نیا سب رَس

وسیع وعریض میدان میں جدھر جدھر نظر جارہی تھی سر ہی سر نظر آرہے تھے ۔ آس پاس کی ریت رات کی نمی کی وجہ سے ابھی تک دُبک کر بیٹھی تھی اور شوخ ہوا کے سر پھرے جھونکے اُسے اُڑانے کی سرتور کوشش کررہے تھے، مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہورہی تھی۔میدان میں سرگوشیوں سے کافی شور پیدا ہورہا تھا، اور نظریں بار بارپنڈال کی طرف اُٹھ رہی تھیں۔یہاں پر چار نامور شخصیات کے درمیان عوام کی عدالت میں ایک مکالمہ ہونے والا تھا کیونکہ رہن آباد میں ابھی تک جمہوریت زندہ تھی اور ہر کوئی آزادانہ اپنی رائے کا اظہار کر سکتا تھا۔۔ دور سے بگولے کی طرح آتی ہوئی فور بائی فو ر لینڈ کروزرلوگوں کے ہجوم کو چیرتی ہوئی پنڈال تک پہنچی اوراس میں سے ایک تیکھے نقوش والے صاحب برآمد ہوئے ۔اُس نے موٹے عدسوں کی عینک پہنی تھی اور چوڑی پیشانی سورج کی کرنوں سے چمک رہی تھی۔اُس نے مجمع پر ایک رعونت بھری نگاہ ڈالی اور پھر اپنے لئے مخصوص مسندپر نیم دراز ہو گیا۔۔ ایک سادہ سے کپڑوںمیں ملبوس پرمتانت چہرے والا جسیم بزرگ جو اس میدان میں سب سے پہلے آیا تھا مگر معزز مہمان سے پہلے پنڈال پر جانے کی جراءت نہیں ہورہی تھی۔۔ جب مہمان اپنی مسند پر بیٹھ گیا تو جسیم بزرگ نے بھی شہہ پائی اور اُسکی برابر والی مسند پر کھسیانا سا بیٹھ گیا۔۔سفید لباس میں ملبوس معصوم سی صورت کامنی مورت بنا ایک نوجوان مجمع میں راستہ بناتا ہوا پنڈال تک پہنچا، اُس کی آنکھوں کے سُرخ ڈورے اُس کے چہرے کی رونق کو چار چاند لگا رہے تھے۔ وہ پر وقار طریقے سے مگر سرجھکائے اپنی مسند پر جا بیٹھا۔اس مکالمے کے لئے آنے والوں نے ایک اصول طے کیا تھا کہ ہم آپس میں بات چیت کریں گے مگر کسی اینکر کو درمیان میں نہیں لائیں گے ، کیونکہ وہ مسائل حل کرنے سے زیادہ اپنا کاروبار چمکانے کی فکر میں ہوتا ہے۔۔

عینک والے صاحب نے اپنا تعارف یوں شروع کیا: دوستو! وہ میں ہی ہوں جس نے انسان کو حیوانی زندگی ترک کرنے کا راستہ دکھایا ۔۔ارے وہ تو کپڑوں سے بے نیاز ننگ دھڑنگ جنگلوں میں مارا مارا پھرتا تھا، کبھی طاعون سے مرتا کبھی ہیضے کے ہاتھوں بستیاں اُجڑتیں۔۔۔ میں نے اسے تیرنا ، اُڑنا ا ور دُنیا کی حکمرانی سکھائی، یاروں وہ میں ہی ہوں جسکا آپ کو شدت سے انتظار تھا، میرا نام ہی ذہن ہے،آپ پیار سے ذہانت صاحب بھی کہہ سکتے ہیں۔۔۔ میں ہی ہوں آپکی قابلیت اور عقلمندی جانچنے کا پیمانہ ۔۔ کیونکہ جدھر بھی تم لوگ گئے میرے ہی ٹیسٹ لیے جاتے ہیں میقیاسِ ذہانت جانچے بغیر کوئی بھی تمہیں گھاس نہیں ڈالے گا۔۔ اُس کی ہونٹوں پر ایک رعونت بھری مسکراہٹ پھیلی اور فخر سے سینہ تان کر کہا دوستو جب تم شہر روزگار کے لئے جاتے ہو کبھی کہیں ایمانداری ٹیسٹ دیکھا ہے ؟ کہیں اخلاص ٹیسٹ دیکھا ہے؟ کہیں دیانتداری ٹیسٹ دیکھا ہے؟۔نہیں دیکھا۔۔ نا!!! اور پھر مجمع کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔ مجمع سے آواز بلند ہوئی ۔۔نہیں دیکھا!۔۔۔۔۔۔۔ اُسکی بات ابھی جاری تھی کہ جسیم بزرگ نے بات کاٹتے ہوئے اپنا تعارف کرایا ۔۔ یارو!۔۔ مجھے ذہانت صاحب کی طرح تیز طرار باتیں تو نہیں آتیں مگر دُنیا میں سب سے پہلے میں وارد ہوتا ہوں مجھے جسم کہتے ہیں ، اور اس دُنیا کی حد تک تو میں ہی وجود ہوں۔۔ ذہانت نے جسم پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالی ۔۔ معصوم سی صورت والا نوجوان ابھی اپنی زبان کھولنے ہی والا تھا لیکن ذہانت نے بات شروع کردی اور لوگوں نے ذہانت کی آواز میں دبتی ہوئی ایک آواز سنی ۔۔ بھائیو!۔۔مجھے دل کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ ذہانت نے طعنے کے سے انذاز میں جسم کو مخاطب کرکے کہا ۔۔ اوئے یار تیرے بھی سو رولے ہیں ۔ نہ خشکی میں تجھے چین نہ تری میں قرار ، سچ پوچھیں میں تو اپنی ساری توانائیاں تیرے چونچلے اُٹھانے میں ضائع کرتا ہوں ۔جسم نے فقط اتنا ہی کہا کہ اصل میں وجود تو میں ہی ہوں اور میرے بغیر تو ، تُو بھی نِرا تخیل ہی ہے۔۔۔ بات کا سننا تھا کہ ذہانت کو تپ چڑھ گئی۔۔ دل نے پھر سے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا مگر اب کی بار اُنکی ہلکی سی آواز کسی کو بھی سُنا ئی نہ دی بس ایک سرگوشی سی ہوئی۔۔۔۔جسم وذہانت کی کشمکش جاری تھی کہ ایک وجیہہ و قوی شخص پنڈال کی سیڑھیاںچڑھ کر سٹیج پر نمودار ہوا۔۔اُسکے ہونٹوں پر پُر اعتماد مُسکراہٹ اور چہرے پر برادرانہ شفقت تھی۔۔کپڑے قیمتی نہیں تھے مگرپُر وقار ضرور تھے۔اُس کے پہنچنے پر جسم و ذہانت کی بحث تھم گئی اوردونوں آپس کی چپکلش بھول کر اُسے گھورنے لگے۔۔اُس نے آتے ہی اپنا تعارف کیا ۔۔ بھائیو! میں ضمیر ہوں، میں اکثر خوابیدہ حالت میں پایا جاتا ہوں، اور معاف کرنا آجکل تو میری حالت مُردوں کی سی ہے۔۔ میں سویا ہوا تھا مگر کسی منچلے نے جگا کر ادھر بھیج دیا۔۔۔ بھائیو! ایک بات غور سے سنو کہ میں جب جب جاگتا ہوں قوموں کی تقدیر بدل دیتا ہوں، میں جاگتا ہوں تو عرب کے بُدو اور خانہ بدوش قیصرو کسرٰ کے کاخ ہلادیتے ہیں، میں جاگتا ہوں تو یہ سُست اور بھوک کی خوف سی پیروں میں پڑنے والا جسم ، اپنی فنا سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔۔ پھر پھانسی کے تختوں پر کھڑے جسم فنا کے خوف سے روتے نہیں بلکہ پھندے اپنے ہاتھوں سے خود ہی گلوں میں ڈال کر ہنسی خوشی عدم کی طرف کوچ کرتے ہیں۔۔۔ پھر عمر مختیار پیدا ہوتے ہیں ، منگل پانڈے پیدا ہوتے ہیں اور سقراط زہر کا پیالہ آبِ حیات کی طرح غٹ غٹ پی جاتا ہے۔ یہ میری ہی بیداری ہے کہ مارکس غربت کا رونا نہیں روتا بلکہ غریبوں کے درد میں گُھلتا ہے، گیلیلیو نام نہاد مذہبی اجارہ داروں کے سامنے سینہ سپر ہوتا ہے۔ ماوزے افیون کی دلدادہ قوم کو سپر پاور بناتا ہے، ٹیپو کو ایک دن کی زندگی بھاتی ہے اور انا ہزارے حق کے لئے تیغ و توپ سے ہمہ وقت لڑنے کو تیار رہتا ہے۔۔۔ بات ابھی جاری تھی کہ ذہانت جھنجھلا کر کرختگی سے بولا!۔۔ ابے او بُدو! تو ، تو تکا لیف کا گھنٹہ پیکیچ ہے۔۔ تو اس بیچارے جسم اور میرے لئے مصیبتوں کے پہاڑ کھڑے کرنے پر تُلا رہتا ہے۔۔ کس کمینے نے پھر تیری نیند خراب کرکے ہمارے لئے عذاب بنادیا!!۔۔ ایک تو ہر زمانے میں تیری نیند خراب کرنے والے بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں !!۔۔ بے چین روحیں!!!۔۔ اب یہ کہاں کا انصاف کہ آگ دیکھ کر اُس میں کودا جائے، موت سر پر منڈلا رہی ہو اور بات سے نہ پلٹا جائے ، ابے بُدو!۔۔ اسے سیاست کہتے ہیں یہی دانائی ہے ۔۔ کہ بات سے پلٹ کر پھر سے خطرہ ٹلنے کے بعد جھپٹنا۔۔جیسے سیاست والے خطرے کے وقت پلٹتے ہیں اور خطرے کے بعد پھر سے دیس پر جھپٹتے ہیں۔۔۔ اس بیچارے جسم کو دیکھو تیری وجہ سے بھوکا پیاسا رہتا ہے۔جن خبطیوں کے پاس تو بیدار ہوتا ہے اُسے محلے والے بھی نہ دین کی باتوں میں شمار کرتے ہیں اور نہ دُنیا کی ۔۔۔ اب دیکھیں دُنیا کا مزا تو اُسے اُس کے ڈھنگ سے جینے میں ہے جو لوگ تمہیں سُلا گئے یا مار گئے اُنھوں نے دُنیا کا عظیم کام کیا۔۔ لاکھوں کروڑوں میں کھیلتے ہیں ، ساری دُنیا اُنکے دروں پر سجدہ ریز ہوتی ہے۔۔ایک سے بڑھ کر ایک نئی گاڑی کے ماڈل اُن کے گھروں سے نکلتے ہیں۔۔ سب اُنھیں دانا سمجھتے ہیں اور وہی حاکم ہوتا ہے مگر جن کی سلام دُعا تم سے ہو اُنکے نہ اہل و عیال آسودہ اور نہ بچے سُکھی۔ ایک ایک سہولت کے لئے ننھے منے بچوں کی آرزﺅں کے خون کرتے ہیں، نہ اچھی طرح پڑھا سکتے ہیں اور نہ آسائش بھری زندگی دے سکتے ہیں۔۔ مگر تیرا منحوس سیایہ جب نہ ہو تو نوٹوں کی گڈیاں اور عیش ونشاط ہوتا ہے۔۔ لب و رُخسار ہوتے ہیں ، حسیں دلدار ہوتے ہیں، ہزاروں ہنسانے والے اور لاکھوں یار ہوتے ہیں۔۔۔ تم تو مفلسی کا مُہر ہو اور جب تمہیں جسم اپنا تا ہے تو کبھی نہ کبھی افلاس سے تنگ آکر کسی دوراہے پر تمہیں سوتا ہوا چھوڑ کر خود بِکنے چلا جاتا ہے اور خوش و خرم رہتا ہے۔ مجھے دیکھو تیری غیر موجودگی میں کتنی ترقی اور ایجادات کرتا ہوں ۔۔ہزاروں سائنسدان پیدا کرتا ہوں وہ بندوق بناتے ہیں ، ایٹم بم و نائٹروجن بم بناتے ہیں، کبھی لیبارٹریوں میں جراثیمی ہتھیار بناتے ہیں، مجھے جلا ملتی ہے اور دُنیا ترقی کرتی ہے۔۔۔

واہ بھائی واہ ! ۔۔ خوب تقریر کر لیتے ہو یہ موٹی عینک ویسے تو نہیں پہنی۔ ۔۔ کچھ بات تو ضرور ہے !!۔۔۔او بھائی ! تمہاری دانائی میں بھی بیوقوفی ہے بُدو میں نہیں بُدو تو ، تُم ہو۔۔کچھ عقل کے ناخن لو ۔۔۔ تم جُرو کو کُل سے علاحدہ کر کے اسے خوشی کہتے ہو۔۔ افسوس ہے تمہاری سوچ پر۔۔ تمہیں وسعت ِ نظر کا کیا پتہ تم تو قریب کی چیز بھی ان موٹے عدسوں کی مدد سے دیکھتے ہو۔۔ یہ تم جسے ترقی کہہ رہے ہو اوریہ جسم جوتمہاری پرچھائی بنا بانچھیں کھول کر اثبات میں سر ہلا رہاہے یہ ملی بھگت میں خوب جانتا ہوں ۔اس سے خود پوچھو کہ مجھے سُلا کر یہ کتنا کھوکھلا ہو جاتا ہے اس کا صرف ڈھانچہ رہتا ہے اس کی روح نکل جاتی ہے۔۔یہ اپنی چند مادی خواہشات پوری کرنے کے لئے اپنی انا کی تکہ بوٹی کس طرح بیچتا ہے۔۔ اس بیچارے کا اصل دُشمن تو ،تو ہے یہ تو پاگل ہے جو تم پر تکیہ کیے ہوئے ہے۔۔لیبارٹریوں میں تم اس بیچارے کے لئے تھوک کے حساب سے فناکے اوزار بناتے ہو۔ہیرو شیما و ناگا ساکی کو دیکھو!۔۔ میں اگر اسے گلے میں پھندا ڈال کر ہنسانے پر مجبور کرتا ہوں تو یہ کُل کی بھلائی ہے اور کُل کی بھلائی کے لئے اگر جزو کو تکلیف بھی ملے تو اسکے لئے باعثِ فخر ہے۔۔ یہ تیری نحوست ہے کہ آج انسانیت مر رہی ہے اور کُل فنا کی راہ پر گامزن ہے۔۔ عراق اور افغانستان کے خون میں لٹھڑے ہوئے جسموں کو دیکھو! ، ہٹلر کے گیس چیمبر دیکھو!، پاکستان کا فاٹا دیکھو!، کراچی کی سیاست میں بوری بند لاشیں دیکھو! جسم کے ساتھ دُشمنی کون کر رہا ہے۔۔سب تمہاری کارستانی ہے!۔۔ کتنی محنت سے جسم پر وان چڑھتا ہے اور تم آن کی آن میں اسے گوشت کے لوٹھڑوں میں تبدیل کردیتے ہو۔۔ تم نے جو مکروہ عینک پہنی ہے اس سے تمہیں سب کچھ دھندلا نظر آرہا ہے۔۔تمہارا رُخ تو روشن ہے مگر تم اندر سے کالے ہو۔۔۔بحث جاری تھی اور لوگ انگشت بدنداں سب کچھ سن رہے تھے۔۔ دل کبھی کبھی بات کرنے کے لئے منہ کھولتا، لیکن حوصلہ نہیں پاتا۔۔مجمع میں سے کسی منچلے نے اُس کی بے چینی دیکھتے ہوئے ایک تسبیح اُس کے ہاتھ میں تھما دی تھی، اور وہ کونے میں بیٹھ کر اسے پھرانے لگاکسی نے ایک لوٹا بھی لاکر اُس کے سامنے رکھ دیا تھا۔۔شاید دوست تھا یا دُشمن لیکن اُسے خاموش ضرور کر دیا ۔۔ کہ بار بار منہ کھول رہا ہے ، اگر اس نے بھی ضمیر کی سائیڈ لے لی تو جسم اور ذہن کی دال نہیں گلے گی ۔اور یوں وہ ضمیر کو اکیلا چھوڑ کر الگ تھلگ بیٹھ گیا۔۔ ضمیر نے اپنی بات جاری رکھی۔۔۔۔ اگر میں جاگا ہوتا تو پاکستان کے لوگ لال مسجد اور جامعہ حفصہ والوں کی دھجیاں بکھرتے کیوں دیکھتے۔۔ یہ سب تیری کارستانی ہے کہ فاسفورس سے جلی ہوئی بوٹیاں کوڑے کے ڈھیروں سے ہفتوں تک مِل رہی تھیں۔۔میرے سو جانے کے بعد بیچارے جسم کا تو یہ حال ہونا لازمی تھا۔۔اور میں نے تو سنا ہے کہ میرے چند عزیز بھی آجکل کافی دھتکارے جاتے ہیں ۔۔ اب دیکھو میرا دوست غیرت اور میری بہن انا کس قدر ذلیل ہوکر مجلسوں سے نکالے جاتے ہیں۔ ۔ اور میری عزیزہ خود داری جسکا ایک شاعر نے بھی کافی چرچا خودی کہہ کر کیا تھا ۔ اُسے بھی چند گویوں کے حوالے کر دیا گیا کہ اسے طبلے کی تھاپ پر گاتے پھرو یا یونیورسٹیوں میں بیٹھ کر اس پر کتابیں لکھتے رہو،مگر معزز ایوانوں کے قریب پھٹکنے مت دو!۔۔یار تمہاری عیاری کاکیا کہنا! تم نے اپنے رشتے داروں کے نام بھی لوگوں کو بیوقوف بنانے کے لئے بدل دے ہیں تاکہ اُنھیں گِھن نہ آئے۔ اب دیکھو! پہلے جسے لوگ عیاری و مکاری کہتے تھے اسے اب تم نے flaxibility کا نام دے کر غیر سرکاری تنظیموں سے منوا لیا، سرکاری تنظیمیں بھی اس کا ٹیسٹ لیتی ہیں کہ کسی بندے میں کمینگی درکار حد سے کم نہ نکلے۔اور غیر سرکاری تنظیموں میں تو وہی بندہ چلتا ہے جس میں اس کمینگی کی مقدرا اچھی خاصی ہو۔۔۔۔ اور سنو یہ جو سرکاری بھرتیوں میں تمہاری موجودگی کے ٹیسٹ لیے جاتے ہیں اور میری موجودگی نظر انداز کی جاتی ہے اسی وجہ سے تو سارا نظام مفلوج ہوگیا ہے۔۔ تمہارے یار سفارش اور رشوت آجکل ہر جگہ چمکارے جاتے ہیں تب ہی تو ادارے مرحوم ہو گئے ہیں۔۔ ضمیر کا چہرہ غصّے سے لال ہورہا تھا۔۔ ذہانت نے تنزیہ ہنسی ہنسی اورزیرِ لب بڑبڑایا۔ !۔ تو پھر کیا تیرے ٹیسٹ لے۔۔ ایک دو جن کے ہاں تو جاگتاہے برداشت سے باہر ہوتے ہیں اور اپنی کرسی کا بوجھ لیے شہربہ شہر پھرتے ہیں ۔۔ اور اگر پوری افسر شاہی اور وزراءمیں تیری موجودگی ضروری طے پائی،پھر تو ذہانت و چالاکی گئی بھاڑ میں۔۔۔

ضمیر نے آواز سُن لی تھی اور تنز کا جواب تنز سے دینے لگا۔۔اوبانکے میاں !۔ اگر افسر شاہی میں میری موجودگی لازمی ہوگئی تو قوم زندہ ہوجائے گی، جھوٹے ، فریبی اور دغاباز بڑی بڑی مسندوں پر نہیں بیٹھیں گے، ملک کی بھاگ ڈور سرمایہ داروں کے بجائے عوام کے ہاتھوں میں ہوگی۔۔ دُنیا اقومِ متحدہ جیسے دورُخے اداروں سے نجات حاصل کرے گی، جو فلسطین اور کشمیر کو تو مسئلہ ہی نہیں مانتے اور برما میں مسلمانوں کی لاشیں تھوک کے حساب سے دیکھ کر بھی خاموش ہیں، مگر مشرقی تیمور گھنٹوں میں آزاد ہوتا ہے۔۔اسامہ کے لئے افغانستان روندتا ہے اور حماس کے جمہوری نمائندوں کو اسمبلیوں سے روک دیتا ہے۔۔ اپنے سفید ہاتھی کو تو کُھلا چھوڑا ہے کہ جاﺅ جس ملک کو جی چاہے رونددو، لیکن ایران کا اونچا سر کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔۔اپنوں کی من مانیوں کے لئے دوسروں کو قید کرنے والا کہاں کا اقوامِ متحدہ ! کیسا اقوامِ متحدہ! کس کا اقوامِ متحدہ!۔۔۔بھائی میں جس کے پاس ہوتا ہوں وہ نہ بکتے ہیں نہ جُھکتے ہیں ۔۔۔ ضمیر کی باتیں متاثر کُن تھیںاس لئے ذہانت نے جسم کو آنکھ ماری کیونکہ ذہانت کو ضمیر کی بے باکی ایک آنکھ نہیں بھا رہی تھی۔۔۔ لوگ عجیب و غریب نظروں سے دیکھ رہے تھے۔۔ مگر بلکل خاموش ۔۔۔ جسم و ذہانت نے پھر سے اشارہ کیا او ر ایک جسد لگا کر ضمیر کی گردن پر سوار ہوگئے۔۔ ضمیر کے گلے سے غرانے کی سی آوازیں آرہی تھیں۔۔ مگر دونوں نے اُنکا گلہ زور سے دبایا تھا اور وہ بُری طرح تڑپ رہا تھا۔۔ لوگ تماشائی بن کر دیکھ رہے تھے۔۔۔ضمیر نے کافی صدائیں دیں مگر یہ اکیسویں صدی تھی۔۔۔ دل وضو کرکے اپنی تسبیح پھرا رہا تھا اور اُس کے پہلو میں ضمیر کچلا جا رہا تھا۔۔دل نے آنکھیں بند کر رکھی تھیں اور زور زور سے ورد کر رہا تھا۔۔ عوام اس تماشے سے خوب محظوظ ہو رہے تھے ، اور یوںایک بار پھر سے ضمیر کو مار دیا گیا۔۔ ذہانت اور جسم نے ماتھے سے پسینہ پونچھااور ایک دوسرے کو معنی خیز نظروں سے دیکھ کر مسکرائے۔۔ ضمیر کا بے حس و حرکت جسم پنڈال میں لاوارث لاش کی طرح بے گور وکفن پڑا رہا۔۔۔۔ مجمع سے کسی دل جلے نے آواز لگائی ۔۔۔ اب اکیسویں صدی میں روشن خیالوں کے بیچ حق کی بات کرو گے تو یہی حال ہوگا!!! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ضمیر کہیں کا۔۔!!!
Wasim Khan Abid
About the Author: Wasim Khan Abid Read More Articles by Wasim Khan Abid: 27 Articles with 32384 views I am a realistic and open minded person. .. View More