طہارت اور حدیث پاک

حدیث نمبر 1
حدثنا عبد الله بن مسلمة بن قعنب القعنبي، ثنا عبد العزيز، - يعني ابن محمد - عن محمد، - يعني ابن عمرو - عن أبي سلمة، عن المغيرة بن شعبة، أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا ذهب المذهب أبعد
ابوسلمہ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت کے لیے جاتے تو بہت دور چلے جاتے ۔
حدیث نمبر 2
حدثنا مسدد بن مسرهد، ثنا عيسى بن يونس، ثنا إسماعيل بن عبد الملك، عن أبي الزبير، عن جابر بن عبد الله، أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا أراد البراز انطلق حتى لا يراه أحد
ابوالزبیر نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہماسے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت کا ارادہ فرماتے تو اتنی دور چلے جاے کہ کسی کو نظر نہ آتے ۔
ف: کھلی جگہ ہوتو لوگوں یا آبادی سے دور جانا ستر پوشی کے باعث غیرت ایمانی کا تقاضہ ہے کیونکہ الحیاء شعبۃ من الایمان یعنی حیا ایمان کا حصہ ہے بخاری ۔ واللہ تعالی اعلم
حدیث نمبر 3

حدثنا موسى بن إسماعيل، قال ثنا حماد، أنا أبو التياح، حدثني شيخ، قال لما قام عبد الله بن عباس البصرة فكان يحدث عن أبي موسى، فكتب عبد الله إلى أبي موسى يسأله عن أشياء، فكتب إليه أبو موسى إني كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم فأراد أن يبول فأتى دمثا في أصل جدار فبال ثم قال صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إذا أراد أحدكم أن يبول فليرتد لبوله۔
شیخ سے روایت ہے کہ جب حضرت عبداللہ بن عباس بصرہ آئے تو حضرت ابوموسی سے باتیں کررہے تھے تو حضرت عبداللہ نے چند باتیں پوچھتے ہوئے حضرت ابوموسی کے لیے لکھا حضرت ابوموسی نے ان کے لئے جوابا لکھا کہ ایک روز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا تو آپ نے پیشاب کرنے کا ارادہ کیا چنانچہ ایک نرم جگہ پر دیوار کی جڑ میں تشریف لے گئے اور پیشاب کیا، پھر فرمایا کہ جب تم میں*سے کوئی پیشاب کرنا چاہے تو پیشاب کرنے کے لیے مناسب جگہ تلاش کرے ۔
ف:
جب بیت الخلاء کے علاوہ صاف زمین پر پیشاب کرنا پڑے تو ستر پوشی کی خاطر آڑ تلاش کرنا بہت ضروری ہے نیز زمین کا سامنے کی جانب ڈھلان ہو تاکہ پیشاب بہتا ہوا پیروں کے نیچے نہ آئے ، علاوہ بریں زمین نرم ہو تاکہ چھینٹیں اڑکر پیروں اور کپڑوں کو پلید نہ کریں ، پیشاب کی چھینٹوں سے بچاؤ نہ کرنے میں عذاب قبر کا خطرہ ہے ، مشہور حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چند صحابہ کی معیت میں ایک قبرستان کے پاس سے گزر ہوا ایک روایت میں ہے کہ آپ کی سواری کا جانور بدکنے لگا ، دوسری میں ہے کہ آپ نے دو قبروں سے چیخ و پکار کی آواز سنی آپ نے ایک درخت کی شاخ لی اس کے دو حصے کیے اور دونوں قبروں پر انہیں نصب فرمادیا ، صحابہ کرام نے وجہ دریافت کی تو فرمایا کہ ان دونوں*قبروالوں کو عذاب ہورہا تھا ،ایک غیبت کرتا تھا اور دوسرا پیشاب کی چھینٹوں سے احتیاط نہیں کیا کرتا تھا ، مجھے امید ہے جب تک یہ ٹہنیاں سرسبز رہیں گی تو ان کی تسبیح کی برکت سے ان کے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے ھی (بخاری) چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کی چیزوں سے خوشبو بھی بہت پسند تھی اسی لیے بزرگوں نے قبروں پر پھولوں کا ڈالنا تجویز کیا کہ جب تک تر رہیں گے تو ان کی تسبیح کی برکت سے صاحب قبر کو نفع ہوگا اور سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی پسندیدہ چیز یعنی خوشبو سے زائرین کے دلوں اور دماغوں کو فرحت حاصل ہوگی ۔ واللہ تعالی اعلم
حدیث نمبر 4
حدثنا مسدد بن مسرهد، حدثنا حماد بن زيد، وعبد الوارث، عن عبد العزيز بن صهيب، عن أنس بن مالك، قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا دخل الخلاء - قال عن حماد قال ‏"‏ اللهم إني أعوذ بك ‏"‏ ‏.‏ وقال عن عبد الوارث - قال ‏"‏ أعوذ بالله من الخبث والخبائث ‏"‏ ‏.‏
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے حماد کی روایت میں ہے تو کہتے : اے اللہ !میں تیری پناہ پکڑتا ہوں : اور عبد الوارث کی روایت میں ہے تو کہتے : میں اللہ کی پناہ پکڑتا ہوں ناپاکی اور ناپاکوں سے
حدیث نمبر 5
حدثنا الحسن بن عمرو، - يعني السدوسي - قال انا وكيع، عن شعبة، عن عبد العزيز، - هو ابن صهيب - عن أنس، بهذا الحديث قال ‏ اللهم إني أعوذ بك ‏"‏ ‏.‏ وقال شعبة وقال مرة ‏"‏ أعوذ بالله ‏"‏ ‏.‏ وقال وهيب عن عبد العزيز ‏"‏ فليتعوذ بالله ‏"‏
بن صہیب نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث روایت کی کہ کہتے : اے اللہ میں تیری پناہ پکڑتا ہوں ۔ شعبہ کی روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ کہا ؛ میں اللہ کی پناہ پکڑتا ہوں اور وہیب نے عبد العزیز سے روایت کی : پس اللہ کی پناہ پکڑنی چاہیے ۔
حدیث نمبر 6
حدثنا عمرو بن مرزوق، أنا شعبة، عن قتادة، عن النضر بن أنس، عن زيد بن أرقم، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إن هذه الحشوش محتضرة فإذا أتى أحدكم الخلاء فليقل أعوذ بالله من الخبث والخبائث
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ شیاطین حاضر ہوتے رہتے ہیں لہذا جب تم میں سے کوئی بیت الخلاء میں جائے تو اسے کہنا چاہیے : میں اللہ کی پناہ پکڑتا ہوں ناپاکی اور ناپاکوں سے ۔
حدیث نمبر 7
حدثنا مسدد بن مسرهد، ثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن إبراهيم، عن عبد الرحمن بن يزيد، عن سلمان، قال قيل له لقد علمكم نبيكم كل شىء حتى الخراءة ‏.‏ قال أجل لقد نهانا صلى الله عليه وسلم أن نستقبل القبلة بغائط أو بول وأن لا نستنجي باليمين وأن لا يستنجي أحدنا بأقل من ثلاثة أحجار أو يستنجي برجيع أو عظم ‏.‏
حضرت سلیمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ان سے کہا گیا کہ آپ کے نبی نے ہر چیز آپ لوگوں کو سکھادی یہاں تک کہ قضائے حاجت کا طریقہ بھی ۔ فرمایا یہی بات ہے کہ آپ نے منع فرمایا ہے کہ بول و براز کے وقت قبلہ کی طرف منہ رکھیں اور یہ کہ ہم دائیں ہاتھ سے استنجا کریں اور ہم سے کوئی تین پتھر سے کم کے ساتھ استنجا نہ کرے یا گوبر یا ہڈی سے استنجا نہ کرے ۔
حدیث نمبر 8

حدثنا عبد الله بن محمد النفيلي، قال ثنا ابن المبارك، عن محمد بن عجلان، عن القعقاع بن حكيم، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إنما أنا لكم بمنزلة الوالد أعلمكم فإذا أتى أحدكم الغائط فلا يستقبل القبلة ولا يستدبرها ولا يستطب بيمينه ‏"‏ ‏.‏ وكان يأمر بثلاثة أحجار وينهى عن الروث والرمة ‏.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، میں تمہارے باپ کی طرح ہوں کیونکہ تمہیں تعلیم دیتا ہوں ، جب تم میں سے کوئی قضائے حاجت کے لیے بیٹھے تو قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ نہ کرے اور دائیں ہاتھ سے استنجا نہ کرے اور آپ تین ڈھیلوں کا حکم فرماتے نیز گوبر اور ہڈی کے ساتھ استنجا کرنے سے منع فرماتے
ف : قبلہ کی جانب منہ یا پیٹھ کرکے بول و براز کرنا ۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک حرام ہے خواہ جنگل میں کرے یا گھر میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک صرف جنگل میں ایسا کرنا حرام ہے دونوں جانب احادیث بھی ہیں اور صحابہ و تابعین اور علمائے کاملین کا جم غفیر بھی ، علمی بحث سے صرف نظر کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ ممانعت جبکہ بیت اللہ کی عظمت کے پیش نظر احتراما ہے تو عظمت والی چیزوں کی جتنی زیادہ تعظیم و توقیر کی جائے بہتر من یعظم شعائر اللہ فانھا تقوی القلوب کے تحت تقوٰی کا تقاضا اور رضائے الٰہی کا موجب ہے ، واللہ تعالی اعلم
حدیث نمبر 9
حدثنا مسدد بن مسرهد، ثنا سفيان، عن الزهري، عن عطاء بن يزيد الليثي، عن أبي أيوب، رواية قال ‏"‏ إذا أتيتم الغائط فلا تستقبلوا القبلة بغائط ولا بول ولكن شرقوا أو غربوا ‏"‏ ‏.‏ فقدمنا الشام فوجدنا مراحيض قد بنيت قبل القبلة فكنا ننحرف عنها ونستغفر الله ‏.
حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کی روایت میں فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی قضائے حاجت کے لئے بیٹھے تو قبلہ کی جانب منہ نہ رکھے ، پاخانہ یا پیشاب کرتے وقت بلکہ مشرق یا مغرب کو منہ رکھے جب ہم شام میں آئے تو ہم نے دیکھا کہ وہاں بیت الخلاء قبلہ رخ بنے ہوئے ہیں تو ہم قبلہ کی جانب سے پھر جاتے اور اللہ تعالی سے معافی چاہتے ۔
ف:یہ حکم مدینہ منورہ والوں کے لیے ہے کہ بول وبراز کے وقت شمال و جنوب کی جانب منہ نہ رکھا کریں کیونکہ مدینہ منورہ کا قبلہ جنوب کی جانب ہے یعنی مکہ المکرمۃ اس کے جنوب میں ہے انہیں حکم دیا کہ بول وبراز کے وقت شمال یا مغرب کی جانب منہ رکھا کریں تاکہ قبلہ کی جانب نہ منہ ہو اور نہ پیٹھ جو ممالک مکہ مکرمہ کے مشرق یا مغرب میں واقع ہیں ہیں ان کے لیے یہ حکم نہیں ہے جیسا کہ پاکستان ،بھارت ، افغانستان اور ایران والوں کا قبلہ جانب مغرب ہے لہذا وہ مغرب کی جانب نہ منہ کرسکتے ہیں اورنہ پیٹھ ۔ واللہ تعالی اعلم
حدیث نمبر 10
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا وهيب، قال ثنا وھیب قال ثنا عمرو بن يحيى، عن أبي زيد، عن معقل بن أبي معقل الأسدي، قال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن نستقبل القبلتين ببول أو غائط ‏.‏ قال أبو داود وأبو زيد هو مولى بني ثعلبة
حضرت معقل بن ابو معقل اسدی کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشاب یا پاخانہ کے وقت دونوں قبلوں (بیت اللہ اور بیت المقدس ) کی طرف منہ کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ امام ابوداؤد نے فرمایا کہ ابوزید بنی ثعلبہ کے آزاد کردہ غلام تھے ۔‏
حدیث نمبر 11
حدثنا محمد بن يحيى بن فارس، قال ثنا صفوان بن عيسى، عن الحسن بن ذكوان، عن مروان الأصفر، قال رأيت ابن عمر أناخ راحلته مستقبل القبلة ثم جلس يبول إليها فقلت يا أبا عبد الرحمن أليس قد نهي عن هذا قال بلى إنما نهي عن ذلك في الفضاء فإذا كان بينك وبين القبلة شىء يسترك فلا بأس ‏.‏
مروان اصغر کا بیان ہے کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کودیکھا کہ انہوں نے قبلہ کی جانب اپنا اونٹ بٹھایا اور پھر اس کی طرف پیشاب کرنے لگے ، میں عرض گزار ہوا کہ اے ابو عبد الرحمان کیا ایسا کرنے سے منع نہیں فرمایا گیا ؟ فرمایا کیوں نہیں ، خالی جگہ میں*ایسا کرنے سے منع فرمایا گیا ہے لیکن جب تمہارے اور قبلے کے درمیان کوئی ایسی چیز ہو جو تمہیں چھپالے تو پھر کوئی مضائقہ نہیں ۔
حدیث نمبر 12 حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن يحيى بن سعيد، عن محمد بن يحيى بن حبان، عن عمه، واسع بن حبان، عن عبد الله بن عمر، قال لقد ارتقيت على ظهر البيت فرأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم على لبنتين مستقبل بيت المقدس لحاجته
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کا بیان ہے کہ میں اپنے مکان کا چھت پر چڑھا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ دو اننٹیوں پر بیٹھے بیت المقدس کی جانب منہ کرکے حاجت رفع فرمارہے ہیں ۔
حدیث نمبر 13
حدثنا محمد بن بشار، قال ثنا وهب بن جرير، قال انا أبي قال، سمعت محمد بن إسحاق، يحدث عن أبان بن صالح، عن مجاهد، عن جابر بن عبد الله، قال نهى نبي الله صلى الله عليه وسلم أن نستقبل القبلة ببول فرأيته قبل أن يقبض بعام يستقبلها
مجاہد نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشاب کرتے وقت قبلہ کی جانب منہ کرنے سے منع فرمایا ہے پھر وصال سے ایک سال پہلے میں*نے آپ کو ادھر منہ کرتے ہوئے دیکھا ۔
حدیث نمبر 14
حدثنا زهير بن حرب، قال نا وكيع، عن الأعمش، عن رجل، عن ابن عمر، أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا أراد حاجة لا يرفع ثوبه حتى يدنو من الأرض ‏.‏ قال أبو داود رواه عبد السلام بن حرب عن الأعمش عن أنس بن مالك وهو ضعيف
ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت کا ارادہ فرماتے تو جب تک زمین کے نزدیک نہ ہوجاتے اس وقت تک کپڑا نہ اٹھاتے امام ابوداؤد نے فرمایا کہ عبد السلام بن حرب، اعمش ، حضرت انس بن مالک والی سند ضعیف ہے ۔
حدیث نمبر 15
حدثنا عبيد الله بن عمر بن ميسرة، ثنا ابن مهدي، ثنا عكرمة بن عمار، عن يحيى بن أبي كثير، عن هلال بن عياض، قال حدثني أبو سعيد، قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ لا يخرج الرجلان يضربان الغائط كاشفين عن عورتهما يتحدثان فإن الله عز وجل يمقت على ذلك ‏"‏ ‏.‏ قال أبو داود هذا لم يسنده إلا عكرمة بن عمار
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو دو آدمی قضائے حاجت کے لیے نکلیں اور اپنے ستر کھول کر آپس میں گفتگو کرتے رہیں تو اللہ تعالی اس بات سے ناراض ہوتا ہے ۔ امام ابوداؤد نے فرمایا کہ اسے ابو عکرمہ بن عمار ہی نے روایت کیا ہے ۔
حدیث نمبر 16
حدثنا عثمان، وأبو بكر ابنا أبي شيبة قالا ثنا عمر بن سعد، عن سفيان، عن الضحاك بن عثمان، عن نافع، عن ابن عمر، قال مر رجل على النبي صلى الله عليه وسلم وهو يبول فسلم عليه فلم يرد عليه ‏.‏ قال أبو داود وروي عن ابن عمر وغيره أن النبي صلى الله عليه وسلم تيمم ثم رد على الرجل السلام
نافع سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک آدمی کا گزر ہوا جبکہ آپ پیشاب کررہے تھے تو اس نے آپ کو سلام کیا مگر آپ نے اسے جواب نہ دیا ۔ امام ابو داؤد نے فرمایا کہ حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیمم کرکے پھر اس آدمی کو سلام کا جواب دیا ۔
حدیث نمبر 17
حدثنا محمد بن المثنى، ثنا عبد الأعلى، ثنا سعيد، عن قتادة، عن الحسن، عن حضين بن المنذر أبي ساسان، عن المهاجر بن قنفذ، أنه أتى النبي صلى الله عليه وسلم وهو يبول فسلم عليه فلم يرد عليه حتى توضأ ثم اعتذر إليه فقال ‏"‏ إني كرهت أن أذكر الله عز وجل إلا على طهر ‏"‏ ‏.‏ أو قال ‏"‏ على طهارة ‏"
حضرت مہاجر بن قنفذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے جبکہ آپ پیشاب کررہے تھے تو انہوں نے سلام عرض کیا لیکن آپ نے انہیں جواب مرحمت نہ فرمایا یہاں تک کہ وضو فرما لیا ، پھر ان سے عذر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے اللہ تعالٰی کا ذکر کرنا نا پسند کیا مگر پاکی کی حالت میں یا فرمایا کہ حالت طہارت میں ۔
ف:
اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وضو کے بغیر سلام کا جواب دینا پسند نہیں فرماتے تھے اگر کوئی سلام کرتا اور آپ کا وضو نہ ہوتا تو تیمم فرمالیتے ،اس حدیث کی روشنی میں لا وضؤ لمن لم یذکر اسم اللہ علیہ (حدیث) کو دیکھا جائے تو اس کے مفہوم کو سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے اور حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ کے موقف کی برتری ثابت واضح ہوجاتی ہے ۔ مذکورہ حدیث ابوداؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ اور مسند احمد میں حضرت ابوہریرہ سے دارمی میں حضرت ابوسعید سے مروی ہے اس کے باعث امام احمد بن حنبل وضو سے پہلے تسمیہ کا پڑھنا واجب اور وضو کی شرط بتاتے ہیں ، جبکہ جمہور نے ترک تسمیہ کمال پر محمول کیا ہے کیونکہ ارشاد خداوندی اذا قمتم الی الصلوۃ فاغسلوا وجوہکم کو دیکھیے ۔ اگر تسمیہ وضو کی شرط ہوتی تو اس کا ذکر فاغسلو ا وجوہکم سے پہلے ہوتا ، معلوم ہوا کہ وضو سے پہلے تسمیہ کا پڑھنا ضروری نہیں ہاں باعث تکمیل وضو ہونے کے سبب مستحب یا سنت ہے واللہ تعالی اعلم ۔
حدیث نمبر 18
حدثنا محمد بن العلاء، ثنا ابن أبي زائدة، عن أبيه، عن خالد بن سلمة، - يعني الفأفاء - عن البهي، عن عروة، عن عائشة، قالت كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكر الله عز وجل على كل أحيانه
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ عزوجل کا ذکر ہر حالت (وضو ہو یا نہ ہو ) میں کرلیا کرتے تھے ۔
حدیث نمبر 19
حدثنا نصر بن علي، عن أبي علي الحنفي، عن همام، عن ابن جريج، عن الزهري، عن أنس، قال كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا دخل الخلاء وضع خاتمه ‏.‏ قال أبو داود هذا حديث منكر وإنما يعرف عن ابن جريج عن زياد بن سعد عن الزهري عن أنس أن النبي صلى الله عليه وسلم اتخذ خاتما من ورق ثم ألقاه ‏.‏ والوهم فيه من همام ولم يروه إلا همام ‏-
زہری سے روایت ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلاء میں*داخل ہوتے تو اپنی انگشتری مبارک کو اتار دیا کرتے تھے ۔ امام ابو داؤد نے فرمایا کہ یہ حدیث منکر ہے اور یہ معروف اس سند کے ساتھ ہے : ابن جریح زیابن بن سعد،زہری، حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی اور پھر اسے ڈال دیا ، مذکورہ روایت میں*ہمام کو وہم ہوا ہے اور ہمام کے سوا کسی نے اسے روایت نہیں کیا ۔
حدیث نمبر 20
حدثنا زهير بن حرب، وهناد ، قالا ثنا وكيع، ثنا الأعمش، قال سمعت مجاهدا، يحدث عن طاوس، عن ابن عباس، قال مر النبی صلى الله عليه وسلم على قبرين فقال ‏"‏ إنهما يعذبان وما يعذبان في كبير أما هذا فكان لا يستنزه من البول وأما هذا فكان يمشي بالنميمة ‏"‏ ‏.‏ ثم دعا بعسيب رطب فشقه باثنين ثم غرس على هذا واحدا وعلى هذا واحدا وقال ‏"‏ لعله يخفف عنهما ما لم ييبسا ‏"‏ ‏.‏ قال هناد ‏"‏ يستتر ‏"‏ ‏.‏ مكان ‏"‏ يستنزه ‏"‏
طاؤس سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا کہ ان دونوں کو عذاب دیا جارہا ہے اور کسی بڑے گناہ پر عذاب نہیں*دیئے جارہے ، جہاں تک اس کا تعلق ہے تو یہ پیشاب کی چھینٹوں سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور وہ چغل خوری کرتا پھرتا تھا ، پھر آپ نے کھجور کی ایک تر ٹہنی منگوائی اور چیرکر اس کے دو حصے کیے ایک حصہ اس قبر پر اور دوسرا اس قبر پر گاڑ دیا اور فرمایا کہ جب تک یہ خشک نہ ہوں شاید ان دونوں*کے عذاب میں*کمی ہوتی رہے ۔ ہناد نے فرمایا کہ پاک کرنے کی جگہ کو پاک نہیں*کرتا تھا
حدیث نمبر 21
حدثنا عثمان بن أبي شيبة، ثنا جرير، عن منصور، عن مجاهد، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم بمعناه قال ‏"‏ كان لا يستتر من بوله ‏"‏ ‏.‏ وقال أبو معاوية ‏"‏ يستنزه ‏"‏ ‏
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے ہم معنی روایت کرتے ہوئے فرمایا ، اپنے پیشاب سے چھپتا نہ تھا اور ابو معاویہ نے فرمایا کہ بچتا نہ تھا ،
حدیث نمبر 22
حدثنا مسدد، ثنا عبد الواحد بن زياد، ثنا الأعمش، عن زيد بن وهب، عن عبد الرحمن ابن حسنة، قال انطلقت أنا وعمرو بن العاص، إلى النبي صلى الله عليه وسلم فخرج ومعه درقة ثم استتر بها ثم بال فقلنا انظروا إليه يبول كما تبول المرأة ‏.‏ فسمع ذلك فقال ‏"‏ ألم تعلموا ما لقي صاحب بني إسرائيل كانوا إذا أصابهم البول قطعوا ما أصابه البول منهم فنهاهم فعذب في قبره ‏"‏ ‏.‏ قال أبو داود قال منصور عن أبي وائل عن أبي موسى في هذا الحديث قال ‏"‏ جلد أحدهم ‏"‏ ‏.‏ وقال عاصم عن أبي وائل عن أبي موسى عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ جسد أحدهم ‏
عبد الرحمٰن بن حسنہ کا بیان ہے کہ میں اور عمرو بن العاص دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ ووسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ایک ڈھال لے کر باہر نکلے پھر اس کے ساتھ پردہ کرکے آپ نے پیشاب کیا ، ہم نے کہا کہ ان کی طرف دیکھیے جو عورتوں کی طرح چھپ کر پیشاب کرتے ہیں ، آپ نے یہ بات سن کر فرمایا کیا تمہیں معلوم نہیں*کہ بنی اسرائیل کئ ایک شخص*کے ساتھ کیا ہوتا تھا ؟ جب ان میں*سے کسی کو پیشاب لگ جاتا تو اس جگہ کو کاٹ دیتے جہاں پیشاب لگا ہوا ہوتا ، اس نے انہیں*ایسا کرنے سے روکا تو اسے قبر میں عذاب دیا گیا ، امام ابوداؤد نے فرمایا کہ منصور ابو وائل ابو موسی نے اس حدیث میں فرمایا ۔ آدمی اپنی جلد کو عاصم ابو وائل ابو موسی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آدمی آپنے جسم کے حصے کو
حدیث نمبر 23
حدثنا حفص بن عمر، ومسلم بن إبراهيم، قالا ثنا شعبة، ح وثنا مسدد، ثنا أبو عوانة، - وهذا لفظ حفص - عن سليمان، عن أبي وائل، عن حذيفة، قال أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم سباطة قوم فبال قائما ثم دعا بماء فمسح على خفيه ‏.‏ قال أبو داود قال مسدد قال فذهبت أتباعد فدعاني حتى كنت عند عقبه ‏.
حفص بن عمر اور مسلم بن ابراہیم ، شعبہ سے مسدد ابو عوانہ حفص ، سلیمان ، ابووائل ، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قوم کی کوڑی پر تشریف فرما ہوئے کھڑے ہوکر پیشاب کیا پھر پانی منگواکر اپنے موزوں پر مسح فرمایا امام ابوداؤد کا بیان ہے کہ مسدد نے یہ بھی فرمایا میں پیچھے ہٹنے لگا تو مجھے بلایا یہاں تک کہ میں آپ کے پیٹھ پیچھے تھا ۔
ف :
اس حدیث حذیفہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک دفعہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنا ثابت ہورہا ہے جبکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا ہے کہ من حدثکم ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یبول قائما فلا تصدقو وما کان یبول الا قاعدا (احمد ، ترمذی ، نسائی ) یعنی جو تمہیں*بتائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوکر پیشاب کیا کرتے تھے تو اسے سچا نہ سمجھنا کیونکہ آپ بیٹھ کر ہی پیشاب کرتے تھے ۔ اسی لیے علماء کرام نے فرمایا ہے کہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنا مکروہ ہے کیونکہ اولا اس میں*بے پردگی ہے اور ثانیا پیشاب کی چھینٹوں سے کپڑوں اور پیروں کے پلید ہونے کا احتمال - مذکورہ حدیث حذیفہ میں*جو ایک مرتبہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کا مشاہدہ مذکور ہوا تو اس کو محدثین نے عذر پر محمول کیا اور مختلف عذر بیان کے گئے ہیں بہرحال اس ایک واقعے کا صدقہ ہے کہ کھڑے ہرکر پیشاب کرنا امت محمدیہ کے لیے حرام نہ رہا اور بغیر کسی عذر کے کھڑے ہوکر پیشاب کرنا خلاف ادب اور مکروہ قرار پایا جسے عذر کے بغیر جائز قرار نہ دے گا مگر کوئی بے ادب یا غلاظت پسند جبکہ کامل مسلمان صفائی پسند اور با ادب ہوتا ہے ۔ واللہ تعالی اعلم
حدیث نمبر 24
حدثنا محمد بن عيسى، ثنا حجاج، عن ابن جريج، عن حكيمة بنت أميمة بنت رقيقة، عن أمها، أنها قالت كان للنبي صلى الله عليه وسلم قدح من عيدان تحت سريره يبول فيه بالليل-
امیمہ بنت رقیقہ نے اپنی والدی ماجدہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک لکڑی کا پیالہ تھا جو آپ کے تخت کے نیچے رکھا جاتا تاکہ رات کے وقت اس میں پیشاب کرلیں -
حدیث نمبر 25
حدثنا قتيبة بن سعيد، ثنا إسماعيل بن جعفر، عن العلاء بن عبد الرحمن، عن أبيه، عن أبي هريرة، قال أن النبی صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ قال اتقوا اللاعنين ‏"‏ ‏.‏ قالوا وما اللاعنان يا رسول الله قال ‏"‏ الذي يتخلى في طريق الناس أو ظلهم ‏"‏
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لعنت کے دو کاموں سے بچتے رہا کرو ، لوگ عرض گزار ہوئے کہ یارسول اللہ ! لعنت کے دو کام کون سے ہیں*؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں کے راستوں اور سایہ دار جگہوں پر قضائے حاجت سے فارغ ہونا -
حدیث نمبر 26
حدثنا إسحاق بن سويد الرملي، وعمر بن الخطاب أبو حفص، وحديثه، أتم أن سعيد بن الحكم، حدثهم انا نافع بن يزيد، حدثني حيوة بن شريح، أن أبا سعيد الحميري، حدثه عن معاذ بن جبل، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ اتقوا الملاعن الثلاث البراز في الموارد وقارعة الطريق والظل -
اسحاق بن سوید اور عمر بن خطاب ابو حفص اور ان کی حدیث زیادہ قوی ہے ، سعید بن حکم ، نافع بن یزید ، حیٰوۃ بن شریح ، ابو سعید حمیری ، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لعنت کے تین کاموں سے بچو یعنی لوگوں کے اترنے ، راستہ چلنے اور سائے کی جگہوں میں قضائے حاجت کرنے سے
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1284513 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.