سلسلہ نبوت ختم ہونے کے بعد یہ
سلسلہ ء ولایت ہی ہے جو آج بھی رشد و ہدایت کا سر چشمہ ہے-
حصہ اول آپ کی خدمت میں پیش کرنے کے بعد اب حصہ دوئم حاضر ہے اس حصہ میں
دوسرے اور تیسرے قلندر کے بارے میں معلومات فراہم کر نے کی جسارت کر رہا
ہوں-ہاں تو ذکر تھا حضرت لال شہباز قلندر کے کرامات کا تو یہاں بہت ہی
مشہور کرامت ان کی کچھ یوں ہے کہ آپ جب سہون شریف تشریف لائے تو آپ کے گلے
میں مستقل طور پر پتھر کا ایک وزنی گلو بند پڑا رہتا تھا- اس گلو بند میں
جھوٹے چھوتے خوبصور ت تراشے ہوئے قیمتی پتھر پیوست تھے آپ کی ایک خاص عادت
یہ تھی کی آپ راستہ چلتے وقت ہمیشہ اپنے سر کو جھکا ئے رکھتے تھے- کسی مجلس
میں تشریف فرماتے تو گردن خم کئے رہتے تھے- روایتوں میں ہے کہ آپ “ کانوگن
نامی “ محلے کے قریب ایک گلی میں اکثر دین کی تبلیغ کے لئے بیٹھا کرتے تھے
اسی محلے میں “ کانوگا “ ایک مشہور ہندو خاندان تھا جن کی عورتیں پردے کی
سخت پابند تھیں مگر اس خاندان کی ایک عورت آپ کی بے حد عقیدت مند تھی- آپ
جب بھی اس گلی میں آکر بیٹھتے تو وہ عورت بھی اپنی بالکونی کی کھڑکی میں
کھڑی ہوجاتی اور گھنتوں آپ کو دیکھتی رہتی اور اسلام کی تبلیغ کی باتیں
سنتی رہتی- اس عورت کی دلی خواہش تھی کہ کسی طرح حضرت لال شہباز قلندر کے
چہرہ مبارک کا دیدار کرلے مگر چونکہ آپ ہمیشہ اپنے سر کو جھکا کر بیتھتےتھے
اسی لئے وہ عورت آپ کے چہرہ مبارک کا دیدار کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی- ایک
دن اس ہندو عورت نے وحشت کے عالم میں بالکونی سے چھلانگ لگا دی اور حضرت
لال شہباز قلبدر کے قدموں میں جا گری ، اونچائی سے گرنے کے سبب ہندو عورت
شدید زخمی ہوگئی تھی بس اس نے اسی وقت ایک نظر آپ کے چہرہ مبارک پر ڈالی
اور دارفانی سے کوچ کر گئی- جب محلے والوں نے یہ دیکھا تو ایک ہنگامہ کھڑا
ہو گیا- اس کے بعد مرنے والی عورت کے رشتہ دار لاش اٹھانے آئے اور آپ سے
کہا کہ اجازت دیجئے اس بدنصیب عورت کو لے جائیں اور آخری رسوم ادا کر دیں -
“ کانوگا خاندان “ کے لوگوں نے آپ سے یہ اجازت یوں چاہی تھی کیوں کہ عورت
کے مرنے کے بعد بے پردگی کے خیال سے حضرت لال شہباز قلندر نے اپنی چادر اس
کے جسم پر ڈال دی تھی- یہ بات پہلے سے ہی اس ہندو خاندان میں مشہور ہو چکی
تھی کہ یہ عورت آپ کی بے حد عقیدت مندوں میں سے تھی اور صرف وہ اللہ کے نور
کو آپ کے چہرہ مبارک پر دیکھنے کی خواہشمند تھی- جب لوگوں نے آپ سے پوچھا
تو آپ نے بے ساختہ فرمایا کہ “ مجھ سے کیا پوچھتے ہو یہ تمہاری امانت ہے ،
جہاں چاہو اسے لے جائو-“ اب رشتہ داروں نے زمین سے لاش کو اٹھانے کی کوشش
کی مگر وہ لاش ان لوگوں سے اٹھ کر نہ دی- لاش انہیں بے حد وزنی لگ رہی تھی-
جس کے بعد پندرہ بیس افراد نے بیک وقت لاش اتھانے کے لئے زور لگانا شروع کر
دیا مگر لاش تو جیسے زمین سے چپک کر رہ گئی تھی- حضرت لال شہباز قلنر نے جب
ان لوگوں کی پریشانی دیکھی تو لاش کے پاس آکر فرمایا- “ اگر تم شہر کے تمام
ہندوئوں کو بھی جمع کرلو تب بھی یہ لاش نہیں اٹھ پائے گی- اس عورت کے رشتہ
داروں نے جو یہ سنا تو دنگ رہ گئے- کاٹو تو ان کے جسم میں خون نہیں ، تمام
ہندوئوں کو سکتہ لگ چکا تھا- کچھ دیر تک یہ سب بوکھلا ئے رہے پھر ان میں سے
ایک نے پوچھا کہ حضرت آخر اس عورت سے گناہ کیا سرزد ہوگیا ہے؟اسے معاف
فرمادیں تاکہ اسے یہاں سے لے جاسکوں- آپ نے جلال کے عالم میں فرمایا- “ بات
ثواب اور گناہ کی نہیں- بات صرف اتنی ہے کہ عورت کی قسمت میں جلنا نہیں ہے۔“
ہندوئوں کے لئے یہ ایک عجیب و غریب صورتحال پیدا ہوگئی تھی- پوچھا کہ پھر
ہم کیا کریں؟ جس پر حضرت لال شہباز قلندر نے سکوت آمیز لہجے میں فرمایا- “
وعدہ کرو تم سب اسے دفن کروگے تو لاش اٹھ جائے گی “ ہندوئوں نے وعدہ کیا ،
جس کے بعد اس عورت کی ارتھی اتھنے کے بجائے جنازہ اٹھا اور اس کو مسلمانوں
کے طریقے سے دفن کردیا گیا- اس عورت کی قبر سہون شریف میں موجود ہے جسے
ہندومذہب کے لوگ دور دور سے دیکھنے آج بھی سہون آتے ہیں-
حضرت مخدوم لال شہباز قلندر کی یہ کرامات دیکھ کر “ کانوگا “ خاندان کے
ہندو آپ کے دست مبارک پر مشرف بہ اسلام ہوگئے تھے اس طرح اسلام سندھ میں
پھیلتا گیا- یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ آپ نے سندھ میں آکر یہاں کے عوام کی
روحانی اور اخلاقی اصلاح کی-
پھر تیسرے قلندر حضرت شرف الدین بوعلی قلندرکی بابرکت ہستی بھی اس وقت
دھرتی پر جلوہ افروز ہوچکی تھی جب مخدوم شہباز قلندر دنیا سے رشد و ہدایت
کے چراغ روشن فرما رہے تھے- حضرت بوعلی قلندر کی سن ولادت ٦٠٥ ہجری ہے- آپ
کا شجرہ حضرت امام ابوحنیفہ سے ملتا ہے- آپ کے والد حضرت شیخ سالار فخر
الدین ہمدان کے رہنے والے تھے- انہوں نے چھوٹی عمر میں ہی قرآن مجید حفظ کر
لیا تھا اس کے بعد آپ نے کم عمری میں ہی مروجہ اسلامی علوم بھی حاصل
کرلئےتھے- آپ ہمیشہ اسلامی درس و تدریس میں مشغول رہتے تھے- آپ کئی سالوں
تک مخلوق خدا کو راہ ہدایت دکھلاتے ریے اور پھر ایک دن کچھ یوں ہوا کہ آپ
میز پر کھڑے ہوئے جوش و خروش کے ساتھ وعظ فرما رہے تھے کہ اچانک ایک فقیر
نے دروازے پر کھڑے ہو کر با آواز بلند کہا-“ شرف الدین افسوس ہے کہ تو جس
کام کے لئے پیدا کیا گیا تھا اسے بالکل فراموش کئے ہوئے ہے- کب تک تو “ قال
“ میں رہے گا- “ فقیر کے ان الفاظ نے حضرت شرف الدین بوعلی قلندر کے دل میں
ایک اضطراب پیدا کر دیا جس کے بعد آپ عشق الٰہی میں ایسے ڈوبے کہ مستقل
مجاہدات و ریاضت میں مشغول ہوگئے- مشغولیت بھی ایسی کی کہ اپنی تمام کتب
غرق آب کردیں اور پھر دنیا فانی سے کنارہ کشی کرکے حضرت شہاب الدین کی کتیا
کے قریب بہنے والے دریا میں جا گھسے اور بارہ ( ١٢ ) برس تک کامل وہیں بے
حس و حرکت جذب و استغراق کے عالم میں کھڑے رہے-حتیٰ کہ پانی میں مچھلیوں نے
آپ کی پنڈلیوں کے تمام گوشت کھا لیئے مگر آپ کو خبر ہی نہ ہوئی- بارہ برس
کے بعد ایک آوازسنائی دی کہ “ مانگ کیا مانگتا ہے- ہم نے تیری عبادت و
اطاعت قبول کرلی ہے-“ جس پر آپ نے بارگاہ الٰہی ارحم الراحمین میں عرض کیا-
“ میں تجھ سے تجھی کو مانگتا ہوں- میں یہیں کھڑا کھڑا جان دے دونگا- تیری
ہی محبت میں دم توڑ دونگا “ جس پر حکم ربی ہوا کہ “ اچھا اب پانی سے نکل جا
کہ ہمیں تجھ سے بہت سارے کام لینے ہیں-“ جس پر حضرت بو علی قلندر نے عرض کی
! “ میں خود تو نکلونگا نہیں ، تو مجھے خود نکال-“
اسی وقت ایک بزرگ شخص نے گود میں اٹھا کر حضرت بو علی قلندر کو دریا کے
کنارے پر کھڑا کر دیا- جس پر آپ جھنجلا کر بولے “ اے محترم آپ کون ہیں ؟
جنہوں نے میری بارہ سالہ محنت ضائع کردی-میں تو اب منزل مقصود کے قریب
تھا-‘‘ جس پر کنارے ہر لانے والی ہستی نے فرمایا-“ شرف الدین “ میں حضرت
علی بن ابی طالب ہوں-“ وقت کے قلندر حضرت بوعلی نے جو یہ سنا تو حضرت علی
کے قدموں میں گر پڑے ! اور یہ وہ وقت اور مقام تھا جب حضرت شرف الدین بوعلی
کو باب العلم حضرت علی ابن ابی طالب نے نعمت باطنی سے مالا مال فرما دیا-
اب تو حضرت شرف الدین کو گویا سند مل گئی ولایت اور قلندری کی! یہ وہ اعلیٰ
و ارفع مناصب ہیں جو ہر کس و ناکس کو نہیں ملتے- جس کے بعد آپ اسلام کی
ترویج میں دن رات مزید مصروف رہے اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ جوق درجوق
اسلام قبول کرتے رہے-جس سے برصغیر میں مسلمانوں کی تعداد میں مختلف ادوار
میں اضافہ ہوتا گیا-
نوٹ:- اس اسلامی مضمون کی تحقیق کے دوران اگر کوئی بھی غیر دانستہ طور پر
غلطی ہوگئی ہوتو اس کے لئے اللہ کے حضور معافی کا طلبگار ہوں-
اور قارئین سے بھی درخواست ہے کہ اپنی آراء سے ضرور ہمیں نوازیں تاکہ مزید
تحقیقات آپ تک پیش کر تا رہوں- شکریہ۔ الحاج ابوالبرکات ، شاعر و کالم
نگار- کراچی -پاکستان |