عید یا وعید (فیضانِ عید الفطر)۔

محترم قارئین کرام!! لائقِ عذاب کاموں کااِرْتِکاب کر کے ''یومِ عِید'' کو اپنے لئے ''یومِ وَعِید'' نہ بنائیے ۔ اور یاد رکھئے
لَیْسَ الْعِیدُ لِمَنْ لَّبِسَ الْجَدِیْد

اِنَّمَا الْعِیْدُ لِمَنْ خَافَ الْوَعِیْد
(یعنی عید اُس کی نہیں،جس نے نئے کپڑے پہن لئے ۔عِید تو اُس کی ہے جو عذابِ الہٰی عزوجل سے ڈر گیا )
اولیائے کرام رحمہم اللہ تعالیٰ بھی تو عید مناتے رہے ہیں
محترم قارئین کرام!!آج کل گویا لوگ صِرف نَئے نَئے کپڑے پہننے اور عُمدہ کھانے تَناوُل کرنے کو ہی مَعاذَاللّٰہ عید سمجھ بیٹھے ہیں۔ذرا غور توکیجئے !ہمارے بُزُرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ المبین بھی توآخِرعِید مناتے رہے ہیں۔ مگر اِن کے عِید مَنانے کا انداز ہی نِرالا رہا ہے۔وہ دُنیا کی لذّتوں سے کَوسَوں دُور بھاگتے رہے ہیں اور ہر حال میں اپنے نَفْس کی مُخا لَفت کرتے رہے ہیں۔ چُنانچِہ

عید کا انوکھا کھانا
حضرتِ سَیِّدُنا ذُوالنُّون مِصری رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے دس برس تک کوئی لذیذ کھانا تَناوُل نہ فرمایا،نَفْس چاہتارہا اورآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نَفْس کی مُخا لَفت فرماتے رہے، ایک بار عِید مُبارَک کی مُقَدَّس رات کو دِل نے مشورہ دیا کہ کل اگر عِیدِ سعید کے روزکوئی لذیذ کھانا کھالیا جائے تو کیا حَرَج ہے؟اِس مشورہ پر آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے بھی دِل کو آزمائش میں مُبتَلا کرنے کی غَرض سے فرمایا ، ''میں اَوّلاً دو رَکْعت نَفْل میں پوُرا قُراٰنِ پاک خَتْم کروں گا،اے میرے دِل !تُو اگراِس بات میں میرا ساتھ دے تَو کل لذیذ کھانا مِل جائے گا۔''لہٰذا آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے دو رَکعَت ادا کی اور اِن میں پوراقُراٰنِ مجِےد خَتْم کیا۔آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے دِل نے اِس اَمْرمیں آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کا ساتھ دیا۔(یعنی دونوں رَکعَتیں دِل جَمعی کے ساتھ ادا کرلی گئےں)آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے عید کے دِن لذیذ کھانا منگوایا ۔ نِوالہ اُٹھاکر مُنہ مےں ڈالنا ہی چاہتے تھے کہ بے قرار ہوکر پھر رکھ دیا اور نہ کھایا۔لوگوں نے اِس کی وجہ پُوچھی تو فرمایا، جِس وَقت میں نِوالہ مُنہ کے قریب لایا تو میرے نَفس نے کہا ، دیکھا ؟ میں آخِر اپنی دس سال پُرانی خواہِش پوری کرنے میں کامیاب ہو گیا نا!میں نے اُسی وَقت کہا،کہ اگر یہ بات ہے تو میں تجھے ہر گِز کامیاب نہ ہونے دوں گااور ہر گزہرگز لذیذ کھانا نہ کھاؤں گا۔چُنانچِہ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے لذیذ کھاناکھانے کا اِرادہ تَرک کردیا۔اتنے میں ایک شخص لذیذ کھانے کا طَباق اٹھائے ہوئے حاضِر ہوا اور عَرض کی ،یہ کھانامیںنے رات کو اپنے لئے تیار کیا تھا۔رات جب سویا تو قسمت انگڑائی لے کر جاگ اُٹھی ، خواب میں تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زیارت کی سعادت حاصِل ہوئی۔ میرے پیارے پیارے اور میٹھے میٹھے آقا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھ سے ارشاد فرمایا،اگر تُو کَل قِیامت کے روز بھی مجھے دیکھنا چاہتا ہے تو یہ کھانا ذُوالنُّون(رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ) کے پاس لے جا اور اُن سے جا کر کہہ کہ''حضرتِ مُحمّد بن عبدُاللہ بن عبدُالمُطَّلِب( صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ و سلَّم وَ رضی اللہ تعالیٰ عنہما ) فرماتے ہیں ، کہ دَم بھر کےلئے نَفس کے ساتھ صُلْح کرلواور چند نِوالے اِس لذیذ کھانے سے کھا لو ۔ ' ' حضرتِ سَیِّدُنا ذُوالنُّون مِصری رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ یہ پیغامِ رِسالَت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سُن کر جھوم اُٹھے ،اور کہنے لگے!''میں فرمانبردار ہوں،میں فرمانبردار ہوں۔''اور لذیذ کھانا کھانے لگے ۔ (تذکرۃ الاولیائ، ص١١٧)
اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو۔
ربّ ہے مُعطِی یہ ہیں قاسِم
ٹھنڈا ٹھنڈا میٹھا میٹھا

رِزق اُس کا ہے کِھلاتے یہ ہیں
پیتے ہم ہیں پِلاتے یہ ہیں
(حدائق بخشش شریف)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !

صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمَّد
سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ ٖو سلم کھلاتے ہیں
سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و سلم پلاتے ہیں

محترم قارئین کرام!دیکھا آپ نے ؟اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے نیک بندے عِید کے روزِ سعید بھی نَفس کی پَیروی سے کِس قَدَر دُور رہتے ہیں ، یقینایقینا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے مَقبول بندے نَفسانی خواہِشات کی کچھ بھی پَرواہ نہیں کرتے اور ہرآن اللّٰہعَزَّوَجَلَّکی رضاہی میں راضی رہتے ہیں اور اُن کی یہ شان ہوتی ہے کہ اللّٰہ و رسول عَزَّوَجَلَّ وَ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خاطِر وہ لَذائذِ دُنْیوی سے مُجْتَنِب رہتے ہیں ۔ ایسے خوش بختوں کو خُصوصیَّت کے ساتھ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اور اُس کے پیارے حَبیب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کِھلاتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ مدینے کے تاجور ، محبوبِ ربِّ اکبر عَزَّوَجَلَّ وَ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی اُمَّت کے حالات سے آج بھی باخَبر ہیں آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے محبوب غُلام حضرتِ سَیِّدُنا ذُوالنُّون مِصری رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے حالات مُلاحَظہ فرمارہے تھے جبھی تو اپنے ایک غُلام کو حُکم فرما کر حضرت کوپیغام بھجوایا اوراپنے کرم سے کھانا کِھلایا ۔
سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کھلاتے ہیں سرکار پلاتے ہیں
سُلطان و گدا سب کو سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نبھاتے ہیں

روح کو بھی سجائیے
محترم قارئین کرام!اِس میں کوئی شک نہیں کہ عِیدکے دِن غُسل کرنا ،نئے یا دُھلے ہوئے کپڑے پہننا اور عِطْرلگانا سُنَّت ہے۔یہ سُنتیں ہمارے ظاہِری بدن کی صفائی کیلئے ہیں۔لیکن ہمارے اِن صاف ،اُجلے اور نئے کپڑوں اور نہائے ہوئے اور خُوشبو مَلے ہوئے جِسم کے ساتھ ساتھ ہماری روح بھی، ہم پر ہمارے ماں باپ سے بھی زےادہ مہربان خُدائے رَحْمٰن عَزَّوَجَلَّ کی مَحَبَّت و اِطاعت اورسرکارِ والا تبار ، بِاِذنِ پروردگار دو جہاں کے مالِک ومختار، شَہَنْشاہِ اَبرار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اُلفت وسُنَّت سے خوب خوب سجی ہوئی ہونی چائیے۔

نجاست پر چاندی کا ورق
محترم قارئین کرام!سوچئے تَو سَہی ! روزہ ایک بھی نہ رکھا ہو ، سارا ماہِ رَمَضان اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانیوں میں گُزارا ہو،بجائے مَسجِد میں یا عِبادات میں گُزارنے کے ساری راتیں اُودَھم بازی اُچھل کُود،کرکٹ کھیلنے یا اُس کا تماشہ دیکھنے ،ٹیبل فُٹبال اور وِڈیو گیمز کھیلنے یا آوارہ گَردی کرنے میں گُزری ہوں۔ بجائے تِلاوت کلامِ پاک کے رومانی ناولیں پڑھی ہوں اور بجائے نَعتیں سُننے کے ٹیپ ریکارڈر پر خوب فلمی گانے سُنے ہوں اور یُوں اپنے جِسْم و رُوح کو دِن رات گُناہوں میں مُلَوَّث رکھا ہو اور آج عِید کے دِن فِرَنگی طَرز کے اِنگلش فیشن والے بے ڈھنگے کپڑے پہن بھی لئے تو اسے یُوں سمجھئے کہ گویا ایک نَجاست تھی جس پر چاندی کا وَرَق چَسپاں کرکے اُس کی نُمائش کردی گئی۔

عید کس کے لئے ہے؟
سرکار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مَحَبَّت سے سرشار دیوانو! سچّی بات تویِہی ہے کہ عِید اُن خوش بَخْت مسلمانوں کاحصّہ ہے جِنہوں نے ماہِ مُحْترم ، رَمَضانُ المُعظَّمکو رَوزوں ، نَمازوں اور دیگر عِبادتوں میں گُزارا۔تو یہ عید اُن کے لئے اللّٰہعَزَّوَجَلَّکی طرف سے مزدُوری مِلنے کا دِن ہے۔ہمیں تو ا للّٰہعَزَّوَجَلَّ سے ڈرتے رہنا چاہئے کہ آہ ! محترم ماہ کا ہم حقّ ادا ہی نہ کرسکے۔

سیدنا عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عید
عِیدکے دِن چندحضرات مکانِ عالی شان پر حَاضِر ہوئے تو کیا دیکھا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ در وا زہ بند کرکے زَارو قِطاررو رہے ہیں۔ لوگوں نے حَیران ہوکر عَرض کی، یاامیرَالْمُؤمِنِین رضی اللہ تعالیٰ عنہ!آج تَو عِید ہے جو کہ خوشی مَنانے کا دِن ہے ، خوشی کی جگہ یہ رونا کیسا؟آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنسو پُونچھتے ہوئے فرمایا ، ''ھٰذا یَوْمُ الْعِیْدِ وَ ھٰذا یَوْم ُ الْوَعِیْد''یعنی اے لوگو!یہ عِید کا دِن بھی ہے اور وَعِید کا دِن بھی ۔ آج جس کے نَمازو روزہ مَقبول ہوگئے بِلا شُبہ اُس کے لئے آج عِیدکا دِن ہے۔لیکن آج جِس کے نَمازو روزہ کورَد کر کے اُس کے مُنہ پر ماردیا گیا ہواُس کیلئے تو آج وَعِید ہی کا دِن ہے۔اور میں تواِس خَوف سے رو رہا ہوں کہ آہ!
''اَنَا لَا اَدْرِیْ اَ مِنَ الْمَقْبُوْلِیْنَ اَمْ مِنَ الْمَطْرُوْدِیْنَ۔''
یعنی مجھے یہ معلوم نہیں کہ مَیں مَقبول ہُوا ہُوں یا رَد کردیا گیا ہوں۔
عید کے دن عمر یہ رو رو کر
بولے نیکوں کی عید ہوتی ہے

ہماری خوش فہمی
اللّٰہُ اکبر!(عَزَّوَجَلَّ ) مَحَبَّت والو!ذرا سوچئے ! خوب غور فرمائیے! وہ فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہُ جن کو مالِکِ جنَّت ،تاجدارِ رِسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنی حیاتِ ظاہِری ہی میں جَنَّت کی بِشارت عِنایت فرمادی تھی۔ خوفِ خُداوندی عَزَّوَجَل کا آپ پر کس قَدَر غَلَبہ تھا کہ صِرف یہ سوچ سوچ کر تھرّارہے تھے کہ نہ معلوم میری رَمَضانُ الْمُبارَککی طاعَتیں قَبول ہوئیں یا نہیں۔ سُبْحٰن اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ !عیدُالفِطْر کی خُوشی منانا جن کا حقیقی حق تھا اُن کے خوف وخَشِیّت کا تو یہ عالَم ہو اور ہم جیسے نِکمّے اور باتُونی لوگوں کی یہ حالت ہے کہ نیکی کے''ن''کے نُقطے تک تو پَہُنچ نہیں پاتے مگر خوش فَہمیکا حال یہ ہے کہ ہم جیسا نیک اور پارسا تو شاید اب کوئی رہا ہی نہ ہو۔اِس رِقّت انگیز حکایت سے اُن نادانوں کو خُصوصاًدرسِ عِبرت حاصِل کرنا چائیے جو اپنی عِبادات پر ناز کرتے ہوئے پُھولے نہیں سماتے اور اپنے نیک اعمال مَثَلاً نَماز ، روزہ ،حج، مَساجِد کی خدمت ،خَلْقِ خُدا کی مدد اور سماجی فلاح وبَہبُود وغیرہ وغےرہ کاموں کا ہرجگہ اِعلان کرتے پِھرتے ، ڈَھنڈوراپیٹتے نہیں تھکتے ، بلکہ اپنے نیک کاموں کی مَعَاذاللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اخبارات ورَسائِل میں تصاویر تک چھپوانے سے گُریز نہیں کرتے۔آہ ! اِن کا ذِہن کِس طرح بنایا جائے۔اِن کو تعمیری واَخلاقی سوچ کس طرح فَراہم کی جائے!اِنہیں کس طرح باوَر کرایا جائے کہ اِس طرح بِلاضَرورت اپنی نیکیوں کا اِعلان کرنے میں رِیا کاری کی آفت میں پڑنے کاخدشہ ہے ۔ایسا کرنے سے بعض صورتوں میں نہ صِرف اعمال برباد ہوتے ہیں بلکہ رِیاکاری میں سراسر جہنَّم کی حقداری ہے۔ اوراپنا فوٹوچھپوانا؟تَوبہ!تَوبہ! رِیاکاری پر سینہ زوری !اپنے اعمال کی نُمائِش کا اتنا شوق کہ فوٹو جیسے حرام ذَرِیعے کو بھی نہ چھوڑا گیا ۔ اللّٰہعَزَّوَجَلَّ رِیا کاری کی تَباہ کاری ، ''مَیں مَیں''کی مُصیبت اور اَنَانیت کی آفت سے ہم سب مسلمانوں کی حِفاظت فرمائے ۔
اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم

شہزادے کی عید
امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عُمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ عِید کے دِن اپنے شہزادے کو پُرانی قمیص پہنے دیکھا تو رَوپڑے ،بیٹے نے عَر ض کی،پیارے ابّاجان ! کیوں رو رہے ہیں؟ فرمایا:میرے لال ! مجھے اَنْدےشہ ہے کہ آج عِید کے دِن جب لڑکے تجھے اِس پرانی قمیص میں دیکھیں گے تو تیرا دِل ٹوٹ جائے گا۔بیٹے نے جواباً عَرْض کی، دِل تو اُس کا ٹُوٹے جو رِضائے اِلہٰی عَزَّوَجَلَّ کے کام میں ناکام رہا ہویا جس نے ماں یا باپ کی نافرمانی کی ہو۔ مجھے اُمِّید ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہُ کی رِضا مندی کے طُفیل اللّٰہعَزَّوَجَلَّ بھی مجھ سے راضی ہو جائے گا۔یہ سُن کر حضرتِ عُمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہُ نے شہزادے کو گلے لگایا اور اُس کیلئے دُعاء فرمائی ۔ (مُلَخَّصاًمُکاشَفَۃُ الْقُلُوب، ص ٣٠٨)
اللّٰہ عَزَّوَجَل َکی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو۔

شہزادوں کی عید
امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدُناعُمَربن عبدُ الْعَزےز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں عِید سے ایک دِ ن قَبل آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہُ کی شہزادیاں حاضِر ہوئیں اور بولیں،''بابا جان! کل عِید کے دِن ہم کون سے کپڑے پہنیں گی؟ '' فرمایا ، ''یِہی کپڑے جو تم نے پہن رکھّے ہیں،اِنہیں دھو لو، کَل پہن لینا!۔'' ،''نہیں !بابا جان ! آپ ہمیں نَئے کپڑے بنوادیجئے،''بچّیوں نے ضِد کرتے ہوئے کہا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہُ نے فرمایا، ''میری بچّیو!عِید کا دِن اللّٰہُ رَبُّ الْعِزَّت عَزَّوَجَلَّ کی عِبادت کرنے ،اُ سکا شُکر بجالانے کا دِن ہے ،نئے کپڑے پہننا ضَروری تو نہیں۔ ''! '' بابا جان ! آپ کا فرمانا بیشک دُرُست ہے لیکن ہماری سَہَیلیاں ہمیں طَعنے دیں گی کہ تم امیرُ المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لڑکیاں ہو اور عید کے روز بھی وُہی پُرانے کپڑے پَہن رکھے ہیں! '' یہ کہتے ہوئے بچّیوں کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔ بچّےوں کی باتیں سُن کر امیرُالْمُؤمِنِینرضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دِل بھی بھر آیا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خازِن (وزیر مالیات) کو بُلا کر فرمایا:''مجھے میری ایک ماہ کی تنخواہ پیشگی لادو۔ '' خازِن نے عَرض کی ،''حُضُور! کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ ایک ماہ تک زندہ رہےں گے؟'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہُ نے فرمایا:''جَزَاکَ اللّٰہ!تُونے بیشک عُمدہ اور صحےح بات کہی ۔ '' خازِن چلا گیا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ُنے بچّیوں سے فرمایا،''پیاری بیٹیو! اللہ و رسول عَزَّوَجَلَّ وَ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی رِضا پر اپنی خواہِشات کو قُربان کردو ۔
(مَعْدَنِ اَخلاق، حصہئ اوّل، ص ٢٥٧ تا ٢٥٨)

اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو۔
محترم قارئین کرام!دیکھا آپ نے ؟ گُزَشتہ دونوں حِکایات سے ہمیں یِہی دَرْس مِلا کہ اُجلے کپڑے پَہن لینے کا نام ہی عِید نہیں ۔ اس کے بِغےربھی عِید مَنائی جا سکتی ہے۔

فیضان سنت کا فیضان ۔۔۔۔۔جاری ہے
یا اللہ عزوجل ماہ رمضان کے طفیل برما کے مسلمانوں
کی جان و مال ،عزت آبرو کی حفاظت فرما۔اٰمین

وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف وکرم سے مجھے
بس ایک بار کہا تھا میں نے یا اللہ مجھ پر رحم کر مصطفی کے واسطے
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 349636 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.