انسان مجموعہ اضداد ہے ۔خدائے
ذوالجلال کا یہ شاہکار ملکوتی انداز بھی رکھتا ہے ،خاکی صفات کا بھی حامل
ہے اور ناری خصوصیات کا متحمل بھی ہے ۔انسان چونکہ ساری کائنات کے لئے رب
کائنات کی طرف سے نائب ہے ۔اس کی نیابت و خلافت کا تقاضا تھا کہ انسان
کائناتی عناصر سے تخلیق شدہ موجودات کی نسبت سے نیابت کا حق ادا کرنے میں
قاصرنہ رہ جائے۔
جب ایک مرکز پر بہت سی چیزیں مرتکز ہوجائیں تو باہمی تقابل کا ہونا فطری
بات ہے اور اس صورت میں اگر ان تمام اضداد میں توازن قائم نہ کیا جائے تو
اس مجموعہ اضداد کی بقا کی صورت باقی نہیں رہتی اور اگر یہ اضداد اس
قدرمتوازن نہ ہوں کہ باہمی ٹکراﺅ کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائیں تو
وجو د باقی رہتا ہے ،لیکن ان میں اگر کسی حد تک عدم توازن ہو تو بھی اگر چہ
وجود کو خطرہ لاحق نہیں مگر اتنی بات ضرور ہے کہ اس معمولی عدم توازن کی
وجہ سے اس میں حسن باقی نہیں رہتا ،جبکہ ان اللّٰہ جمیل ویحب الجمال۔اللہ
تعالیٰ حسین ہے اور حسن سے پیار کرتا ہے ۔
اگر قوت غضبیہ میں شدت پیدا ہو جائے تو انسان شیاطین کے حلقے میں داخل ہو
جائے ،اگر قوت شہویہ غلبہ حاصل کرلے تو انسان حیوان بن کر رہ جائے ،اگر مٹی
کے اثرات اس کو مکمل طور پر جکڑ لیں تو وہ علم و عرفان اور اطاعت ربی کی
اعلیٰ صفات سے عاری ہو جائے اور اگر ملکوتیت کا مجسمہ بن جائے تو نہ اس
زمین کی معاشرتی زندگی کے قابل رہے اور نہ ہی خلافت ارضی کی امانت سنبھال
سکے ،گویا ان تمام صفات میں ہر لحاظ سے توازن ہو نا ضروری ہے ۔جس طرح بجلی
کی استری ہے کہ جب اس کی حرارت ضرورت سے بڑھ جاتی ہے تو اس کی ساخت ایسی
بنادی گئی ہے کہ خود بخود مزید حرارت کی در آمد بند ہو جاتی ہے اور جب
حرارت کم ہونے لگتی ہے تو ۔خودبخود حرارت داخل ہونے لگتی ہے۔یہ مشینیں عقل
و شعور سے خالی ہیں ۔ان کے پیچھے بھی انسانی عقل و شعور کی قوتیں کار فرما
ہیں ۔جو ان میں توازن کو برقرار رکھنے کے اسباب دریافت کرتی ہیں ۔یہ انسان
بھی اسی طرح ایک مشینری ہے جو متضاد صفات کی حامل ہے ۔
انسان چونکہ خود عقل و شعور کی صفات سے متصف ہے اس لئے وہ خود کو متوازن
رکھنے کےلئے کسی اور مخلوق کا محتاج نہیں اور چونکہ یہ اشرف المخلوقات ہے
اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمام مخلوقات پر حکمرانی کےلئے ہے ۔اس لئے اس کی
فضیلت و برتری کا تقاضا ہے کہ یہ اپنے آپ کو خود کنٹرول کرے۔اگر کوئی اور
مخلوق اس کو کنٹرول کرے تو اس کی برتری اور فضیلت متاثر ہوتی ہے ۔البتہ
خالق کائنات نے اس کی رہنمائی کے لئے ہدیات عطا کر دی ہیں کہ عقل و شعور کی
قوتیں جو دوسروں کو کنٹرول کرکے انہیں متوازن اور حسین بنا دیتی ہے ۔مگر
خود کو کنٹرول کرنے میں انہیں دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،اس لیے کہ اپنا
آپ بہت کم دکھائی دیتا ہے اس کے لئے آئینے کی ضرور ت ہوتی ہے ۔رب کائنات کی
ہدایات آئینہ ہیں ۔نور ہیں ،روشنی ہیں جن کے ذریعے اپنا آپ دیکھا جا سکتا
ہے اور اپنی خامیاں دور کی جاسکتی ہیں ،اپنے آپ کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے
اور متوازن بنا کر اپنے حسن کو نکھارا جا سکتا ہے ۔
دنیا میں جس قدر مذاہب اور نظام ہائے زندگی متعارف ہیں ،انہوں نے انسان کی
حالت سدھار نے کے لئے اصول و ضوابط وضع کےے ہیں ،مگر چونکہ یہ مذاہب اور
نظام ہائے حیات خو د انسانی عقل و شعور کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں ،اس لئے وہ
مکمل توازن بر قرار رکھنے میں ناکام رہے ہیں ۔کیونکہ انہیں اپنا آپ نظر
نہیں آیا۔انہوں نے اپناآپ دیکھنے کی کوشش کی ،کسی نے ایک حصہ دیکھا اور
دوسرا حصہ اوجھل رہا اور جو حصہ نظر آیا اس کو سارا اپنا آپ سمجھ کر اصول
بنا دئےے ،جو ناتمام اور ناکافی تھے ۔اسی طرح کسی نے اپنا آپ دیکھنے کی
کوشش میں دوسرا حصہ دیکھا اور پہلا حصہ اس کو نظر نہ آیا ۔تو بھی اس کے
اصول اسی ایک حصے کی ضرورت کے پیش نظر بنائے گئے ،اس لئے نامکمل اور ادھورے
رہے ۔کسی نے مادی پہلو دیکھا اور مادیت میں گم ہو گیا اور کسی نے ملکوتی
پہلو دیکھا اور رہبانیت ،سادھو ازم کا شکار ہو گیا، مگر اسلام خالق کائنات
کی طرف سے نور ہدایت ہے، خالق کائنات انسان کو اندر باہر ،آگے پیچھے ہر طرح
ہر لحاظ اور ہر زاوےے سے دیکھتا ہے ،سمجھتا ہے اور جانتا ہے یہی وجہ ہے کہ
اس کے عطا کردہ اصول مکمل اور کافی ہیں ،اس لئے تزکیہ نفس یعنی انسانی
متضاد صفات میں توازن اور حسن پیدا کرنے کے لئے جو طریقے بتلائے ان میں سے
ایک روزہ ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ رحمة اللہ علیہ نے اس فلاسفی کو خوبصورت انداز میں بیان
کیا ہے ،فرماتے ہیں کہ چونکہ قوت حیوانی کی شدت قو ت ملکی کے احکام کے
اظہار کےلئے مانع تھی ،اس لئے اس کا مغلوب کرنا ضروری ہوا اور چونکہ حیوانی
قوت کی شدت کا سبب کھانا پینا اور شہوانی لذتوں میں گھر جاناتھا ،اس لئے
ضروری قرار پایا کہ اس کو مغلوب کرنے کے لئے اس کے اسباب میں کمی کردی جائے
۔جو لوگ احکام ملکی کا ظہور چاہتے ہیں وہ اختلاف مذاہب اور جغرافیائی بعد
کے باوجود انہی اسباب کی کمی پر متفق ہیں اور یہ بھی مقصود ہے کہ ملکیت کو
اپنے رنگ میں رنگ لے اور اس کا سوائے اس کے اور کوئی طریقہ نہیں کہ قوت
ملکی کسی شے کا تقاضا کرے تو قوت حیوانی اس کو تسلیم کرے، سر کشی نہ کرے
،یہ تقاضا بار بار ہو اور قوت حیوانی باربار اس کو تسلیم کرلے ، حتیٰ کہ اس
کو تسلیم کرنے کی عادت ہو جائے ۔
ملکیت جو امور چاہتی ہے اور جو اس کا خاصہ ہیں ،عالم ملکوت سے تشبیہہ پیدا
کرنا ،خدائے ذوالجلال کی معرفت حاصل کرنا۔قوت حیوانی اس سے گریزاں ہوتی ہے
۔اب قوت حیوانی کو ان امور کی طرف مائل کرنا ہے تو اس کا بہترین ذریعہ روزہ
ہے ۔چونکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قوت حیوانی کو معطل رکھنا ممکن نہیں تھا ،اس
لئے ایک عرصہ متعین کر لیا تاکہ روح قوت ملکوتی کی لذتوں سے آشنا ہو اور
گزشتہ خطاﺅں کا کفارہ ہو جائے ۔(حجة اللہ البالغہ حصہ دوم)
اصل مقصد حیوانی قوت کو ختم کرنا نہیں ،بلکہ اس کو اعتدال پر لانا اور اس
میں اطاعت کی خوبی پیدا کرنا ہے ۔اس لئے سال میں صرف ایک مہینہ یعنی رمضان
المبارک کے روزے فرض کےے گئے ۔اگر اس پورے مہینے میں خلوص نیت کے ساتھ روزے
رکھ لےے جائیں تو اس طرح تزکیہ نفس ہو جاتا ہے کہ پھر سال بھر کے لئے قوت
حیوانی میں سر کشی نہیں آتی اور وہ اعتدال پر رہتی ہے ۔بین الاقوامی سطح پر
تزکیہ نفس اور سر کشی ختم کر کے اطاعت پیدا کرنے کے لےے یہی طریقہ تسلیم
شدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلی شریعتوں میں بھی روزے فرض کےے
۔ہر زمانے اور ہر علاقہ کے لئے یہی طریقہ مجرب ہے ،بلکہ بین الکائناتی سطح
پر اس کو انتہائی موثر طریقہ تسلیم کیا گیا ہے ، یہی وجہ ہے کہ جب کسی
جانور کو سدھانا ہوتا ہے ،اس کی سر کشی ختم کر کے اس کو مطیع بنانا ہوتا ہے
اور اس کو ایک معین ضابطے کا پابند بناناہوتا ہے ،تو اس کو مختلف اوقات میں
اور مختلف طریقوں سے بھوکا رکھا جاتا ہے ۔
غیر اسلامی افکار و نظریات میں آدھے انسا ن یعنی صرف جسم کو مد نظر رکھا
جاتا ہے ،مگر اسلام اس لحاظ سے اپنی امتیازی شان رکھتا ہے کہ اس کی نظر میں
مکمل انسان ہوتا ہے ۔ جو روح اور جسم دونوں کا مجموعہ ہے ۔اسی لئے اسلام نے
ایک طرف جسم کو اہمیت دی ۔اس کے تقاضے پورے کےے تو دوسری طرف روح کی
بالیدگی کے لئے سامان مہیا کیا ۔ آپ بلا جھجک اس بات کو تسلیم کریں گے کہ
صرف جسم کو بھوک و پیاس کی تکلیف میں مبتلا کر دینا ،مکمل طور پر تزکیہ نفس
نہیں کرتا۔یہی وجہ ہے کہ اسلام نے صرف جسمانی تکلیف کے لئے بھوک اور پیاس
پر اکتفانہیں کیا بلکہ ایک مکمل نظام مرتب کیا کہ علی الصبح اٹھتے ہی حلال
و طیب رزق سے روزے کا آغاز اور ساتھ ہی فکر کو پاکیزہ کرنے کے لئے نیت کی
تعلیم دی اور حکم دیا کہ روزے کے دوران نہ تو کسی کو برا کہیں اور نہ کسی
کے لئے برا سوچیں ،ورنہ اللہ تعالیٰ کو تمہارے صرف بھوکے پیاسے رہنے کی
حاجت نہیں ہے۔
جب نفس کی قوت شہوانی پابند زنجیر ہو گی ۔قوت حیوانی کی شدت کو بھوک اور
پیاس کی آنچ پر پگھلا کر اس کو معتدل کیا جارہا ہو گا اور ساتھ ہی فکری قوت
بدی سے محفوظ ہو گی ،زبان بد گوئی سے گریزاں ہوگی ۔دن کا آغاز خدائے قدوس
کی حمد و ثناسے ہو گا اور اختتام بیس تراویح پر ہو گا اور دوسری طرف ملکیت
پر وان چڑھ رہی ہو گی ۔روح ملکوتی لذتوں سے سرشار ہو گی تو یقیناً وہ انسان
ابھرے گا ۔جو مسجود ملائکہ ہونے کا اہل ہو ۔خلافت کا حقدار ہو اور تسخیر
کائنات اس کا مقدر ہو۔
روزہ:روزے کو عربی میں ”صوم کہتے ہیں جس کے لفظی معنی ”رک جانے“ کے ہیں
اصطلاح شریعت میں صبح صادق سے لیکر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور شہوانی
خوہشات کے روکے رکھنے کا نام روزہ ہے ۔اگر یہ بھوک ۔پیاس اور نفسانی
خواہشات سے رُکے رہنا اللہ کے حکم اور رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے مطابق ہو تو
یہ اسلامی روزہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل اجر وثواب ہے اور اگر یہ
بھوک ،پیاس اور جذبات جنسیہ سے رُکے رہنا اپنے کسی خیال یا نفس کشی یا کسی
طبیب معالج کے کہنے اور محض ریاضت و مشقت کا عادی بننے کے لئے ہے تو یہ
اسلامی روزہ نہیں بلکہ راہبانہ روزہ ہے یا معدہ و خون کی اصلاح کا نسخہ ہے
یا سادھوانہ اور ہندوانہ برت ہے گویا ”الصوم“ کا اطلاق اسی روزہ پر ہو گا
جو شرعی احکام و تعلیمات کے مطابق ہے اور یہی آخرت کی نجات اور ذریعہ فلاح
دارین ہے۔
روزہ کی تاریخ:مذاہب عالم خوا ہ و ہ الہامی ہو یا غیر الہامی ان میں روزہ
کا تصور کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے ،یہودیت ،عیسائیت اور ہندومت میں
روزہ ایک اہم اور لازمی فریضہ کی صورت میں پایا جاتا ہے اور اب بھی کسی نہ
کسی شکل میں ان مذاہب پر عمل کرنے والے روزہ رکھتے ہیں اور اپنے مذہبی
فریضہ کو ادا کرتے ہیں ۔گویا روزہ ایک ایسی مذہبی عبادت ہے جو زمانہ قدیم
سے تمام مذاہب میں نیکی ،پارسائی اور دین داری کی علامت سمجھا جاتا ہے اور
موجودہ وقت میں بھی اس کے بارے ایسا ہی عقیدہ ہے ۔
اسلام میں روزہ کی فرضیت:سابقہ مذاہب الہامی و غیر الہامی روزہ کو ایک
عبادت و فریضہ مانتے ہیں تو اسلام جو کہ دین فطرت ہے اسے کیسے نظر انداز کر
سکتا تھا ۔لہٰذا اسلام نے روزہ کو اختیار کیا اور اس کی موجودہ شکل یعنی
صبح صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک کھانے ،پینے اور خواہشات شہوانی سے اپنے
آپ کو روکے رکھنا نیز اپنے ذہن اور اعضاءجسم کو تمام برے خیالات اور افعال
سے محفوظ رکھنا متعین کی ۔سال بھر میں صرف ایک مہینہ اس کام کے لئے مقرر
کیا گیا ۔اب ہر عاقل و بالغ مسلمان مرد و عورت امیر و غریب سب پر یکساں
رمضان المبارک کے روزے فرض کےے گئے جیسا کہ قرآن حکیم نے ارشاد فرمایا:یا
یھا الذین اٰمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم
تتقون۔ترجمہ”اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسے کے اگلوں پر فرض
تھے کہ کہیں تم کو پرہیزگاری ملے۔ ( ترجمہ کنز الایمان)
اسی طرح شعبان المعظم کے آخری ایام میں رسول کریم ﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا”
اے لوگوں تمہارے پاس عظمت و برکت والا مہینہ آرہا ہے وہ مہینہ جس میں ایک
رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے اس کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض فرمائے اور اس
کی رات کے قیام کو سنت فرمایا۔(مشکوٰةشریف)مذکورہ آیت ِ قرآن اور حدیث
مصطفےٰ ﷺ سے معلوم ہوا کہ رمضان المبارک کے روزے مسلمانوں پر فرض ہیں۔
روزہ کے درجات :روزہ کے تین درجے ہیں۔
﴾1﴿عام روزہ﴾2﴿خاص روزہ ﴾3﴿ خاص الخاص روزہ
عام روزہ یہ ہے کہ آدمی روزہ کی نیت سے دن بھر کھانے پینے اور جماع سے باز
رہے ۔خاص روزہ یہ ہے کہ آدمی دن بھر کھانے پینے اور جماع کے علاوہ
اعضاءظاہرہ کو جملہ کبائر او صغائر سے باز رکھے اور خاص الخاص روزہ یہ ہے
کہ عام و خاص کے روزہ کے ساتھ ساتھ اپنے دل کو جملہ دنیاوی پریشانیوں
،آلائشوں سے ماسویٰ اللہ کی طر ف رغبت کرنے سے باز رکھے ۔
ہر درجہ کے روزہ کا افطار:امام غزالی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں ہر روزے کا
فاسد ہوناا سی شئے سے ہے جس سے وہ روزہ رکھا گیا ہے ۔عام روزہ یعنی کھانے
،پینے اور جماع سے ٹوٹتا ہے ۔خاص کا روزہ جسم کے کسی بھی عضو کے گناہ کے
سرزد ہونے سے ٹوٹتا ہے اور خاص الخاص کا روزہ قلب و خیال کے گناہ کے وقوع
سے فاسد ہوتا ہے۔ نبی رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا:”پانچ باتیں روزہ فاسد کردیتی
ہیں ۔ جھوٹ ،غیبت، چغلی، جھوٹی قسم اور شہوت سے دیکھنا۔“(احیاءالعلوم)
روزہ کا مقصد:قرآن کریم کے مطابق روزہ کا مقصد ایک طرف ہمہ وقت اور ہمہ
پہلو تقویٰ ہے اور دوسری طرف انسان کی جسمانی ،ذہنی ،فکری ،عملی اور اخلاقی
اصلاح ہے ۔جیسا کہ آیت مذکورہ میں فرمایا گیا ۔”لعلکم تتقون“یعنی روزہ سے
مقصود پر ہیز گاری اور تمہاری ذاتی دینی اخلاقی اصلاح و تربیت ہے نہ کہ محض
بھوک و پیاس۔
معزز قارئین!اب آپ کو تقویٰ کے لفظی اور اصطلاحی معنی بتانا چاہتا ہوں تاکہ
روزہ کا مقصد پورا کرنے میں آسانی اور سہولت ہو ۔تقویٰ کے لفظی معنی ہیں
”بچنا اور دور رہنا۔“بعض حضرات تقویٰ کے معنی ڈرنا اور خوف کھانا بھی کرتے
ہیں ۔ اصطلاح شریعت میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے اپنے آپ کو دور رکھنا
اور اس کی حکم عدولی کی سزا سے اپنے آپ کو بچانا تقویٰ ہے ۔ حضرت ابی ابن
کعب رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے تقویٰ
کے معنی دریافت فرمائے تو انہوں نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا
کہ کیا تم کو کبھی کانٹے دار جھاڑیوں کے درمیان سے گزر نے کا اتفاق ہوا ہے
۔انہوں نے فرمایا”ہاں“ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دوبارہ پوچھا کہ پھر
تم کس طرح سے گزرتے ہو ۔جناب ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں
گزرتے وقت اپنے کپڑے سمیٹ لیتا ہوں اور سیدھا گزرتا ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ
عنہ نے فرمایا کہ ”بس یہی تقویٰ ہے “ گویا زندگی کی شاہراہ جس پر ہر طرف
گناہ و معصیت ،حرص و لالچ اور غفلت ولا پرواہی کی کانٹے دار جھاڑیاں ہیں
اور ہر لمحہ انسان کو اپنے ساتھ الجھانے کو تیار رہتی ہیں کے درمیان سے بچ
نکلنا تقویٰ ہے ۔روزہ سے اللہ تعالیٰ کا مقصود یہی ہے ۔اس ساری تفصیل سے
نتیجہ یہ نکلا کہ تقویٰ انسانی ضمیر کی اس شعوری بیداری کا نام ہے کہ جب
انسان ہر قسم کے بیرونی دباﺅ ،خوف و لالچ سے بے نیاز ہو کر اپنے ضمیر کی
آواز سنتے ہوئے ہر برے غلط اور ناپسند یدہ کام سے بچنے لگتا ہے تو گویا
تقویٰ انسان کے لئے ایک اندرونی محافظ و نگران کی حیثیت اختیار کرجاتاہے
۔جس کے ہوتے ہوئے انسا ن کو پھر کسی پولیس والے اور کسی دوسر ے نگران کی
حاجت نہیں رہتی اور وہ خود بخود زندگی کی شاہراہ پر ایسی سیدھی چال چلتا ہے
کہ پھر کسی گناہ ،ظلم و زیادتی ،فحاشی و بے حیائی اور قانون شکنی کا خطرہ
نہیں رہتا ۔حضرت غوث اعظم شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
کہ روزہ نفس امارہ کی خواہشوں کا قلع قمع کرتا ہے ۔تمدن و حضارت کی زبان کے
لحاظ سے متقی روزہ دار ایک ”اچھا شہری“بن جاتا ہے اور ایسے شہریوں پر مشتمل
جو معاشرہ یا تمدن وجود میں آتے ہیں وہ ایک پُرسکون ،خوشحال اور غیر فانی
معاشرہ یا تمدن ہوگا۔لہٰذا روزہ کا مقصد”تقویٰ و پرہیز گاری “ہماری اخلاقی
اور تمدنی اصلاح و ترقی کا ذریعہ ہے اور دنیاوی کا میابی کی ضمانت ۔جب ایک
مسلمان روزہ کا مقصد پورا کرتے ہوئے دنیا میں اس طرح کامران اور نیک نام
ہوتا ہے تو پھر اس کی آخرت کی کامیابی کا اندازہ تو کیجئے۔
روزہ کا انعام:معزز قارئین ! لیجئے اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام جو روزہ
دار کے لئے ہیں بزبان حضور اکرم ﷺ ملاحظہ فرمائیں۔
1﴿الصوم لی وانا اجزی بہ:روزہ (خاص)میرے لےے ہے اور میں خود اس کا اجر دوں
گا۔(بخاری و مسلم)2﴿من صام رمضان ایمانا واحتساباغفرلہ ما تقدم من ذنبہ۔جس
نے بھی رمضان کا روزہ ایمان و شعور کے ساتھ رکھا اس کے پچھلے گناہ معاف
ہوئے ۔(کتب احادیث)
مذکورہ احادیث رسول ﷺ پڑھیئے کہ کیا روزہ رکھنے سے آخرت میں گناہوں کی بخشش
،جنت کے انعامات اور اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی حاصل نہیں ہوتی ؟ یقینا
حاصل ہوتی ہے اور خوب حاصل ہوتی ہے ۔جس کا حد و شمار ہی نہیں ۔لہٰذا ہمارے
ایمان ،ہماری عقل اور ہماری دوراندیشی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے
عائد کردہ فریضہ روزہ کی خوش دلی سے پابند ی کریں تاکہ ہمیں اس کے انعام کے
طور پر آخرت میں اللہ تعالیٰ کی مغفرت ،جنت کے انعامات اور سب سے بڑی
کامیابی اس کی رضا و خوشنودی حاصل ہو سکے۔
روزہ کے آداب:روزہ کے چند آداب درج کےے جاتے ہیں۔پیٹ کو بھوکا پیاسا رکھنا
تاکہ جسمانی قوت میں کمزوری پیدا ہو تو شہوانی قوتیں اپنے اعتدال پر آجائیں
،مفسرابن کثیر اپنی تفسیر ابن کثیر کی جلد اول میں لکھتے ہیں کہ روزہ سے
پرہیز گاری ملنے کی وجہ یہ ہے کہ روزہ کی وجہ سے بدن پاک ہو جاتا ہے اور
شیطانی راستے بند ہو جاتے ہیں اسی لےے بخاری ومسلم کی روایت میں نبی رحمت ﷺ
نے ارشاد فرمایا۔”اے جوانو! تم میں جو کوئی نکاح کی استطاعت رکھتا ہو تو وہ
نکاح کرے کہ یہ اجنبی عورت کی طرف نظر کرنے سے روکنے والا اور شرم گاہ کی
حفاظت کرنے والا ہے اور جس میں نکاح کی استطاعت نہیں وہ روزے رکھے کہ روزہ
قاطع شہوت ہے۔و ¿روزہ رکھنے کےلئے سحری کھائی جائے اور افطاری میں جلدی کی
جائے ۔نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:”روزہ رکھنے کےلئے سحری کھاﺅ کیونکہ سحری
کھانے میں برکت ہے ۔“(بخاری ،مسلم)دوسری روایت میں فرمایا سحری کھاﺅ اگر چہ
پانی کا ایک گھونٹ پینے کی صورت میں ہو۔تیسری روایت میں ہے روزہ افطار کرو
چاہے پانی کا ایک گھونٹ پینے کے ساتھ ۔(جامع صغیر)وسحری و افطاری میں کھانا
حد سے زیادہ نہ کھایا جائے کہ اس سے روزہ کا اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے ۔امام
غزالی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ رزق حلال کھانے سے پیٹ بے اندازہ بھرنا
نہیں چاہےے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک معدہ کی نسبت بھرنے کی روسے کوئی
برتن زیادہ برانہیں ہے ۔ (احیاءالعلوم)و ¿حالت روزہ میں گناہوں سے بچا جائے
۔کیونکہ گناہ ویسے بھی مذموم ہیں اور روزہ کی حالت میں زیادہ مذموم ہو جاتے
ہیں اور روزہ کے اجر و ثواب کو ختم کر دیتے ہیں ۔اسی لےے رحمت عالم ﷺ نے
فرمایا۔”جو شخص روزہ کی حالت میں جھوٹ نہ چھوڑے اور نہ جھوٹ پر عمل کرنا
چھوڑے اس کا کھانا پینا چھوڑنے کی اللہ تعالیٰ کی بارگا ہ میں کوئی منظوری
نہیں ہے ۔ (بخاری شریف، ابوداﺅد شریف)دوسری روایت میں حضور انور ﷺ نے
فرمایا کہ جب تم میں سے کسی ایک کے روزہ کا دن ہو تو نہ عورتوں سے میل جول
کی باتیں کرے اور نہ نادانی کا کلام کرے پھر اگر کوئی شخص اس سے گالی گلوچ
کرے یا اس سے لڑائی جھگڑا کرے تو وہ کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں۔(بخاری
،مسلم) تیسری روایت میں شفیع اعظم ﷺ نے فرمایا کہ روزہ ڈھال ہے ۔جب تک کہ
روزہ داراس ڈھال کو توڑنہ دے یعنی روزہ کی حالت میں گالی گلوچ نہ
کرے۔(نسائی شریف)مذکورہ احادیث سے ثابت ہوا کہ حالت روزہ میں صرف کھانے
پینے اور جماع سے بچناکافی نہیں بلکہ ہر قسم کے گناہوں سے بچنا بھی ضروری
ہے ۔حالت روزہ میں روزہ دار نیک عمل کی کوشش کرے ۔نماز پنجگانہ باجماعت ادا
کرنے کے ساتھ ساتھ ذکر الہٰی تلاوت قرآن کریم اور کتب دینیہ کا مطالعہ کرے۔
صدقہ و خیرات کرے ۔لوگوں سے بااخلاق گفتگو اور حسنِ معاشرت کا مظاہرہ کرے۔
روزہ کے فوائد:معزز قارئین!آخر میں ہم بطورِ خلاصہ روزہ کے مادی ،اخلاقی
،دنیاوی و اخروی فوائد کو ایک فہرست میں مرتب کر کے آپ کے سامنے پیش کرتے
ہیں ۔روزہ رکھنے سے مسلمان اپنے ایک اہم دینی فریضہ کی ادائیگی سے سبکدوش
ہوتا ہے کہ روزے مسلمانوں پر فرض ہیں ۔اس طرح اس میں فرض شناسی کی خوبی
پیدا ہوتی ہے ۔ روزہ رکھنے سے انسان میں کھانے پینے اور نفسانی خواہشات پر
قابو پانے کا ملکہ پیدا ہوتا ہے جو ایک انسانی کمال ہے ۔روزہ رکھنے سے اعضا
انسانی کے اندر ایک باقاعد گی اور اعتدال پیدا ہوتا ہے جو جسم انسانی اور
دماغ و قلب کی صحت مندی کےلئے ضروری چیز ہے۔روزہ رکھنے سے معدہ کی کئی ایک
بیماریاں مثلاً بد ہضمی ،نزلہ ،زکام اور پیٹ درد وغیرہ خود بخود دور ہوجاتی
ہیں ۔نیز circulation of bloodکی رفتار مناسب و معتدل ہو جاتی ہے جس سے
انسان جسمانی بیماریوں سے نجات پاتا ہے ۔روزہ رکھنے سے صحت و تندرستی اور
درازی عمر ،پاکیزگی و صفائی کی نعمت ازخود حاصل ہوجاتی ہے جو کسی دوسرے
ذریعہ سے حاصل ہونا محال ہے ۔روزہ رکھنے سے ایک مسلمان زبان ،ہاتھ اور آنکھ
وغیرہ کے گناہوں سے بچنے لگتا ہے جس سے انسان اخلاقی بلندی کا حامل ہوتا ہے
۔ روزہ کو تقویٰ اور پرہیزگاری کی شرط کے ساتھ رکھنے سے انسان اپنے خالق و
مالک پروردگار عالم ،رحیم و کریم خدا کی خوشنودی اور قرب کا مستحق ہو جاتا
ہے اور یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے- روزہ رکھنے سے مسلمانوں میں باہمی
یکسانیت ،اخوت ومحبت اور وقت کی پابندی جیسی اعلیٰ صفات پیدا ہوتی ہیں
۔روزہ رکھنے سے انسان میں شعور و ضمیر کی بیداری اور خودشناسی و خود آگاہی
جیسے کمالات پیدا ہوتے ہیں ۔روزہ رکھنے سے انسان مادہ کی غلامی کی ذلت سے
آزاد ہو کر خالق کائنات کی غلامی و بندگی کے اعزاز سے معزز اور انسانیت کے
شرف سے مشرف ہوتا ہے ۔
نتیجہ :۔ثابت ہوا روزہ ہر لحاظ سے تزکیہ نفس کاموجب ہے اور تزکیہ نفس سے ہی
معرفت خداوندی کی عظیم نعمت سے سرفراز کیا جاتا ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں روزہ
کے مقاصد پورے کرتے ہوئے تزکیہ نفس کی توفیق دے ۔آمین! |