وہ دلچسپ واقعہ جس کا تذکرہ میں
بعد میں کروں گا، اخبار میں پڑھنے کے معا بعد ادبی صفحہ پریہ رباعی میری
نظروں سے گزری: رہا کچھ بھی نہ اب باقی وطن میں مگر اک خستہ حالی رہ گئی ہے
ترستی ہیں نگاہیں روشنی کو فقط روشن خیالی رہ گئی ہے میں یہ سوچنے لگا کہ
یہ رباعی کیا بروقت میرے سامنے آئی ہے۔شاعر کو تو فکر روشنی کی ہے اور لوڈ
شیڈنگ کے اس دور میں انسان کو اور کیا فکر لاحق ہوسکتی ہے؟ لیکن فکر ہر کس
بقدر ہمت اوست کے مصداق جس روشن خیالی کا مظاہرہ اس واقعہ میں نظر آیا اسے
محسوس کرکے مجھے فکر دینی اقدار کی پڑ گئی ہے۔ تو آئیے سب سے پہلے اس واقعہ
کی رپورٹ پر نظر ڈالیں: سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کا اجلاس اس وقت کشت زعفران
بن گیا جب چیئر مین ، پی آئی اے قمر راﺅ سلطان نے اپنے اسٹاف کا مسافروں کے
لیے بہتر رویہ اپنانے کے لیے ایئر ہوسٹسز کی تربیت سے متعلق آگاہ کیا او ر
بتایا کہ ہم نے ایک مہم شروع کی ہے جس میں ایئر ہوسٹسز کو ہدایت کی گئی ہے
کہ وہ ہر پرواز کے دوران ہر ہر مسافر سے چھ سے سات بار مسکراکر بات کرے ۔اس
سے ریونیو بڑھے گا ، ادارے کا امیج بہتر ہوگا اور پرواز کا ماحول بھی بہتر
ہوگا۔ مگر ایئر ہوسٹسز کہتی ہیں کہ اگر ہم زیادہ مسکرائیں تو مسافر غلط
مطلب لیتے ہیں اور ہمارے معاشرے میں عورت کا مرد کے ساتھ ان حالات میں
مسکرانا اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ جس پر میں نے ان سے کہا کہ وہ غلط مطلب والی
مسکراہٹ نہ دیں صرف پروفیشنل مسکراہٹ دیں۔ اس سے رویہ بہتر ہوگا ۔ہر مسافر
کو عزت دیں گی تو آہستہ آہستہ صورتحال بہتر ہوجائے گی۔ اب آئیے ذرا تجزیہ
کرتے ہیں کہ اس واقعہ میں ہمارے لیے عبرت کا کتنا سامان موجود ہے۔ پہلی بات
تو یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی تعلیمات کا کس دھڑلے سے
مذاق اڑایا جاتا ہے۔ ہمارے دین نے تو مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ
دائرئہ کار معین کیا ہے۔ رزق کے حصول کی ذمہ داری مردوں پر ڈالی ہے اور
عورتوں پر شوہر کے گھر اور مال کی حفاظت اور اس بچوں کی تربیت کی ذمہ داری
ڈالی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں خاتون خانہ کو شمع محفل بنادیا گیا ہے۔معیار زندگی
کو بلند سے بلند تر کرنے کی دوڑ میں خواتین کو بھی معاشی جدوجہد کے لیے گھر
سے باہر نکال دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب خواتین پر ان کے دین کی طرف سے دی
گئی ذمہ داری سے بڑھ کر بوجھ ڈالا جائے گا تو اس کے منفی نتائج تو لازما
پیدا ہوں گے۔ ہماری قومی فضائی کمپنی نے کوا چلا ہنس کی چال تو اپنی چال
بھی بھول گیا کے مصداق دنیا میں رائج سسٹم کو اختیار کرکے خواتین کو ایئر
ہوسٹس کی ملازمت کے لیے منتخب کرلیا ہے۔ حالانکہ یہ کام مرد بھی انجام دے
سکتے ہیں۔ لیکن پھر وہی بات کہ اگر خواتین کو ایئر ہوسٹس نہ بنایا جائے تو
عالمی سطح پر ہمارا سوفٹ امیج کیسے بنے گا ،لوگ پہلے بھی اسلام کی آئیڈیل
تعلیمات سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیا کرتے تھے کیونکہ انہیں اسلامی معاشرہ
اعلی اخلاق پر مبنی آئیڈیل معاشرہ نظر آتا تھا۔ آج بھی اگر غیر مسلم اسلام
قبول کررہے ہیں تو اسلام کی آئیڈیل تعلیمات سے متاثر ہوکر بالخصوص خواتین
اس معاملے میں مردوں سے آگے ہیں کیونکہ جس راستے پر آج ہماری خواتین ، مغرب
کی خواتین کے سامنے اس راستے کی تباہ کاریاں آچکی ہیں ۔ لیکن ہم نے سوفٹ
امیج کے حصول کے لیے اپنے معاشرے کی اس آئیڈیل حیثیت کو ختم کردیا ہے اور
ایسا کیوں نہ جبکہ ہمیں مغربی معاشرہ آئیڈیل معاشرہ نظر آنے لگا ہے۔ اگر
کوئی سوال اٹھاتا ہے کہ کیوں اپنے معاشرے کی آئیڈیل حیثیت کو مغربی معاشرے
سے متاثر ہوکر نقصان پہنچانے کے درپے ہو تو ان کا یہ کہہ کر مذاق اڑایا
جاتا ہے کہ اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو یہ مے و نغمہ کو
اندوہ ربا کہتے ہیں آپ نے دیکھا کہ پی آئی اے نے ایئر ہوسٹسز کی مسکراہٹ کو
کیش کرنے اور ادارے کا امیج بہتر بنانے کا ذریعہ سمجھ رکھا ہے اور پرواز کا
ماحول بہتر بنانے کا یہی ایک ذریعہ سمجھ رکھا ہے۔ لیکن بے چاری ایئر ہوسٹسز
کو اس سے کتنا فائدہ پہنچے گا اب یہ سب کو معلوم ہے۔ اب آئیے ایئر ہوسٹسز
کے اس ضمن میں تحفظات کی طرف ۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم زیادہ مسکرائیں تو
مسافر غلط مطلب لے لیتے ہیں اور ہمارے معاشرے میں عورت کا مرد کے ساتھ ان
حالات میں مسکرانا اچھا نہیں سمجھا جاتا ۔ وہ بے چاریاں بھی کیا کریں۔
ہمارا دین خواتین کو حج جیسی عظیم عبادت کے لیے بھی محرم کے بغیر سفر کی
اجازت نہیں دیتا۔ لیکن انہیں فلائٹ کے دوران ملک اور بیرون ملک کے شہروں
میں رکنا پڑتا ہے۔ اپنے نامحرم ساتھیوں کے ساتھ ہنسی مذاق کو وہ غلط نہیں
سمجھتیںجبکہ ہمارا دین خواتین کو ستر و حجاب کا پابندبناتا ہے۔ وہ تو امہات
المومنین کو یہ ہدایت دیتا ہے کہ اگر انہیں کسی نامحرم کی بات کا پردے کے
پیچھے سے جواب بھی دینا پڑے تو ان کی آواز میں لوچ نہیں ہونا چاہئے تاکہ
اگر کسی کے دل میں روگ ہو تو وہ کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہو۔ اور ان امہات
المومنین کے بیٹوں یعنی صحابہ کرام سے کہا گیا کہ اگر تمہیں ان سے کچھ طلب
کرنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو۔ ہماری خواتین جب دینی تعلیمات کی
خلاف ورزی کریں گی تو انہیں اس قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا جن سے
ہماری ایئر ہوسٹسز دوچار ہوتی ہیں۔ اب ذرا پی آئی اے کے چیئر مین کا جواب
ملاحظہ فرمائیں۔ کہتے ہیں کہ وہ غلط مطلب والی مسکراہٹ نہ دیں ۔اب پتا نہیں
اس سے ان کی کون سی مسکراہٹ مراد ہے۔ البتہ مطلوبہ مسکراہٹ کو انہوں نے
پروفیشنل مسکراہٹ کا نام دیا ہے۔ پروفیشنل کا اگر اردو میں ترجمہ کیا جائے
تو اس کا مطلب پیشہ ور انہ ہوتا ہے۔ پیشہ ورانہ مسکراہٹ کوئی پیشہ ور عورت
ہی دے سکتی ہے ۔ اگرچہ ورکنگ ویمن کے اعتبار سے وہ بھی پیشہ ور خواتین کہلا
سکتی ہیں لیکن کیا کیجئے کہ پیشہ ور عورت کا لفظ سنتے ہی جس کی طرف دھیان
جاتا ہے اسے سوسائٹی میں ناپسندیدہ ہی سمجھا جاتا ہے۔جبکہ ایئر ہوسٹسز اپنے
حلقے میں قابل احترام مقام رکھتی ہیں۔ تو چیئرمین ،پی آئی اے انہیں
پروفیشنل مسکراہٹ کا حکم کیوں دے رہے ہیں،ویسے بھی ایک عام مسافر کے لیے
غلط مسکراہٹ اور پروفیشنل مسکراہٹ میں فرق کرنا خاصا دشوار ہوگا۔بہرحال یہ
تو طے ہے کہ اگر ہماری خواتین شریعت کو اپنے پیروں تلے روندتی رہیں گی تو
اس طرح کے حالات سے انہیں سابقہ پیش آتا رہے گا۔وہ ہمیشہ اس کیفیت میں
مبتلا رہیں گی کہ ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر کعبہ مرے پیچھے
ہے کلیسا مرے آگے انہیں کعبہ اور کلیسا میں سے کسی ایک کا انتخا ب توکرنا
ہی پڑے گا۔اگر وہ کعبہ کا انتخاب کرتی ہیں تو بقول علامہ اقبال ۔ گر تومی
خواہی مسلماں زیستن نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن انہیں اپنے آپ کوقرآنی
تعلیمات کا پابند بنانا ہی پڑے گا۔ اب آئیے آخر میں اس نکتہ پر کہ چیئر مین
، پی آئی اے کی باتوں کو سن کر سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کا اجلاس کشت زعفران
بن گیا حالانکہ یہ تو رونے کا مقام ہے بالخصوص اس وجہ سے کہ سینیٹ کا تعلق
اسلامی جمہوریہ پاکستان سے ہے کسی سوشلسٹ ریپبلک سے نہیں۔ لیکن رونا تب آئے
جب ارکان دفاعی کمیٹی کی آنکھوں میں بصارت کے ساتھ بصیرت کی قوت بھی موجود
ہو۔ |