میر تقی میر نے کیا خوب کہا ہے
مت سہل ہمیں جانو، پھر ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے اِنسان نکلتے ہیں!
یہ مصرع ہر اُس اِنسان پر صادق آتا ہے جو کچھ بن کر دِکھاتا ہے۔ کچھ بننے
کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ صلاحیتوں کا پایا جانا کافی نہیں۔ محنت اور
ذہانت دونوں کا حسین سنگم بھرپور کامیابی کی بُنیادی شرط ہے۔ موقع شناسی
اور معاملہ فہمی اضافی مگر اہم خصوصیات ہیں۔
شہنشاہِ غزل مہدی حسن کی زندگی کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ گُہر
ہونے تک قطرے پہ کیا کیا گزرتی ہے! مہدی حسن ایک عہد کی داستان ہے۔ یہ عہد
شبانہ روز محنت اور جاں فِشانی سے عبارت ہے۔
مادام نُور جہاں 1947 میں غیر منقسم ہندوستان کی کامیاب ترین سنگر ایکٹریس
تھیں۔ وہ فلموں میں اداکاری اور گلوکاری دونوں شعبوں میں نام کما چکی تھیں۔
14 اگست 1947 کے بعد جب نُور جہاں نے پاکستان جانے کا فیصلہ کیا تو بمبئی
کی فلم انڈسٹری میں بہتوں پر سکتہ طاری ہوگیا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا
کہ وہ بمبئی کی شاندار اور پنپتی ہوئی فلم انڈسٹری کو چھوڑ کر لاہور کی
برائے نام فلمی صنعت میں قدم رکھنے کا سوچ بھی سکتی ہیں! بھرپور کیریئر
چھوڑ کر پاکستان جانا خود کشی کے مترادف تھا۔ مگر نُور جہاں نے زہر کا
پیالہ پیا! نئے ملک میں موسیقی اور فلمی صنعت کو سہارا دینے کے لیے وہ
پاکستان آئیں اور 7 سال کے طویل اور صبر آزما انتظار کے بعد اپنا کیریئر
دوبارہ شروع کیا۔
|
|
ذرا سوچیے کہ 1947 سے 1954 تک نُور جہاں نے بمبئی کی فلم انڈسٹری میں مزید
کِتنی کامیابی حاصل کی ہوتی، اُن کے کریڈٹ پر مزید کِتنی فلمیں ہوتی، مزید
کِتنے شاندار نغمات ریکارڈ کرائے ہوتے اور مزید کِتنا
دھن کمایا ہوتا!
مہدی حسن کا بھی کچھ کچھ ملتا جلتا معاملہ رہا۔ پاکستان کے قیام سے قبل
مہدی حسن کا گھرانہ رجواڑوں میں اُستاد کا درجہ رکھتا تھا۔ اُن کے والد
عظیم خاں اور چچا اسمٰعیل خاں نیپال کے شاہی خاندان کے علاقہ جے پور، بڑودہ
اور دیگر دیسی ریاستوں کے حکمرانوں کو موسیقی کی تربیت دیا کرتے تھے۔ مہدی
حسن کے خاندان کا معاملہ فِلمی دُنیا کے لوگوں جیسا چمک دمک کا تو نہیں تھا
مگر زندگی اچھی گزر رہی تھی۔ اعلیٰ سطح پر احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔
ایسے میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ایک نئے اور خاصی کمزور معیشت کے حامل ملک
میں آباد ہونا بہت بڑا جواءتھا۔
مہدی حسن اپنے خاندان کے ساتھ 1946 میں پاکستان آگئے تھے۔ تب یہاں فن اور
فنکار کی قدر برائے نام تھی۔ فن کی دنیا کولکتہ میں تھی اور اس کے بعد
بمبئی فن کا مسکن ٹھہرا۔ کلاسیکی موسیقی کے حوالے سے بھی لاہور بہت بڑا
مرکز نہ تھا۔ فن کی سرپرستی کرنے والے خال خال تھے۔ فلم انڈسٹری کمزور حالت
میں تھی۔ اور جب پاکستان بننے پر ہندو فلم ساز اور اسٹوڈیو مالکان بھارت
چلے گئے تو رہی سہی کسر بھی پوری ہوگئی اور برائے نام انڈسٹری نے بھی دم
توڑ دیا۔
پاکستان اپنے ابتدائی ایام میں شدید کَس مپُرسی کے عالم میں تھا۔ تب کی
معیشت سمیت مجموعی کیفیت کو بیان کرنے کے لیے غالب کا یہ مصرع کافی ہے۔
ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے!
بھارت سے لُٹے پِٹے مہاجرین سے آمد جاری تھی۔ غیر منقسم ہندوستان کے دور
میں پاکستانی علاقوں کی معیشت مجموعی طور پر ہندوؤں کے ہاتھ میں تھی۔ اُن
کے چلے جانے سے بہت کچھ اُلٹ پلٹ گیا۔ جہاں دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوں
وہاں سنگیت جیسی ”عیّاشی“ کِسے زیبا ہے؟ 1953 تک افراتفری برقرار رہی۔ اِس
ماحول میں ہر پاکستانی کو اپنا آپ منوانے کے لیے بہت محنت کرنا پڑی۔ فن کی
دُنیا پر بھی جمود طاری تھا۔ جن کے سینے میں فن سے وابستہ رہنے کی لگن تھی
وہ صِلے اور سَتائِش کی پرواءکئے بغیر سیکھنے اور فن کا مظاہرہ کرنے پر کمر
بستہ تھے۔ اور یہ بہت حوصلہ افزاءبات تھی۔
حالات اور امکانات کے بارے میں سوچے بغیر محنت کرنے کا ہُنر مہدی حسن کو
خوب آتا تھا۔ ہر حال میں محنت کرتے رہنے کا وصف اُنہیں اپنے بزرگوں سے ملا
تھا۔ اُن کے والد اور چچا نے سخت نامساعد حالات کے باوجود فن کی دُنیا کو
نظر انداز نہیں کیا۔ گانا بجانا اُن کا جَدّی پُشتی کام تھا مگر جس طور
اُنہوں نے اپنی روایت کو زندہ رکھا وہ بہت بڑی بات ہے۔ بہت سے لوگ حالات کی
خرابی اور امکانات کے محدود ہونے کے باعث اپنی روایات بھی ترک کرنے پر
مجبور ہو جاتے ہیں۔ مہدی حسن کے گھرانے نے ایسا نہیں کیا۔
مہدی حسن 18 جولائی 1927 کو بھارتی ریاست راجستھان کی تحصیل جھنجھنو کے
موضع لُونا میں پیدا ہوئے۔ ویسے لوک ورثہ فاؤنڈیشن کے ایک پروگرام میں خود
مہدی حسن نے بتایا تھا کہ اُن کی پیدائش 1934 کی ہے۔ کم عمری ہی میں موسیقی
کی ابتدائی تربیت حاصل کرنا شروع کردیا تھا۔ اُن کے والد اور چچا دیسی
ریاستوں (رجواڑوں) سے وابستہ تھے اور گاتے تھے۔ اُنہیں دیکھ کر مہدی حسن کو
بھی تحریک مِلی اور اُنہوں نے صرف آٹھ سال کی عمر بڑودہ کے راجہ کے دربار
میں فن کا نمونہ پیش کیا۔ یہ پرفارمنس 40 منٹ کی تھی۔
1946 میں مہدی حسن کے والد عظیم خاں پنجاب آئے اور مہدی حسن کو اپنی بہن کے
گھر (چیچہ وطنی) چھوڑ گئے۔ اِس دوران خاندان کے دیگر افراد بھی آگئے۔ اگلے
ہی سال پاکستان معرض وجود میں آیا تو خاندان کے باقی افراد بھی نو زائیدہ
ریاست میں آگئے۔ جو لوگ درباروں سے وابستہ تھے اور خاصی خوش حال زندگی بسر
کرتے تھے اُنہوں نے پاکستان میں شدید مشکلات جھیلیں۔ واپسی کا کوئی سوال نہ
تھا۔ پاکستان کو اپنالیا گیا تھا۔ واپس جانے کی صورت میں استہزاءکا سامنا
کرنا پڑتا۔ سوال عزتِ نفس کا تھا۔ عظیم خاں اور اسمٰعیل خاں کا تعلق کلاونت
گھرانے سے تھا۔ مہدی حسن اِس خاندان کی سولہویں پُشت ہیں۔
پاکستان میں آباد ہونے پر مہدی حسن اور اُن کے خاندان کو زندگی بسر کرنے کے
لیے سخت جدوجہد کرنی پڑی۔ مہدی حسن نے ابتداءمیں لاہور کے پنچولی اسٹوڈیوز
میں بھی کام کیا، بائسیکل کے پنکچر لگائے اور کھیتی باڑی کی۔ اب ذرا سوچیے
کہ کہاں سُر منڈل اور تان پورے کی بہار اور کہاں ہل چلانے کی مشقت! لطف کی
بات یہ ہے کہ زراعت سے وابستہ ہونے پر بھی مہدی حسن کے دِل میں فن کے حصول
اور اُس کے مظاہرے کی لگن ماند نہیں پڑی۔ کھیتوں میں کام کے دوران بھی وہ
فن کی ریاضت سے غافل نہ رہے۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ کھیتوں میں
کام کے دوران ٹریکٹر کے پنکھے کی آواز سے وہ اپنے سُر ملاکر گاتے تھے۔
دونوں کام بہت مختلف تھے مگر لگن ایک تھی۔ اپنے شوق کو فن کی بلندی تک
پہنچانے کے معاملے میں باشعور رہنے اور اُس کی مناسبت سے محنت کرنے کے
معاملے میں مہدی حسن ایک روشن مثال کا درجہ رکھتے ہیں اور ہر دور کے
نوجوانوں کے لیے تحریک و تحرک کا ذریعہ ہیں۔
تین چار برس اِسی طور گزرے۔ پھر ایک دن مہدی حسن کے والد نے کہا کہ بھارت
سے جو کچھ لائے تھے وہ تو اب ختم ہوگیا۔ یعنی زندگی کی گاڑی کو رواں رکھنے
کے لیے مزید بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ جو تھوڑی بہت پونجی بچ گئی تھی اُس سے
عظیم خاں نے لکڑی کی ٹال لگانے کا فیصلہ کیا! یہ بات مہدی حسن کو گوارا نہ
ہوئی کہ حکمرانوں کو گانا سِکھانے والے عظیم خاں کو لوگ ”ٹال والے عظیم خاں“
کہیں! اُنہوں نے والد سے کچھ رقم لی اور مشینوں کی دنیا میں جانے کا فیصلہ
کیا۔ ڈیزل کی گاڑیوں اور ٹریکٹر کا کام سیکھا۔ اِس کام میں اُن کی مہارت
ایسی بڑھی کہ اللہ نے دِن دُگنی، رات چوگنی ترقی دی۔ کام ایسا بڑھا کہ بڑی
موٹر کمپنیاں اُن کی خدمات حاصل کرنے کی خواہش مند ہوئیں۔ اہل ثروت اپنی
جدید ترین ماڈل کی گاڑیوں کی مرمت مہدی حسن سے کروانے لگے۔ یہ ایک نئی
زندگی کا آغاز تھا مگر مہدی حسن اِسے منزل سمجھنے یا قرار دینے کے لیے تیار
نہ تھے۔ اُن کی یادداشت کمزور نہ تھی۔ راستے میں بہت کچھ مل سکتا تھا اور
ملا بھی، مگر اُنہیں یاد تھا کہ اُن کی منزل گائیکی ہے، فن کا ڈیرا ہے۔ اِس
سے کم کچھ بھی لینے پر وہ راضی نہ تھے۔
مہدی حسن کو ان کے والد اور چچا نے کلاسیکی تربیت پوری توجہ کے ساتھ دی تھی۔
اُن کا گھرانہ دھروپد گائیکی کے لیے معروف ہے جس کے لیے غیر معمولی سانس
درکار ہوتا ہے۔ والد اور چچا نے مہدی حسن کی تربیت میں سانس مضبوط کرنے کی
مشق کا بھی خاص خیال رکھا۔ وہ روزانہ چھ سات کلومیٹر کی دوڑ لگاتے تھے اور
بارہ پندرہ سو بیٹھکیں بھی لگاتے تھے۔ چچا اسمٰعیل خاں کے نزدیک گائیکی کے
لیے یہ سخت اور اعصاب شکن ورزش ناگزیر تھی۔ معاملہ صرف دوڑ اور بیٹھکوں تک
نہ تھا بلکہ شام کو اُنہیں اکھاڑے جانا ہوتا تھا جہاں پان چھ تازہ دم
پہلوان اُنہیں زور کراتے تھے۔ پورے جسم کو مضبوط بنانے کی غرض سے اسمٰعیل
خاں اکھاڑے میں موجود رہتے تھے اور سب کو ہدایت کرتے تھے کہ مہدی حسن کو
آرام نہ کرنے دینا بلکہ مکمل تھکا دینا۔ آخر میں مہدی حسن کے بڑے بھائی
پنڈت غلام قادر خاں صاحب زور کراتے تھے۔ غیر معمولی ورزش اور پہلوانی کے
بعد مہدی حسن کی کیا حالت ہوگی اِس کا اندازہ لگانا ذرا بھی دشوار نہیں۔
گلوکاری کی مشق اِس کے علاوہ تھی۔ اِس سخت تربیتی معمول نے مہدی حسن کو
جسمانی اور اعصابی طور پر اِس قدر مضبوط کردیا کہ بعد میں حالات کی سختی
اور صبر آزما مراحل اُن کی راہ میں مزاحم نہ ہوئے۔ حقیقت یہ ہے کہ مہدی حسن
کو ایک عظیم اور شاندار کیریئر کے لیے جسمانی، نفسیاتی اور اعصابی طور پر
تیار کرنے میں اِس سخت اور جاں گسل معمول نے بھی نہایت اہم کردار ادا کیا۔
1956 کے بعد مہدی حسن کو بڑے بھائی پنڈت غلام قادر کی وساطت سے ریڈیو
پاکستان کے کراچی سینٹر پر گانے کا موقع ملا۔ ریڈیو کے لیے اُن کا انتخاب
بھی ایک الگ ہی قصہ ہے۔ ہوا یہ کہ آڈیشن کے لیے بُلایا گیا تو متعلقہ
افسران پانچ گھنٹے تک اُنہیں سُنتے رہے۔ مہدی حسن نے دھروپد کے علاوہ دادرا،
ٹھمری، ٹپّا، ماہیا، کجری، خیال سبھی کچھ گاکر سُنایا۔ ساتھ ہی ساتھ اُنہوں
نے غزل اور گیت گانے میں اپنی مہارت کا تعارف بھی کرادیا۔ آڈیشن لینے والوں
کے لیے یہ طے کرنا مشکل ہوگیا کہ اُنہیں کِس کیٹیگری میں رکھا جائے! بہت
سوچ بچار کے بعد ذوالفقار علی بخاری مرحوم سے رابطہ کرکے اُنہیں صورتِ حال
پر مطلع کیا گیا۔ اُنہوں نے کہا کہ اے کیٹیگری دے دو۔
یہ تب کی بات ہے کہ جب عوامی میڈیم ریڈیو ہی تھا۔ جو ریڈیو پر گاتا تھا اُس
کے نام کا ڈنکہ بج جاتا تھا۔ طریقہ یہ تھا کہ کسی بھی فنکار کو پورے ایک
گھنٹے کے پروگرام کی بکنگ دی جاتی تھی۔ فنکار کی اناؤنسمنٹ کی جاتی تھی اور
پھر وہ ایک گھنٹے تک لائیو گاتا رہتا تھا۔ گیت ریکارڈ بھی کئے جاتے تھے مگر
ریکارڈنگ کی سہولتیں کم ہونے کے باعث لائیو کو ترجیح دی جاتی تھی۔
مہدی حسن نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ جب اُنہیں ریڈیو پر پہلی بکنگ ملی تو
پروڈیوسر نے کنٹریکٹ پر دستخط کرائے۔ کنٹریکٹ پر معاوضے کی مد میں 35 روپے
درج تھے۔ وہ بہت حیران ہوئے اور پروڈیوسر سے پوچھا کہ کیا صرف 35 روپے ملیں
گے۔ جواب ملا کہ اے کیٹیگری کے فنکاروں کو ایک بکنگ کے 15 روپے ملتے ہیں،
آپ کو 35 روپے اِس لیے دیئے جارہے ہیں کہ ذوالفقار علی بخاری صاحب نے
اِضافی ادائیگی کی سفارش کی ہے!
(جاری ہے) |