ایک ہزار شہزادے (فیضانِ لیلۃُ القد ر)۔

گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔۔۔
تمام بھلائیوں سے محروم کون؟
حضرتِ سَیِّدُنا اَنَس بِن مالِک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں،ایک بارجب ماہِ رَمَضان شر یف تشریف لایاتوسلطانِ دوجہان،مدینے کے سلطا ن، رحمتِ عالمیان ، سرورِذیشان صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:'' تمہارے پاس ایک مہینہ آےا ہے جس میں ایک رات ایسی بھی ہے جو ہزار مہینوں سے اَفضل ہے جو شخص اُس رات سے مَحروم رہ گیا ،گویا تمام کی تمام بَھلائی سے مَحروم رہ گیا اور اُس کی بَھلائی سے مَحروم نہیں رہتا مگر وہ شخص جو حقیقۃً محروم ہے۔''
(سنن ابنِ مَاجَہ، ج٢،ص٢٩٨،حدیث١٦٤٤)

ایک ہزار شہزادے
سُورَۃُ الْقَدرکا ایک اور شانِ نُزُول مشہور تابعی حضرت سَیِّدُنا کعبُ الْاَحباررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مَنقُول ہے۔ چُنانچِہ سَیِّدُنا کعبُ الْاَحبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں بنی اسرائیل میں ایک نیک خصلت بادشاہ تھا ۔اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے اُس زمانے کے نبی علیہ السلام کی طرف وَحْی فرمائی کہ فُلاں سے کہو کہ اپنی تمنّا بیان کرے۔ جب اس کو پیغام ملا تواس نے عرض کی ، ''اے میرے ربّ عَزَّوَجَلَّ میری تمنا ہے کہ میں اپنے مال ،اولاد اور جان کے ساتھ جِہاد کروں۔'' اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے اسے ایک ہزار لڑکے عطا فرمائے ۔ وہ اپنے ایک ایک شہزادے کو اپنے مال کے ساتھ لشکر کیلئے تیّار کیاکرتا اور پھر اسے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں مجاہد بنا کر بھیج دیتا ۔ وہ ایک ماہ جہاد کرتا اور شہید ہوجاتا ۔ پھر دوسرے شہزادے کو لشکر میں تیّار کرتا تو ہر ماہ ایک شہزادہ شہید ہوجاتا۔اِس کے ساتھ ساتھ بادشاہ رات کو قِیام کرتا اور دِن کو روزہ رکھا کرتا۔ایک ہزار مہینوں میں اس کے ہزار شہزادے شہید ہوگئے۔پھر خود آگے بڑھ کر جہاد کیا اور شہید ہوگیا۔لوگوں نے کہا کہ اِ س بادشاہ کا مرتبہ کوئی شخص نہیں پا سکتا ۔تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے یہ آےتِ مبارکہ نازِل فرمائی کہ ''لَیْلَۃُ الْقَدْرِلاخَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ'' (ترجَمہ کنزالایمان :شبِ قَدْر ہزار مہینوں سے بِہتر) یعنی اس بادشاہ کے ہزار مہینوں سے جو کہ اِس نے رات کے قِیام ،دِن کے روزوں اور مال ،جان اور اولاد کے ساتھ راہِ خُدا عَزَّوَجَلَّ میں جہاد کرکے گُزارے اِس سے بِہتر ہے ۔ (تفسِیرِ قُرطُبی، ج٢٠، پ٣٠، ص١٢٢)

ہزار شہروں کی بادشاہت
حضرتِ سَیِّدُناابوبکر وَراق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ سَیِّدُنا سلیما ن عَلٰٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ کی مِلک میں پانچ سو شہر تھے اور سَیِّدُنا ذُوالقرنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مِلک میں بھی پانچ سو شہر ۔یوں ان دونوں کی مِلک میں ایک ہزار شہر ہوئے۔تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے اِس رات کے عمل کو جو اِ سے پائے اُ س کیلئے ان دونوں کی مِلک سے بہتر بنایا ہے۔
(تفسِیرِ قُرطُبی، ج٢٠، پ٣٠ ،ص١٢٢)

محترم قارئین کرام!!یہ رات ہر طرح سے خَیریت وسلامتی کی ضامِن ہے۔یہ رات اَوَّل تا آخِر رَحمت ہی رَحمت ہے۔مُفَسِّرِینِ کِرام رَحِمَھُمُ اللّٰہُ تعا لٰی فرماتے ہیں، ''یہ رات سانپ وبچھّو،آفات وبَلیَّات اور شیاطین سے بھی محفوظ ہے اِس رات میں سلامتی ہی سلامتی ہے۔''

پرچم کشائی
رِوایَت ہے کہ شَبِ قَدْر میں سِدْرَۃُ الْمُنْتَہٰی کے فِرِشتوں کی فوج حضرتِ جِبرِیل علیہ السلام کی سرداری میں زَمین پر اُترتی ہے ،اور اُن کے ساتھ چار جھنڈے ہوتے ہیں ، ایک جھنڈا حُضورِ انور ،شافِعِ مَحشر ،مدینے کے تاجور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی قَبرمنوَّرپر، ایک جھنڈا بیتَ المُقَدَّس کی چھَت پر ۔ اور ایک جھنڈا کعبہ مُعَظَّمہ کی چَھت پر،ایک جھنڈا طُورِسِینا پر لہراتے ہیں پھریہ فِرِشتے مسلمانوں کے گھروں میں تشریف لے جا کر ہر مؤمِن مردو عورت کو سلام کرتے ہیں اور کہتے ہیں ،سلام عَزَّوَجَلَّ( سلام اللہ عزوجل کاصِفاتی نام ہے)تم پر سلامتی بھیجتا ہے ۔ مگر جِن گھروں میں شرابی یا خِنزیر کاگوشت کھانے والا یا بِلاوجہِ شرعی اپنی رِشتہ داری کاٹ دینے والا رہتا ہو اِن گھروں میں یہ فِرِشتے داخِل نہیں ہوتے۔'' (تفسِیرِ صاوی،ج٦،ص٢٤٠١)

ایک رِوایت میں یہ بھی ہے کہ ''اِن فِرِشتوں کی تعداد رُوئے زمین کی کنکریوں سے بھی زیادہ ہوتی ہے اور یہ سب سلام و رَحمت لے کر نازِل ہوتے ہیں۔''(تفسِیرِ دُرِّمَنْثُور ،ج٨،ص٥٧٩)

سبز جھنڈا
ایک اور طویل حدیث جِسے حضرتِ سَیِّدُنا عبدُ اللہ ابنِ عَبّاس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے رِوایَت کیا ہے، اِس میں شَبِ قَدْر کے بارے میں نبیِّ کریم، رء ُوفٌ رَّحیم ، محبوبِ ربِّ عظیم عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا یہ فرمانِ عالیشان نَقْل کیا گیا ہے-''جب شَبِ قَدْر آتی ہے تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے حُکْم سے حضرتِ جبرِیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام ایک سبز جھنڈا لئے فرِشتوں کی بَہُت بڑی فوج کے ساتھ زمین پر نُزُول فرماتے ہیں اور اُس سبز جھنڈے کو کعبہ مُعَظّمہ پر لہرادیتے ہیں۔ حضرتِ جبرِیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے سو بازُو ہیں،جن میں سے دوبازُو صِرْف اِسی رات کھولتے ہیں۔وہ بازُو مَشْرِق ومَغْرِب میں پھیل جاتے ہیں۔پھر حضرتِ جبرِیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام فِرِشتوں کو حُکم دیتے ہیں کہ جو کوئی مسلمان آج رات قِیام ،نَماز یا ذِکرُاللّٰہ عَزَّوَجَلَّ میں مشغُول ہے اُس سے سلام ومُصافَحہ کرو۔نِیز اُن کی دُعاؤں پر آمین بھی کہو ۔ چُنانچِہ صُبح تک یِہی سِلسلہ رہتا ہے ۔ صُبح ہونے پر حضرتِ جبرِیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام فِرِشتوں کو واپَسی کا حُکْم صادِر فرماتے ہیں ۔ فِرِشتے عَرض کرتے ہیں،اے جبرِیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کے پیارے حبیب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ و سلَّم کی اُمَّت کی حاجات کے بارے میں کیا کِیا؟حضرتِ جبرِیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامفر ما تے ہیں ، ''اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے اِن لوگوں پر خُصُوصی نَظَرِ کرم فرمائی اور چار قِسم کے لوگوں کے عِلاوہ تمام لوگوں کو مُعاف فرما دیا۔ صَحَابہ کِرام علیہم الرضوان نے عَرض کی، ''یارسولَ اللّٰہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم وہ چار قِسْم کے لوگ کون سے ہیں؟''ارشاد فرمایا:
(١) ایک تو عادی شرابی۔
(٢)دُوسرے والِدَین کے نافرمان۔
(٣)تیسرے قَطْعِ رِحمی کرنے والے (یعنی رشتہ داروں سے تَعلُّقات توڑنے والے) اور
(٤) چوتھے وہ لوگ جو آپس میں بُغض وکینہ رکھتے ہیں اور آپس میں قَطْعِ تعلُّق کرنے والے۔''
(شُعَبُ الْایمان ،ج٣،ص٣٣٦،حدیث٣٦٩٥)

بد نصیب لوگ
محترم قارئین کرام!!دیکھا آپ نے ؟ شَبِ قَدر کِس قَدَر عظمت والی رات ہے۔ اِس رات میں ہر خاص وعام کو بَخش دیا جاتا ہے۔تاہَم عادی شرابی،ماں باپ کے نافرمان،قَطعِ رِحمی کرنے والے اوربِلامصلحتِ شَرعی آپس میں کینہ رکھنے والے اوراس سبب سے آپس میں تعلُّقات مُنقَطع کرنے والے اِس عام بخشِش سے مَحروم کردئیے جاتے ہیں۔

توبہ کرلو!
محترم قارئین کرام!!قَہرِ قَہَّار وغَضَبِ جَبّارعَزَّوَجَلَّ سے لَرز جانے کیلئے کیا یہ بات کافی نہیں ؟ اور شَبِ قَدر جیسی بابَرَکت رات بھی جِن مُجرِمُوں کی بخشِش نہیں کی جارہی وہ کس قَدر شدید مُجرِم ہوں گے؟ہاں اگر اِن گُناہوں سے صِدْقِ دِل سے تَوبہ کرلی جائے اور حُقوقُ الْعِباد والے مُعامَلات بھی حل کرلئے جائیں تَواللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا فَضل و کَرَم بے حدو بے اِنتِہا ہے۔

لڑائی کا وبال
حضرتِ سَیِّدُنا عُبادَہ بِن صامِت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رِوایَت ہے کہ میٹھے میٹھے آقا مکّی مَدَنی مصطَفٰے صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم باہَر تشریف لائے تاکہ ہم کو شَبِ قَدر کے بارے میں بتائیں (کہ کِس رات میں ہے) دومسلمان آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :''میں اِس لئے آےاتھا کہ تمہیں شبِ قَدْر بتاؤں لیکن فُلاں فُلاں شخص جھگڑرہے تھے۔اِس لئے اِس کا تَعَیُّن اُٹھالیا گیا۔اور مُمکِن ہے کہ اِسی میں تمہاری بہتری ہو۔اب اِس کو (آخِری عَشرے کی) نویں، ساتوےں،اور پانچویں را توں میں ڈھونڈو۔'' (صحےح بُخاری، ج١،ص٦٦٣،حدیث٢٠٢٣)

ہم توشریف کے ساتھ شریف اور۔۔۔۔۔۔
محترم قارئین کرام!!اس حدیث پاک میں ہمارے لئے کس قَدَر دَرْسِ عِبرت ہے کہ میٹھے میٹھے آقا مکّی مَدَنی مصطفٰے صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بتانے ہی والے تھے کہ شبِ قَدْر کون سی رات ہے کہ دو مسلمانوں کا باہَم لڑنا مانعِ ہوگیا اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے شَبِ قَدْر کو مَخفی کردیا گیا۔اِس سے اندازہ لگایئے کہ مُسلمانوں کا آپس میں لڑائی جھگڑا کرنا رَحمت سے کِس قَدَر دُوری کا سَبَب بَن جاتا ہے۔ مگر آہ ! اب کون کس کو سمجھائے ؟ آج تو بڑے فخرسے کہا جا رہا ہے کہ ''میاں اِس دُنیا میں شریف رہ کر تَو گُزارہ ہی نہیں،ہم تَو شریفوں کے ساتھ شریف اور بدمَعاش کے ساتھ بَد معاش ہیں! '' صرف اس قول ہی پر اِکتِفا نہیں ۔ اب تَو معمولی سی بات پر پہلے زَبان درازی ،پھر دست اندازی ،اس کے بعد چاقو بازی بلکہ گولیاں تک چل جاتی ہیں۔اَفسوس ! آج کل بعض مُسلمان کبھی پَٹھان بن کر کبھی پنجابی کہلا کر ،کبھی مُہاجِر ہوکر ،کبھی سندھی اور بلوچ قومِیَّت کا نعرہ لگا کرایک دُوسرے کا گَلاکاٹ رہے ہیں۔ ایک دوسرے کی اَملاک واَمْوال کو آگ لگا رہے ہیں۔ آپس میں ایک دوسرے کے خِلاف صِرف نَسلی اور لِسانی فَرق کی بِناء پر مَحاذ آرائی ہورہی ہے۔مُسلمانو!آپ تو ایک دوسرے کے مُحافِظ تھے آپ کو کیا ہوگیا ہے؟ہمارے پیارے آقاصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان تَویہ ہے کہ ''مُؤمِنوں کی مِثال تو ایک جِسم کی طرح ہے کہ اگر ایک عُضْو کو تکلیف پہنچے تو سارا جِسم اِس تکلیف کو مَحسوس کرتا ہے۔''
(صحیح بُخاری، ج٤،ص١٠٣،حدیث٦٠١١)
ایک شاعِر نے کتنے پیارے انداز میں سمجھایاہے
مُبْتَلائے دَرْد کوئی عُضْو ہو روتی ہے آنکھ
کِس قَدَر ہمدرد سارے جِسم کی ہوتی ہے آنکھ

محترم قارئین کرام!! ہمیں آپس میں لڑائی جھگڑا کرنے کے بجائے ایک دوسرے کی ہمدردی اور غمگُساری کرنی چائیے۔مُسلمان ایک دوسرے کو مارنے ، کاٹنے اور لُوٹنے ،ایک دوسرے کی دُکانیں اور اَسباب جَلانے والا نہیں ہوتا۔

مسلمان مومن اور مہاجر کی تعریف
سَیِّدُنا فُضالہ بن عُبَیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رِوایَت ہے کہ تاجدارِ رسالت ، شَہَنْشاہِ نُبُوَّت ، پیکرِ جُودو سخاوت، سراپا رَحمت، محبوبِ رَبُّ الْعِزَّت عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حَجَّۃُ الْوَداع کے موقع پر ارشاد فرمایا:''کیا تمہیں مؤمِن کے بارے میں خبر نہ دوں؟''پھر ارشاد فرمایا :مؤمِن وہ ہے جس سے دوسرے مسلمان اپنی جان اوراپنے اَموال سے بے خوف ہوں اور مسلمان وہ ہے جس کی زَبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مجاہِد وہ ہے جس نے اطاعت ِخداوندی عَزَّوَجَلَّکے معاملے میں اپنے نَفس کے ساتھ جِہاد کیا اور مہاجِر وہ ہے جس نے خطا اور گناہوں سے علٰیحدِگی اختیار کی۔''(المستدرک للحاکم، ج١ ،ص ١٥٨)

اور ارشاد فرمایا: کسی مسلمان کے لئے جائِز نہیں کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کی طرف (یا اُس کے بارے میں)اِس قِسم کے اشارے،کِنائے سے کام لے جو اُس کی دِل آزاری کا باعِث ہو۔اور یہ بھی حَلال نہیں کہ کوئی ایسی حَرَکت کی جائے جو کسی مسلمان کو ہِراساں یاخوفزدہ کردے۔ (اتحاف السادۃ المتقین، ج٧،ص١٧٧)
طریقِ مصطَفٰے کو چھوڑنا ہے وجہِ بربادی
اِسی سے قوم دنیا میں ہوئی بے اقتدار اپنی

ناقابل برداشت خارش
حضرتِ سَیِّدُنا مُجاہِدرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ َّّبعض دوزخیوں کو ایسی خارِش میں مُبْتَلا کردے گا کہ کُھجاتے کُھجاتے اُن کی کھال اُدھڑ جائے گی یہاں تک کہ اُن کی ہَڈّیاں ظاہِر ہوجائیں گی۔پھر ندا سُنائی دے گی کہ کہو، کیسی رہی یہ تکلیف ؟وہ کہیں گے کہ اِنتِہائی سَخت اور ناقابِلِ برداشت ہے۔ تَب انہیں بتایا جائے گا۔کہ '' دُنیا میں جو تم مسلمانوں کو سَتایا کرتے تھے یہ اُس کی سزا ہے۔'' (اتحاف السادۃ المتقین، ج٧،ص١٧٥)

تکلیف دور کرنے کا ثواب
حُضُورِ اکرم، نُورِ مُجَسَّم، شاہِ بنی آدم،رسولِ مُحتَشَم،شافِعِ اُمَم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ''میں نے ایک شخص کو جنّت میں گھومتے ہوئے دیکھا کہ جِدھر چاہتا تھا نِکل جاتا تھا۔ جانتے ہو کیوں؟ صِرف اِس لئے کہ اُس نے اِس دنیا میں ایک دَرَخت راستے سے اِس لئے کاٹ دیا تھا کہ مُسلمانوں کو راہ چلنے میں تکلیف نہ ہو۔''
(صحیح مُسلم، ص١٤١٠،حدیث١٩١٤)

لڑنا ہے تو نفس کے ساتھ لڑو!
محترم قارئین کرام!!اِن احادیثِ مُبارَکہ سے دَرْس حاصِل کیجئے اور آپَس میں لڑائی جھگڑا اور لُوٹ مارسے پرہیز کیجئے۔اگرلڑنا ہی ہے تو مَردُود شیطان سے لڑیئے،نَفْسِ اَمّارہ سے لڑائی کیجئے۔بَوَقتِ جِہاد دین کے دشمنوں سے قِتال کیجئے۔مگر آپَس میں بھائی بھائی بن کر رہئے۔آپس میں جھگڑا کرنے کا نقصانِ عظیم توآپ نے دیکھ ہی لیا کہ شَبِ قَدْر کی تَعْیِِیْن اُٹھا لی گئی ۔اِس کے عِلاوہ بھی آپس میں لڑائی جھگڑا کرنے سے نہ جانے کیسی کیسی عظیم نِعمتوں اور رَحمتوں سے ہمیں محرُوم کیا جاتا ہوگا؟اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ہمارے حالِ زار پر رَحم فرمائے اور اِس بات کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اگر چِہ پنجابی ، پٹھان ، سِندھی ،بلوچ ،سرائیکی ،مُہاجِر،بنگالی،بہاری وغیرہ قَومِیَّت سے تعلُّق رکھتے ہوںمگرہیں''عَرَبی آقاصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے غُلام ۔ '' ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نہ ''پَٹھان''ہیں ،نہ '' پنجابی ''، نہ ''بلوچ '' ہیں ،نہ ''سندھی''۔بلکہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تو ''عَرَبی''ہیں۔اے کاش !ہم حقیقی معنوں میں عَرَبی آقاصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دامنِ کرم سے لِپٹ کر رہیں اور تمام نَسلی اور لِسانی اِختِلافات کو بُھلا کر ایک اور نیک بن جائیں۔
فرد قائم ربطِ ملّت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں

فیضان سنت کا فیضان ۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔

یا اللہ عزوجل ماہ رمضان کے طفیل برما کے مسلمانوں
کی جان و مال ،عزت آبرو کی حفاظت فرما۔اٰمین

وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف وکرم و عنایت سے مجھے
بس ایک بار کہا تھا میں نے یا اللہ مجھ پر رحم کر مصطفی کے واسطے
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 371126 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.