حضرتِ سَیِّدُناسَری سَقَطی رحمۃ
اللہ تعالیٰ علیہ کا روزہ تھا ۔ طاق میں پانی ٹھنڈا ہونے کیلئے آبخَورہ (یعنی
کُوزہ ) رکھ دیا تھا ،نمازِعَصْر کے بعد مُراقَبَہ میں تھے، حُور انِ بہشت
نے یکے بعد دیگرے سامنے سے گُزرنا شُروع کیا۔جوسامنے آتی اُس سے دریافت
فرماتے،تُو کس کے لئے ہے؟وہ کسی ایک بندئہ خُدا کا نام لیتی ۔ ایک آئی، اُس
سے بھی یِہی پوچھاتو اُس نے کہا :''اُس کیلئے ہوں جو روزہ میں پانی ٹھنڈا
ہونے کو نہ رکھے۔ ''فرمایا:'' اگرتُو سچ کہتی ہے تو اِس کوزہ کو گِرادے ''،اُس
نے گِرادیا ۔اِس کی آواز سے آنکھ کُھل گئی۔ دیکھا تو وہ آبخورہ( کُوزہ )
ٹوٹا پڑا تھا۔ (الملفوظ، حصّہئ اوّل، ص١٢٤)
محترم قارئین کرام!معلوم ہوا ،آخِرت کی اَبَدی راحتیں اور نِعمتیں پانے
کیلئے اپنے نفْس کو قابو کر کے دنیا کی لذّتوںکو ٹھوکر مارنی پڑتی ہے۔اللہ
عَزَّوَجَلَّ والے اپنے نفس کو بَہُت مارتے تھے۔چُنانچِہ ایک بُزُرْگ رحمۃ
اللہ تعالیٰ علیہ نے سخْت گرمی کے دِنوں میں دوپہر کے وَقت ایک شخص کو
دیکھا کہ برف لئے جارہا ہے ،دل میں حسرت ہوئی ،کاش! میرے پاس بھی پیسے ہوتے
اورمیں بھی برف خرید کر ٹھنڈا پانی پیتا۔ پھر فوراً ندامت ہوئی کہ میں نَفس
کی چال میں کیوں آگیا! اُنہوں نے عہد کیا کہ کبھی ٹھنڈا پانی نہ پیوں گا ۔لہٰذا
سخْت گرمی کے موسِم میں بھی پانی کو گرم کرکے پیا کرتے تھے ؎
نِہَنگ و اَژدہا و شَیرِنَرما را تو کیا مارا
بڑے مُوذی کو مارا نفسِ اَمّارہ کو گر مارا
فیضان سنت کا فیضان ۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔
یا اللہ عزوجل ماہ رمضان کے طفیل برما کے مسلمانوں
کی جان و مال ،عزت آبرو کی حفاظت فرما۔اٰمین
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف وکرم سے مجھے
بس ایک بار کہا تھا میں نے یا اللہ مجھ پر رحم کر مصطفی کے واسطے |