احترام کرنے والے پرندے

 زبان کاکام بولنا ہے اور جب جب یہ زبان نیک کلمات اداکرتی ہے اعمال کے دفتر میں نیکیوں کا اندراج ہوتارہتاہے ۔یہ رمضان المبارک کی پاکیزہ ساعتیں ہیں ۔کیوں نہ ہم ان کا ذکر کریں جن کی سیرت نے ہمیں یہ سبق دیا یہ درس دیا کہ ہم وہ کریں جس میں رضائے الہی ہو۔ہم وہ سوچیں جس میں دین کی بھلائی ہو۔ہم سے وہ صادر ہو، جس سے آخرت کی کمائی ہو ۔محترم قارئین :گذشتہ کالموں کی طرح آج ہم حضرت امام علی نقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت پر گفتگو کریں گئے ۔

(حضرت امام علی نقی رضی اللہ عنہ)

نام، کنیت اور لقب :
حضرت سیدنا علی بن محمد بن موسیٰ بن جعفر رضی اللہ عنہ بارہ آئمۃ الہُدی میں سے دسویں امام ہیں۔
آپ کی کنیت ابوالحسن ہے، آپ ابوالحسن ثالث کے نام سے بھی پکارے جاتے ہیں۔
آپ کا لقب ہادی اور عسکری ہے جو بہت معروف ہے۔

والدہ محترمہ کا نام :
آپ کی والدہ محترمہ اُمِّ ولد ہیںجن کا اسم گرامی شمانہ ہے ، اور کہا جاتا ہے کہ یہ اُمِّ فضل بنت مامون الرشید کی باندی تھیں۔

ولادتِ باسعادت:
آپ نے ٢٤ ہجری ١٣ رجب المرجب کو مدینہ شریف میں تولد فرمایا۔

وصال مبارک :
آپ نے ٢٥٤ اہجری بروز دو شنبہ جمادی الاخر کے آخری ایام میں مستنصر کے عہد میں بغداد کے مضافات میں قصبہ سرمن رائے میں وصال فرمایا۔

تیس ہزار درہم کا حصول :
ایک روز حضرت علی ہادی رضی اللہ عنہ سرمن رائے کے کسی قصبے میں تشریف لے گئے تھے کہ ایک اعرابی آپ کی جستجو میں آنکلا لوگوں نے اسے خبر دی کہ آپ فلاں گاؤں میں تشریف فرما ہیں، اعرابی آپ کے پیچھے ہولیا آپ سے ملاقات ہونے پر آپ نے اس سے دریافت کیا کہ ۔
'' تم کس کام سے آئے ہو ؟''
اعرابی نے کہا :
'' میں ان لوگوں سے نسبت رکھتا ہوں، جن کا دلی تعلق آپ کے جدِ امجد حضرت حیدرِ کرار سے تھا ،اب مجھ پر اتنا بڑا قرض ہے جسے میں ادا نہیں کرسکتا اور کوئی مجھے ایسا نظر نہیں آتا جو میرا بوجھ ہلکا کرسکے۔''
آپ نے فرمایا :
'' آزردہ خاطر مت ہونا۔''
آپ نے اسے وہیں ٹھہرالیا صبح ہوئی تو آپ نے اعرابی سے کہا ۔
'' دیکھئے میں تم سے کچھ باتیں کہنے والا ہوں لیکن تمہارا فرض ہے کہ میری کسی بات میں اختلاف نہ کرنا۔''
اعرا بی نے عرض کیا ۔
'' یا حضرت میں آپ کی کسی بات میں بھی مخالفت نہیں کروں گا۔''
آپ نے ایک خط لکھا جس میں مرقوم تھا کہ ۔
'' اعرابی کو اتنے پیسے دے دو جو اس کے قرض سے زیادہ ہوں، کیونکہ اس نے بہت سا قرض ادا کرنا ہے۔''
یہ خط رقم کرنے کے بعد آپ نے فرمایا ۔
'' یہ نامہ لے جاؤ۔'' جب میں سرمن رائے واپس آؤں تو میرے ہاں آجانا اور محفل میں بیٹھے ہوئے مجھ سے قرض کی ادائیگی کا سوال کرنا اور کچھ اور باتیں کرنا، ہاں البتہ میری نصیحت کی مخالفت نہ کرنا۔
اعرابی نے اس بات کا وعدہ کیا اور خط ہاتھ میں تھام لیا۔ جب حضرت ہادی رضی اللہ عنہ سرمن رائے واپس آئے تو آپ کی خدمت میں بہت سے اہلِ محبت حاضر تھے اور وہ اعرابی بھی حاضر ہوگیا اور نامہ باہر نکال کر آپ کی وصیت کے مطابق مطالبہ پیش کیا۔
آپ اس سے نرم نرم گفتگو کرتے جاتے اور اپنی مجبوری کا اظہار، قرض کے وعدہ کی ادائیگی کرتے رہے۔ جب اس واقعہ کا علم خلیفہ متوکل کو ہوا تو اس نے کہا ۔
'' آپ کی خدمت میں تیس ہزار درہم لے جاؤ۔''
درہم آپ کی خدمت میں پہنچے تو آپ نے ان دراہم کو اعرابی کے آنے سے پہلے حفاظت سے رکھا۔ اعرابی کے آنے پر آپ نے فرمایا۔
'' اے اعرابی یہ لیجئے اور اپنا قرض ادا کیجئے اور جو کچھ باقی بچے اسے اپنی اولاد پر صرف کرنا اور مجھے معذور تصور کرنا۔''
اعرابی نے یہ بات سن کر عرض کیا۔
''اے رسول اللہ کے فرزند ! آپ نے جو مجھے دیا ہے مجھے تو ا س سے تیسرا حصہ کم کی امید تھی۔ حقیقت ہے کہ اللہ ہی کو علم ہے کہ فلاں چیز کہاں جائے گی۔''
خلیفہ متوکل کا بیماری سے نجات حاصل کرنا:
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ خلیفہ متوکل بیماری میں مبتلا ہوگیا، ا سکے جسم پر پھوڑا نکل آیا جس کا علاج کرنے سے اطباء نے جواب دے دیا، خلیفہ موت کا انتظار کرنے لگا۔ ایک روز فتح بن خاقان نامی شخص جو خلیفہ کے اقرباء میں سے تھا کہنے لگا۔
'' کسی شخص کو حضرت ہادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں بھیجو! شاید کہ ان سے کوئی منفعت بخش چیز حاصل ہوجائے۔''
ایک آدمی کو آپ کی خدمت میں بھیجا گیا تو آپ نے فرمایا :'' فلاں چیز کو اس کے پھوڑے پر رکھ دو ، ان شاء اللہ تعالیٰ مفید ثابت ہوگی۔''
جو چیز آپ نے تجویز فرمائی تھی وہ متوکل کے پاس پیش کی گئی تو حاضرین نے مذاق کرنا شروع کردیا۔
فتح بن خاقان نے کہا۔
'' تجربہ کرنے میں کیاحرج ہے وہ چیز ضرور لاؤ۔''
خادموں نے آپ کی تجویز کردہ دوا حاضر کی جو پھوڑے پر رکھ دی گئی، پھوڑے پر رکھنے کی دیر تھی کہ پھوڑا رِسنے لگا اور تمام بوسیدہ مادہ خارج ہوگیا، متوکل کے تندرست ہونے کا علم اس کی والدہ کو ہوا تو اس نے دس ہزار دینار کی ہمیانی پر اپنی مہر لگائی اور آپ کی خدمت میں بطورِ نذرانہ رسید کردی۔
متوکل کو صحتِ کاملہ ملنے کے بعد متوکل نے کسی سے شکایت کی کہ آپ بہت سامال اور اسلحہ رکھتے ہیں، متوکل نے اپنے دربان سعید نامی سے کہا کہ تم نے آج رات جب دو تین بج جائیں حضرت حادی کے گھر کی تلاشی لینی ہے، اور جو مال و منال اور اسلحہ ہاتھ آئے قبضہ میں کرکے یہاں میرے پاس لے آنا۔
سعید نے کہا کہ میں آدھی رات کے وقت بمع سیڑھی گیا اور جب نیچے اترا تو آپ کے گھر میں بہت سخت اندھیرا تھا، اور مجھے کچھ بھی دکھائی نہ دیتا تھا کہ کہاں اور کس طرف جاؤں۔ اچانک اندر سے آواز سنائی دی۔
'' اے سعید اپنی جگہ پر قائم رہو میں دیا لے کر آتا ہوں۔''
کچھ دیر کے بعد دیا لایا گیا تو میں نیچے آکر آپ کے پاس آگیا دیکھا کہ آپ پشم کا لباس زیب تن کیے ہوئے ہیں اور سر پر اون کی ٹوپی ہے اور آپ ٹاٹ کے مصلی پر قبلہ کی جانب بیٹھے ہیں، آپ نے فرمایا۔
'' اے سعید جو کچھ ہے تم سے پوشیدہ نہیں ہے۔''
میں گھر میں ادھر ادھر پھرتا رہا لیکن جن چیزوں کی خبر دی گئی تھی ان میں سے کوئی چیز بھی دستیاب نہ ہوئی اور صرف متوکل کی والدہ کی بھیجی ہوئی ہمیانی موجود پائی اور اس پر اسی طرح مہر بھی ثبت تھی اور دوسری اشیاء بھی مہر کندہ تھیں پھر آپ نے فرمایا ۔
'' یہ مُصلّٰی بھی پیش خدمت ہے۔''
میں نے مصلی اٹھایا تو اس کے نیچے ایک تلواردیکھی جو میان میں بند تھی، میں یہ چیزیں پکڑ کر متوکل کے پاس لے گیا۔ جب متوکل نے ہمیانی دیکھی اور اس پر اپنی مہر لگی ہوئی دیکھی تو تمام حالات دریافت کیے، حاضرین نے کہا۔
'' اے متوکل یہ ہیمانی تیری والدہ نے تمہاری بیماری کے دوران منت مانی تھی۔''
متوکل نے کہا :
اسی طرح ایک اور ہمیانی لو اور ایک تھیلی اور تلوار کے ساتھ آپ کو دے کر آؤ۔
سعید حاجب کا بیان ہے کہ جب میں یہ چیزیں لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو مجھ پر شرمندگی کی حد نہ رہی میں نے عرض کیا :
'' میرے آقا میرے لیے بہت مشکل تھا کہ میں آپ کے دولت کدہ میں بلا اجازت گھس جاؤں لیکن مجبور تھا مجھے حکم ہی ایسا ملا تھا۔''
پھر آپ نے فرمایا :
وَسَیَعْلَمُونَ الَّذِیْنَ اَیّ مُنْقَلِبَ یَنْقَلِبُون
ترجمہ :'' اور وہ عنقریب جان لیں گے کہ کون سا انقلاب آنے والا ہے۔''
پرندوں کا احترام کرنا:
معروف بات ہے کہ متوکل اپنے گھر میں بہت سے پرندے رکھتا تھا جن کے چہچہانے کا کسی کو پتہ نہ چلتا تھا لیکن آپ جس وقت بھی متوکل کے گھر تشریف لے جاتے تو تمام پرندے ادباً خاموشی اختیار کرلیتے اور جب گھر سے نکلتے تو پھر چہچہانا
شروع کردیتے۔
مذاق کی سزا موت :
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک روز ولیمہ کی دعوت تھی جس میں خلفاء کی اولاد بھی شریک تھی اور بکثرت لوگ ان کے ادب و تعظیم کی لیے جمع تھے اس مجلس میں ایک ایسا نوجوان بھی تشریف فرما تھا جو ادب و تعظیم کے طریقہ سے بہت دور تھا جوٹیں ٹیں گفتگو کرکے ہنس دیتا۔ حضرت ہادی رضی اللہ عنہ نے اپنا چہرہ انور اس کی جانب کرکے فرمایا۔
'' تم ہنسی میں اپنا وقت کیوں گنوارہے ہو، تم ذکرِ الہی سے غافل ہوگئے ہو یاد رکھو تم تین روز کے بعد اہلِ قبور میں اپنا مسکن بناؤ گے۔''
یہ سُن کر وہ نوجوان بے ادبانہ گفتگو سے باز آگیا لیکن پھر کھانا تناول کیا تو بیمار ہو کر تیسرے روز جاں بحق ہوگیا۔
والدہ کا مکان سے گر کر جاں بحق ہوجانا :
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک روز اہل سامرہ کے ہاں دعوتِ ولیمہ تھی ان میں بھی ایک لڑکا ایسا تھا جو نہایت بے ادب اور بے ہودہ گو تھا اور آپ کی عزت کرنے سے کتراتا تھا ، آپ نے فرمایا۔
'' یہ شخص اس کھانے سے کچھ تناول نہ کرسکے گا اس کے کپڑوں سے یہ معلوم ہوجائے گا کہ زندگی اس پر تلخ ہوجائے گی، کھانا آیا تو ا س شخص نے کھانے کے لیے ہاتھ دھوئے لیکن اس کا غلام آہ و زاری کرتا ہوا اندر آکر کہنے لگا۔
'' تمہاری والدہ مکان سے گر کر ہلاک ہوگئی ہے جلدی کیجئے! وہاں چلئے تاکہ اس کی حفاظت کی جائے۔'' اس شخص نے وہاں سے کھانا کھائے بغیر کوچ کرلیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم قارئین :یہ تھا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تعارف ۔ہم نے کیا سیکھا ،ہمیں علم کے کیا موتی ملے ۔اس کا ثمر ہماری زندگی میں آنے والے عملی اقدام ہی کی صورت میں ہوگا۔آپ عظیم ہیں اپنی عظمت کو پہچانے ۔اپنی قدر کیجیے !ایسی قدر کہ اس دارفنا سے داربقاء کو کوچ بھی کرجائیں تو لوگوں کی دلوں کی زمین آپ کی محبت کی یاد سے شاداں و فرحاں رہے ۔مت دیں دکھ کسی کو ،مت کریں کسی کی دل آزاری ،مت دوسروں کے حقوق تلف کریں ،کہیں ایسانہ ہوکہ وحتشتوں کے گھر قبر میں ندمت و پشیمانی رہ جائے ۔

قبر انور اور مشہد کی جگہ :
آپ کی قبر انور سرمن رائے کی اس رائے میں ہے جو آپ کی ذاتی ملکیت تھی، کہا جاتا ہے کہ آپ کی شہادت گاہ قُم میںہے، لیکن یہ قول معتبر نہیں، ہاںیہ معتبر قول ہے کہ فاطمہ بنت موسیٰ بن جعفر بن محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت گاہ قُم شہر میں ہے اور حضرت رضا علی بن محمد موسیٰ رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ جس نے آپ کی شہادت گاہ کی زیارت کی اسے جنت کا حصول ہوگا۔
عجب ہے شانِ قلندری تیری :
جب متوکل نے آپ کو مدینہ شریف سے عراق میں بلوایا تو آپ سرمن رائے میں ایک ایسی جگہ مقیم تھے جسے خان الصعالیک کہا جاتا ہے، یہ جائے سکونت بہتر نہ تھی آپ کے رفقاء میں سے ایک شخص جس کا نام صالح بن سعید تھا آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض پرداز ہوا۔
'' اے ابن رسول اللہ آپ پر میری جان قربان ہو یہ جماعت تو آپ کی قدر و منزلت کو پوشیدہ رکھنے اور آپ کی عزت و آبرو کو مٹانے کے لیے تیار ہے اسی لیے آپ کو مکان جائے سکوت کے لے دیا گیا۔''
آپ نے سعید کی یہ بات سن کر فرمایا ۔
'' اے سعید تو بھی یہیں سکونت پذیر ہے۔''
پھر آپ نے اپنے ہاتھ مبارک سے اشارہ کیا تو نہایت عمدہ قسم کے باغات رواں دواں ندیاں اور اس طرح کے محلات جہاں پردہ نشین اور خوبصورت مستورات اور روشن موتیوں کی طرح چھوٹے چھوٹے بچے تھے ظہور میں آگئے۔ صالح بن سعید کا کہنا ہے کہ میں سب کچھ دیکھ کر حیرات میں ڈوب گیا۔ اور پھر آپ نے فرمایا۔
'' اے ابن سعید ہم لوگ جہاں بھی ہوں یہ اشیاء ہمارے ساتھ ہی ہوتی ہیں یاد رکھو کہ ہم خان العصالک میں نہیں ہیں۔''
نامِ محمد رکھنے کی وصیت کرنا :
ایک آدمی نے ایک دفعہ بیان کیا کہ میں ایک مرتبہ سفر میں تھا اور میرے ساتھ میرا بچہ بھی تھا، میں نے آپ کی خدمت میں دعا کروانے کی غرض سے عرض کیا کہ ،
'' اے ابن رسول اللہ میرے بچے کے گھر بھی بچہ ہی تولد ہونا چاہیے۔''
آپ نے یہ سن کر فرمایا :
'' جب بچہ کی پیدائش ہوجائے تو اس کا نام محمد رکھنا؟''
لڑکی بہتر ہے لڑکے سے :
پھر اسی طرح ایک آدمی آپ کی خدمت ِ قُدسیہ میں حاضر ہو کر عرض پرداز ہواکہ ۔

'' حضور میرے ہاں لڑکا پیدا ہونے کے لیے دعا کیجئے۔'' آپ نے یہ سن کر فرمایا :
'' لڑکی کئی لڑکوں سے بہتر ہوتی ہے۔''
پھر آدمی کے ہاں لڑکی تولد ہوئی۔
تصویر کا شیر بن جانا:
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک ہندوستانی شعبدہ باز متوکل کے پاس سکونت پذیر تھا جو عجیب و غریب شعبدہ بازی کرتا تھا ، ایک روز متوکل نے اس سے کہا کہ اگر تم محمد بن علی کو برہنہ کردو تو میں تمہیں ایک ہزار دینار سے نواز دوں گا۔
شعبدہ باز نے متوکل کی یہ بات سن کر کہا :
'' اچھا چند پتلی پتلی روٹیاں دستر خوان پر رکھ دو اور مجھے ان کے پہلو میں بٹھادو۔''
خلیفہ نے ایسا ہی کیا۔ حضرت ہادی رضی اللہ عنہ نے روٹی پکڑنے کے لیے ہاتھ بڑھایا شعبدہ باز نے ایسا عمل کیا کہ جس کے اثر سے روٹی اٹھ کر دور چلی گئی، اس نے اس طرح تین مرتبہ کیا جسے دیکھ کر اہل مجلس ہنسنے لگے۔ اسی مسجد میں ایک قالین تھا جس پر شیر کی تصویر بنی ہوئی تھی، حضرت ہادی نے اس شیر کی طرف اشارہ کیا کہ اسے پکڑ لو۔ وہ حقیقت میں شیر بن گیا پھر اس شعبدہ باز پر جست لگائی تو اسے زمین میں نصب کردیا اور پھر یہ تصویر اسی قالین پر واپس چلی گئی، متوکل نے کئی بار عرض کیا کہ حضور اس شعبدہ باز کو زمین سے نکال لیں مگر آپ نے متوکل کی بات نہ مانی اور فرمایا۔
'' قسم بخدا تم اب کبھی بھی اس شعبدہ باز کو نہیں دیکھ سکو گے۔''
جب وہ مجلس سے باہر آیا تو پھر کسی نے بھی نہ دیکھا۔
محترم قارئین :یہ تھا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تعارف ۔ہم نے کیا سیکھا ،ہمیں علم کے کیا موتی ملے ۔اس کا ثمر ہماری زندگی میں آنے والے عملی اقدام ہی کی صورت میں ہوگا۔آپ عظیم ہیں اپنی عظمت کو پہچانیں۔اپنی قدر کیجیے !ایسی قدر کہ اس دارفنا سے داربقاء کو کوچ بھی کرجائیں تو لوگوں کی دلوں کی زمین آپ کی محبت کی یاد سے شاداں و فرحاں رہے ۔مت دیں دکھ کسی کو ،مت کریں کسی کی دل آزاری ،مت دوسروں کے حقوق تلف کریں ،کہیں ایسانہ ہوکہ وحشتوں کے گھر ،کیڑے مکڑوں کے مسکن قبر میں ندمت و پشیمانی رہ جائے ۔
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 381 Articles with 593893 views i am scholar.serve the humainbeing... View More