ماہِ مبارک کا پہلا عشرہ رحمت کا
ہے۔ امید وار تو ہم سب رحمت کے ہیں لیکن خود کو بدلنے کے لیے کوئی تیار
نہیں ،حالاتِ حاضرہ پر تبصرے ، دوسروں کے عیوب کی نشاندہی ، شہر میں
دندناتی قتل وغارت گری کی بادشاہت کی عکاسی ، لوٹ کھسوٹ کے خلاف پروگرامات،
مہنگائی ، کرپشن ، لوڈشیڈنگ ، گیس کی عدم فراہمی ، پولیس کی رشوت خوری اور
بدعنوانیاں اور نہ جانے کون کون سے عیوب کو کس کس کونے کھانچے سے نکال کر
عوام کی عدالت میں پیش کرنا۔ مانا کہ یہ سب کچھ ٹھیک ہے کہ جب تک عیب کی
نشاندہی نہ ہوگی تو وہ عیب دور کیسے ہوگا؟ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ
معاشرہ نام کس چیز کا ہے؟ کیا یہ معاشرہ ”مجھ “ سے اور ”آپ “ سے مل کر نہیں
بنا؟ جب اکائی نہیں ہوگی تو معاشرے کا وجود بھی نہ رہے گا ؟ اور وہ معاشرے
کی” اکائی“ ہم میں سے ہر شخص خود ہے!
جب تک ہم میں سے ہر شخص خود کو معاشرے کی ”اکائی“ تصور نہیں کرے گااور اس
”اکائی“ کی اصلاح کی فکر نہیں کرے گاتو معاشرے کی اصلاح کیونکر ممکن
ہوگی؟جب گھر کا نگران روزہ خوری کرے گا تو اس گھر کے بچے سے روزہ رکھنے کی
توقع نری احمقی ہے ، جب گھر کا نگران بیوی ، بچوں کے سامنے سگریٹ سلگا کر
چسکیاں بھرے گاتو پھر اپنے ماتحتوں کو کب تک اس سے دور رکھنے کی کوشش کرے
گا؟آخر اک دن ان ماتحتوں کے ننھے منے ہاتھوں میں بھی قلم کی جگہ سگریٹ
آجائے گی ۔پھر دیے سے دیا جلتا چلا جائے گااور ایک دن پورا معاشرہ اس سگریٹ
کے شعلوں سے جگمگا اٹھے گا۔
اسی طرح دکاندار ہمارے معاشرے کی اکائی نہیں ؟اگر وہ سودا سلف کے فروخت
میںاشیاءکی پیمائش اور وزن گھٹا ، بڑھا کر دھوکہ دہی سے کام لے گا ، تو
رفتہ رفتہ اس دیے کی روشنی سے سارے تاجر مستفید ہونا شروع ہوجائیں گے۔
ڈاکٹرز ہمارے معاشرے کی اکائی نہیں ؟ اگر ڈاکٹرز اپنے اس مقدس اور خدمت خلق
سے متعلق پیشے کی انجام دہی صدق ِ دل سے درست انداز میں کریں تو ان کی جائز
فیس اپنی جگہ بلکہ یہ عظیم اجرو ثواب کے حقدار بھی قرار پائیں ۔ مگر ایک
ڈاکٹر کی غلط بیانی کی وجہ سے مریض کا بلاوجہ آپریشن کروا کر پیسے بٹورنے
کے عمل اور مالی ترقی دیکھ کر اس پیشے سے وابستہ دیگر لوگ بھی اس گنگا میں
ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ اور خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتے ہوئے انسانی
جانوں سے کھلواڑے کا یہ گھناؤنا عمل مزید زور پکڑتا جاتا ہے ۔کیا شہر میں
جاری خون کی ہولی کھیلنے والے دہشت گردوں اور ان نام نہاد ڈاکٹروں میں کوئی
فرق ہے ؟ وہ بھی انسانی جانوں سے کھیلتے ہیں اور یہ بھی!فرق صرف اتنا ہے کہ
وہ دہشت گردی کے اصل روپ میں لاشوں کا بیوپار کرتے ہیں اور یہ مسیحاؤں کے
روپ میں!
رمضان کے بابرکت مہینے کی تقدیس اور احترام تو غیر مسلم بھی کیا کرتے تھے
لیکن ہمارا معاشرہ نہیں ! شہر میں ہر سطح پر بے حیائی کو فروغ دیا جارہا ہے
۔ کپڑے کی تشہیر سے لے کر چائے کی پتی اور جوتے کی فروخت تک میں بڑی بڑی
دیو ہیکل عریاں تصاویر نگاہوں کو آلودہ کرتی ہیں ۔ ایک دوسرے کی دیکھا
دیکھی اب شربت ، اچار ، جوس ، بوتل ، موبائل اور اب تو نوبت بایں جارسیدکہ
پانی کی تشہیر بھی بغیر عریاں تصویر کے ممکن نہیں۔ کیا ان کمپنیوں کے
مالکان کوئی آفاقی مخلوق ہیں یا ہمارے ہی معاشرے کے فر د ؟ جنہوں نے ماں ،
بہن بیٹی کی عفّت و عزت کو گھر کی چار دیواری سے نکال کر چوک اور چوراہے کی
زینت بنا ڈالا۔ کیا ان کے اچار ، جوس ، شربت ، کپڑے کے تھان اور چپل کی
جوڑی کی تشہیر اس بے حیائی کے بغیر ممکن نہیں ؟ رحمت ، مغفرت اور نجات کے
ان مبارک ایام میں تو سینما ہالوں کے باہر آویزاں سائن بورڈوں کو بھی
احتراماً خالی کر لیا جا تا ہے لیکن یہ ظالم اس ماہ مبارک کی بھی لاج نہیں
رکھتے جس ماہ مبارک میں قرآن مجید نازل ہوا ! بلکہ اس مبارک مہینے میں یہ
اور زور پکڑ لیتے ہیں۔
اپنی پولیس کی رشورت خوری تو حاتم طائی کی سخاوت سے زیادہ مشہور ہے ۔ لیکن
ہم نے کبھی سوچا کہ یہ پولیس والے کوئی خلائی مخلوق ہے یا ہمارے ہی معاشرے
کے فرد ؟ ان کے ماں ، باپ ، بہن ، بھائی ، بیوی ، بچے اور دیگر رشتہ دار
بھی ہیں یا نہیں ؟ اگر ہیں تو ۔۔۔! تنخواہ سے زائد رقم لانے پر ہم میں سے
کسی نے ان سے باز پرس کی یا نہیں ؟ گھر کے کسی فرد نے احتجاج کیا یا نہیں ؟
باز پرس اور احتجاج تو درکنار ایسے مذموم افعال پر انہیں داد دی جاتی ہے
اور ان کی تعریفیں کی جاتی ہیں ۔
محترم قارئین ! اگر معاشرے کی اصلاح چاہتے ہو تو اپنی اصلاح کرنی ہوگی ،
اگر معاشرے سے لوٹ کھسوٹ ، دھوکہ دہی ، قتل وغارت گری، رشوت خوری ، کرپشن
اور بے حیائی کی مضبوط جڑوں کو اکھاڑ نا چاہتے ہو تو معاشرے کی اکائی( اپنی
ذات) کو ان عیوب سے پاک کرنا ہو گا ۔چاہے وہ دکاندار ہوں ، تاجر ہوں ،
ڈاکٹرز ہوں ، پولیس والے ہوں یا پھر کسی بھی انڈسٹری کے مالکان ۔ انہیں خود
کو بدلنا ہوگا اور ان کے کنبہ کو اس میں بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔وگرنہ
یہ ٹاک شوز ، ڈرامے ، تنقید برائے تنقید والا وطیرہ ، تبدیلی کے کھوکلے اور
بے معنیٰ نعرے اور دعوے۔۔۔! ان سلگتی چنگاریوں کو شعلے تو بنا سکتے ہیں بجا
نہیں سکتے ! |