سٹیج پر جرنیل‘ سیاست دان اور
نامور مذہبی سکالر تشریف فرما تھے‘ دوران تقریب ایک پروفیسر صاحب نے اپنے
خطاب میں فرمایا ”ہم میں سے ہر ایک کو چاہئے قرآن خود سمجھے ‘ قرآن سمجھنے
کیلئے کسی لمبے چوڑے علم کی ضرورت نہیں، اس کیلئے آپ نہ تو کسی مولوی کے
محتاج ہیں اور نہ ہی آپ کو کسی مدرسے میں داخلہ لینے کی ضرورت ہے، مجھے
سمجھ نہیں آتی مدرسوں والے صرف و نحو اور اسی طرح کے دیگر غیر ضروری علوم
میں مغز ماری کیوں کرتے ہیں۔ میں انہیں بھی کہتا ہوں وہ صرف ونحو میں وقت
ضائع کرنے کے بجائے ڈائریکٹ قرآن سمجھیں‘ آپ لوگ گھر بیٹھ کر روزانہ ایک
گھنٹہ قرآن کا مطالعہ کریں چھ ماہ بعد آپ ایک بہترین مذہبی سکالر ہوں گے“
پروفیسر صاحب نے اور بھی بہت کچھ فرمایا جو یہاں نقل کرنا مناسب نہیں ‘
پروفیسر صاحب کے ارشادات سٹیج پر بیٹھے مذہبی سکالر بھی بغور سن رہے تھے‘
مجھے یقین تھا سر عام عوام کو گمراہ کرنے پر سکالر صاحبان پروفیسر صاحب کی
گرفت کریں گے مگر ایسا نہ ہوا۔ ممکن ہے اس موقع پر کچھ کہنا وہ مصلحت کے
خلاف سمجھتے ہوں۔ میں نے انتظار کیا اور جب مجھے یقین ہو گیا کوئی بھی جواب
دینے کو تیارنہیں تو میں نے کہا مجھے پروفیسر صاحب کے ارشادات کے حوالے سے
کچھ کہنا ہے‘ منتظمین نے مجھے اجازت دے دی۔
میں نے عرض کیا ”پروفیسر صاحب نے جو فرمایا ہے مجھے اس سے اتفاق نہیں‘ اگر
بات صرف پروفیسر صاحب کی ہوتی تو شائد میں جواب نہ دیتا لیکن یہ سوچ چونکہ
اب ایک وبائی مرض کی شکل اختیار کر رہی ہے اس لئے جواب دینا ضروری ہے ۔
قرآن سمجھنا بڑی سعادت کی بات ہے مگر قرآن کو اس طرح نہیں سمجھا جا سکتا
جیسا پروفیسر صاحب نے فرمایا ہے۔ قرآن مجید سمجھنے کیلئے دینی علوم کا ماہر
ہونا ضروری ہے جس شخص کو دینی علوم میں مہارت نہیں وہ خود قرآن مجید نہیں
سمجھ سکتا“ میری بات سن کر سب لوگ میری طرف متوجہ ہو گئے۔ میں نے عرض کیا ”
آپ لوگ عالم دین نہیں ہیں اس لئے میں آپ کو عام اور سادہ سی مثالیں دے کر
سمجھاتا ہوں‘ آپ لوگ بتائیں ایس ٹی کولرج‘ ملٹن‘برناڈشا اور شیکسپیئر کو
سمجھنے کیلئے آپ کو کیا کرنا ہوگا؟“ سب بولے انگریزی زبان سیکھنا ہو گی۔
میں نے کہا ”آپ میں ایسے لوگ بیٹھے ہیں جو انگریزی بول سکتے ہیں‘ میں
انگریزی کے چند شعر پڑھتا ہوں آپ مجھے سمجھا دیں شاعر نے کیا کہا ہے‘ میں
نے کولرج کے اشعار پڑھے بشمول پروفیسر صاحب کے کوئی بھی ان کی وضاحت نہ کر
سکا۔ میں نے کہا ” ہم سب اردو بول سکتے ہیں لیکن ہم میں کتنے ہیں جو اقبال
اور غالب کو سمجھتے ہیں؟کہنے کا مطلب یہ ہے محض عربی زبان جاننے والا بھی
قرآن مجید کو خود نہیں سمجھ سکتاجب تک کہ عربی زبان کے علاوہ دینی علوم میں
خاص مہارت حاصل نہ کرلے اور اگرآپ قرآن مجید کی تشریح کرنا چاہتے ہیں تواس
کیلئے ضروری ہے آپ کی حدیث پر بھی گہری نظر ہو‘ آپ عرب معاشرے سے بھی واقف
ہوں‘ آپ صرف نحو کے ماہر ہوں،آپ کو آیات اور سورتوں کے شان نزول کا بھی علم
ہو“ پروفیسر صاحب میری باتیں سن کر چیں بجبیں ہو رہے تھے میں نے پیار سے
انہیں مخاطب کرتے ہوئے پوچھا ”پروفیسر صاحب آپ کے بیٹے کیا کرتے ہیں؟ ایک
پنجاب میڈیکل کالج فیصل آباد میں پڑھتا ہے اور دوسرا لاءکالج لاہور میں“ ”
انہیں انگریزی آتی ہے؟“ ”جی ہاں آتی ہے“ ”پھر تو آپ ان پر ظلم کر رہے“ وہ
بے چارے کالجوں میں دھکے کھا رہے ہیں،بھاری بھاری فیسیںدے رہے ہیں‘ آپ ان
سے کہیں بیٹا تمہیںانگریزی آتی ہے تمہاری کتابیں انگریزی میں ہیں‘ گھر آجاﺅ
خود ہی پڑھو اور سمجھو‘ کالج جانے،ہاسٹلوں میں دھکے کھانے اور کسی کا شاگرد
بننے کی کیا ضرورت ہے؟؟“پروفیسر صاحب نے میری طرف دیکھا اور پھرنظریں
جھکالیں۔
اسلام آباد میں چند خودساختہ دانشوروں اورمذہبی سکالروں کا ایک گروپ ہے‘ وہ
بھی پروفیسر صاحب کے ہم خیال ہیں،وہ بھی کہتے ہیں قرآن مجید کو خود ہی
سمجھنا چاہیے ‘ ایک دن انہوں نے مجھے اپنی محفل میں دعوت دی‘ محفل میں سب
اپنے خیالات کا اظہار کرچکے تو میں نے عرض کیا ” آپ کے خیالات بہت اچھے ہیں
اور آپ کا جذبہ بڑا پیارا ہے مگر جس راستے کا آپ نے انتخاب کیا ہے وہ آپ
کوگمراہی کی طرف لے جائے گا“ کیا مطلب ہے آپ کا ؟ ” مطلب آپ کو بعد میں بتاﺅں
گا پہلے ایک قرآن مجید منگوائیں“ قرآن مجید لایا گیا ‘ میں نے تیسویں پارے
کی سورہ نازعات کھولی اور قرآن مجید ان کے امیر صاحب کی طرف بڑھایا کہ وہ
اس سورة کا ترجمہ اور تشریح فرمائیں‘ امیر صاحب نے ناگواری کا اظہار کرتے
ہوئے کہا یہ قرآن تو بغیر ترجمے کے ہے‘ میں نے کہا جناب والا جو آدمی قرآن
مجید کو خود سمجھتا ہے اسے ترجمے والے قرآن کی کیا ضرورت ہے اور آپ تو
ماشاءاللہ اس گروپ کے امیر ہیں۔ امیر صاحب فوراً گرم ہوگئے کیونکہ میں نے
ان کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا تھا‘ کافی دیر بحث ہوتی رہی آخری کار جب ان کے
دلائل ختم ہوگئے تو میں نے عرض کیا، حضرات معاملہ یہ ہے کہ جب آپ قرآن مجید
خود سمجھنے کی بات کرتے ہیں تو حقیقت میں آپ قرآن مجید خود نہیں سمجھ رہے
ہوتے بلکہ آپ پہلے سے کیا ہوا ترجمہ سمجھ رہے ہوتے ہیں، اگر آپ تفہیم
القرآن‘ تفسیر عثمانی‘ معارف القرآن‘بیان القرآن‘ احسن التفاسیر‘ القرآن‘
ضیاءالقرآن‘ تیسیر القرآن، احسن البیان یا جواہرالقرآن پڑھ رہے ہیں تو اس
کا مطلب یہ ہے کہ آپ قرآن مجید نہیں سمجھ رہے بلکہ آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ
مولانا مودودی ‘ مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ‘ مفتی محمد شفیعؒ‘ جناب ڈاکٹر
اسرار احمد‘ مولانا جوناگڑھی‘ مولانا احمد رضا خانؒ‘ پیر کرم شاہ الازہریؒ
مولانا عبدالرحمن گیلانی، مولانا صلاح الدین یوسف یا مولانا غلام اللہ خانؒ
نے قرآن کو کیسا سمجھا۔’جنابِ والا یوں آپ ان علماءکرام کو تو استاد بنانے
کےلئے تیار ہیں جو دنیا سے چلے گئے اور جو دنیا میں موجود ہیں ان کے پاس
خود جاتے ہیں نہ اوروں کو جانے دیتے ہیں‘ آپ سوچیں کیا آپ قرآن پاک کی خدمت
کررہے ہیں یا خود گمراہ ہونے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی گمراہ کررہے ہیں‘
آپ دنیاوی علوم سیکھنے کےلئے کالج اور یونیورسٹی جاتے ہیں ‘متعلقہ مضامین
کے ماہر اساتذہ کی خدمات حاصل کرتے ہیں،آپ اپنے بچوں کو سکول کالج اور
یونیورسٹی بھیجنا فرض عین سمجھتے ہیں مگر قرآن مجید سیکھنے کےلئے خود مدرسہ
جاتے ہیں نہ بچوں کو جانے دیتے ہیں‘ آپ دنیاوی علوم میں تخصص کےلئے 16 برس
لگاتے ہیں جبکہ قرآن حکیم جو تمام علوم کا مجموعہ ہے اسے سیکھنے کےلئے صرف
چھ ماہ کافی سمجھتے ہیںوہ بھی گھر میں صوفے پر بیٹھ کر‘ خدا کےلئے ہوش کے
ناخن لیں اور خدا کے کلام کو مذاق نہ بنائیں خود گمراہ ہوں نہ دوسروں کو
گمراہ کریں اور اگر اب بھی آپ اپنی ضد پر قائم ہیں کہ بغیر استاد کے، عربی
زبان اور دیگر معاون علوم میں مہارت حاصل کئے بنا گھرمیں بیٹھ کر قرآن مجید
کو سمجھا جا سکتا ہے تو پھر عملاً ثابت بھی کریں ،کوئی ایک علامہ تو ایسا
بتایں جس نے بنا استاد،بنا عربی زبان اور بنا دینی علوم جانے قرآن پاک سمجھ
لیا ہو؟آپ اپنا دعویٰ دلائل سے ثابت کر سکتے ہیں تو آئیے ،ہم ہر وقت ،ہر
جگہ اور ہر فورم پر آپ سے بات کرنے کو تیار ہیں۔لیکن میں جانتا ہوں آپ کبھی
نہیں آئیں گے!!! |