میرے پاس دو وقت کی روٹی کھانے
کے لےے پیسے نہیں ہوتے تھے بیٹی کے علاج کے لیے رقم نہ تھی۔۔۔۔۔۔ یہ الفاظ
پاکستان کی ہاﺅسنگ بزنس کمیونٹی کے بے تاج بادشاہ ملک ریاض کے ہیں۔جی وہی
ملک ریاض جو ہر ایک کو خریدنا جانتے ہیں۔وہ کوئی جرنیل ہو سیاستدان ہو یا
صحافی اور یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر خریدنا جرم ہے تو بکنا اس سے بھی بڑا
جرم ہے۔راولپنڈی کنٹونمنٹ کے ایک عام کنٹریکٹر سے بہت کم عرصے میں پاکستان
کے امیر ترین لوگوں میں شامل ہو گئے ۔میرے کئی دوست یہ سوچ سوچ کر پریشان
ہو رہے ہیں۔کہ کوئی ٹھیکداربےس برس مےں کےسے اتنا دولت مند ہو سکتا ہے ۔وہ
بھی اتنا دولتمند کہ پاکستان کے امیر ترین افراد میں تیرھویں نمبر پر آجائے
۔ چند دن میں ٹھیکیدار نے ایسا کھڑاک کیا کہ میڈیا بھی مجبور ہوگیا ۔اب قصہ
یہ ہے ٹی وی کا کوئی چینل کھولو یا اخبار کا کوئی صفحہ ٹھیکیدار کا کھڑاک
ہی نظر آتا ہے ۔ ہمارے ایک دوست ہمیں بتا رہے تھے۔ملک صاحب بہت ایماندار
آدمی ہیں اس کی دلیل یہ تھی ۔کہ ٹھیکیدار کے دستر خوانوں سے ہزاروں غریب
لوگ اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔لیکن ارسلان افتخار کے کیس شروع ہونے کے بعد ہمارے
دوست جو بحریہ ٹاﺅن میں پراپرٹی ڈیلنگ کا کام کرتے ہیں ۔موصوف سے میں نے
پوچھا یار یہ ٹھیکیدار صاحب کے کھڑاک کا ملک پر کیا اثر پڑ ا ہے۔کہتا ہے
بھائی صاحب ملک کا تو پتہ نہیں میرے کاروبار پر ” اچھا خاصا “ اثر پڑ گیا
ہے ۔ یہی دوست ہمیں چند دن پہلے بتا رہے تھے کہ انھوں نے ایک ہفتے میں
بحریہ ٹاﺅن سے 45لاکھ روپے کمائے ہیں۔فرما رہے تھے بحریہ سونا ہے سونا!خبر
یہ بھی ہے ملک ریاض کی طرف سے بڑے بڑے اور نامور ٹی وی اینکر ز اور اخبار
نویسوں میں کرڑوں روپے کی رقوم تقسیم ہوئیں۔ اور بحریہ ٹاﺅن میں پلاٹ بھی
تقسیم ہوئے۔توقع ہے کہ کروڑوں روپے اور بنگلے لینے والے ٹی وی اینکرز اور
صحافیوں کی فہرست جلد منظر عام پر آنے والی ہے۔ تاہم ٹی وی اور اخبارات میں
ملک و قوم کی خیر خواہی کا رونا دھو نا کرنے والے صحافی اس کوشش میں ہیں ۔
کہ کسی بھی طرح یہ فہرست منظر عام پر نہ آسکے۔جبکہ دوسری طرف عوام ان لوگوں
کی نقاب کشائی کے منتظر ہیں جو ٹی وی پر آ کر لوگوں کو وعظ سناتے رہتے
ہیں۔وسائل کے کھلے استعمال سے ملک ریاض نے اشرافیہ میں اپنے تعلقات قائم
کیے پرتعیش اور جدید ترین رہائش گاہوں اور مہنگے ترین تحائف کے ساتھ ملک کی
اہم شخصیات کو ” فتح “ کیا
ملک ریاض نے اپنی کاروباری زندگی کا آغاز راولپنڈی کے کنٹونمنٹ بورڈ کے عام
ٹھیکیدار کی حیثیت سے کیا تھا۔تقریباً بیس برس کے عرصے میں وہ اتنے مالدار
اور بااثر ہوگئے کہ پاک فوج کے ریٹائر اعلیٰ افسران نے ان کے ہاں ملازمت
اختیار کی ۔ ذرائع کے مطابق ملک ریاض کے سابق سپیکر قومی اسمبلی اور نگران
وزیر اعظم معراج خالد سے گہرے تعلقات تھے ۔ملک معراج خالد کے انتقال کے بعد
ملک ریاض نے ان کے صاحبزادے زبیر خالد ایڈووکیٹ کو اپنے ادارے کے ساتھ خطیر
معاوضہ دے کر اپنے ساتھ رکھ لیا۔سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیک کو ان کی
ریٹائر منٹ کے بعد عوامی قیادت پارٹی کے زمانے میں انھیں لارنس روڈ پر اپنا
دفتر دیے رکھا۔بعد ازاں جنرل اسلم بیگ کے صاحبزادے وجاہت بیگ کو اپنے ادارے
میں ڈائریکٹر بنا دیا ۔سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے صاحبزادے بلال مشرف
کو بھی بحریہ ٹاﺅن کی ڈائریکٹر شپ دی گئی ۔بیرون ملک ہونے کے باوجود ملک
ریاض سے تعلقات کے باعث انھیںبھاری تنخواہ اور مراعات باقاعدگی سے فراہم کی
جارہی ہیں۔فوج میں گہرا اثرو رسوخ رکھنے والے ملک ریاض سے فیض یاب ہونے
والوں میں بہت سے بڑے سیاسی نام بھی شامل ہیں۔جن میں شیخ رشید عوامی مسلم
لیگ کے سربراہ کو کچھ برس قبل بحریہ ٹاﺅن کی جانب سے بلٹ پروف گاڑی فراہم
کی گئی ۔عمران خان کے جلسوں کے لیے بے حساب فنڈز بھی بحریہ ٹاﺅن کی طرف سے
دیے جاتے رہے ہیں۔ذرائع کے مطابق انکشاف ہوا ہے۔کہ جاوید ہاشمی کے لاہور
میں پی سی ہوٹل میں قیام کے بل بھی ملک ریاض کی طرف سے ادا کیے جاتے رہے
ہیں۔دو دنوں سے ٹی وی سکرینز پر دو اینکرز کی ویڈیو بھی گردش کر رہی ہے۔اب
یقیناً ایک اور پنڈورا باکس کھلنے والا ہے اندر کی خبریہ بھی ہے کہ کچھ اور
مگر مچھ سامنے آنے والے ہیں۔
کہا یہ بھی جارہا ہے کہ ٹھیکیدار صاحب کو استعمال کیا جارہا ہے۔اس کے پیچھے
لمبی چوڑی پلاننگ ہے۔ بہر حا ل یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔کہ کیا یہ کھڑاک
ٹھیکیدار اپنی مرضی سے کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟ |