کون کرے گا معاف

ایک نو مسلم لڑکی اور مسلم لڑکے کی کہانی۔۔
شام کا منظر ہے. یہ ہے زرین آباد. زماریہ کا چھوٹا سا شہر.
وہ شہر جہاں کا منظر جنت نما ہے. پہاڑیوں سے گھرا وادیوں اور چشموں سے بھرپور. یہاں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں. لوگوں کے گھر ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر ہیں یہاں مختلف قسم کے بازار ہیں ائی. ائیے دیکھتے ہیں زرین بازار. ہر طرف لوگ ہیں کوئی کیا خرید رہا ہے اور کوئی کیا یہاں کے لوگ عام طور پر اردو اور انگریزی مکس بولتے ہیں. چلیے اپ کو گھر دکھاتے ہیں بڑے بڑے محل نما اور کچھ ہیں چھوٹے چھوٹے. ارے ارے رکیے یہ ہے قاسم صاحب کا گھر وادیوں میں گھرا گھر کے پیچھے جنگل نما جگہ اور چشمہ. گھر اج گھر سجا ہوا ہے گھر سے مختلف قسم کی اوازیں ارہی ہیں کیونکہ اج جیاء علی اور جنید خان کی منگنی کی تقریب ہے نہ. نہیں جانتے آپ ان کو چلیے کچھ مہینے پیچھے چلتے ہیں.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنید خان جو کہ ابھی تک تو نام کے مسلمان ہیں. ہر غلط کام کرتے ہیں. اس کے دوست جو کچھ عرصہ پہلے اس کے ساتھ ہیں اور اب وہ سدھر چکے ہیں نام ہیں ان کے رضا میر سلمان رضا اور قمر خان. ایک وقت تھا جب یہ چاروں مل کر غلط کام کیا کرتے تھے ان کے نزدیک کچھ حرام ہی نہیں تھا لیکن اب وہ تینوں کسی نیک سے ملے ہیں اور اس کے ساتھ رہنے لگے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ جنید خان بھی صحیح راستے پر ائے. اس لیے انہوں نے ایک پارٹی رکھی ہے جہاں وہ سب چلیں گے اور ملیں گے یہ پارٹی عجیب سی سنسان جگہ پر تھی پہاڑوں کے درمیان ایک فارم ہاؤس پر. جنید اور اس کے دوست پارٹی میں مصروف تھے انہوں نے جنید کو سمجھایا وہ بھی سمجھ رہا تھا کہ مجھے واپس پلٹنا چاہیے لیکن اس نے رضا میر سے کہا.:
میری ساری جوانی گزرنے والی ہے رضا ان غلط کاموں میں بھلا میں اب واپس کیسے پلٹ سکتا ہوں ایک غلطی سے مجھے ماں باپ نے گھر سے نکالا تھا ویسا کیسے ہوگا کہ وہ ہزاروں غلطیوں کے بعد مجھے معاف کر دیں.
سلمان رضا:
دیکھو جون پہلے یہ فیصلہ کرو کہ تمہیں کس سے معافی چاہیے.
جون:
کیا مطلب مجھے. کون قبول کرے گا ایسا نہیں ہو سکتا بس تم لوگ رہنے دو اور جاؤ یہاں سے.
قمر خان: مگر.
جنید: مگر وگر کچھ نہیں.
اسی بحث میں وہ تینوں چلے گئے اور کہہ کر گئے:
یا رسول اللہ مسجد کے قریب فقیر رہتا ہے اس سے مل لینا اگر ارادہ بدلے تو.
اس کے بعد وہ تینوں چلے گئے اور جنید وہاں اکیلا ہی تھا.
جنید:
( خود سے) یہ سب کیا ہے میں اپنا ماضی کیسے بدل سکتا ہوں بھلا( وہ بڑبڑاتا ہوا باہر نکلا فارم ہاؤس سے).
اسے جیا نظر ائی اس نے سر سے پاؤں تک اسے دیکھا اس نے مغربی لباس پہن رکھا تھا.
جیاء زمین پر بیٹھی ہے جب اس نے نظر اٹھائی تو سامنے ایک دراز قد تبلا پتلا تھری پیس پہنے لڑکا جو کہ کافی خوبصورت تھا انکھیں بھوری چمکدار بڑے بڑے بال اور چھوٹی چھوٹی داڑھی تھی.
جنید کو دیکھ کر اسے اچھا محسوس ہوا جیا نے خود سے کہا یہ اچھا انسان ہوگا.
جنید اگے بڑھا وہ ڈر گئی.
جنید:ارے ڈر کیوں رہی ہو.
جنید:(
خود سے لڑکی تو خوبصورت ہے ضرور کسی پارٹی میں ائی ہوگی.
ججیاء:who are you?.
جنید:
جنید خان عرف جون and you?.
جیاء:اہ سانس پھولا ہوا۔۔۔
ائی ایم ائی ایم جیاء جون.
جنید: او پارٹی میں ائی تھی خیر کوئی نہیں. میرے ساتھ کر لو پارٹی.
جیاء:
پریشانی اور حیرانی سے اسے دیکھنے لگی.
جنید: کیا ہوا ڈر کیوں رہی ہو میں ہوں نہ وہ اس کے مزید قریب ایا.
وہ گرنے لگی تو جنید نے اسے سہارا دینا چاہا جیسے ہی جنید نے اس کے کندھے کو چھوا وہ زخمی تھی.
اور پھر جیا اس کے بازوں میں بے ہوش ہو گئی وہ ڈر گیا.
جنید: میں نے بہت غلط کام کیے ہیں لیکن کسی کی جان نہیں لے سکتا لیکن اگر یہ مر گئی ہوئی تو اس نے اسے وہیں چھوڑا اور بھاگ گیا.
راستے میں وہ یا رسول اللہ مسجد کے پاس سے گزرا تو وہ فقیر اسے دیکھ کر زور سے ہنسا.
جنید: کیا ہوا.
فقیر: تمہیں پتہ ہو کہ مجھے.
جنید: اس اس کے قریب اگیا. اور کہا کیسے.
فقیر: کیا تم انسان ہو

جنید: بالکل جی.
وہ فقیر کی بات سن کر سوچ میں پڑ گیا کہ کیا میں انسان ہوں بھی کے نہیں

فقیر: تو کیا تم فرشتہ بن سکتے ہو.
جنید: شاید نہیں.
فقیر: اچھا جنید کوئی ایسا انسان بتاؤ جس سے کوئی بھی غلطی نہ ہوئی ہو.
جنید سوچتے ہوئے: نبی اور رسول یا اللہ کے ولی.
فقیر: مسکرایا اور کہا غلط جواب تم جانتے ہو جنید کہ اللہ نے نبی اور رسول کے بارے میں کیا فرمایا ہے.
جنید: نہیں کیا فرمایا ہے.
فقیر: ---

*سورۃ النجم (53:3-4)*
*وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ، إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ*

*ترجمہ:*
"اور وہ (نبی ﷺ) اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے،
یہ تو صرف وحی ہے جو ان پر نازل کی جاتی ہے۔"

---



اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ:

- نبی ﷺ کا ہر فرمان، وحی یا اس کے مطابق ہوتا ہے
- اور یہ کہ اللہ نے انہیں گناہوں اور غلطیوں سے محفوظ رکھا

--.
فقیر:سنو یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کا ایک اہم واقعہ ہے جو قرآنِ مجید میں سورۃ القصص میں بیان ہوا ہے۔


*حضرت موسیٰؑ کا نادانستہ قتل کا واقعہ*

حضرت موسیٰ علیہ السلام، فرعون کے محل میں پروان چڑھے لیکن آپ جانتے تھے کہ آپ کا تعلق بنی اسرائیل سے ہے — جو کہ اس وقت مصر میں غلامی اور ظلم کا شکار قوم تھی۔

ایک دن آپ شہر میں تشریف لائے اور دیکھا کہ دو آدمی آپس میں جھگڑ رہے ہیں:
- ایک بنی اسرائیل سے تھا
- دوسرا فرعونی (قبطی) تھا

بنی اسرائیلی شخص نے حضرت موسیٰؑ سے مدد طلب کی۔ حضرت موسیٰؑ نے ظالم قبطی کو بچاؤ کے لیے ایک گھونسا مارا — لیکن وہ اتنا زور دار تھا کہ وہ آدمی وہیں مر گیا۔

*حضرت موسیٰؑ کا ردعمل:*

حضرت موسیٰؑ فوراً پشیمان ہو گئے اور فرمایا:

*"یہ تو شیطان کا کام ہے، بے شک وہ انسان کا کھلا دشمن اور گمراہ کرنے والا ہے۔"*
*(سورۃ القصص 28:15)*

پھر حضرت موسیٰؑ نے فوراً توبہ کی اور عرض کیا:

*"اے میرے رب! بے شک میں نے اپنی جان پر ظلم کیا، پس مجھے معاف فرما دے۔"*
اور اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا۔
*(سورۃ القصص 28:16)*
جنید: حیرانی سے اللہ نے معاف کر دیا لیکن وہ تو نبی تھے اس لیے۔
فقیر:
تمہیں بھی ملے گی معافی اللہ کرے گا قبول توبہ تمہاری ۔



جنید: لیکن لوگ ایسا نہیں کرتے.
فقیر: اللہ اور انسانوں میں یہی تو فرق ہے.
جنید; مطلب توبہ سے میں معاف کر دیا جاؤں گا.
فقیر.:*صحیح مسلم* سے روایت ہے:

*حدیث:*

"عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله ﷺ:
*والذي نفسي بيده، لو لم تذنبوا لذهب الله بكم، ولجاء بقوم يذنبون، فيستغفرون الله فيغفر لهم.*"
*(صحیح مسلم، حدیث 2749)*

*ترجمہ:*
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم گناہ نہ کرتے، تو اللہ تمہیں ختم کر دیتا اور ایسی قوم لے آتا جو گناہ کرتی، پھر اللہ سے معافی مانگتی اور اللہ ان کو معاف فرما دیتا۔"
اس حدیث کو سننے کے بعد جنید میں دوبارہ جینے کی ہمت پیدا ہو گئی.
وہ وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا لیکن اس کے ذہن میں جیا ہی تھی.
وہ سوچتا ہوا دوبارہ فارم ہاؤس پر گیا.
اس نے دیکھا جیا وہیں بے ہوش پڑی ہے.
جنید نے خود سے کہا: اسے بچانا چاہیے
اس نے اسے اٹھایا گاڑی میں بٹھایا اور گھر لے گیا.
جنید کا گھر عالی شان محل نما جہاں وہ رہتا اکیلا ہے لیکن اتنے بڑے گھر میں اج گھر میں نوکر چاکر کوئی نہ تھے اس نے جیا کو اپنی لیب میں لٹایا اور جیسے ہی وہ کچھ ہوش میں ائی اس نے لیب میں لگی سینری دیکھی جس پر درود پاک تھا.
تم مسلمان ہو جیا نے کہا.
جنید بھاگ کر اس کی طرف ایا اور کچھ کہہ نہ سکا.
جیاء کے کپڑے مغربی تھے اور کافی حد تک بوسیدہ تھے تو اس لیے جنید نے اس سے کپڑے بدلنے کو کہا اور خود باہر چلا گیا.
جب وہ پھر اندر داخل ہوا تو جیا کلینیکل سوٹ میں اچھی لگ رہی تھی بھورے گھنگریلے بال بھوری انکھیں انکھوں میں انسو اسے دیکھ کر لگ رہا تھا وہ انگریز ہے.
وہ پھر سے ڈر گئی
جنید: ڈرو مت مجھے غلط نہ سمجھو.
جیاء:خاموشی سے بیڈ پر بیٹھی تھی اور اس کے منہ سے جاگ نکلنے لگی اور وہ بے ہوش ہو گئی.
جنید نے پہلے اس کا زخم چیک کیا اور بعد میں زہر کا اندازہ لگایا اور اسے. زہر کی شناخت کی اور اس کا تریاق اس کو دیا.
زخم کو صاف کیا اور پٹی کر دی.
جنید :یا اللہ میں بہت گنہگار ہوں مجھے لگتا تھا میں سب خود کر لوں گا مگر نہیں سب تو کرتا ہے مولا جیا کو بچا لے اس نے دل میں کہا.
رات کے تین بجنے کو تھے وہ جانتا تھا کہ یہ تہجد کا وقت ہے کیونکہ اس کی بہن اس ٹائم اٹھا کرتی تھی اسے یاد ایا.

جنید :فاطمہ اس وقت کیوں اٹھ جاتی ہو؟ فاطمہ: یہ اللہ کا پسندیدہ وقت ہے یعنی تہجد کا وقت ہے.
جنید: پسندیدہ مطلب؟.
فاطمہ؛ اس ٹائم اگر کوئی عبادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے اور وہ رب سے کچھ بھی مانگتا ہے وہ ملتا ہے اور رب اپنے بندے سے خوش ہوتا ہے اور وہ مسکراتا ہے جو اس کی شان کے لائق ہے.
جنید :او اچھا.
یہ سب باتیں اس کے دماغ میں گھوم رہی تھی جنید کو اج سمجھ ائی جو بات اس کی بہن نے کئی سال پہلے کی تھی.
اس نے لیب میں ہی سیڑھی لگا کر اوپر بیڈ روم بنا رکھا تھا وہ جیا کو دیکھتا ہوا اوپر گیا غسل کیا صحیح سے وضو بھی کیا شلوار قمیض پہنی اور جائے نماز ڈھونڈنے لگا.
وہ کہاں ملنا تھا جنید نے کون سا کبھی نماز پڑھی تھی لیکن اسے بچپن میں یاد کروائی گئی تھی اور اسے یاد تھی کیونکہ وہ بھولتا نہیں تھا کچھ بھی.
اب جائیں نماز مل ہی گیا اس نے دو رکعت نماز پڑھی.
اس کے بعد جب اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو اسے اپنے سب گناہ یاد انے لگے.
اس نے کہا.
میرے مولا میرے مالک میرے اللہ میں میں شرمندہ ہوں مجھے توبہ کا کبھی کسی نے بتایا ہی نہیں مجھے نہیں معلوم تھا اللہ جی کہ تو معاف کر دے گا مجھے لگا میں نے تو ساری عمر گناہوں میں گزاری ہے کبھی تجھے یاد ہی نہیں کیا.
میں تو نام کا مسلمان تھا مجھے مجھے پتہ ہی نہیں چلا میرے مولا یہ سب ہو گیا یہ سب ہوتا چلا گیا اور میں بے خبر ہی رہا.
اور جو گناہ میں اج کرنے والا تھا مولا تو نے مجھے اس سے بچا لیا میرے مالک تو نے تو نے ہی ہمیشہ بچایا ہے نا اب بھی بچا لے یا اللہ میں میں توبہ کرتا ہوں دل سے میرے مولا تو مجھے معاف کر دے کر دے نا میں دوبارہ جینا چاہتا ہوں تو میرا ساتھ دینا مجھے بچا لے مولا میں ہاں ہار رہا ہوں اور مجھے جتنا جیتنا بھی نہیں ہے مولا مجھے معافی چاہیے یا اللہ.
میرا کون ہے کوئی بھی نہیں کہتے ہیں تیرے سوا کوئی معاف نہیں کرتا اس لیے مجھے اج پتہ لگا ہے کہ تیرے سوا کوئی محبت عزت اور عبادت کے بھی لائق نہیں ہے بس مجھے معاف کر دے مجھے معاف کر دے مجھے معاف کر دے یا اللہ تو ہی تو ہے جو معاف کرتا ہے تجھ میں ہی اتنا ظرف ہے میرے مولا کے تو مجھے معاف کر دے گا.
اس کا منہ اور ہاتھ سب انسوں سے تر تھے وہ سجدے میں گیا اور خوب رویا
اس کے رونے کی اواز سن کر جیا کی انکھ کھلی وہ اٹھی ڈرپ اتار دی اور اہستہ اہستہ اوپر گئی وہ رو رہا تھا.
جیاء:اس کے قریب گئی اور کہا! Are you ok?.
جنید نے اس کی اواز سنتے ہی انسو صاف کرنے لگا اور کہا: کچھ بھی نہیں بس ویسے ہی.
جیا کو بھی کچھ سمجھ نہیں ائی اور وہ گرنے لگی جنید نے اس کو سہارا دیا اور نیچے لے ایا.
صبح ہو چکی ہے وہ اسے ناشتے کے ٹیبل پر لے گیا.
جیا: ار یو مسلم.
جنید: اب ہوں.
جیاء:مطلب؟.
جنید؛ پہلے کا پتہ نہیں لیکن اب سے میں مسلمان ہوں اپ ناشتہ کرو نا.
جیاء:ہاں تمہیں پتہ بھی ہے میں کون ہوں؟ جنید: نہیں.
جیاء:پھر اپ نے مجھے کیوں بچایا ہے.
جنید: مجھے نہیں معلوم -اب تم جاؤ گی کہاں؟.
(جنید کو لگ رہا تھا شاید وہ اپنا گھر چھوڑ کر ا چکی ہے).
جیاء:جو تم نے میرے ساتھ کیا مطلب اپ نے مجھے بچایا کافی ہے اب میں خود جی لوں گی.
جنید: کہاں پر.
جیاء جہاں بھی
جنید:اوکے! میں ناشتے کے بعد اپ کو چھوڑ دوں گا
جیاء:چھوڑ دوں گا وہ مسکرائی.
(جنید نے دیکھا وہ مسکراتے ہوئے بہت پیاری لگ رہی تھی).
جنید نے ہاسپٹل جاتے ہوئے اسے راستے میں چھوڑ دیا اور خود اپنے کام پر چلا گیا.




دوسری طرف ہے جنید کے گھر والے جنید کے ابا قاسم خان.
قاسم خان: کان کھول کر سن لو سب اج نام لیا گیا ہے جنید کا لیکن پھر ایسا نہیں ہونا چاہیے.
فاطمہ: لیکن بابا بھائی نے کوئی ایسی بھی غلطی نہیں کی ہے نا.
قاسم: غلطی اس نے وہ سنبھالنے کے بعد ہی اسے میری کون سی بات مانی ہے بھلا میں نے اسے گھر سے تب ہی نکالا جب وہ اپنے دوستوں کے ساتھ الٹی سیدھی. حرکتیں کرتا تھا.
فاطمہ: بابا وہ تب کافی چھوٹا تھا اور نہ سمجھ تھا. اور بابا اسے سمجھایا بھی تو نہیں گیا تھا نہ کہ یہ غلط ہے اور کیسے غلط ہے.
قاسم صاحب: بس فاطمہ بس بہت ہو گیا.
دادی؛ فاطمہ بیٹا. چپ کر جاؤ ہمارے ہاں غلطیاں کرنے کا رواج ہی نہیں ہے
فاطمہ :دادی مطلب ؟
دادی :مطلب یہ کہ غلطی کی معافی نہیں ملتی یہاں صرف سزا ملتی ہے.
(فاطمہ چپ ہو گئی کیونکہ وہ یہ بات ہزار دفعہ کر چکی تھی اور اسے یہی سب سننے کو ملا تھا).
فاطمہ کمرے میں چلی ائی اور اپنی ماں سے کہنے لگی جو کہ کافی بیمار ہیں اور بستر پر ہیں.
فاطمہ: ماما یہ سب بھائی کو غلط ہی کہتے ہیں وہ اگر اتنا لاپروار غیر ذمہ دار تھا تو ڈاکٹر کیسے بن گیا
(.
زہرہ خاتون جنید اور فاطمہ کی امی جان.))
بیٹا تمہیں یاد ہے جب اسے گھر سے نکالا گیا تھا یہ کہہ کر کے وہ کچھ نہیں بن سکتا ڈاکٹر تو بالکل بھی نہیں.
فاطمہ: جی تب میں 15 سال کی تھی اور اج میں 20 سال کی ہوں پانچ سال گزر گئے ہیں اور تب بھائی ڈاکٹری کے دوسرے سال میں تھے.
زہرا: بالکل لیکن تمہارے بابا کو لگتا تھا کہ ان کے پیسوں کے بغیر وہ پڑھ نہیں سکتا.
فاطمہ: لیکن اب تو وہ اچھا ڈاکٹر ہے
زہرہ :اچھا بالکل نہیں.
فاطمہ: امی جان اپ بھی؟
زہرہ: تمہاری دادی ٹھیک کہتی ہیں ہمارے ہاں غلطی کی گنجائش نہیں ہے تم بھی سنبھل کر رہنا.
فاطمہ :میں نے کیا کرنا بھلا
زہرہ :انسان کبھی غلط نہیں چاہتا ہوتا لیکن وقت غلط کروا دیتا ہے.
فاطمہ: امی اپ بھی نہ چلیں میں چلتی ہوں (فاطمہ نے ابایا پہنا ھجاب کر کے نقاب کیا اور کالج کے لیے چلی گئی)
....continue....

 

Unparh
About the Author: Unparh Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.