مرشد کسے کہتے ہیں؟
(پیرآف اوگالی شریف, Khushab)
یہ مرشد کامل یا مربی کوئی خود
بخود بنی ہوئی شخصیت کا نام نہیں بلکہ جس طرح آپ قرآن کی ساری عبارت کو صرف
سند متصل کی وجہ سے اللہ کا کلام جانتے چلے آتے ہیں جس طرح آپ بخاری و مسلم
کی کسی روایت کو محض اس لیے حدیث یعنی کلام رسول تسلیم کر لیتے ہیں کہ وہ
معتبر اور مسلسل اسناد کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت
ہوئی ہیں، ٹھیک اسی طرح اس مرشد کامل کا قلب بھی ایسے ہی مضبوط واسطوں کے
ساتھ قلب رسول سے ملا ہوا ہوتا ہے، اس کا رابطۂ روحانی بھی ایسی ہی زنجیر
کی مضبوط کڑیوں کی طرح سر چشمۂ روحانیت سے جڑا ہوا ہوتا ہے جس طرح امام
بخاری رحمۃ اللہ علیہ و مسلم رحمۃ اللہ علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی احادیث اور اقوال کو اپنی کتابوں میں ضبط و نظم کے ساتھ محفوظ کرتے
رہے اسی طرح حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ انوار
رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و آثار صحابہ رضی اللہ عنھم سے اپنے سینوں کو
منور کرتے رہے، ادھر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول بذریعہ حدیث ایک
سینے سے دوسرے سینے میں نقل ہوتا رہا ادھر رسول کا حال ایک سینے سے دوسرے
سینے میں منتقل ہوتا رہا دونوں شعبوں کی تکمیل صحابہ کے زمانے میں بھی کئی
شخصیات کے حصے میں آئی ہیں جن میں ابو بکر صدیق، عمر، عثمان، علی المرتضیٰ،
ابوذر، سلمان فارسی، ابو عبیدہ، ابودرداء، ابوہریرہ رضی اللہ عنھم وغیرہ کے
نام سرفہرست ہیں۔
ان کی محبت سے تابعین کی جماعت تیار ہوئی، تابعین سے تبع تابعین نے فیض
حاصل کیا اور اسی طرح سینہ بہ سینہ یہ روحانیت اور مرتبہ احسان کی کيفیت
منتقل ہوتی رہی، لہٰذا آج بھی اگر کوئی مرتبہ احسان تک پہنچنا چاہے تو یہ
کسی کامل شخصیت سے وابستہ ہوئے بغیر ممکن نہیں۔
مرید کسے کہتے ہیں؟
لفظ مرید ’’ارادہ‘‘ سے بنا ہے، عادت کو چھوڑ دینے کا نام ارادہ ہے۔ جس کا
مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تلاش، جستجو کا جذبہ دل میں سما جائے اور اس
کے سوا بندہ ہر شے سے اپنی نگاہیں ہٹا لے۔ مرید وہ ہے جس میں صفت ارادہ
پائی جائے، سچا مرید وہی ہے جو ہمیشہ حق تعالیٰ کی فرمانبرداری کی طرف
متوجہ رہے اور ہر غیر اللہ سے منہ پھیر کر صرف حق تعالیٰ کی ذات میں گم ہو
جائے۔ مرید کتاب و سنت کے سوا ہر چیز سے بے تعلق ہو جائے۔ لہٰذا کوئی مرید
ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ محبوب سے محبت نہیں کرتا اور ارادہ نہیں کر لیتا
اور ارادہ اس وقت تک ہوتا ہی نہیں جب تک ارادہ کو خالص نہ کر لیا جائے۔
روحانی تربیت کے لئے ایک سالک کے لئے ضروری آداب کون سے ہیں
تصوف سراسر ادب کا نام ہے، بغیر ادب کے اس راہ میں کچھ نہیں ملتا جو سالک
ادب سے محروم رہتا ہے وہ مقام قرب سے دور اور مقام قبولیت سے محروم کر دیا
جاتا ہے۔
شهاب الدين سهروردی رحمة الله عليه، عوارف المعارف : 562
پس مربی اور روحانی استاد کے سامنے سالک کا دستور اور طرز عمل ایسا ہونا
چاہیے کہ وہ نہ بلند آواز میں گفتگو کرے نہ بہت زیادہ ہنسے، زبان کو خاموش
رکھے، شیخ سے زیادہ سوالات نہ کرے، شیخ کی اتباع اپنے اوپر لازم کرے، کھانے
پینے، سونے بلکہ ہر نیک کام کو جو شیخ و مربی سے صادر ہو درست سمجھے اگرچہ
وہ بظاہر درست نظر نہ آئے۔ شیخ و مربی کی حرکات و سکنات پر نکتہ چینی اور
اعتراض نہ کرے کیونکہ رائی برابر اعتراض بھی محرومی کے سوا کچھ نہیں دیتا
جو بھی اور جہاں سے بھی کچھ فیض ملے اسے اپنے پیر کی طرف سے جانے، اپنے آپ
کو مکمل طور پر اپنے شیخ کے سپرد کر دے۔ شیخ کی طر ف ہمہ وقت اپنی توجہ
مرکوز رکھے۔ شیخ سے کبھی غلط بیانی نہ کرے کبھی خیانت کا برتاؤ نہ کرے جو
کچھ اپنی ذات کے لئے محبوب جانتا ہے شیخ کے لئے بھی محبوب جانے۔ چلنے،
بولنے، کھانے غرض ہر کام میں شیخ سے پہل نہ کرے کبھی اپنے شیخ کی طرف پاؤں
پھیلا کر نہ بیٹھے، کبھی اپنی پشت نہ کرے۔ شیخ کی موجودگی میں دوسری عبادات
میں مشغول نہ ہو بلکہ تصور شیخ میں گم رہے اور ان کی زیارت سے دل و نگاہ کو
محظوظ کرے الغرض اپنی ہستی کو تلاش حق میں گم کر دینا ہی اصل سلوک ہے۔
روحانی تربیت وہی شخصیت کر سکتی ہے جس کے اندر ضروری شرائط اور اوصاف بدرجہ
کمال پائے جائیں۔
اگر یہ اوصاف و شرائط کسی ہستی میں نہ پائے جائیں تو اس سے روحانی تعلق
قائم کرنا سرے سے جائز ہی نہیں بلکہ حرام ہے یا دوسری صورت میں اگر شیخ اور
مربی میں بعض شرائط پائی جائیں تو بیعت جائز تو ہو جائے گی لیکن اس بیعت سے
کچھ فائدہ میسر نہیں آئے گا، بیعت اصل میں وہی ہے جو شرعاً جائز اور روحانی
اعتبار سے فائدے اور ترقی کا باعث بھی ہو۔ روحانی تربیت کرنے والے میں درج
ذیل گیارہ شرائط کا پایا جانا ضروری ہے۔
پہلی شرط : شیخ صاحبِ علم و معرفت ہو۔
دوسری شرط : وہ صاحبِ ورع اور صاحبِ تقویٰ ہو۔
تیسری شرط : وہ منکرات اور شبہات سے سختی سے بچنے والا، عبادت گزار اور
صاحبِ مجاہدہ ہو۔
چوتھی شرط : وہ صاحبِ حسن خلق اور نہایت خوش اخلاق ہو۔
پانچویں شرط : وہ صاحبِ اخلاص اور صاحبِ استغناء ہو یعنی اس کا دل دنیاوی
مفاد سے بے نیاز ہو۔
چھٹی شرط : وہ اپنے مریدین پر حد درجہ مہربان اور شفیق ہو اور ان سے اولاد
جیسا برتاؤ کرے۔
ساتویں شرط : وہ صاحبِ حکمت و بصیرت ہو، مریدوں کو ان کے حسب حال ان کے ظرف،
ان کے ظاہر و باطن کے احوال اور ان کی تربیت کے تقاضوں کے پیش نظر ملتا ہو۔
آٹھویں شرط : وہ صاحب ہدایت، صاحبِ ارشاد اور امر بالمعروف اور نہی عن
المنکر کا پابند ہو جو مریدوں کو اچھائی کا حکم دے اور برائی سے روکے۔
نویں شرط : وہ کامل النّسبت ہو۔
دسویں شرط : وہ کامل الطریقت ہو۔
گیارہویں شرط : وہ کامل التوجہ ہو۔ |
|