رواں ہفتے سوات میں حکومت اور
مقامی طالبان کے درمیان ہونے والا نظام عدل معاہدہ سوات کے حالات کے تناظر میں
ایک بہت ہی اچھی پیش رفت ہے۔ اگر دونوں فریقن اس پر عمل کریں گے تو اس شورش زدہ
خطے میں امن قائم ہوجائے گا۔ البتہ ایک بات بہت تشویش ناک ہے کہ جس طرح حکومت
نے اپنے دوسرے وعدے (پورے) کیے ہیں کہیں اس کو سابقہ وعدوں کی طرح (پورا) نہ
کیا جائے اور اطلاعات کچھ ایسی ہی ہیں کیوں کہ ابھی اس معاہدے پر لوگوں نے ٹھیک
سے خوشیاں بھی نہ منائی تھیں کہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات محترمہ شیری رحمٰن
صاحبہ نے کہہ دیا کہ نظام عدل معاہدے پر صدر زرداری امن قائم ہونے کے بعد دستخط
کریں گے۔ بہرحال ہمیں اللہ سے اچھی امید رکھنی چاہیے کہ اس دفعہ ایسا نہیں ہوگا۔
اور حکومت واقعی سنجیدگی سے سوات میں قیام امن کے لیے کوشش کرے گی۔
اس معاہدے کا نام یعنی نظام عدل معاہدہ بہت ہی معنی خیز ہے۔اور نظام عدل کا
مطلب یہ ہے کہ حکومت نے با قاعدہ طور پر یہ تسلیم کرلیا کہ سوات میں عادلانہ
نظام نافذ نہیں تھا۔ سوات تو ایک جلتا ہوا انگارہ بن چکا تھا اس لیے اس کا
معاملہ پوری دنیا کی نظر میں آگیا ۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو کیا ہم کہہ سکتے
ہیں کہ ہمارے معاشرے میں عادلانہ نظام رائج ہے؟ ہم نے اپنے گزشتہ کالم (مغرب
اسلام سے خوفزدہ کیوں؟) میں اسی موضوع پر بات کی تھی۔
سوات کی حسین وادی انگارہ کیوں بنی؟ اس سوال کے جواب سے پہلے ہم تھوڑا سے تاریخ
سے رہنمائی لیں گے۔ اور تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ دنیا میں جب بھی کسی سسٹم کے
خلاف بغاوت ہوئی ہے،عجب بھی کوئی انقلاب آیا ہے۔ اس کے پیچھے مقتدر طبقے کی
عیاشیاں،عوام کے ساتھ ناانصافی اور ظلم کے عوامل کار فرما تھے۔ سب سے پہلے ہم
تھوڑا سے زیادہ پیچھے جاتے ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت پر پہلے ایمان
لانے والے اس معاشرے کےامراء اور فرعون کے درباری سرکاری لوگ نہ تھے، بلکہ ان
کی قوم کے غریب نادار، ظلم کی چکی میں پسے ہوئے افراد تھے اور ان کو جیسے ہی
ایک ایسی آواز سنائی دی جس میں اس ظلم کے خاتمے کی نوید تھی جیسے ہی ایک ایسی
روشنی دکھائی دی جس میں امید کی کرن اور ظلم کی اندھیری رات کا اختتام تھا تو
ان لوگوں نے آگے بڑھ کر اس آواز پر لبیک کہا۔ آئیے تھوڑا سے آگے آتے ہیں۔ نبی
مہربان حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پر سب سے پہلے لبیک
کہنے والے، سابقون الاولون، مکے کے بڑے بڑے رئیس نہ تھے بلکہ وہ غلام، وہ پسے
ہوئے لوگ تھے کہ جن کو معاشرہ حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا۔اور بڑے بڑے رئیسوں
نے ظلم و استحصال کا ایک نظام قائم کیا ہوا تھا۔ اس معاشرے میں بھی جب ایک حق
کی آواز بلند ہوئی تو اونچے محلوں میں رہنے والوں نے اس کی طرف کوئی دھیان نہ
دیا اس کے برعکس معاشرے کے بظاہر ان چھوٹے لوگوں نے سب سے پہلے دعوت حق پر لبیک
کہا۔ اور اسلام کی راہ میں پہلا خون ایک خاتون حضرت سمیہ رضی اللہ عنہما کا بہا
جو کہ ایک غلام خاندان کی فرد تھیں، ذرا ماضی قریب کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں
تو انقلاب ایران میں بھی یہی محرکات نظر آتے ہیں، اور بالکل یہی صورتحال اسوقت
سوات میں بھی نظر آتی ہے۔ کہ ایک طرف غریب تو نان شبنیہ کے محتاج ہیں اور مقتدر
طبقہ کو اپنی فائیو اسٹار اور سیون اسٹار دعوتوں سے فرصت نہیں۔ غریب کا بچہ دوا
نہ ملنے کے باعث اس کی گود میں دم توڑ دیتا ہے اور وی آئی پی طبقے کے لوگ صرف
چیک اپ کے لیے برطانیہ اور امریکہ کی سیر کر کے آجاتے ہیں۔ جہاں غریب کو کہا
جاتا ہے وہ ماہانہ چھ ہزار اور سالانہ بہتر ہزار میں اپنے کنبہ کا پیٹ پالے
غریب یہ سوچتا ہے کہ اس چھ ہزار میں میں روزگار پر آنے اور جانے کا کرایہ بچاؤں،
اپنے بال بچوں کا پیٹ پالوں، یا ان کو دوائی اور تعیلم کی عیاشی فراہم کروں،
اور اسی معاشرے میں اسی چھ ہزار روپے ماہانہ کمانے والی “رعایا“ کے ووٹوں سے
منتخب ہو کر آنے والا تنخواہ اور تمام الائونسز کے ساتھ گیارہ لاکھ روپے ماہانہ
کی “قلیل تنخواہ“میں عوام کی خدمت کے لیے تیار ہوتا ہے البتہ اس عوام کے خادم
کا مزاج بڑا ہی حساس ہوتا ہے اس کو وزارت کے دوران عوام کے قرب سے الرجی ہوجاتی
ہے اس لیے وہ عموماً عوام سے دور ہی رہتا ہے اور اگر اس کو کبھی سڑک پر نکلنا
بھی پڑے تو اس کی آمد سے گھنٹوں پہلے سڑک کو عوام نامی مخلوق سے پاک کردیا جاتا
ہے تاکہ اس کو دیکھ کر کہیں اس کے ذوق نظارہ میں خلل نہ پڑ جائے،۔جس معاشرے میں
لاکھوں لوگ اپنی جبین نیاز میں ہزاروں مچلتے سجدے لیے اس حسرت میں جی رہے ہوتے
ہیں کہ بس دیار مصطفیٰ میں جاکر روضہ حبیب کی زیارت کرلیں اور یہی انکی سب سے
بڑی خواہش ہوتی ہے اور جو غریب سارا سال پیسہ جوڑ جوڑ کر جب حاضری کے لیےتیار
ہوتا ہے ۔ وہ اس لیے نہیں جا پاتا کہ اس غریب ملک کی غریب ائیر لائن ہر سال حج
کے سیزن میں خسارے میں چلی جاتی ہے اور وہ اسی موقع پر کرائے میں اضافہ کرتی
ہے،(البتہ ہماری نظر سے کبھی یہ خبر نہیں گزری کہ پی آئی اے نے دبئی، لندن،
امریکہ، یا سوئٹزر لینڈ وغیرہ کے کرائے میں اضافہ کیا ہو)اور غریب صرف حسرت لے
کر رہ جاتا ہے، اور اسی ملک میں اسی معاشرے میں اسی غریب کے ووٹوں سے منتخب
ہوکر آنے والا اپنے خاندان، دوستوں اور لاؤ لشکر کے ساتھ بڑی شان و شوکت سے اس
غریب ملک کے بیت المال سے حج کر کے آتا ہے (یہ بھی عجیب بات ہے کہ سیاستدان صرف
اقتدار میں رہ کر ہی حج کے لیے جاتے ہیں)، جہاں غریب کو بجلی فراہم نہ ہونے
باوجود اضافی رقم ادا کرنی پڑتی ہے وہاں اسی غریب کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آنے
والا مفت کی بجلی بمعہ جنریٹر حاصل کرتا ہے ع گھر پیر کا تو بجلی کے چراغوں سے
ہے روشن - ہمیں تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی ۔ جس معاشرے میں غریب اور نادار
عوام نامی مخلوق انصاف کے لیے دربدر ٹھوکریں کھاتی ہے اور اس کو انصاف نہیں مل
پاتا اور اسی معاشرے میں مقتدر طبقے کے افراد انصاف کو ٹھوکروں پر رکھتے ہیں۔
جہاں غریب اپنی حق حلال کی پنشن اور پراویڈنٹ فنڈ کے لیے دھکے کھاتا پھرتا ہے
اسی معاشرے میں مقتدر طبقے کے مراعات یافتہ لوگ اور اس طبقے کی چاپلوسی کرنے
والوں کو دس سال پرانی تنخواہیں صرف ایک حکم پر دیدی جاتی ہیں۔ وہاں پھر ایسے
ہی انقلابات جنم لیتے ہیں، ایسے ہی غریب اور نادار لوگ انصاف کے لیے عدل کے لیے
ظلم کی چکی میں پستے ہوئے لوگ بندوق ہاتھ میں اٹھا لیتے ہیں۔ ایسے ہی عوامل اور
حالات ہوتے ہیں جب معاشرہ میں سلطانا ڈاکو، راجو راکٹ جیسے کردار جنم لیتے ہیں
یہی نا انصافیاں معاشرے میں نیک محمد، ملا عمر بیت اللہ محسعود، مولوی فضل اللہ
جیسے افراد تیار کرتی ہیں۔ اگر مذکورہ بالا حالات کے بعد طالبان نہیں پیدا
ہونگے تو اور کیا ہوگا؟ وہاں بغاوت نہیں پیدا ہوگی تو کیا لوگ ارباب اختیار
کےنام کا کلمہ پڑھیں گے؟ ارباب اختیار کو حکومت کی رٹ قائم کرنے کی تو فکر ہوتی
ہے لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ ایسے حالات ہی نہ ہیدا ہونے دیئے جائیں کہ لوگ رٹ
کو چیلنچ ہی نہ کریں
ہم نے ابتدا میں تاریخ میں جھانکا تھا آئیے ذرا پھر تاریخ کی سیر کرتے ہیں۔
غزوہ خندق کا موقع ہے بڑی تنگی کی صورتحال ہے اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ
تعالیٰ عنہ اس موقع پر خندق کھود رہے ہیں اور اللہ کے نبی صلیٰ اﷲ علیہ وآلہ
وسلم ان کے ساتھ شانہ بشانہ خندق کھود رہے ہیں،ایک صحابی نے فاقے کے باعث پیٹ
پر پتھر باندھا ہوا تھا بھوک کی شدت سے نڈھال ہو کر اللہ کے نبی صلیٰ اﷲ علیہ
وآلہ وسلم کو اپنا دامن اٹھا کر پتھر دکھایا،اور قربان جائیے اس ذات کے جو وجہ
وجود کائنات ہے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دامن اٹھایا تو پیٹ پر دو
پتھر بندھے ہوئے تھے، ۔سفر کا موقع ہے صحابہ کرام بھی نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ
وآئہ وسلم کے ہمراہ ہیں ایک جگہ پڑاؤ کرتے ہیں تمام لوگوں کے ذمے ایک ایک کام
لگایا جاتا ہے نبی مہربان اپنے لیے چولہا جلانے کے لیے لکڑی ڈھونڈنے کا کام
پسند فرماتے ہیں اور میلوں پھیلے ہوئے صحرا ممیں لکڑی ڈھونڈنا کتنا مشکل کام ہے
اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں لیکن نبی پاک صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے لیے
یہ مشکل کام پسند فرماتے ہیں اس لیے کہ قائد ہی تو قافلے کو لیکر چلتا ہے۔ع
نگاہ بلند سخن دلنواز جاں پر سوز -یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے۔
اور ذرا اس طرف دیکھیے رات کا وقت ہے اندھرا چھایا ہوا ہے پوری بستی خواب خرگوش
کے مزے لوٹ رہی ہے ایسے میں ایک فرد جاگ رہا ہے اور بستی کی گلیوں میں گھوم رہا
ہے۔ یہ فرد خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب ہیں جو اس لیے جاگ رہے ہیں کہ دیکھ
سکیں اس بستی میں کسی کے ساتھ کوئی مسئلہ تو نہیں ہے۔میرے زیر سایہ لوگوں میں
کوئی بھوکا تو نہیں سوگیا ہے،انہیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ کا قول ہے
کہ اگر دجلہ کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا مر جائے تو اس کا ذمہ دار عمر ہوگا۔
اور ذرا یہ بھی دیکھیں خیلفہ وقت کی ایک زرہ کھو جاتی ہے کچھ عرصے کے بعد وہی
زرہ ایک یہودی کے پاس نظر آتی ہے خلیفہ چاہے تو یہ زرہ زبردستی بھی لےسکتا ہے
لیکن ملک میں ایک قانون موجود ہے اور خلیفہ بھی اسی قانون کا پابند ہے۔ خلیفہ
نے قاضی کی عدالت میں اپنا مقدمہ ہیش کردیا، قاضی نے خلیفہ کو بھی قانون کے
مطابق کٹہرے میں بلایا اور پوچھا کہ کیا آپ کے پاس اپنے دعوے کے ثبوت میں کوئی
گواہ ہے، خلیفہ نے جواب دیا کہ ہاں میرا بیٹا اور میرا غلام اس کے گواہ ہیں۔
قاضی نے کہا کہ قانون کے مطابق بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں اور غلام کی گواہی
آقا کے حق میں قبول نہیں ہوسکتی کیا آپ کے پاس کوئی اور گواہ ہے خلیفہ نے انکار
کردیا تو قاضی نے کہا کہ پھر آپ کے دعویٰ باطل ہوتا ہے اور زرہ اسی یہودی کو
دیدی جاتی ہے خلیفہ بڑی خوشدلی سے اس عدالت کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں یہودی
یہ عدل دیکھ کر پکار اٹھا کہ واقعی اسلام سچا دین ہے اور میں ایمان لاتا ہوں۔
یہ خلیفہ حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ہیں کہ جن کو علم کا
دروازہ کہا گیا ہے، کیا آج ہمارے ارباب اختیار ایسی عدالتوں کو برداشت کریں گے
یہ تو چند ایک مثالیں ہیں ان تمام مثالوں کو سامنے رکھیں اور ہمارے ملک کے
حکمران طبقے کا چلن بھی سامنے رکھیں۔ پھر سوچیں نا انصافی، ظلم، زیادتی، بھوک
اور حق سے محرومی طالبان ہی کو جنم دیتی ہے۔ پھر اگر محروم لوگ ہتھیار نہ
اٹھائیں تو ان کی برداشت کی داد دی جاتی ہے۔ آخرمیں آپ کو ایک حیرت انگیز بات
بتائیں یہ مغربی معاشرہ کتنا دوغلا ہے اور اس کے ہر چیز کے لیے دو پیمانے ہیں
دو معیار ہیں ۔اگر مشرق میں اور بالخصوص مسلمانوںمیں ایسے کردار پیدا ہوں تو ان
کو دہشت گرد، شدت پسند اور طالبان کہا جاتا ہے۔اور اگر یہی کردار مغرب میں
نمودار ہو تو غریبوں کا مسیحا، ہیرو اور “رابن ہڈ “کہلاتا ہے۔ بہر حال جب نا
انصافی، ظلم، زیادتی بڑھ جائے۔ منصف خود انصاف کے طالب ہوں، محافظ خود ہی لٹیرے
بن جائیں، رہبر ہیں رہزن ہوں تو پھر طالبان ہی بنتے ہیں۔ |