از:مولانامحمدشاکرنوری(امیرسنی
دعوت اسلامی )
اللہ رب العزت کی نازل کردہ عظیم ترین کتاب قرآن مقدس جورحمت عالم صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم پرنازل ہوئی وہ صرف حصول برکت یاطاق کی زینت بنانے کے لیے
نہیں بلکہ عمل کے زیورسے آراستہ ہونے کے لیے ہے۔قرآن عظیم پرایمان رکھنے
کاتقاضابھی یہی ہے کہ اس کے احکام وفرمودات پرعمل کیاجائے ۔
آج ناکامی وپسماندگی کاروناروتے روتے ہماری آنکھوں سے آنسوخشک ہوتے جارہے
ہیں اور دانش وروں کے اجتماعات اور کامیابی کامنصوبہ بناتے بناتے ہماری
زندگی کابیشترحصہ گزرتاجارہاہے لیکن نتیجہ یہ نکلاکہ
مرض بڑھتاگیاجوںجوں دواکی
اللہ جل شانہ قرآن مجیدکی حفاظت کاذمہ لے کراپنے محبوب پاک صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وسلم کیے امتیوں کوسارے انسانوں پرغالب دیکھناچاہتاہے یہ غلبہ دامن
قرآن اور صاحب قرآن صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کومضبوطی سے تھامے بغیرممکن
نہیں۔اگر آپ ان نفوس قدسیہ کی زندگی کا جائزہ لیں جوروئے زمین پرکامیاب
انسانوں میں اپنابلندمقام رکھتے ہیں توپتہ چلے گاکہ ان کی زندگی عملی
طورپرقرآن مقدس کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی،ان کی زندگی کے صبح وشام سے
قرآن جھلکتاتھا،وہ قرآن پسندہی نہیں بلکہ قرآن پابندبھی تھے۔رسول رحمت
تاجدار کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے لے کر آپ کے صحابہ کرام
واولیاے عظام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی زندگیاں قرآن پاک کے سانچے
میں ڈھلی ہوئی تھیں۔
ذیل میں سیدناصدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاایک واقعہ ملاحظہ فرمائیں جس
سے آپ کوبخوبی اندازہ ہوجائے گاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے
صحابہ کے دلوں میں عمل بالقرآن کاکیساجذبہ بیکراں پیدافرمادیاتھا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَلَایَاتَلِ اُولُوالفَضلِ مِنکُم وَالسَّعَةِ اَن
یُوتُوااُولِی القُربیٰ وَالمَسٰکِینَ وَالمُھٰجِرِینَ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ
وَلیَعفُواوَلیَصفَحُواط اَلَاتُحِبُّونَ اَن یَّغفِرَاللّٰہُ لَکُم
وَاللّٰہُ غَفُوررَّحِی ±م µ(النور۲۲)اور قسم نہ کھائیں وہ جوتم میں فضیلت
والے اور گنجائش والے ہیں قرابت والوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں
ہجرت کرنے والوں کودینے کی اور چاہیے کہ معاف کریں اوردرگزرکریںکیاتم اسے
دوست نہیں رکھتے کہ اللہ تمھاری بخشش کرے اور اللہ بخشنے والامہربان ہے ۔
یہ آیت حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی آپ نے
قسم کھائی تھی کہ مسطح کے ساتھ سلوک نہ کریں گے اور وہ آپ کے خالہ کے بیٹے
تھے ،نادارتھے ،مہاجرتھے،بدری تھے۔آپ ہی ان کاخرچ اٹھاتے تھے مگرچوں کہ اُم
المومنین پر تہمت لگانے والوں کے ساتھ انہوں نے موافقت کی تھی اس لیے آپ نے
یہ قسم کھائی ۔جب مذکورہ بالاآیت کریمہ جوں نازل ہوئی اور آپ کے پردہ سماعت
سے ٹکرائی حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ عرض کرنے لگے”بَلیٰ
وَاللّٰہِ یَارَبَّنَااِنَّالَنُحِبُّ اَن تَغفِرَلَنَا“اے اللہ!مجھے تیری
قسم ،ہم تواس بات کوپسندکرتے ہیں کہ توہمیں معاف کردے اور اب آپ نے پہلے سے
زیادہ مسطح کی امدادکرنااور دل داری کرناشروع کردیا ۔
قربان جائیے حضرت صدیق اکبر کے جذبہ عمل بالقرآن پر کہ آپ نے کوئی گناہ نہ
کیاتھاکہ کسی کی مددکرنانہ فرض ہے نہ واجب صرف ایک اخلاقی ذمے داری ہے
۔ارشاد الٰہی سنتے ہی سرِتسلیم خم کردیتے ہیں اورمسطح کاتعاون پہلے سے
زیادہ کرنے لگتے ہیں ۔آج ہماراحال یہ ہے کہ عبادات سے متعلق چندآیتوں پرعمل
کرکے ہم یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ہم سے بڑاقرآن مقدس پرعامل کوئی نہیں
بلاشبہہ یہ جزوی عمل کسی حدتک فائدہ تودے سکتاہے لیکن مکمل کامیابی کاذریعہ
نہیں بن سکتا۔کامیاب ترین مومن بننے کے لیے قرآن وسنت کادامن مضبوطی سے
تھامناضروری ہے ۔اگر چہ عمل بالقرآن ہمارے نفس پرگراں گزرے ۔اللہ رب العزت
ہمیں قرآن وسنت کاعامل بنائے ۔اسلاف کے نقش قدم پر چلتے رہنے کی توفیق
بخشے۔ |