جال۔ در ۔ جال۔ قسط ١١۔

گُزشتہ سے پیوستہ۔

فرقان نے ایک خیال کے تحت ٹھیکیدار عبدالرحمن سے مُخاطب ہُوتے ہُوئے کہا۔۔ عبدالرحمن بھائی کیا آپ کل فجر کی نماز کے فوراً بعد سائٹ پر آسکتے ہیں۔۔۔۔۔؟ ٹھیکیدار عبدالرحمن کے حامی بھرنے کے بعد فرقان ٹھیکیدار عبدالرحمن کو رخصت کرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر اپنے کمرے میں آکر لیٹ گیا۔ لیکن اب اُسکی آنکھوں میں اِضطراب کے سائے لہرا رہے تھے۔ وہ سُوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ کہ آغا بابر جیسا بُردبار شخص ایسی کِسی گھٹیا حرکت کا مرتکب بھی ہُوسکتا تھا۔ لیکن ٹھیکیدار عبدالرحمن کی گُفتگو نے فرقان کے ذِہن میں بُہت سے سوالات پیدا کردیئے تھے۔ جنہوں نے فرقان کے ذہن کو بہرحال پراگندہ کردیا تھا۔

اَب مزید پڑھیئے۔

فرقان کوشش کے باوجود بھی تمام رات آرام سے سُو نہیں پایا۔ بے شُمار خَدشات و پریشان خیالات اُسکے ذِہن کو تمام رات بھٹکاتے رہے۔ وُہ دِل ہی دِل میں خُدا سے دُعا کررہا تھا۔ کہ کاش اُسکے تمام خَدشات بے بنیاد ہُوجائیں۔ اُور ٹھیکیدار عبدالرحمن کی بیان کردہ تمام باتیں اے کاش غلط فہمی کا شاخسانہ ثابت ہُوں۔ اِسی اُدھیڑ بن میں فرقان جاگتا رَہا یہاں تک کہ رات گُزر گئی اُور موذن نے رات کی سیاھی کے ڈھلنے کا اعلان آذان کی صورت میں بُلند کردیا۔

فرقان فجر کی نماز و اذکار سے فارغ ہُونے کے بعد جب سائٹ پر پُہنچا تُو ٹھیکیدار عبدالرحمن پہلے ہی سے اُسکی آمد کا منتظر تھا۔ سب سے پہلے وُہ دُونوں اینٹوں کے ڈھیر پر پُہنچے۔ جہاں تھوڑی سی بھاگ دُوڑ کے بعد فرقان کو ٹھیکیدار عبدالرحمن کی بات میں صداقت نظر آگئی۔ اینٹوں کے ہر ڈھیر میں نصف سے زائد غیر معیاری اینٹیں ٹھیکیدار عبدالرحمن کی تشویش کی تصدیق کررہی تھیں۔ اِسکے بعد جب فرقان نے اِسٹاک شیڈ میں سیمنٹ کی چند بوریوں کا دامن چاک کیا۔ تب ایک بُوری سیمنٹ بھی ایسی نہ تھی۔ کہ جِس میں سیمنٹ نے گُٹھلیوں کی شکل اختیار نہ کرلی ہُو۔

بے شک آغا بابر کی پرسنالٹی سے مُتاثر ہُوکر فرقان دُھوکہ کھا چُکا تھا۔ ۔۔۔۔ فرقان اپنی پیشانی پر آئے پسینے کے قطرات کو صاف کرتے ہُوئے سُوچنے لگا۔۔۔۔۔۔ نجانے کب سے آغا بابر آستین کے سانپ کی طرح شہریار مجددی کو نقصان پُہنچا رہا ہُوگا۔۔۔۔۔۔۔۔ فرقان کے اندازے کیمطابق وہ صِرف اِن چند دِنوں میں کم از کم بیس لاکھ روپیہ کی ہیر پھیر کر چُکا تھا۔ اُور فرقان کو حیرت تھی کہ شہریار مجددی کے بقول آغا بابر گُزشتہ آٹھ برس سے شہریار مجددی کی زمینوں اور پاکستان میں پھیلے بزنس کو سنبھال رَہا تھا۔ اِس حساب سے فرقان کو یقین تھا کہ آغا بابر اِس دُورانیے میں کروڑوں کی خُرد بُرد کرچکا ہُوگا۔

جب آفس میں فرقان نے ٹھیکیدار عبدالرحمن کا کوٹیشن فارم تلاش کرنے کی کُوشش کی تو یہ سعی بھی لاحاصل رہی تمام فائل میں ٹھیکیدار عبدالرحمن کا کوٹیشن فارم سِرے سے موجود ہی نہیں تھا۔ جبکہ ٹھیکیدار عبدالرحمن کا اِصرار تھا کہ اُس نے خُود اپنا فارم بند لفافے میں آغا بابر کو پیش کیا تھا۔ جِسے اُسکے سامنے ہی دیگر لفافوں کے ساتھ رَکھ دِیا گیا تھا۔ مگر اب ایسا لگ رَہا تھا جیسے اُس لفافے کو زمین نِگل گئی ہُو۔

تھوڑی سی مزید تفشیش کے بعد فرقان پر یہ راز بھی آشکار ہُوگیا کہ حماد اینڈ سنز کے ساتھ جتنے بھی کوٹیشن فارم فرقان کو دِکھائے گئے تھے۔ وہ تمام کوٹیشنز بھی جعلی تھی۔ جو زیادہ ریٹ کیساتھ شائد اسلئے رکھے گئے تھے۔ تاکہ حماد اینڈ سنز کے کوٹیشن کو پاس کیا جاسکے۔۔۔۔ فرقان نے رسٹ واچ پر نِگاہ ڈالی تُو صبح کے آٹھ بجنے کو تھے۔ فرقان نے تمام فائل کو احتیاط سے ٹیبل کی دراز میں منتقل کیا اُور آفس سے باہر آنے کے بعد چوکیدار کو ہدایات دیں۔ کہ میرے اس طرح علی الصبح آنے کا تذکرہ کسی سے بھی نہ کیا جائے یہاں تک کہ آغا بابر صاحب کو بھی اِسکی قطعی خبر نہیں ہُونی چاہیئے۔یہ کہہ کر فرقان نے ایک پانچ سو روپیہ کا نُوٹ چوکیدار کی جیب میں زبردستی منتقل کردیا۔ اُور اسکے بعد فرقان ٹھیکیدار عبدالرحمن کے ساتھ واپس روانہ ہُوگیا۔

چند گھنٹوں بعد فرقان جب معمول کے مطابق سائٹ پر دوبارہ پُہنچا تو آغا بابر نے ہمیشہ کی طرح بڑے پُرتپاک انداز میں فرقان کا استقبال کیا۔ چند رسمی جُملوں کے بعد فرقان نے بڑی لاپرواہی سے ٹھیکیدار عبدالرحمن کے کُوٹیشن فارم کے متعلق آغا بابر سے استفسار کیا۔۔۔۔ فرقان کے سوال کی وجہ سے آغا بابر کے چہرے پر ایک رنگ آکر گُزر گیا۔ لیکن جلد ہی اُس نے خُود کو سنبھالتے ہُوئے فرقان سے نارمل انداز میں کہا،، اِس نام کا بندہ میرے پاس آیا تُو تھا۔۔۔۔ لیکن شائد وہ لفافہ مجھ سے کہیں کھو گیا ہے۔۔۔ جسکے لئے میں آپ سے معذرت خُواہ ہُوں۔

فرقان نے ہمیشہ کی طرح مسکراتے ہُوئے کہا،، آغا صاحب کوئی بات نہیں بس وہ ہمارا پُرانا جاننے والا تھا۔ اُور اسنے پیغام بھیجا تھا کہ اُسکے کوٹیشن کا بھی خیال رکھا جائے۔ مگر آپ بالکل بھی پریشان نہ ہُوں۔۔۔۔۔ میں سب سنبھال لُونگا۔ آپ بس سائٹ کے کاموں پر دھیان رکھیں تاکہ کوئی غیر معیاری میٹریل ہمارے کام میں شامل نہ ہُونے پائے۔ فرقان کے اِس جملے پر آغا بابر کے چہرے کا رنگ ایک مرتبہ پھر متغیر ہُوگیا۔ لیکن دوسرے ہی لمحے اُس نے خود پر قابو پاتے ہُوئے بڑی ڈھٹائی سے فرقان کی توجہ حاصل کرتے ہُوئے کہا،، فرقان صاحب میٹریل کی کوالٹی کی آپ بالکل پرواہ نہ کریں۔ جب تک میں یہاں ہُوں ایک مُٹھی بھر غیر معیاری سامان بھی فیکٹری کی حدود میں نہیں آسکتا۔ کیونکہ تمام آنے والے سامان کی میں خُود جانچ پڑتال کرتا ہُوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فرقان دِل ہی دِل میں کہہ رہا تھا۔ کمبخت کِس ڈھٹائی سے جھوٹ بُول رہا ہے۔ ۔۔ ٹھیکیدار عبدالرحمن نے اگر بروقت مُطلع نہ کیا ہُوتا تُو نجانے کتنا کباڑ خانہ اصل سے بھی زائد قیمت پر فیکٹری میں جمع ہُوتا رِہتا۔

فرقان نے اُسی شام تمام معاملہ حسَّان صاحب کے سامنے پیش کردِیا۔ جسکے بعد حسان صاحب نے فرقان کو حُکم دیا کہ شہریار مجددی کو میرا پیغام پُہنچاؤ کہ وُہ فورا چند دِن کیلئے پاکستان آجائے۔ تیسرے دِن شہریار مجددی ، حسَّان صاحب کے ایما پر خاموشی سے پاکستان چلا آیا۔ تمام معاملات کا علم ہُونے کے بعد شہریار مجددی نہ صِرف حیران تھا بلکہ اُس نے حسان صاحب سے برملا کہا کہ اگر کوئی اُور مجھے یہ بات بتاتا تُو شائد میں اتنی جلد اعتبار بھی نہیں کرپاتا۔ اچھا ہُوا کہ آپ نے مجھے بروقت مُطلع کردیا۔

شہریار مجددی نے اُسی وقت اپنے بڑے بھائی ڈی ایس پی اعتصام مجددی کو کال مِلا کر تمام تفصیلات سے آگاہ کردیا۔ جسکے بعد ڈی ایس پی اعتصام نے فوری طور پر اپنے ماتحت افسران کو حُکم دیا کہ وہ فوری طور پر آغا بابر کو گرفتار کریں اُور تمام معاملات کی تفشیش مکمل کرنے کے بعد چھتیس گھنٹے میں رپورٹ پیش کریں۔

آغا بابر عادی مجرم نہیں تھا۔ اُور نہ اِس سے پہلے اُسکا پولیس سا واسطہ پڑا تھا۔ بلکہ بعض پُولیس افسران تو خُود شہریار مجددی کی نسبت کیوجہ سے آغا بابر کواِضافی پروٹوکول دِیا کرتے تھے۔ لیکن آغا بابر نے پُولیس کی چند گھنٹوں کی ابتدائی تواضع کے بعد ہی اپنے جُرم کا اقبال کرلیا۔ اُور مزید کُچھ مہمان نوازی کے بعد وُہ ساڑھے تین کروڑ روپیہ کی رقم بھی لُوٹانے پر رضامند ہُوگیا جو اُس نے مختلف حیلے بہانوں سے خُرد بُرد کی تھی۔

صرف ایک ہفتہ کے قلیل عرصے میں ڈی ایس پی اعتصام مجددی کی خاص توجہ کے باعث نہ صرف آغا بابر سے رقم بازیاب کرالی گئی بلکہ وہ تمام میٹریل بھی تاجروں نے تبدیل کردیا۔ جو دھوکہ دہی سے فرقان کی سائٹ پر جمع ہُوچُکا تھا۔ جبکہ حماد اینڈ سنز کا کوٹیشن منسوخ کرنے کے بعد فرقان کی فرمائش پر وہ ٹھیکہ ٹھیکیدار عبدالرحمن کو نئے سِرے سے دیدیا گیا۔

(جاری ہے)

مُحترم قارئین کرام ،، آپ سب سے دُعاؤں کیلئے ملتمس ہُوں۔

پلکوں سے دَرِ یار پہ دستک دینا
اُونچی آواز ہُوئی عُمر کا سرمایہ گیا
ishrat iqbal warsi
About the Author: ishrat iqbal warsi Read More Articles by ishrat iqbal warsi: 202 Articles with 1060502 views مجھے لوگوں کی روحانی اُلجھنیں سُلجھا کر قَلبی اِطمینان , رُوحانی خُوشی کیساتھ بے حد سکون محسوس ہوتا ہے۔
http://www.ishratiqbalwarsi.blogspot.com/

.. View More