رمضان المبارک کا تیسرا عشرہ اعتکاف اور لیلة القدر

رمضان المبارک کے تین عشرے ہیں اور اس سلسلے میں یہ راقم کا بھی تیسرا مضمون ہے ۔ رمضان المبارک کے بارے میں لکھنے کو میں اپنے لئے سعادت بھی سمجھتا ہوں۔رمضان شریف کا تیسرا عشرا (آخری دس دن ) کو کہتے ہیں ۔ اور تیسرے عشرے کی دعا یہ ہے:
اَللّٰھُمَّّ اَجِرنَا مِنَ النَّارِ o
ترجمہ: اے اللہ ! ہم کو آگ کے عذاب سے بچا۔
انگریزی ترجمہ: Allah save us from the hell's fire.
وَعَن اَبِی ھُرَیرَةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنہُ ، قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ ﷺ یَعتَکِفُ فِی کُل رَمَضَانَ عَشرَةُ اَیَّامِ ، فَلَمَّ کَانَ العَامُ الَّذِی قُبِضَ فِیہِ اَعتَکَفَ عِشرِینَ یَومَا ۔ رَوَاہُ البُخَارِی۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہر رمضان میں دس دن کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے ، مگر جس سال آپ کا انتقال ہوا ، آپ نے بیس دن اعتکاف فرمایا۔ (روایت صحیح بخاری شریف)

اس روایت کے پڑھنے سے یہ معلوم ہوا کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنا سنت ہے۔ مگر آج کل بہت کم لوگ ہی اس سنت کو زندہ رکھتے ہیں۔ اور جو اس سنت کو زندہ رکھتے ہیں وہی لوگ کامیاب ہیں۔ شاید ایسے ہی لمحات کیلئے شاعر بھی اظہارِ خیال سے غافل نہیں ہوتے جب ہی تو یہ شعر تخلیق ہوئی۔
اتنا غافل تو آندھیوں سے کوئی ریگستان بھی نہ ہوگا
جتنا غافل آج کا انسان اپنے رب کی یاد سے ہے

حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان فرماتی ہیں کہ جب (رمضان المبارک کا آخری) عشرہ شروع ہو جاتا تو رسولِ خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم شب بیداری فرماتے اور اپنے گھر والوں کو بھی بیدار کرتے اور عبادت کے لیئے کمر کس لیتے۔ (صحیح بخاری)ویسے تو پورا رمضانِ کریم ہی نیکیوں کا موسمِ بہار اور اطاعت و عبادات کا خصوصی مہینہ ہے لیکن آخری عشرہ تو اس موسمِ عبادت کا نقطہ عروج کہلاتا ہے ۔ اس لیئے حضور علیہ الصلوٰة والسلام کی اقتدا میں ان دس دنوں اور راتوں میں بالخصوص خوب محنت کرکے اپنے رب کو راضی کرنے کی اور اسی طرح لیلة القدر کی فیوض و برکات حاصل کرنے کی جستجو کرنی چاہیئے اسی لیئے ان دس دنوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی اعتکاف کرنے کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے اس لئے اس پر عمل کرنا بھی مسلمانوں پر فرض ہے۔

اعتکاف سے مراد ہے کہ ماہِ رمضان کے آخری دس دنوں میں گھر چھوڑ کر مسجد کے اندر ہی قیام کیا جائے اور اللہ کی عبادت میں مشغول رہا جائے۔ اس طرح عاجز بندہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے قریب تر رہتا ہے۔ لیلة القدر کو تلاش کرنے اور اس کی برکات سے مستفید ہونے اور اعتکاف میں بیٹھنے والے شخص کو معتکف کہتے ہیں۔اعتکاف میں بیٹھنے والوں کو مسجد سے نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی سوائے قضائے حاجات یا کسی اور بے حد ضروری کام کے۔ معتکف کو اپنا زیادہ تر وقت قرآنِ مجید کی تلاوت، ذکر وفکر، نوافل کی ادائیگی اور تسبیح اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی حمد و ثنا میں گزارنا بے حد ضروری امر ہے۔

حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ خدا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ رمضان المبارک کے درمیانی عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے اور جب بیس راتیں گذر جاتیں اور اکیسویں رات آنے لگتی تو گھر لوٹ جاتے ۔ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حسبِ معمول متعینہ رات تک اعتکاف فرمایا پھر لوگوں سے دیر تک خطاب فرمایا اور فرمایا: ” اس اس عشرہ میں اعتکاف کرتا تھا، پھر مجھ پر یہ بات ظاہر ہوئی کہ میں اس آخری عشرہ میں بھی اعتکاف کروں، لہٰذا جو معتکف جگہ اعتکاف میں ہے وہ وہی رہے اور میں نے اس لیلة القدر کو دیکھا ہے لہٰذا آخری دس راتوں میں سے ہر طاق رات میں اسے تلاش کرو“۔

ایک اور موقع پر حضور پُر نور خاتم النبیاءصلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے لیلة القدر کی تلاش میں عشرہ اول کا اعتکاف کیا، پھر عشرہ اوسط کا اعتکاف کیا، پھر اس دوران میرے سامنے فرشتہ لایا گیا اور مجھ سے کہا گیا: ” وہ تو آخری عشرہ میں ہے۔“ لہٰذا اب جسے پسند ہو کہ اعتکاف کرے تو وہ کر سکتا ہے۔“فرمایا: مجھے لیلة القدر، طاق راتوں میں دکھلائی گئی ۔

آج بھی دنیا بھر کے مسلم ممالک میں اور بالخصوص پاکستان میں بھی لاکھوں فرزندانِ اسلام آج اعتکاف میں بیٹھے ہیں۔ اور اگر اللہ تبارک و تعالیٰ توفیق عطا کرے تو ہر مسلمان کو اس سنت کی برکتوں سے فائدہ اٹھانا چاہیئے۔ مسجدیں اللہ تعالیٰ کا گھر ہیں اور اس دروازے پر سوالی بن کر بیٹھ جانا بہت ہی بڑی سعادت ہے۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ رمضانِ کریم کے آخری عشرہ کا اعتکاف سنتِ کفایہ ہے، اگر محلے کے کچھ لوگ اس سنت کو ادا کریں تو مسجد کا حق جو تمام محلوں پر لازم و ملزوم ہے ادا ہو جائے گا ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک اور روایت ہے ، انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہر رمضان دس دن اعتکاف کیا کرتے تھے مگر وفات کے سال آپ ﷺ نے بیس دن اعتکاف کیا تھا۔ امام بخاری کے بقول اگرچہ آخری عشرہ افضل ہے لیکن ضروری نہیں اس سے پہلے بھی اعتکاف کیا جا سکتا ہے۔

اعتکاف رمضان امبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف تو مسنون ہے ہی ویسے مستحب یہ ہے کہ جب بھی آدمی مسجد میں جائے تو جتنی دیر مسجد میں رہنے کا ارادہ ہو اعتکاف کی نیت کر لینا چاہیئے۔

عبادت دراصل دو طرح کی ہیں ایک عبادت جسمانی ہے اور ایک مالی اور دونوں عبادتوں کے نمونے ہمارے سامنے موجود ہیں نماز اور روزے کا شمار جسمانی عبادت میں ہوتا ہے۔زکوٰة مالی عبادت کہلاتا ہے اور حج مالی اور جسمانی عبادت کا مجموعہ ہے یہ تمام عبادتیں وہ ہیں جو اجتماعی اور انفرادی طور پر خاموشی اور قدرے سکون کے ساتھ انجام دی جاتی ہیں۔ اس عشرہ آخر کو جہنم سے چھٹکارے کا عنوان بتایا گیا ہے اس آخری عشرہ میں ایک اہم عبادت اعتکاف ہی ہے جو بیسویں روزے کے سورج غروب ہونے سے قبل شروع ہوتی ہے اور عید کا چاند دکھائی دینے کے بعد اس کا اختتام ہوتا ہے۔ اعتکاف کی عظمت اور فضیلت کا بیان تو احادیثِ نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں کئی جگہوں پر آیا ہے ، نبی پُر نور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشادِ پاک ہے رمضان کے دس دن کا اعتکاف دو حج اور دو عمروں جیسا ہے، (طبرانی)۔

ایک اور موقعے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادِ فرمایا کہ جس نے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیئے اخلاص و ایمان کے ساتھ اعتکاف کیا تو اس کے گذشتہ صغیرہ گناہ معاف ہو جائیں گے۔ (کنز العمال)

اس ماہِ مبارک کی فیوض و برکات سے جو لوگ واقف ہیں وہ رمضان المبارک میں عبادات کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے، کیونکہ رمضان شریف تو آتا ہی اس لیئے ہے کہ خدا کے دیئے ہوئے انعامات سے زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کیا جائے، گناہوں کی توبہ کی جائے، برائیوں کے نہ کرنے کا عہد کیا جائے، اور اللہ سے اپنے لیئے دینی و دنیاوی فلاح کی دعائیں کی جائیں۔ وہ خالقِ کائنات ہے اور ہماری جائز اور ہر حلال دعاﺅں کو کبھی رد نہیں کرتا ، تمام شرائط اور خاص کر خشوع و خضوع کے ساتھ دعائیں مانگی جائیں تو وہیں سے پروانہ قبولیت عطا کر دیا جاتا ہے۔

اللہ رب العزت ہم سب کو رمضان المبارک کے فیوض و برکات سمیٹنے کا اور زیادہ سے زیادہ عبادات میں اپنا حصہ ڈالنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
Muhammad Jawed Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawed Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawed Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 338740 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.