برما کی ” ماگ“ سے کیا شکوہ کروں۔۔؟؟

آج سے سینکڑوں برس قبل وارث شاہ نے کہا تھا”جو قوم اپنی عورتوں کو عزت اور تحفظ نہیں دیتی وہ برباد ہوجاتی ہے“۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں جب قومیں عزت کے درپے ہوئیں تو مال ومتاع وجاہ حشمت سب لٹ گیا‘چاہے اس کی بنیاد لسانی تعصب بنا یامذہبی و نسلی۔رہی جنگ تواس کی بات ہی نہ کیجئے اس نے تو ہمیشہ کسبیاں ہی جنی ہیں۔

یونان کے بعد جس قوم کو عظیم اقتدار ملا وہ اہل روم تھے۔رومی جمہوریت کے دور میں ایک مرتبہ سینٹ کے ایک ممبر نے اپنی دختر کے سامنے فرط محبت میں اپنی اہلیہ کا بوسہ لینے کی غلطی کی تو روم چیخ اُٹھا۔اسے ”قومی اخلاق“ کی تضیحک قرار دیاگیا۔اور ممبران سینٹ نے اس پر ملامت کا ووٹ پاس کیا۔اب بے رحم قانونی شکنجوں میں جکڑے اس ملک(مسلمان ملک) کے باسیوں کا اگرذکر نہ کروں تو شاید مضمون تشنہ رہ جائے۔اس ملک کے ایک جرنیل جن کا ایوان صدر اور ملکی افواج دونوں پر مکمل کنڑول تھا لیکن ‘اگرانہیں اس واقعہ(جس کا تذکرہ آگے چل کرہوگا) کے تناظر میں دیکھا جائے توایسالگتاہے کہ وہ بھی اتنی قوت کے باوجود محترم”آئین “اور اس ملک کے ”بے رحم “نظام میں بے بس تھے۔ستم رسیدہ ماضی کے” سسکتے گٹار“ کی تاروں پرزخمی قلم کی جنبش سے دردبھری یہ کہانی شروع کرنے سے پہلے مظفر گڑھ کا تذکرہ ہوجائے توبہت بہترہوگا۔کیونکہ ہم قاری کے دل میں یک لخت غم واندہ کے دونشتراتارنے کی گستاخی نہیں کرناچاہتے۔

یہ 8اگست بروز بدھ کا سیاہ ترین دن تھا۔جب ”الف“خاتون(عمر63 برس ) اپنی بہن”ب“ خاتون کے ہمراہ اپنے بیٹے کا رشتہ لے کر مظفرگڑھ کی تحصیل خان گڑھ کی بستی نئی آبادی میں ایک زمیندارکے گھر گئیں۔ شاید انہیں معلوم نہ تھا کہ انکی قسمت کا بدترین لمحہ ان کے انتظارمیں ہے۔

قسمت روٹھ چکی ہے۔اور خوشیوں کی تلاش میں گھرسے نکلنے والے بہنوں کے اس جوڑے کو نسلی تعصب کا شکار‘ نام کے مسلمان لوگوں نے نوچ ڈالناہے۔لڑکی کے گھرمیں جب یہ عمررسیدہ خواتین داخل ہوئیں تو ان کو اندازہ بھی نہ تھاکہ کلمہ گواور ایک ہی وسیب میں رہنے والے لوگ اپنی محلہ دار عورتوں کے ساتھ اس قدر سفاکی سے بھی پیش آسکتے ہیں؟؟

رشتہ مانگنے کیلئے جیسے ہی ”الف“خاتون کے لبوں نے جنبش لی اسکے ساتھ ہی لڑکی کے باپ کے اندر کازہرآلودانسان باہرآگیا۔دونوں خواتین کے کپڑے پھاڑ کرانہیں برہنہ کردیاگیا۔پانچ چھ بندوں کے اس گروپ کے آگے وہ ہاتھ جوڑتی رہیں ‘خدا‘رسولﷺ کا واسطہ بھی دیالیکن جہاں ”نسلی تعصب کا ابلیس“رہتاہووہاں عقائد کی ضرب سے کب کام چلتاہے۔اس سارے کھیل کے دوران بقول خواتین ملزم گروہ کے افراد انہیں اپنی نسلی برتری کا احساس دلاتے رہے کہ ہم دنیاکی عظیم ترین قوم ہیں ۔(اخبار میں واقعہ پڑھتے ہوئے ایسے لگ رہاتھاجیسے خان گڑھ کے اس گروہ کے اندر نسلی تفاوت کا شکار ہٹلر کی روح حلول کرگئی ہو)۔شاید موٹرسائیکل پر برہنہ باندھتے ہوئے ان ظالموں کی آنکھوں میں اپنی ماﺅں بہنوں اور ازواج کی صورتیں ہی نہ آئی ہوں۔لیکن معاشرہ کی آنکھ سلگتی رہی۔اخباری رپورٹ میں چشم دیدگواہ کے مطابق جب اڈاکے ٹرمینل پر ان مظلوم خواتین کو گھمایاجارہاتھاتو ایک بدبخت ملزم ان کی وڈیو بناتارہا۔اور بعدازاں انہیں بے یارومددگار روڈپربے لباس چھوڑدیاگیا۔چندگھنٹے میں پولیس حرکت میںآئی اور تب جاکرعلاقہ کے مکینوں نے احتجاج بندکیا۔

ملزمان کا موقف ہے کہ عورتیں چوری کی غرض سے گھرکے اندر داخل ہوئیں۔اسے اگر سچ بھی تصورکرلیاجائے تو کیایہ اس قدر انسانیت سوز سزا کی مستحق تھیں؟؟بھلاہو اس سیاسی شخصیت کا جس نے انہیں لاکھوں کاچیک دیا‘پولیس کو کاروائی کی ہدایت کی اور مکان کے الاٹمنٹ کاغذ عطاءکیئے۔کیونکہ یہ بے گھرتھیں۔اب انہیں گھرتومل گیاہے لیکن عزت لٹنے کے بعد۔انصاف۔۔۔کایقین تودلایاگیاہے‘لیکن نہیں معلوم ”انصاف“کتنی قربانی کے بعدملے گا۔خداکرے انہیں انصاف مل جائے۔حالانکہ صوبہ کے سرپرست بروقت پہنچے‘انہیںدلاسادیا‘آبدیدہ ہوئے ۔مگرنجانے کیوں مجھے حضرت شعیب ؑ کی قوم کے ترازو پر یقین نہیں آتا۔

اب ذکرکرتے ہیںفل پاور شخص کا جس کے ہاتھوں میں عنان اقتدار بھی تھی اور افواج کی پوری قوت بھی ۔اس جرنیل کے سامنے جب بھی ملاقاتیوں کی فہرست رکھی جاتی ایک مخصوص نام دیکھ کر ان کا چہرہ متغیرہوجاتا‘غصے سے کانپتے ہوئے ہاتھ اس ”نام“پر اتنی بار قلم کی نوک پھیرتے کے کاغذ پھٹ جاتا۔اورپھر پورادن جسم میں خون کی گردش تیزرہتی۔چہرہ غم میں ڈوب جاتااور باتوں سے انتقام کی بو آنے لگتی۔صدر کی یہ حالت دیکھ کر ساتھیوں پر تجسس اور حیرت کی عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی۔اور وہ ہمہ وقت اس بات کی تہہ تک پہنچنے میں لگے رہتے۔مگرجوں ہی کسی کی زبان سے اس شخص کا نام اداہوتا‘سربراہ مملکت کی آنکھیں سرخ ہوجاتیں اور پھر لہجہ اس قدر ترش ہوجاتاکہ وہ شخص خوفزدہ ہوکر ایک طرف ہوجاتا۔یوں یہ معاملہ صدر کے ساتھیوں کیلئے مزید پرسرار ہوتاچلاگیا۔

ایک دن جنرل رفاقت نے ہمت کرکے صدر کو بولنے پرمجبورکردیا۔صدر کی زبان کھلتی گئی اور سامع کے کانوں میں گرم سیسہ کی ماننداترگئی۔دراصل جس شخص سے صدر کونفرت تھی وہ ایک معصوم طالبہ کی عزت کا قاتل تھا۔جو اس سے وفاقی دارالحکومت میں میڈیکل کالج کوٹہ کی سیٹ حاصل کرنے آئی تھی(میری نظرمیں کسی بھی شخص کو کوٹہ دیناایساہی ہے جیسے کسی ملک کی سلامتی کا انحصار ایک ڈاکو پرہوجائے)۔اور پھر آہوں ُسسکیوں کے ساتھ رخصت ہوئی۔اس کی چوڑیاں ٹوٹ چکی تھیں ‘نزاکت بکھرچکی تھی‘حوا کی بیٹی لٹ چکی تھی۔اس نے پی ۔سی ۔او سے فون کیا‘صدر ہاﺅس سے گاڑی گئی اور قسمت کی ستائی ہوئی اس لڑکی کو جنرل کے سامنے لابٹھایا۔بقول صدر اس کی کہانی انتہائی ہولناک تھی۔جسے سن کردل دہل جاتاتھا‘آنکھیں بھیگ جاتی تھیں اور ایسے لگتاتھا جیسے سننے والے کے رگ وریشے میں کسی نے سوئیاں چبھودی ہوں‘اس کی نس نس میں گرم تارکول اتار دی ہو۔کہانی سنانے کے بعد صدر گویاہوئے”اور جنرل رفاقت اگر تم نے بھی میری طرح اپنے آنسوپونچھتے ہوئے اس لڑکی کو اپنی بیٹی کے کپڑے دیئے ہوتے اور اسے کہاہوتا کہ بیٹا اپنے پھٹے ہوئے کپڑے یہیں چھوڑ جاﺅ تاکہ جب بھی وہ بدطینت شخص تمہارے عمررسیدہ باپ(صدر) کے سامنے آئے تو اس کی آنکھیں لال ہوجائیں‘بھائی رفاقت اگر یہ کربناک تجربہ تمہاری ذات پرعیاں ہواہوتاتوتمہارا خون بھی کبھی سردنہ ہوتا‘اسے پرنظرپڑنے کے بعد تم بھی کچھ نہ کھاپی سکتے“۔اب آخرمیں اس ملک کے بے رحم نظام میں مقید صدر کے الفاظ پڑھیئے جو انتظامی وسماجی لحاظ سے اس گلے سڑے سماج کی بے بسی کی علامت ہیں ۔جو یہ ظاہرکرتے ہیں کہ جب تلک خداکا آئین نہیں نافذ ہوتا‘میرے پاک محمدﷺ کی احادیث پر عمل نہیں ہوتا اسوقت تک انصاف دینا مشکل ہی رہے گا‘اس لمحے تک کوفہ میں (حضرت)زینب ؓ تنہاوبے ردا ہی رہے گا‘اس آن تک مظفرگڑھ کی عورتوں کی عصمت محفوظ نہ ہوگی۔صدرنے کہا”جنرل مجھے اندازہ ہے کہ میرے رویے کی تبدیلی آپ لوگوں کوناگوارگزررہی ہے ‘لیکن میں کیا کروں جب بھی یہ شخص میرے سامنے آتاہے میرا دل کرتاہے اس کا خون پی جاﺅں ‘اس کے جسم کی بوٹی بوٹی کر دوں لیکن میں بے بس ہوں۔۔۔“یہ ایک ایسے شخص کے الفاظ ہیں جس کی کمانڈ میں اس کی افواج نے سپرطاقت کی کمرتوڑدی لیکن۔۔

گمان اچھاہوناچاہیے ‘امید قائم رہنی چاہیئے لیکن یہ کیسے ہوسکتاہے کہ جس کھیت کو گندے جوہڑکا بدبودارپانی لگتاہو‘جس کے خوشوں میں سے تعفن اٹھتاہو ‘اُس میں سے پیدا ہونے والا غلہ صحت کا ضامن ہوگا؟؟ جب تک ہم لسانی ‘نسلی وعلاقائی اور فرقہ وارانہ تعصب کی دلدل میں سے نہیں نکلے گے ‘جب تک ہم اسلام کی ہربات کو من وعن اپنا اوڑھنابچھونا نہیں بنائیں گے اسوقت تک خان گڑھ کی خواتین ہوں یا سیالکوٹ کے حافظ سب ظلم کی چکی میں پستے رہیں گے۔اور اب تو کوئی ایسابھی نہیں جس کی ماں بہن یا بیٹی کے کپڑے خان گڑھ کی زخم خوردہ خواتین کو آتے ہوں۔اب آپ ہی بتائیے میں ان حالات میںمیں بدھ انتہاپسندوں کی تنظیم ”ماگ“جو برما کہ مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ تورہی ہے اس سے کیاگلہ‘شکوہ کروں ۔گو کہ ان کی سفاکی بھی اپنے عروج پر ہے لیکن جہاں ایک ہی کلمہ پڑھنے والے ایک دوسرے سے رشتہ داری کرنے کو کفرسمجھتے ہوں اور محض رشتہ مانگنے پر اس قدربے حیائی پر اُترآتے ہوں تو ایسے لمحات میں قلم بھی دلبرداشتہ ہوجایاکرتے ہیں لکھاری تودورکی بات ہے۔
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 188626 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.