہر انسان
ڈپریشن کی بیماری میں مبتلا ہے، بے چین ہے، کسی انسان کے دل کو کہیں سکون
نہیں۔ اپنے ملک کو چھوڑ کر لوگ دیگر ممالک کا سفر کرتے اور یہ سوچتے ہیں کہ
جب دولت کی ریل پیل ہوگی اور آسائش کے سارے سامان مہیا ہوں گے تو ہم زندگی
کے سارے غم بھول جائیں گے اور چین کی دولت ہمیں مل جائے گی لیکن ہم دیکھتے
ہیں کہ اس دولت سے وہ غربت اچھی تھی کہ چٹائی پر چین کی نیند تو آتی تھی۔
ان کی کیفیت تو یہ ہے کہ مال تو آگیا، محل تو مل گئے اور عیش و عشرت کے
سارے سامان تو مل گئے لیکن قلب ویران ہو گیا، دل کا سکون چھن گیااور
اطمینان کی دولت گھروں سے رخصت ہو گئی۔ آخر سب چیزوں کے ملنے کے بعد یہ چین
کہاں چلا گیا؟ اس اطمینان کی دولت سے محرومی کیوں میسر آگئی؟اس بات کو ذہن
نشیں کر لیں کہ مادی چیزوں سے سکون نہیں ملتا سکون تو اللہ اور اس کے رسول
صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت سے ملا کرتا ہے۔ وہ لوگ جو اس وقت برائیوں کے
مراکز پر ہوں گے، ان کی روح بھٹک رہی ہوگی، ان کا قلب مضطرب ہوگااور ان کی
طبیعت میں اضمحلال ہوگا لیکن وہ لوگ جو اس وقت ذکرِ الٰہی اور ذکرِ رسول
میں مشغول ہوں گے وہ تو یہ سوچتے ہوں گے کہ اگر اس عالم میں موت بھی آگئی
تو ایسی موت کا ہم استقبال کرتے ہیں اس لےے کہ گناہوں میں سکون کا متلاشی
انسان کبھی سکون نہیں پا سکتا۔
آج سوسائڈ (Suicide) کرنے والوں،خود سوزی کرنے والوں اور دنیا کی الجھنوں
سے پریشان ہو کر اپنی جان دینے والوں کی تعداد غریبوں سے زیادہ سرمایہ
داروں کی ہے کیوں کہ جب خطِ افلاس پر زندگی گزارنے والا انسان بے چین اور
بے قرار ہو جاتا ہے تو مسجد میں حاضر ہو کر، دینی مراکز پر حاضر ہو کر،
صلحا کی بارگاہوں میں حاضر ہو کر، اولےائے کرام کی بارگاہوں میں حاضر ہو کر
اور اللہ اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر کر کے سکون و
اطمینان کی دولت حاصل کر لیتا ہے لیکن سرمایہ دار طبقہ جب بے قرار ہوتا ہے
تو اللہ کی نافرمانی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کے کاموں
میں اپنے لیے سکون تلاش کرتا ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ جن کاموں میں اللہ
اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی ناراضگی ہے ان میں بندوں کو
کبھی سکون کی دولت میسر نہیں آ سکتی آخر کار وہ چاروں جانب سے محروم ہوکر
خود کشی پر مجبور ہوجاتاہے۔
ہمیں اس بات پر غور کرنا ہے کہ انسان بے چین کیوں ہے؟ہم حضور رحمت عالم صلی
اللہ علیہ و سلم کی بعثت مبارکہ سے پہلے کے دور کا جائزہ لیں اس دور کے لوگ
بھی بے چینی اور بے قراری کے شکار تھے وہ بھی تڑپتے تھے وہ بھی بلکتے تھے
لیکن میرے آقا صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے تو سکون کی ایسی دولت عطا
فرما دی کہ وہ تخت پر ہوتے تب بھی مطمئن رہتے اوربوسےدہ جھوپڑی مےںہوتے تب
بھی ان کے چہرے پرطمانےت قلبی کے خوش نما آثارنظرآتے۔اس سے پتہ چلا کہ بے
قرار وہ ہوتا ہے جو اللہ عزوجل اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ
و سلم کی اطاعت و فرماں برداری نہیں کرتا۔
ڈپریشن (Depression) اور اپنی اضطرابی کیفیت سے کنارہ کشی کے لیے ہمیں نہ
ڈرگس (Drugs)کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے، نہ مووی (Movie) کی طرف، نہ فلم
بینی کی طرف اور نہ ہی عیاشیوں کے اڈوں کی طرف۔ آجاﺅ اپنے رب کی طرف اور
اپنے رسول کی طرف، یہیں سے تمہیں سکون کی دولت ملے گی۔سوال ےہ پےداہوتا ہے
کہ آج جس کے پاس اسلام کی دولت نہیں ہے وہ تو بے چین ہے ہی لیکن مسلمان
کیوں بے چین ہے؟ مسلمان اس لےے بے چین ہے کہ اس نے بھی بے چین لوگوں کا
طریقہ اختیار کر لیا ہے۔ اگر مسلمان ان کے طریقے کی بجائے نبی کے طریقے کو
اپناتا تو زندگی کے کسی مرحلے میں بے چین نہ ہوتا۔ آج ضرورت اس بات کی ہے
کہ ہمارے دلوں میں حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم سے والہانہ
محبت پیدا ہو جائے ۔ اگر ہم نے یہ تہیہ کر لیا اور فرامین رسول کے مطابق
اپنی زندگی گزارنے لگے تو ہمیں سکون و اطمینان کی دولت تلاش کرنے کی ضرورت
نہیں پڑے گی بلکہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں گے اللہ عزوجل ہمیں طمانیت ِقلب اور
راحت ِدل عطا فرمائے گا۔ |