سحری کرنا سنت ہے
اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے کروڑہا کروڑ اِحسان کہ اُس نے ہمیں روزہ جیسی عظیم
الشّان نِعمت عطا فرمائی اور ساتھ ہی قُوَّت کیلئے سَحَری کی نہ صِرف
اِجازت مَرحمت فرمائی،بلکہ اِس میں ہمارے لئے ڈھیروں ثواب بھی رکھ دیا۔
ہمارے پیارے آقا، مَدَنی مُصطَفٰے صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم اگر
چِہ کھانے، پینے کے ہماری طرح محتاج نہیں ۔تَاہم ہمارے پیارے آقا صلَّی
اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم ہم غُلاموں کی خاطِر سَحَری فرمایا کرتے
تاکہ مَحَبّت والے غُلام اپنے مُحسِن آقا ، شاہِ خَیرُ ا لاَنام صلَّی اللہ
تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم کی سُنّت سمجھ کر سَحَری کرلیا کریں۔یُوں انہیں
دِن کے وَقت روزہ میں قُوّت کے ساتھ ساتھ سُنّت پر عَمَل کرنے کا ثواب بھی
ہاتھ آئے۔
بعض اِسلامی بھائیوں کو دیکھا گیا ہے کہ کبھی سَحَری کرنے سے رہ جاتے ہیں
تَوفخریہ باتیں بناتے ہیں اور یوں کہتے سنائی دیتے ہیں،ہم نے تو سَحَری کے
بِغیر ہی روزہ رکھ لیا ہے۔مکّی مَدَنی آقا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ
وسلَّم کے دِیوانو !سَحَریکے بِغیر روزہ رکھنا کوئی کمال تَونہیں جس
پرفخرکیا جارہا ہے۔ بلکہ سَحَری کی سُنَّت چُھوٹنے پر نَدامت ہونی
چاہیئے،افسوس کرنا چایئے کہ تاجدار رِسالت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ
وسلَّم کی ایک عظیم سُنّت چُھوٹ گئی۔
ہزار سال کی عبادت سے بہتر
حضرت سَیِّدُنا شیخ شَرَفُ الدّین اَلمَعروف بابا بُلبُل شاہ رحمة اللہ
تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں، ”اللّٰہ تَبارَکَ وَتَعَالٰی نے مجھے اپنی رَحمت
سے اِتنی طا قت بخشی ہے کہ میں بِغیر کھائے پئے اور بِغیر سازو سامان کے
اپنی زندَگی گُزار سکتا ہوں۔مگر چُونکہ یہ اُمور مدینے کے سُلطان، رَحمتِ
عالمیان صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم کی سُنّت نہیں ہیں،اِس لئے
میں اِن سے بچتا ہوں،میرے نزدیک سُنّت کی پَیروی ہزار سال کی عِبادت سے
بِہتر ہے۔“
بَہَرحال تمام تر اَعمال کا حُسن وجمال اِتِّباع سُنّتِ محبوبِ رَبِّ ذُ
والجَلال عَزَّوَجَلَّو صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم ہی میں پنہاں
ہے۔
سونے کے بعد سحری کی اجازت نہ تھی
ابتِدائً رات کو اُٹھ کر سَحَری کرنے کی اِجازت نہیں تھی۔ روزہ رکھنے والے
کو غُروبِ آفتاب کے بعد صِرف اُس وَقت تک کھانے پینے کی اِجازت تھی جب تک
وہ سونہ جائے ۔اگر سوگیا تو اب بیدار ہوکر کھانا پینا مَمنُوع تھا۔مگر
اللّٰہعَزَّوَجَلَّ نے اپنے پیارے بندوں پر اِحسانِ عظیم فرماتے ہوئے
سَحَری کی اجازت مَرحمت فرمادی اور اِس کا سَبَب یُوں ہوا جیسا کہ خَزائنُ
العرفان میں صدرُ الافاضِل حضرتِ علّامہ مولیٰنا سیِّد محمد نعیم الدّین
مُراد آبادی علیہ رحمة اللہ الھادی نَقل کرتے ہیں :
سَحَری کی اجازت کی حکایت
حضرتِ سَیِّدُنا صَر مَہ بِن قَیس رضی اللہ تعالیٰ عنہما مِحنَتیشخص تھے۔
ایک دن بَحَالتِ روزہ اپنی زمین میں دِن بھر کام کرکے شام کو گھرآئے ۔ اپنی
زوجہ محترمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کھانا طَلَب کیا، وہ پکانے میں مصروف
ہوئیں۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھکے ہوئے تھے، آنکھ لگ گئی ۔ کھانا تیّار
کرکے جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جگایا گیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے
کھانے سے اِنکار کر دیا۔ کیوں کہ اُن دِنوں (غُروبِ آفتاب کے بعد)سوجانے
والے کیلئے کھانا پینا ممنُوع ہوجا تا تھا۔چُنانچِہ کھائے پیئے بِغیر آ پ ر
ضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دوسرے دِن بھی روزہ رکھ لیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
کمزوری کے سَبَب بے ہوش ہوگئے (تفسیرالخازن، ج۱،ص126)
تو ان کے حق میں یہ آیت ِمُقَدَّسہ نازِل ہوئی-:
وَکُلُوا وَ اشرَبُوا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الخَیطُ الاَبیَضُ مِنَ
الخَیطِ الاَسوَدِ مِنَ الفَجرِ ص ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلیَ الَّیلِ
ج
(پ ۲ ،البقرہ187)
ترجَمَہ کنزالایمان:اور کھاﺅ اور پیو یہاں تک کہ تمہارے لِئے ظاہِر ہوجائے
سَپَیدی کا ڈَورا سِیاہی کے ڈَورے سے پَوپھٹ کر ۔پھر رات آنے تک روزے پُورے
کرو۔
اِس آیت ِمُقَدَّسہ میں رات کو سِیاہ ڈور ے سے اور صُبحِ صادِق کو سفید
ڈورے سےتشبیہ(تَش۔بِی۔ہ) دی گئی ۔معنٰی یہ ہیں کہ تمہارے لئے رَمَضانُ
المبارَک کی راتوں میں کھانا پینا مُباح (یعنی جائز)قرار دے دیا گیا ہے۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اِس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ روزہ کا اذانِ
فَجرسے کوئی تَعلُّق نہیں یعنی فَجرکی اَذان کے دَوران کھانے پینے کا کوئی
جَواز ہی نہیں۔اَذان ہویا نہ ہو،آپ تک آواز پہنچے یا نہ پہنچے صُبحِ صادِق
ہوتے ہی آپ کو کھانا پینا بالکل ہی بند کرنا ہوگا۔
”سَحَری سنّت ہے“
کے نو حُرُوف کی نسبت سے سَحَری کے مُتَعَلِّق
9 فرامِینِ مصطَفٰے صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وَسلَّم
مدینہ۱: سَحَری کھایا کرو کیوں کہ سَحری میں بَرَکت ہے۔“ (صحےح بخاری،
ج۱،ص633،حدیث1923)
مدینہ۲:ہمارے اور اَہلِ کِتاب کے دَرمِیان سَحَری کھانے کا فَرق ہے۔(صحیح
مسلم ،ص552،حدیث1096)
مدینہ۳:اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اور اُس کے فِرِشتے سَحَری کھانے والوںپر رَحمت
نازِل فرماتے ہیں۔
(الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان ،ج۵،ص194،حدیث3458)
مدینہ۴:نبیِّ کریم، رءُوف رَّحیم ،مَحبوبِ ربِّ عظیم عَزَّوَجَلَّ و صلَّی
اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وَسلَّم اپنے ساتھ جب کِسی صَحابی رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کو سَحَری کھانے کیلئے بُلاتے تَو ارشاد فرماتے ،”آﺅ بَرَکت کا کھانا
کھالو۔ “(سنن ابوداؤد، ج۲،ص442،حدیث2344)
مدینہ۵:روزہ رکھنے کیلئے سَحَری کھا کر قُوّت حاصِل کرو اوردن (یعنی دوپہر
) کے وَقت آرام (یعنی قَیلُولَہ ) کرکے را ت کی عِبادت کیلئے طاقت حاصِل
کرو۔ (سنن ابنِ مَاجَہ ،ج۲،ص321،حدیث1693)
مدینہ۶:سَحَری بَرَکت کی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم کو عَطا فرمائی ہے،
اِس کو مت چھوڑنا۔
(السُّنَنُ الکبرٰی للنسائی ،ج۲،ص79،حدیث2472)
مدینہ ۷: تین آدمی جِتنا بھی کھالیںاِن شآئَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّاُن سے
کوئی حِساب نہ ہوگابَشَرطیکہ کھانا حَلال ہو
(۱) روزہ دار اِفطار کے وَقت ۔
(۲)سَحَری کھانے والے۔
(۳)مجاہِد جو اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کے راستہ میں سَر حدِ اسلام کی حِفاظَت
کرے۔(اَلتَّرغِیب وَالتَّرھِیب، ج۲، ص۰۹،حدیث۹)
مدینہ۸:سَحَری پوری کی پوری بَرَکت ہے پس تم نہ چھوڑو چاہے یِہی ہو کہ تم
پانی کا ایک گُھونٹ پی لو۔ بے شک اللّٰہعَزَّوَجَلَّ اور اسکے فِرِشتے
رَحمت بھیجتے ہیں سَحَری کرنے والوں پر ۔ (مُسند امام احمد ،ج۴،
ص۸۸،حدیث11396)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! بے چین دلوں کے چَین،رحمتِ دارین، تاجدارِ
حَرَمَین، سرورِ کَونَین،نانائے حَسَنَین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ
وسلَّم و رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے اِن تمام فرامِین سے ہمیں یہی دَرس ملتا
ہے کہ سَحَری ہمارے لئے ایک عظیم نِعمت ہے جس سے بے شُمار جِسمانی اور
رُوحانی فوائِد حاصِل ہوتے ہیں۔اِسی لئے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ
وسلَّم نے اِسے مُبارَک ناشتہ کہا ہے۔جیسا کہ
مدینہ۹:حضرتِ سَیِّدُناعِرباض بِن ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں
کہ ایک دَفعہ رَمَضانُ المُبارَک میں رَسُولُ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ و صلَّی
اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم نے مجھے اپنے ساتھ سَحَری کھانے کیلئے
بُلایا اور فرمایا ،” آؤ مُبارَک ناشتہ کیلئے۔“
(سنن ابوداود،ج۲، ص442،حدیث2344)
کیا روزے کیلئے سحری شرط ہے؟
کسی کو یہ غَلط فہمی نہ ہو جائے کہ سَحَری روزہ کیلئے شَرط ہے ۔ایسا نہیں
سَحَری کے بِغیر بھی روزہ ہوسکتا ہے۔مگر جان بُوجھ کر سَحَری نہ کرنا
مُناسِب نہیں کہ ایک عظیم سُنَّت سے مَحروی ہے او ریہ بھی یاد رہے کہ
سَحَری میں خُوب ڈَٹ کر کھانا ہی ضَروری نہیں۔ چندکَھجوریں اور پانی ہی اگر
بہ نِیّتِ سَحَری استِعمال کرلیں جب بھی کافی ہے بلکہکَھجور اورپانی سے تَو
سَحَری کرنا سُنَّت بھی ہے جیسا کہ
کھجور اور پانی سے سحری کرنا سنت ہے
حضرتِ سَیِّدُنا اَنَس بِن مالِک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ تاجدارِ
مدینہ، سُرورِ قَلبُ وسینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم سَحَریکے
وَقت مجھ سے فرماتے : ”میرا روزہ رکھنے کا ارادہ ہے مجھے کچھ کھِلا ¶۔ تو
میں کچھ کَھجُوریں اور ایک برتن میں پانی پیش کرتا۔ “(السُّنَنُ الکُبریٰ
لِلنَّسائی، ج۲، ص۰۸،حدیث2477)
کھجور بہترین سحری ہے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو !معلوم ہو ا کہ روزہ دار کیلئے ایک تو سَحَری
کرنا بذاتِ خود سُنَّت ہے اورکَھجور اور پانی سے سَحَری کرنا دوسری سُنَّت
بلکہ کَھجور سے سحَری کرنے کی تو ہمارے آقا ومولیٰ،مدینے والے مصطَفٰے
صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم نے ترغیب بھی دلائی ہے۔چُنانچِہ
سَیِّدُنا سائِب بِن یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مَر وی ہے، اللّٰہ کے
پیارے حبیب ، حبیبِ لبیب، عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”نِعمَ السَّحُورُ التَّمرُ۔ یعنی کھجور بہترین
سَحَری ہے۔“
(اَلتَّرغِیب وَالتَّرھِیب، ج۲، ص90،حدیث12)
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا،نِعمَ سَحُورُالمُومِنِ التَّمرُ۔”یعنی
کَھجور مومن کی بہترین سَحَری ہے“۔
(سنن ابوداو ¾د ،ج ۲، ص443،حدیث2345)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! کَھجوراور پانی کا جَمع کرنا بھی سَحَری کے لئے
شرط نہیں صرف تھوڑا ساپانی بھی اگر بہ نِیَّتِسَحَری پی لیا جائے تو اِس سے
بھی سَحَری کی سنّت ادا ہوجائے گی۔
سحری کا وقت کب ہوتا ہے؟
عَرَبی کی مشہُور کتابِ لُغت ”قامُوس“ میں ہے کہ سَحَر اُس کھانے کو کہتے
ہیں جو صُبح کے وَقت کھایا جائے ۔ “ حنفیوں کے زبردست پیشوا حضرتِ علاّمہ
مولٰینا المعروف مُلاّ علی قاری عَلَیہِ رَحمةُ الباری فرماتے ہیں، ”بعضوں
کے نزدیک سَحَری کا وَقت آدھی رات سے شُروع ہوجاتا ہے۔“ (مرقاةالمفاتیح شرح
مشکوٰةالمصابیح ،ج۴، ص477)
سَحَری میں تاخِیر اَفضل ہے جیسا کہ حدیثِ مُبارَک میں آتاہے کہ حضرتِ
سَیِدُّنا یَعلیٰ بن مُرَّہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رِوایَت ہے کہ پیارے
سرکار،مدینے کے تاجدارصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:”تین چیزوں
کو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ مَحبوب رکھتا ہے
(ا)اِفطار میں جلدی اور
( ۲) سَحَر ی میں تاخِیر اور
(۳)نَماز (کے قِیام ) میں ہاتھ پر ہاتھ ر کھنا۔“ (اَلتَّرغِیب وَالتَّرھِیب
،ج۲،ص91،حدیث۴)
سَحَری میں تاخِیر سے کونسا وقت مراد ہے؟
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!سَحَری میں تاخِیر کرنا مُستَحَب ہے اور دیر سے
سَحَری کرنے میں زیادہ ثواب مِلتا ہے۔مگر اتنی تاخیر بھی نہ کی جائے کہ
صبحِ صادق کا شُبہ ہونے لگے!یہاں ذِہن میں یہ سُوال پیدا ہوتا ہے کہ
”تاخِیر “ سے مُراد کونسا وَقت ہے ؟ مُفَسّرِشہیرحکیمُ الاُمَّت حضرتِ مفتی
احمد یار خان علیہ رحمة الحنّان ” تفسیر نعیمی “میں فرماتے ہیں کہ اِس سے
مُراد رات کا چھٹا حِصّہ ہے ۔پھر سُوال ذِہن میں اُبھرا کہ رات کا چَھٹا
حِصّہ کیسے معلوم کیا جائے ؟اِس کا جواب یہ ہے کہ غُروبِ آفتاب سے لیکر
صُبح صادِق تک رات کہلاتی ہے ۔مَثَلاً کسی دِن سات بجے شام کو سُورج غُروب
ہوا اورپھر چار بجے صُبحِ صادِق ہوئی۔اِس طرح غروبِ آفتاب سے لیکر صُبحِ
صادِق تک جو نو گھنٹے کا وَقفہ گُزرا وہ رات کہلایا۔اب رات کے اِ ن نو
گھنٹوں کے برابر برابر چھ حِصّے کر دیجئے ۔ہر حِصّہ ڈیڑھ گھنٹے کا ہوا اب
رات کے آخِری ڈیڑھ گھنٹے (یعنی اڑھائی بجے تا چار بجے ) کے دوران صُبحِ
صادِق سے پہلے پہلے جب بھی سَحَری کی ، وہ تاخیر سے کرنا ہوا ۔ سَحَری
واِفطَار کا وَقت عُمُوماً روزانہ تبدیل ہوتا رہتا ہے ۔بیان کئے ہوئے طریقے
کے مطابِق جب بھی چاہیں رات کا چھٹا حصّہ نِکال سکتے ہیں اگر رات سَحَری کر
لی اور روزہ کی نِیَّت بھی کرلی ۔ بلکہ عَوامی اِصطِلاح میں ”روزہ بند “بھی
کرلیا پھر بھی بَقِیَّہ رات میں جب چاہیں کھاپی سکتے ہیں۔نئی نیَّت کی حاجت
نہیں۔
اذانِ فجر نماز کےلئے ہے نہ کہ روزہ بند کرنے کےلئے
سَحَری میں اِتنی تاخِیر بھی نہ کردیں کہ صُبحِ صادِق کا شک ہونے لگے۔ بلکہ
کہ بعض لوگ تو صُبحِ صادِق کے بعد فَجر کی اذانیں ہورہی ہوتی ہیں مگر کھاتے
پیتے رہتے ہیں۔اور کان لگا کر سنتے ہیں کہ ابھی فُلاں مسجِد کی اذانخَتم
نہیں ہوئی یا وہ سنو! دُور سے اذان کی آواز آرہی ہے! اور یوں کچھ نہ کچھ
کھا لیتے ہیں۔ اگر کھاتے نہیں تَو پانی پی کر اپنی اِصطِلاح میں ”روزہ بند
“ ضَرور کرتے ہیں۔آہ ! اِس طرح ”روزہ بند‘ ‘ تو کیاکریں گے روزے کو بِالکل
ہی”کُھلا “ چھوڑ دیتے ہیں اور یوں ان کا روزہ ہوتا ہی نہیں اور سارادن
بُھوک پیاس کے سِوا کچھ ہاتھ آتا ہی نہیں۔” روزہ بند “کرنے کا تَعلُّق
اَذانِ فَجر سے نہیں۔صُبحِ صادِق سے پہلے پہلے کھانا پینا بند کرنا ضَروری
ہے۔جیسا کہ آیَتِ مُقَدَّسہ کے تَحت گُزرا۔ اللّٰہعَزَّوَجَلَّ ہر مسلمان
کو عَقلِ سَلیم عطا فرمائے اور صحےح اَوقات کی معلُومات کرکے روزہ نَماز
وغیرہ عبادات صحےح صحےح بجالانے کی توفیق مَرحَمت فرمائے۔اٰمین بِجاہِ
النَّبِیِّ الاَمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم
کھانا پینا بند کر دیجئے
آج کل عِلمِ دین سے دُوری کے سبب عام طور پر لوگوں کایِہی مَعمُول دیکھا
گیا ہے کہ وہ اَذان یا سائرن ہی پر سَحَری و اِفطَار کا دارو مَدار رکھتے
ہیں۔بلکہ بَعض تَو اَذانِ فَجرکے دَوران ہی ”روزہ بند “کرتے ہیں۔اِس عام
غَلطی کو دُور کرنے کےلئے کیا ہی اچھّا ہوکہ رَمَضان المُبارَک میں روزانہ
صُبحِ صادِق سے تین مِنَٹ پہلے ہر مَسجِد میںبُلندآواز سے صَلُّوا عَلَی
الحَبیب ! صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمّد کہنے کے بعد اِس طرح تین بار
اِعلان کردیا جائے، ”روزہ رکھنے والو!آج سَحَری کا آخری وَقت (مَثَلاً)چار
بج کر بارہ مِنَٹ ہے۔ وَقت خَتم ہورہا ہے، فوراًکھانا پینا بند کر دیجئے ۔
اذان کا ہرگز انتظار نہ فرمائیے ، اذان سَحَری کاوقت ختم ہو جانے کے
بعدنَمازِ فَجر کے لئے دی جاتی ہے۔“ہر ایک کو یہ بات ذِہن نشین کرنی ضَروری
ہے کہ اَذانِ فَجرلازِمی طور پر صُبحِ صادِق کے بعد ہی ہوتی ہے اور وہ
”روزہ بند “ کرنے کیلئے نہیں بلکہ صِرف نَمازِ فَجر کیلئے دی جاتی ہے۔ |