تعلیم کسی بھی فرد یا معاشرے کو
ترقی یافتہ بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔اگر ہم تاریخ کے اور اق پلٹیں
تو ہمیں پتا چلتا ہے جن قوموں نے ترقی کی ان کی ترقی کا راز ان کے نظام
تعلیم میں پوشیدہ ہے۔ بہت سے ترقی پذیر ممالک نے اپنے نظام تعلیم کو بہتر
بنا کر خود کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کر لیا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ
آج تک دنیا میں جتنی قوموں نے ترقی کی ہے صرف اورصر ف تعلیم کے بل بوتے پر
کی ہے۔زمانہ قدیم کی مصری ، یونانی ، چینی ، عراقی اور سندھی تہذیبوں کی
ترقی کا راز بھی تعلیم اور فن و ہنر میں پوشیدہ ہے۔اہرام مصر جیسے شاہکار
کی ہزاروں سال پہلے تخلیق کو دنیا سمجھنے سے قاصر ہے ۔اور عجائبات دنیا میں
شامل کرنے پر مجبور ہے ۔ یہ تخلیق اس دور کے محنتی مزدوروں اور انجینئر ز
کے فن اور یقینی طور پر جیومیٹری کے علم کی بدولت ہی ممکن ہوا ہو گا۔
ارتقاءدنیاکاایک ہی بنیادی قانون ہے۔اور وہ ہے(Survival of the
fittest)یعنی طاقت ور کا زندہ رہنا اور کمزوروں کا مٹا دیا جانا۔ یہ قانون
دنیا کی تمام مخلوقات پر لاگو ہوتا ہے۔جن و انس ، حیوانات ، نباتات سبھی اس
قانون کے پابند ہیں۔جانوروںہی کی مثال لے لیں ۔ بیالوجی کے ایک عظیم سائنس
دان ڈارون کے فلسفے (The Theory of evolution)کے مطابق دنیا کی تخلیق سے لے
کر آج تک سینکڑوںایسے جانور تھے جو حالات اور موسموں کی تبدیلی کے باعث اس
دنیا سے بالکل ختم ہو گئے۔اورجو جانور بچ گئے انہیں زندہ رہنے کے لیے اپنی
زندگی میں اور عادات میں نمایاں تبدیلیاں لانا پڑیں۔بالکل یہی معاملہ
انسانوں کے ساتھ بھی تھا ۔ دنیا میں صرف وہی قومیں زندہ رہیں جنہوں نے
بدلتے حالات کے تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو مسلسل بدلا۔ہر لحاظ سے اپنے آپ
کو جدید تر بنایا۔شاید اسی لیے ایسی قوموں کا نام آج تک زندہ ہے۔اور جو
قومیں اپنے آپ کو حالات کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ کر سکیں۔ ان کا نام ہمیشہ
ہمیشہ کے لیے مٹ گیا ۔ یا تو مختلف جنگوں میں طاقت ورقوموں نے ان کا صفایا
کر دیا یا پھر چند صدیوں بعد خود ہی ان قوموں کا وجود صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔
یہ قانون آج بھی اسی طرح سے لاگو ہوتا ہے جیسا کہ شروع دن سے لاگو ہوتا
آرہا ہے۔مسلمانوں کی موجود ہ حالت اور ان کے ساتھ کیے جانے والے ہتک آمیز
سلوک کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ تعلیمی لحاظ سے پستی کی جانب جا رہے ہیں۔ایک
وقت تھا کہ دنیا میں مسلمانوں کا ڈنکا بجتا تھا۔جابر بن حیان ، بوعلی سینا،
الراضی ، ابن الہیشم اور البیرونی ان عظیم مسلمان سائنسدانوں نے دنیا میں
سائنس کی بنیادرکھی جس کے بعد جدید تعلیم کے انداز یکسر تبدیل ہو گئے۔اورا
نہیں عظیم سائنسدانوں نے دنیا کو جدید علوم سے روشناس کروایا ۔ مسلمانوں نے
جدید نظریات کی بدولت ترقی کے مراحل طے کیے اور جدید علوم میں اپنا لوہا
منوایا۔لیکن جیسے ہی مسلمانوں نے تعلیم سے دوری اختیار کی تو دوسری اقوام
ان پر حاوی ہوگئیں۔اور ان سے انہی کے علوم چھین کر ترقی کر گئے۔اور آج وہ
چاند پر بھی پہنچ گئے۔یقیناً علامہ اقبال ؒ نے اسی لیے کہا تھا۔۔
تھے تو وہ آباءتمھارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو
حال ہی میں ایک تحقیق ہوئی جس کے مطابق دنیا کی 400بڑی جامعات میں پاکستان
کی کوئی بھی یونیورسٹی شامل نہیں ۔اس وقت صرف امریکہ میں5ہزار
758یونیورسٹیاں ہیں۔56کے لگ بھگ اسلامی ممالک میں کل 580جبکہ بھارت میں
یونیورسٹیوں کی تعدا مجموعی طور پر اسلامی ممالک سے زائد یعنی
583ہے۔پاکستان میں 128جامعات تعلیمی میدان میں خدمات سر انجام دے رہی
ہیں۔دنیا کی 400بہترین جامعات میں اسلامی ممالک میں سے سعودی عرب کی صرف
ایک یونیورسٹی شامل ہے۔جبکہ اس فہرست میں امریکہ کی 6بھارت کی2یونیورسٹیاں
شامل ہیں۔امریکی جریدے یو ایس نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ نے یہ درجہ بندی تعلیم
اور کیرئیر پر تحقیق کرنے والے ایک بین الاقوامی ادارے سے کروائی ہے۔ جس
میں دنیا کی یونیورسٹیوں کی عملی ساکھ ، فیکیلٹی اور طلبہ کا تناسب انٹر
نیشنل فیکیلٹی اور دیگر معاملات کو میرٹ بنایا گیا ہے۔یہ رپورٹ ہمارے لیے
باعث ندامت بھی ہے۔آج جب ہم اپنے پیارے نبی ﷺ کے اس فرمان کو بھی بھول چکے
ہیں۔” علم مومن کی گم شدہ میراث ہے“جہاں سے ملے لے لو۔شاید انہی تعلیمات کو
نظر انداز کرنا ہمارے لیے عالم تمام میں رسوائی کا باعث بن رہا ہے۔ آج غیر
مسلم قرآن پاک کے فرامین پر تحقیق اور عمل کر کے کامرانی کی منازل تک پہنچ
چکے ہیں۔بد قسمتی سے مسلمان ممالک کے حکمرانوں کی ترجیح علم کی بجائے مال و
دولت ہے۔دنیا وی عیاشیاں محلات او ر اسی قسم کے دیگر معمولات ان کی ترجیحات
ہیں۔جب ہم ایشیا کی یونیورسٹیوں پر نظر ڈالتے ہیں تو چین جنوبی کوریا اور
بھارت اپنی یونیورسٹیوں میں ملکی اور غیر ملکی طلبہ پر سب سے زیادہ سرمایہ
کاری کرنے والوںمیں سر فہرست نظر آتے ہیں۔جب قدیم ترین یونیورسٹیوں کی
تحقیق ہوتی ہے تومصر کی ” جامعہ الا ز ہر “دنیا کی مستند اور قدیم ترین
یونیورسٹی ہے جو دسویں صدی میں قائم ہوئی۔اس کے بعد گیارھویں صدی میں بغداد
کی ” آل نظامیہ “ یونیورسٹی قائم ہوئی۔اس کے بعد اسلامی خطہ میں کوئی مستند
اور قابل ذکر یونیورسٹی قائم نہ ہو سکی۔دنیا کو جہالت کی تاریکیوں سے
نکالنے اور علم کے نور سے منورکرنے والے خود تاریکیوں میں بھٹکنے لگے ۔زوال
کی داستان تب سے شروع ہے اور اب تک جاری ہے۔
اس دوران یورپی ممالک نے جوتعلیمی ادارے قائم کیے وہ علم کے مینار بن
گئے۔اور پوری دنیا سے طلبہ علم کے حصو ل کے لیے وہاں جانے لگے۔یورپی ممالک
کی ترقی کا راز شاید اسی میں مضمر ہے۔اسلامی ممالک میں جن ملکوں نے نمایاں
کامیابی حاصل کی ان ممالک کے حکمرانوں نے تعلیم کو تر جیح اول بنایا ۔”
ڈاکٹر مہاتیر محمد نے ملائشیا میں بر سر اقتدار آکر ملائشیا کا تعلیمی بجٹ
25%تک بڑھا دیا تھا ۔ جو ملائشیا کی تیز رفتار ترقی کا باعث بنا“کسی بھی
قوم کی تباہی اس قوم کی ثقافت او ر تعلیمی نظام کو برباد کیے بغیر ممکن
نہیں ۔برصغیر کی ہی مثال لے لیں۔2فروری 1835 ءکو لارڈ میکا لے نے برطانوی
پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ۔” میں نے ہندوستان کے طول و عرض کا
سفر کیا مجھے ایک شخص بھی ایسا نظر نہیں آیا جو فقیر ہو یا چور ہومیں نے اس
ملک میں بے حد دولت دیکھی اعلیٰ اخلاقی قدریں دیکھیں اور اعلیٰ پائے کے
عوام دیکھے ہیں۔کہ میں تصو ر نہیں کر سکتا کہ ہم کبھی اس ملک کو فتح کر
سکتے ہیں۔ جب تک ہم اس قوم کی ریڑھ کی ہڈی نہ توڑ دیں۔یہ اس قوم کی روحانی
اور ثقافتی میراث ہے۔اس لیے میرا یہ مشورہ ہے کہ ہم ان کا پرانا تعلیمی
نظام یکسر بدل دیں۔کیونکہ جب ہندوستانی اس بات کا یقین کر لیں گے کہ بیرونی
اور انگلش چیز ان کی اپنی چیزوں سے بہتر ہے۔تو وہ اپنی خود مختاری اور
اعتماد کھو دیں گے۔پھر وہی بن جائیں گے جیسا کہ ہم چاہتے ہیں۔یعنی ایک
حقیقی محکوم قوم ۔
تعلیمی اداروں کی حالت زار
ایک اعداد و شمار کے مطابق ہمارے 10.9%تعلیمی اداروں میں پینے کا پانی میسر
نہیں اور 36.9%ادربیت الخلاءجیسی بنیادی ضرورت کے محتاج ہیں۔ بجلی کی سہولت
جو وطن عزیز میں بہت مشکل سے میسر آتی ہے۔ہمارے 59.6%تعلیمی ادارے بجلی کی
سہولت کے بغیر کام کررہے ہیں۔
شرح خواندگی کا تناسب
پاکستان میں پرائمری سکول میں داخلے کی شرح گزشتہ سال 59%تھی۔ پاکستان کی
کل آبادی کے صرف 58%افراد کبھی نہ کبھی سکول داخل ہوئے ہیں۔ جبکہ 42%نے
کبھی سکول میں داخلہ نہیں لیا۔جو طلبہ پرائمری میں داخلہ لیتے ہیں ان میں
سے نصف ہی تقریباً (50%)پرائمری کا امتحان پاس کر پاتے ہیں۔10%طلبہ مڈل تک
تعلیم حاصل کرپاتے ہیں۔
میٹرک تک یہ شرح 6.7%افراد رہ جاتی ہے۔جبکہ یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرنے
والے طلبہ کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے۔پاکستان میں شرح خواندگی تقریباً
51%ہے۔جو کہ اپنے ہمسایہ ممالک سے انتہائی کم ہے ۔مثلاً سری لنکا
90.7%ایران 82.4انڈو نیشیا 90.4%ویتنام 90.3%اور بھارت 61.1%۔
تعلیم کے لئے مختص وسائل
ہمارے ہاں شروع سے ہی تعلیم پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ۔1951میں ہمارے
ہاں ناخواندہ افراد کی تعداد تقریباً20ملین تھی۔جو کمزور تعلیمی پالیسیوں
اورشرح آبادی میں اضافے کے باعث 1998تک ان افراد کی تعداد 50ملین تک پہنچ
گئی ۔پاکستان کا تعلیمی بجٹ ہمیشہ سے محدود رہا ہے۔ہر حکومت کی طرف سے
تعلیم کو سب سے اہم تر جیح قرار دیا جاتا ہے۔مگر عملی طور پر ٹھوس اقدامات
کہیں نظر نہیں آتے تعلمی بجٹ کے لئے مختص رقم ہمارے جی ڈی پی کا بمشکل
2فیصد رہی ہے ۔ قومی آمدنی میں تعلیمی اخراجات کے تناسب کے حوالے سے
پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک سے بہت پیچھے ہے۔اس وقت ایران اپنی کل آمدنی کا
4.9فی صد ملائشیا 6.2%تھائی لینڈ 4.2%جنوبی کوریا 4.6%اور انڈیا 3.8%خرچ کر
رہا ہے۔
اعلیٰ تعلیم پر فنڈنگ
ہائر ایجوکیشن کے قیام کے بعد حکومت پاکستان نے اعلیٰ تعلیم کے لیے بڑے
پیمانے پر فنڈ جاری کیے جس کے باعث ہائر ایجوکیشن کمیشن نے کئی قابل ذکر
منصوبوں کا آغاز کیا۔2002-03میں اعلیٰ تعلیم کے لیے 7723402ملین روپے مختص
تھے۔جو کہ 2006-07میں بڑھا کر 28741.667ملین روپے کر دیے گئے یہ
تقریباً272%اضافہ ہے۔لیکن 2007-08میں 2.8%اور 2008-09میں34.1کمی کر دی
گئی۔اخراجات میں کمی کا اثر صرف ترقیاتی اخراجات پر ہوا۔جو 15390.445ملین
سے کم ہو کر 8167.760ملین رہ گئے جس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ 2007-08میں جاری
116پراجیکٹس میں سے صرف 29پراجیکٹس جاری رہے باقی سب کو فنڈ نہ ہونے کے
باعث بند کرنا پڑا۔
تشویش ناک تعلیمی اعدادو شمار
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں بچوں کو تعلیم
دینے سے متعلق پراجیکٹ ایجوکیشن فار آل کے اہداف کے حصو ل میں سست روی پر
تشویش کا اظہار کیا ہے۔یونیسیف کے پاکستان میں نمائندے ڈین روہرمن نے اپنے
بیان میں کہا کہ دنیا بھر میں اس وقت 6کروڑ 70لاکھ بچے اسکول نہیں جارہے جن
میں57فی صد لڑکیاں ہیں ۔روہر بن کے مطابق پاکستان کی صورتحال بھی تعلیمی
لحاظ سے تشویشن ناک ہے۔ جہاں پر 70لاکھ بچے تعلیم حاصل نہیں کررہے۔جن میں
60فی صد تعدا بچیوں کی ہے۔اگر اس حوالے سے مزید اقدامات نہ کیے گئے ۔تو
2015تک سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد مزید بڑھ جائے گی۔تعلیمی سہولیات
سے محروم بچوں تک ان سہولیات کی رسائی کو یقینی بنانا اس وقت سب سے بڑا
چیلنج ہے ۔ پاکستان کی مجموعی آبادی کا تقریباًنصف 18برس سے کم عمر نو
جوانوں پر مشتمل ہے جو کہ تعلیم یافتہ ہو کر ملکی ترقی میں اہم کردار ادا
کر سکتا ہے۔
2003میں ملکی یونیوورسٹیوں میں زیر تعلیم طالب علموں کی تعداد 276000تھی جو
کہ 2011میں بڑھ کر 803000ہو گئی ۔اسی طرح 2000میں ڈگری دینے والے اداروں کی
تعداد 59تھی جو 2011میں بڑھ کر 137ہو گئی ۔بلا شبہ یہ اچھی تبدیلی ہے۔
پلڈاٹ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اگر ہمارے ہاں شعبہ تعلیم کی یہی رفتار
رہی تو ہما را پرائمری تعلیم کا ہدف اگلے 30سالوں تک پورا ہوگا۔2011میں پی
بی سی نے بہت سے سروے اور جائزوں کی روشنی میںرپورٹ کیا کہ صوبہ پنجاب اگر
اپنی حالیہ رفتار سے تعلیم کا فروغ جاری رکھے تو 2041تک بچوں کو پرائمری
تعلیم دینے کا ہدف پورا کر سکے گا۔ جبکہ بلوچستان یہ ہدف 2100تک بمشکل پورا
کر سکے گا۔بہت سے جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ انڈیا اور سری لنکا کے بر عکس
پاکستان اقوام متحدہ کا ملیم ڈیویلپمنٹ گولز 2015 (MDG)کا ہدف پورا کرتا
نظر نہیں آتا۔واضح رہے یہ پروگرام تیسری دنیا کے ممالک کے بنیادی تعلیم کی
فراہمی سے متعلق ہے۔
اگر ہم اپنے ملک میں تعلیم کے شعبے کی زبوںحالی پر نظر ڈالیں تو ان کی
وجوہات مندرجہ ذیل نظر آتی ہیں۔
٭ قومی آمدنی کا خطیر حصہ تعلیم کے لیے مختص کرنا
٭ نئی آنے والی حکومتوں کا پچھلی حکومتوں کی تعلیمی پالیسیوں پر اعتماد نہ
کرنا اور تعلیمی منصوبے بند کر دینا ۔
٭ ملک میں یکساں نظام تعلیم کا نہ ہونا
٭ نصاب تعلیم کا قومی زبان اردو میں نہ ہونا
٭ تعلیمی بجٹ کا کرپشن کی نذر ہونااساتذہ کا جدید علم سے ہم آہنگ نہ ہونا
اساتذہ کی ٹریننگ ورکشاپ کا مناسب بندو بست نہ ہونا ۔ اگر ہرمنتخب حکومت
پچھلی حکومت کی اچھی تعلیمی پالیسیاں جاری رکھے اور مل جل کر بیٹھ کر تعلیم
منصوبے بنائے جائیں۔قومی بجٹ کا زیادہ تر حصہ دفاعی کا موں میں خرچ کرنے کی
بجائے تعلیمی منصوبوں پر خرچ کیا جائے تو ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا
ہے اس حوالے سے چیک اینڈ بیلنس کے نظام کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ |