صدقہ فطر" فضائل واحکام

اسلام نے معاشرہ کے ضرورتمند وتنگدست افراد کو خوشیوں میں شریک کرنے کی تاکید کی اور ہر مردوعورت ، بڑے چھوٹے پر صدقہ واجب کردیا تاکہ غریب ونادار افراد کو بھی عید کی خوشیوں سے حصہ مل سکے۔

صدقۂ فطرکی فضیلت :

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غنی اور فقیر کی جانب سے صدقۂ فطر اداکرنے کاحکم فرمایا پھر ارشاد فرمایا:

اماغنيکم فيزکيه الله واما فقيرکم فيرد عليه اکثر مما يعطی۔

ترجمہ: اب رہا تم میں کامال دار و غنی شخص !تو اللہ تعالی اس کو پاک کردیتا ہے اورتم میں کاتنگدست! جتنا وہ صدقہ کرے اللہ تعالی اسے اس سے زیادہ عطا فرماتا ہے ۔
(مسندامام احمد ، باقی مسند الانصار ، حدیث نمبر:22553)

علامہ علی المتقی الہندی الحنفی (متوفی 974؁ھ )رحمۃ اللہ علیہ نے کنزالعمال میں خطیب اور ابن عساکر کے حوالہ سے حدیث پاک ذکر فرمائی:

لا يزال صيام العبد معلقا بين السماء والأرض حتى يؤدي صدقة الفطر". "الخطيب وابن عساكر عن أنس".

ترجمہ: بندۂ مؤمن کا روزہ اس وقت تک آسمان وزمین کے درمیان معلق رہتا ہے جب تک کہ وہ صدقہ فطر ادانہ کرے ۔
(کنزالعمال ، کتاب الصوم من قسم الاقوال ، حدیث نمبر: 24130)

صدقۂ فطرکا حکم :

حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الفطر کے موقع پر ہر چھوٹے بڑے ، مرد وعورت کی جانب سے صدقۂ فطر دینے کا حکم فرمایا اور نماز عید سے پہلے صدقہ کرنے کی تاکید فرمائی ‘جیسا کہ سنن دارقطنی میں حد یث پا ک ہے :
حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا ، حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ماہ رمضان کے آخرمیں لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا:اے اہل بصرہ !تم اپنے روزوں کی زکوۃ اداکرو ، راوی کہتے ہیں لوگ ایک دوسرے کودیکھنے لگے توآپ نے فرمایا: یہاں اہل مدینہ میں سے کون ہیں؟ اٹھو اور اپنے بھائیوں کو سکھاؤکیونکہ وہ نہیں جانتے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد وغلام ، مردوعوت پر رمضان کا صدقہ آدھا صاع گیہوں یا ایک صاع جویا ایک صاع کھجور مقررفرمایا، حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ نے فرمایا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : جب اللہ تعالی تمہیں وسعت و فراخی اور استطاعت عطافرمائے تو گیہوں وغیر ہ ایک صاع دے دو۔

صدقہ فطر کا وجوب :

صدقۂ فطر واجب ہے‘ اس کے واجب ہونے کے لئے صرف تین چیزیں شرط ہیں‘
(1) آزاد ہونا
(2) مسلمان ہونا
(3) کسی ایسے نصاب کا مالک ہونا جو اصلی حاجت سے زائد ہو اور قرض سے محفوظ ہو۔
صدقہ فطر اس شخص پر واجب ہے جس کے پاس اتنا مال ہو جو نصاب تک پہنچتا ہو، اصلی حاجت سے زائداورقرض سے فارغ ہو، صدقہ فطر اور زکوۃ کا نصاب ایک ہی ہے البتہ صدقہ فطر واجب ہونے کیلئے مال کا نامی (بڑھنے والا) ہونا اور اس پر ایک سال گذر نا شرط نہیں ہے۔
(فتاوی عالمگیر ی ج1 ‘ ص 191 )
عید الفطر کی صبح صادق طلوع ہوتے ہی صدقہ فطر واجب ہوجاتا ہے صدقہ فطر کی ادائی کا وقت تمام عمر ہے‘ زندگی بھر میں کبھی بھی ادا کیا جاسکتا ہے ، لیکن مستحب یہ ہیکہ عیدگاہ جانے سے قبل ادا کر دے اور نماز کے بعدبھی دیا جاسکتا ہے ،جب تک ادا نہ کرے برابر واجب الاداء رہے گا‘ خواہ کتنی ہی مدت گذر جائے ذمہ سے ساقط نہ ہوگا۔فتاوی عالمگیری ج 1 ص 192 میں ہے :
’’ و وقت الوجوب بعد طلوع الفجر الثانی من يوم الفطر ‘‘-در مختار ج 2 ص 78 میں ہے:
( موسعا فی العمر )
اور رد المحتار کے اسی صفحہ پر ہے:
’’غير ان المستحب قبل الخروج الی المصلی لقوله عليه الصلوة والسلام اغنوهم عن المسئلة فی هذا اليوم ‘‘ –
ترجمہ : صدقہ فطر عیدگاہ جانے سے پہلے ادا کرنا مستحب ہے کیونکہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آج کے دن تم فقراء کو مانگنے سے بے نیاز کر دو ۔
نوٹ: اگر کوئی شخص عید الفطر سے کچھ دن پہلے صدقہ فطر ادا کر دے تو جائز ہے-
سنن دارقطنی میں حدیث پاک ہے: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ صدقہ فطرلوگوں کے عیدگاہ جانے سے پہلے اداکیا جائے اور حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ صدقہ فطرعید سے ایک دن یا دودن پہلے اداکرتے ۔
(سنن دارقطنی ، کتاب زکاۃالفطر،حدیث نمبر:66)

صدقہ فطر کی مقدار:

صدقہ فطر اگر گیہوں کی شکل میں ادا کرنا ہوتو آدھا صاع او رجو یا کھجوریا منقی ہوتو ایک صاع دیناچاہئے ،فتاوی عالمگیری ج1 ص 191 میں ہے:

وانما تجب صدقة الفطر من اربعة اشياء من الحنطة والشعيروالتمروالزبيب۔ ۔ ۔ وهی نصف صاع من براوصاع من شعيراوتمر۔

درمختار میں صاع کی مقدار کا تعین درہم کے ذریعہ کیا گیا ہے، مولانا عبد الحی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت ملامبین رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق کے مطابق حضرت شیخ الاسلام عارف باللہ امام محمدانوار اللہ فاروقی رحمۃ اللہ علیہ کے تربیت یافتہ شاگرد حضرت مفتی محمد رکن الدین رحمۃاللہ علیہ مفتی اول جامعہ نظامیہ نے اپنے فتوی میں صراحت کی ہے کہ ایک درہم دوماشہ دیڑھ رتی کا ہوتا ہے اس حساب سے آدھا صاع پانچ سو بیس (520) درہم کے برابر ہے ، جس کی مقدار چورانوے (94) تولے نو (9) ماشے چار (4) رتی ہوتی ہے (فتاوی نظامیہ ص62)-
در مختار ج2ص83/84 میں ہے :
الصاع المعتبر (مايسع الفاواربعين درهما من ماش اوعدس)

مروجہ گراموں میں اس کا وزن ایک کلو 106 گرام کے معادل ہوتا ہے صدقہ فطر میں گیہوں دینے کی صورت میں بتقاضہ احتیاط سوا کلو ادا کیا جائے ۔ گیہوں، جو، کھجور وغیرہ میں سے کوئی چیز دینے کے بجائے اس کی قیمت دینا افضل ہے تاکہ عیدکے موقع پر فقراء و مساکین رقم کے ذریعہ اپنی متعلقہ ضرورت کی تکمیل کرسکیں (فتاویٰ عالمگیری ج1‘ ص 192)

شمالی ہند کے علماء کے پاس ایک درہم تین(3) ماشے 105 ،رتی کا ہے، اس اعتبار سے آدھا صاع : 136 تولہ 4 ماشے کا ہوتا ہے جو گراموں میں شمالی ہند کے علماء کے پاس ایک کلو 590 گرام ہے اور بعض کے پاس ایک کلو 575 گرام ہے۔

اقتباس کے ساتھ جواب دیں
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1382950 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.