بلوچستان دنیا کے نقشے پر ایسی
سرزمین کا نام ہے جس میں سینکڑوں میل ساحل بھی موجود ہے اور سنگلاخ چٹانیں،
بے آب و گیا میدان لیکن معدنی وسائل سے بھرپور فلک بوس پہاڑی سلسلے، پُرفضا
مقامات زیارت جیسا عظیم الشان چو تیر کے جنگلات ڈیرہ مراد، نصیر آباد کا
ایگریکلچر ایریا غرض یہ کہ کیا کچھ نہیں ہے۔ میرے بلوچستان میں، دنیا میں
ہمیشہ دیہی علاقے ترقی کرتے ہیں جہاں بنیادی امن ہو، بھائی چارہ ہو اور
لوگوں میں کام کرنے کی جستجو ہو وہ محنت کے عادی ہوں تو ان کی ترقی کو نہ
تو کوئی انقلاب روک سکتا ہے اور نہ ہی جبر کے ذریعے ان کو آگے بڑھنے سے
کوئی روک سکتا ہے۔ بلوچستان جس میں تیس اضلاع ہیں ان میں چھ اضلاع پشتون
علاقوں پر مشتمل ہے جو ماضی میں کمشنری صوبہ کے نام سے جانا پہچانا جاتا
تھا بعد میں اسے بلوچستان میں ضم کردیا گیا۔ بلوچ علاقوں میں مختلف ریاستیں
خاران، لسبیلہ، مکران شامل ہیں جو تقسیم ہند کے بعد خان آف قلات اور قائد
اعظم کے درمیان الحاق پاکستان کے معاہدے کی وجہ سے پاکستان میں شامل ہوا۔
بلوچستان کے تمام علاقے اپنی افادیت اور محل وقوع کے لحاظ سے انتہائی اہمیت
کے حامل ہیں۔ بلوچستان کا طویل بارڈر افغانستان اور ایران سے ملتا ہے وار
اسی طرح کراچی سے بحیرہ عرب گوادر، پسنی، جیونی، سونمیانی جیسی قدرتی
بندرگاہوں کا یہ ساحل سمندر اپنے اندر قیمتی مختلف انواع و اقسام کی
مچھلیوں، قدرتی گوشت کا ایک ناختم ہونے والا ذخیرہ اپنے اندر سمیٹے ہوئے
ہے۔ یہاں میں سب سے پہلے بلوچستان کے ساحل کی بات کروں گی۔ بلوچستان کا
ساحل ایک طرف ایران سے ملتا ہے اور دوسری طرف متحدہ عرب امارات کے قریب
ترین واقع ہے اور بحیرہ عرب میں واقع ہونے کی وجہ سے یہ دنیا کی ایک دفاعی
حساس آبی گزرگاہ کے طور پر اس کو آج دیکھا جا رہا ہے جب سے گوادر کی
بندرگاہ کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا تو پوری دنیا میں اس کے بہترین محل
وقوع ہونے کی وجہ سے پریشانی کی لہر دوڑ گئی ہمارا ازلی دشمن ہندوستان تو
ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ گیا۔ متحدہ عرب امارات کی ریاستیں گوادر کی
مستقبل کی ترقی کو دیکھنا پسند نہیں کرتی کیونکہ اگر گوادر ترقی یافتہ ہو
گیا تو متحدہ عرب امارات کی حیثیت کم ہو جائے گی اور اسی طرح ہمارا برادر
ملک ایران جس کی بندرگاہ بندرعباس اس علاقے میں سمندری تجارت کے حوالے سے
خاصی مشہور ہے ان کو بھی گوادر کے فنکشنل ہونے سے اپنے وجود کو خطرہ محسوس
ہونے لگا اور خود بلوچستان میں جو کہ آج کل بدامنی کا شکار ہے مختلف ممالک
کی خفیہ ایجنسیاں جن میں بھارت، امریکا، افغانستان اور دوسرے ممالک اسی تگ
و دو میں ہیں کہ بلوچستان میں بد امنی پیدا کی جائے اور گوادر کی بندرگاہ
کو تعمیر ہونے سے روکا جائے اور یہ قدرتی بندرگاہ اگر تعمیر ہو گئی تو اس
میں آباد ہونے والے پاکستان کے مختلف علاقوں کے لوگ اتنی تعداد میں آ جائیں
گے کہ بلوچ آبادی خدانخواستہ اقلیت میں تبدیل ہو جائے گی جب کسی علاقے میں
ترقی ہوتی ہے تو اس کے ثمرات نیچے سے اوپر تک سب کو ملتے ہیں۔ بلوچستان میں
ناراض بلوچ بھائیوں میں یہ تاثر پھیلایا گیا کہ اگر گوادر فنکشنل ہو گیا تو
ساحل ان کی دسترس سے نکل جائے گا حالانکہ ایسا ہر گز نہیں۔ میں یہاں پر
بلوچ نوجوانوں کو یہ مشورہ دونگی کہ وہ زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کریں اور
پورٹ ہینڈلنگ کے سلسلے میں کراچی میں کے پی ٹی ان کی تربیت کا اہتمام کرے
تو کوئی وجہ نہیں کہ تربیت یافتہ افرادی قوت بلوچستان سے ہی گوادر پورٹ کو
مل سکتی ہے اس سے ایک طرف تو مکران کے اور دوسرے بلوچ علاقوں کے یہاں آباد
ہونے سے ان کو کاروبار کے مواقع بھی ملیں گے اور گوادر کی بندرگاہ کا
انتظام بھی انہی کے ہاتھوں میں ہو گا۔ بیرونی دنیا میں بیٹھے ان بلوچ
بھائیوں سے بھی میں اپیل کروں گی کہ ان کو بجائے غیروں کے پروپیگنڈوں میں
آنے کے ان کو ایسا کرنا چاہئے کہ وہ گوادر میں سرمایہ کاری کریں اور زیادہ
سے زیادہ صنعتوں میں آگے آئیں تو اس عمل سے یہ فائدہ ہو گا کہ سرمایہ کار
بھی بلوچ ہوگا اور جو کام کریں گے وہ بھی بلوچ ہوں گے لیکن بدقسمتی سے ایسا
نہ ہو سکا نہ تو وہ سرمایہ کار آگے آ رہے ہیں اور نہ ہی بلوچ نوجوان پورٹ
ہینڈلنگ کی تربیت کے لئے اپنی خدمات پیش کررہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ منفی
سوچ پیدا کرنے والے گوادر کو فنکشنل نہیں ہونا دیکھنا چاہتے۔ پہلے گوادر کو
سنگاپور کے حوالے کرنے کی بات ہوئی اور اب چین کو اس بات کی ذمہ داری دی
جارہی ہے کہ وہ گوادر کو فنکشنل کرے اور یہ بات امریکا کو قطعاً گوارہ نہیں
ہے کہ اس خطے میں چائنا کا اثر و رسوخ بڑھے یہ بات تاریخ میں روز روشن کی
طرح عیاں ہے کہ روس ہمیشہ سے اس بات کا خواہش مند رہا کہ اس کی دسترس بحیرہ
ہند، بحیرہ عرب کے گرم پانیوں تک پہنچ جائے اور اسی حوالے سے اس نے
افغانستان میں مداخلت کی اور کروڑوں افغانیوں کو قتل کیا پورے خطے میں
اسلحے کے انبار روس کی وجہ سے افغانستان میں آئے۔ مغربی ممالک نے روس کا
راستہ روکنے کے لئے جہاد کا شوشہ چھوڑا اور جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روس کو
افغانستان میں انتہائی خطرناک جنگ میں پھنسا دیا گیا اور جس کے نتیجے میں
روس ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ امریکااور مغربی ممالک ہر گز یہ نہیں چاہتے کہ
پاکستان ترقی کرے اور اس کے ساحلوں پر چین کا اثرورسوخ بڑھے حکومت پاکستان
چین کو پاکستان کا عظیم دوست تصور کرتی ہے اور یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے
کہ اس وپت پاکستان بھی چین کے ساتھ دفاعی توانائی اور مختلف شعبوں میں
تجارت مغربی ممالک امریکا اور دیگر ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔
چائنا کو گوادر کی بندرگاہ اور بلوچستان میں دوسرے ترقیاتی پروجیکٹوں میں
اپنے ماہرین کی جانوں کا نذرانہ بھی دینا پڑا ہے۔ گوادر کے علاوہ سونمیانی،
پسنی، اورماڑہ اور دوسری قدرتی بندرگاہوں کا قیام اگر عمل میں آتا ہے تو
یقین جانیئے کہ بلوچستان میں ایک بھی شخص بیروگار نہیں رہے گا اور یہ پورا
علاقہ پاکستان کے لئے معاشی ترقی کے دروازے کھول دیگا اس کے لئے ضروری ہے
کہ ہمارے بلوچ نوجوان مخالفین کے پروپیگنڈے میں آئے بغیر اپنے مستقبل کی
ترقی کا سوچیں تو اس سے ساحل پر انہی کا قبضہ انہی کی دسترس رہے گی ہاں اگر
ایسا کام جن کے لئے بلوچستان میں افرادی قوت موجود نہیں تو وہ بلاشبہ دوسرے
صوبوں سے آ کر یہاں محنت مزدوری کرسکتے ہیں اور اسی طرح دوسری بندرگاہوں کے
قیام سے بھی پاکستان کے لئے معاشی تجارتی راستے کھل جائینگے۔
بلوچستان میں مختلف اضلاع میں معدنی وسائل پائے جاتے ہیں ان اضلاع میں
سرفہرست ضلع چاغی، خضدار، نوشکی، آواران، قلات، کوئٹہ، قلعہ سیف اللہ،
لورالائی، ہرنائی، موسیٰ خیل، بارکھان اور دیگر اضلاع میں اعلیٰ اقسام کے
قیمتی قدرتی مائننگ کی مختلف ورائٹی کثرت سے پائی جاتی ہے۔ ان میں کرومائٹ،
گرینائٹ، ماربل، جپسم، کوئلہ، سونا، تانبا، چاندی اور مختلف قیمتی دھاتوں
والے مائنز دریافت ہوئے ہیں۔ پورے بلوچستان میں زمینی سروے ہو چکا ہے قیمتی
معدنی وسائل کے ساتھ ساتھ پٹرول، گیس کے ذخائر اس کے علاوہ ہیں لیکن بدامنی
کی وجہ سے اور وسائل کی کمی اس کام کی ترقی میں آڑے آ رہی ہے۔ دوسرا قبضہ
مافیا سیاسی نظام بھی ان قیمتی وسائل سے استفادہ حاصل نہیں کرنے دے رہا۔
مائنز ٹو مارکیٹ سڑکوں کا فقدان ہے جس کی وجہ سے مائننگ کے شعبے کی ترقی کے
لئے بنک قائم کردیا جائے اور وہ بنک مائنز اوونرز کو نہ صرف جدید دور کی
مشینری فراہم کرنے میں مدد کرے اور سستی ٹرانسپورٹ مہیا کرے تو کوئی وجہ
نہیں کہ بلوچستان کے قیمتی وسائل سے نہ صرف صوبہ سالانہ اربوں ڈالر کما
سکتا ہے بلکہ ملکی قرضوں کا بوجھ کم کرسکتا ہے اور پاکستان ایک ترق یافتہ
ممالک کی صف میں شامل ہوسکتا ہے تو یہ کام اس لئے نہیں ہو پا رہا کہ
بلوچستان میں کرپشن، لوٹ مار کے سلسلے نے جہاں دوسرے شعبوں کو متاثر کیا ہے
وہیں پر یہ شعبہ بھی بُری طرح متاثر ہوا ہے اور بدامنی کی وجہ سے مختلف
علاقوں میں کان کنی کا کام تقریباً ختم ہو کر رہ گیا ہے البتہ دکی، سنجاوی
اور پشتون علاقوں میں یہ کام اس لئے تیزی سے ہو رہا ہے کہ وہاں پر امن ہے۔
یہاں یہ بات کہنا بے جا نہ ہوگی کہ وسائل بلوچستان سے نکل رہے ہیں تو ان سے
حاصل ہونے والی آمدنی کا زیادہ تر حصہ مقامی علاقے کی ترقی جن میں سکولوں
کا قیام، ہیلتھ مراکز، سکڑوں کی تعمیر، صاف پینے کے پانی کی فراہمی جیسے
منصوبوں پر خرچ کیا جائے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو پا رہا ہے اور دوسری
ستم ظریفی یہ ہے کہ جہاں یہ وسائل دریافت ہو رہے ہیں وہاں کے لوگ بیروزگار
ہیں اور تمام تر کارخانے کراچی اور حب میں قائم کیے گئے ہیں۔ اگر ان تمام
شعبوں کے کارخانے جہاں سے یہ چیزیں پیدا ہوتی ہیں وہیں پر قائم کر دی جائیں
تو کیا وجہ ہے کہ ایک تو خام مال کو کراچی لے جانے میں خرچہ کم آئے گا اور
دوسرا مقامی آبادی تکنیکی شعبوں میں مہارت حاصل کریگی اور ان کی بیروزگاری
تقریباً ختم ہو جائیگی لیکن ایک سوچی سمجھی سازش یا کند ذہنی کی وجہ سے
ایسا نہیں ہو پا رہا۔ بلوچستان میں ریکوڈک اور سینڈک جیسے عظیم الشان
منصوبے ضلع چاغی میں موجود ہیں اگر ان دو بڑے پروجیکٹوں کے کارخانے
فیکٹریاں ضلع چاغی میں لگا دی جائیں تو پورے ضلع چاغی کی بیروگاری دنوں میں
ختم ہو سکتی ہے۔ ان علاقوں میں ریلوے لائن بھی موجود ہے بجلی بھی موجود ہے
گیس بھی پہنچائی جاسکتی ہے اگر کمی ہے تو صرف خلوص کی ہے۔
بلوچستان کی ترقی کے بارے میں بابا بزنجو نے جو اقوال فرمائے تھے کہ بلوچ
نوجوان کی تعلیمی ماشی اور سیاسی ترقی ضروری ہے۔ تب ہی جاکر ہم نہ صرف اپنے
ساحل وسائل اور دیگر قدرتی خزانوں سے بھرپور طور پر مستفید ہو سکتے ہیں
لیکن بدقسمتی سے یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ بلوچستان میں تعلیم کے شعبے میں
انتہائی کم بجٹ رکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے صوبے کے نوجوان نہ تو اعلیٰ
تعلیم حاصل کر پاتے ہیں اور نہ ہی دوسرے صوبے میں میرٹ یا قابلیت کی بنیاد
پر آگے بڑھ پاتے ہیں۔ بلوچستان کی پسماندگی میں جہاں قبضہ مافیا سیاستدانوں
نے نوجوانوں کو تعلیم سے دور رکھا ہے اور دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ
طلباءتنظیموں اور سیاسی جماعتوں نے طالبعلموں کو تعلیم پر کم زندہ باد،
مردہ باد، جلاﺅ گھیراﺅ اور منفی سوچ پیدا کرنے کے لئے زیادہ ان کومصروف
رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ ہماری پچھلی پود نے بجائے ترقی کرنے کے پسماندگی
اپنے مقدر میں لکھ دی۔ سرکاری اداروں میں ستر سے اسی فیصد لوگ ڈیوٹیوں پر
نہیں جاتے ہیں گھر بیٹھ کر تنخواہ لینا ان کو اچھا لگتا ہے جس کی وجہ سے یہ
معاشرہ زوال پذیر چلا آ رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں احتساب کا عمل نہیں ہے
بلکہ ان کی قیادت اپنے مخصوص اور مذموم مقاصد کے لئے بلوچ نوجوانوں کو
استعمال کرتی ہے جس کی وجہ سے اس سیاسی ٹولے کو مفادات مل رہے ہیں لیکن
بلوچ نوجوان بیروزگاری سے دو چار ہیں ان میں اچھا سوچنے اور سمجھنے کی
صلاحیت کم س کم ہوتی جارہی ہے شاید اسی وجہ سے منفی سوچ رکھنے والے گروہ ان
کو پھانس لیتے ہیں۔ اگر بلوچستان کے ہر بچے کے لئے تعلیم کو ضروری قرار دیا
جائے اور ان ماں باپ کےخلاف کارروائی کی جائے جو بچوں کو نہ پڑھائے تو آج
بھی صوبے میں ہم ایک اچھے ماحول کی بنیاد رکھ سکتے ہیں لیکن ہمارا صوبائی
بجٹ چاہے جتنے ارب کا کیوں نہ ہو اس کا 40 سے 50 فیصد سیاستدانوں اور بیورو
کریسی کی کرپشن یعنی کمیشن کی نظر ہو جاتا ہے۔ سرکاری ملازمتیں جو کہ
غریبوں کا حق ہوتی ہےں ان کو فروغ کردیا جاتا ہے اور یاید یہی وجہ ہے کہ
صوبے میں بدامنی کو اس لئے فروغ حاصل ہو رہا ہے کہ یہ نوجوان معاشی بدحالی
کی وجہ سے پسماندگی کا شکار چلے آ رہے ہیں۔ صوبے میں تعلیم کے بجٹ کو دفاع
سے بھی زیادہ ترجیح دینی ہوگی اگر ایسا نہ کیا گیا تو خدانخواستہ آج جو
صورتحال ہے اس میں اور زیادہ اضافہ ہو جائیگا۔ |