اک ستارہ تھا وہ کہکشاں ہو گیا

بسم اللہ الرحمن الرحیم

دنیا دار فنا ہے ،دوام صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات کو لائق ہے ،انسانوں کی آنیوں اور جانیوں نے زندگی کو متحرک رکھا ہو ا ہے آنے کی ترتیب تو بدیہی ہے لیکن جانے کا کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے ،بوڑھے ابھی بیٹھے ہیں کہ جوانوں کے جنازے اٹھ رہے ہوتے ہیں ،داد ابھی زندہ ہے مگر پوتا قبر کی پاتال میں اتر چکا ہو تا ہے لیکن اس تھوڑے سے عرصہ حیات میں بعض لوگ قابل تقلید بن جاتے ہیں ،انسانیت ان کی زندگی سے اپنی راہیں متعین کرتی ہے ان کے نزدیک ان کا مقصد ،کاز اور مشن ان کی زندگی سے زیادہ قیمتی ہوتاہے۔
وہ ذات میں ایک انجمن اور تحریک ہو تے ہیں ،وہ مر کر موت پر احسان کرتے ہیں ایسے ہی کہکشا ں بننے والے ستارو ں میں سے ایک ستارے کا نام حضرت علامہ علی شیر حیدریؒ ہے 1963ئ کو حضرت علامہ علی شیر حیدری ؒ ضلع میرپور میرس کی گوٹھ موسیٰ خان جاوریاں میں پیدا ہوئے آپ ؒ کے والد رئیس محمد وارث شہید نہایت نیک اور دیندار انسان تھے ،قبیلہ چانڈیو کے سرکردہ لوگوں میں آپ کا شمار ہوتا تھا ،حضرت علامہ ؒ اپنے چھ بھائیوں اور تین بہنوں میں سب سے بڑے تھے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاﺅں گوٹھ کے اسکول سے حاصل کی ،مڈل تک عصری تعلیم حاصل کر نے کے بعد جامعہ راشدہ پیر جوگوٹھ سے دینی تعلیمی سفر کا آغاز فرمایا ۔آپؒ نے جامعہ شمس الھدٰی نوشہرو فیروز ،مدرسہ تعلیم القرآن عیسیٰ خان ،جامعہ اشاعت القرآن لاڑکانہ اور مدرسہ دار الھدٰی ٹھیڑی شریف سے اکتساب فیض فرمایا۔

آپ ؒ کے اساتذہ میں حا فظ خدا بخش ،فقیہ العصر مفتی محمد حسین ؒ ،مولانا محمد علی حقانیؒ ،مولانا فضل محمد ؒ،مولانا عبد الحق اور مولانا غلام قادر ؒ صاحب شامل ہیں ،جب عزائم بلند ہوں تو انسان اپنی مشکلات کو اپنے لیے ترقی کا زینہ سمجھتاہے ،اقبال کا شاہین ہمیشہ باد مخالف کو اپنی پرواز کی بلندی کا سبب سمجھتا ہے ،حضرت علامہ علی شیر حیدری ؒ جب تحصیل علم سے فراغت حاصل فرمائی تو آپ ؒ نے اپنے علامہ میرپور میرس کو اپنی دینی سر گرمیوں کا مرکز بنانے کا فیصلہ فرمایا یہ علاقہ کفر و شرک کا مرکز تھا ،غربت کی وجہ سے لوگ بچوں کو پرائمری تک تعلیم دلانے سے قاصر تھے ،1987ءمیں ریلوے اسٹیشن میرپور میرس میں ایک مذہبی تعلیمی ادارے” جامعہ حیدریہ “کی سنگ بنیاد رکھ کر مسلمانوں کی دینی رہنمائی کے لیے وسیع پروگرام شروع کیا کچھ عرصہ بعد ایک پرائمری سکول قائم فرماکر تعلیم کی شمع کو روشن فرمایا ۔

حضرت علامہ کے علمی تبحر کی وجہ سے جامعہ حیدریہ دن دگنی رات چگنی ترقی کرنے لگا ،پورے ملک سے متلاشیان علم اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے آپ ؒ کی خدمت میں حاضر ہونے لگے ،تفسیر اور احادیث سے علوم کا بہت بڑا ذخیرہ قدرت نے آپ ؒ کو ودیعت کیا تھا ۔مدارس دینیہ کی سالانہ چھٹیوں میں دورة دعوة و التحقیق کے عنوان سے پورے ملک سے آئے ہوئے سینکڑوں طلبہ کو کورس کروایا کرتے تھے جو اب تک جاری و ساری ہے تخصص فی الدعوة و التحقیق بھی جامعہ حیدریہ کا ایک مستقل شعبہ ہے جو حضرت علامہ علی شیرحیدری ؒ کی حیات مبارکہ میں شروع ہو ا تھا ۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے بہا خوبیوں سے نوازا تھا ،آپ ؒ کو قدرت نے ظاہری حسن و جمال ،ہیبت و جلال ودیعت کیا تھا ،آپؒ کے چہرہ میں روحانی کشش اور روشنی تھی ،شیر کی طرح بارعب نگاہیں جو ہر دیکھنے والے کو مرغوب کر دیتی تھیں ،ظاہری حسن و جمال کے ساتھ ساتھ آپؒ کی شخصیت و کردار میں عالمانہ شان ،متانت ،وقار ،حسن اور جاذبیت تھی ،آپ علم کے شناور تھے ۔تحقیق و تدقیق آپ کا طرہ امتیاز تھا ،فن خطابت پر مکمل دسترس حاصل تھی آپ کی خطابت میں روایتی جوش و جذبات کے بجائے علمی رسوخ کی جھلک ،تحقیق قرآن وحدیث سے مرصع و مزین ہوتی تھی ،اصحاب ؓ رسول اللہ ﷺ کی مدحت و منقبت آپ کا موضوع تھا ،جب تک صحابہ کرام ؓ کا تذکرہ نہ فرماتے آپ کا موضوع ادھورا رہتا تھا ،علمی میدان میں بڑے بڑے مناظرین کو اصحاب رسول کی عظمت کا قائل کیا مگر ہدایت صرف اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے ۔ آپ کو مناظرہ کے میدان میں اتھا رٹی سمجھا جاتا تھا ،بڑے بڑے علمی نقاط چند گھڑیوں میں حل فرمادیتے تھے ،اصحاب ؓ ر سول سے انتہائی محبت تھی ،فرمایا کرتے تھے کہ ”صحابہ کا جو غلام ہے ہمارا وہ امام ہے “میرپور میرس کی مخصوص مذہبی کشیدگی کی وجہ سے آپ نے سنی قوم کی قیادت سنبھالنے کافیصلہ فرمایا چنانچہ 1989ءمیں آپ فاروق اعظم آگنائزنگ کمیٹی کے ضلعی صدر منتخب ہوئے اس دوران آپ کی ملاقات امیر عزیمت مولانا حقنواز شہید ؒسے ہوئی جس کے نتیجہ میں آپ نے سپاہ صحابہ میں شمولیت اختیار کر لی یوں قربانیوں ،صعوبتوں اور مشقتوں کا سفر شروع ہو ا گزرتے دنوں کے ساتھ آپ کی شہرت پورے ملک میں پھیل گئی 18جنوری 1997ءکو مورخ اسلام حضرت مولانا ضیاءالرحمن فاروقی شہید ؒ کی شہادت کے بعد سپاہ صحابہ کی قیادت آپ نے سنبھالی بیس سالہ تنظیمی سفر کے دوران حضرت حیدری ؒ نے ملکی و اسلامی تاریخ میں ان منٹ نقوش چھوڑے ہیں ،آپ نے دو ماہ اور سترہ دن میں قرآن پاک حفظ کر کے ایک نئی تاریخ رقم فرمائی تھی ۔17اگست 2009ءبمطابق 25شعبان 1430ھ تہجد کے وقت لہو سے وضو کر کے عشق و وفا کی راہوں پر عازم سفر ہو گئے ۔مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ بزبان حال یہ فر ما رہے تھے
فنا فی اللہ کی تہہ میں بقا کا راز مضمر ہے
جسے مرنا نہیں آتا اسے جینا نہیں آتا

حضرت علامہ علی شیرحیدری ؒ کی قبر سے خوشبو کے جھونکے اٹھنے لگے ایسی خوشبو جو کبھی کسی نے نہ دیکھی اور نہ سونگھی ،جی ہاں ! یہ میرے رب کا وعدہ ہے جس کا اظہار حضرت علامہ علی شیر حیدری ؒ کی قبر پر ہو ا وہ ساری عمر پیار ، محبت اور وعشق حقیقی کا درس دیتے رہے ،حضرت علامہ انسانیت سے محبت فرمانے والے ،خلق خدا پر مہربان اوردرد دل رکھنے والے آدمی تھے غیرت و جرات کا پیکر ومجسمہ تھے لیکن بے رحم اور سفاک ہاتھوں سے چلنے والی گولی نے انسانیت کو ایک عظیم انسان سے محروم کر دیا جس کی تلافی شاید ممکن نہ ہو مگر ایک تشنہ سوال یہ ہے کہ وہی کو نسی سفاک و انوکھی قوت ہے جس کے اشارے پر یہ سب کچھ ہوجاتاہے ....؟ کیا یہ لوگ مواخذہ سے ماوراءہیں ....؟ آخر کب تک ہر اس شخص کو ہم سے چھین لیا جائے گا جو محبت ،مروت ،غیرت اور عشق الٰہی اور محبت رسول ﷺکی ما لا میں پوری امت کو پرونا چاہتا ہے ....؟
Tanveer Ahmed Awan
About the Author: Tanveer Ahmed Awan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.