(حضرت شیخُ المحدثین پیر سید
محمد جلالُ الدین شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کی خدمات)قسط نمبر١
تحریر و ترتیب:۔
محمد برُھان اُلحق جلالی ؔ (وائس پرنسپل المعصوم شرعیہ کالج وصفہ اکیڈمی)
(فاضل جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور ، ایم۔اے،بی۔ایڈ،بی۔ایم۔ایس۔ایس۔ٹی۔این۔پی)
کوکب برج معرفت ،شیخ المحدثین ،فخر المدرسین،سید المفسرین،
عمدۃالمحققین،زبدۃ العارفین،سند المحدثین،سراج السالکین،دلیل الکاملین،شیخ
الاسلام والمسلمین،فخر الاماثل والاکابر،جامع البواطن والظواہر،حامل علوم و
فنون ،حاوی فروع و اصول،پیکر علم وعمل، راس الفقہا،رضوی سلاسل کے عظیم
مقتدٰی ،بحر العلوم والفنون،جنید زمان،واقف علوم ظاہری وباطنی،عابد شب زندہ
دار ،برق رضا،وارث سیدالانبیائ،بے لوثی و بے نفسی کے عظیم پیکر، کوہ علم و
استقامت، عظیم مصلح،مناظر اسلام،حافظ القرآن والحدیث جناب پیر سیدمحمدجلالُ
الدین شاہ صاحب رحمۃاللہ علیہ کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے کہ جن کا ہر
عمل قرآن و سنت کی روشنی میں ہوتا ہے۔ جو کہ ہر خاص و عام کے لئے مینارہ
نور ہوتی ہیں۔جن کے علم کے بحر بے کراں سے ہر کوئی استفادہ کرتا ہے۔جہنوں
نے زندگی کے ہر شعبہ میں کام کیا ہوتا ہے۔جن کا مبا رک وجود آنے والی نسلوں
کے لئے ایک چراغ کی حثییت رکھتا ہے۔ کوئی بھی شخصیت جتنی فیض رساں ہوتی ہے
اسے خلق خدا اتنا ہی یاد کرتی ہے۔
حافظ القرآن والحدیث جناب پیر سیدمحمدجلالُ الدین شاہ صاحب رحمۃاللہ علیہ
آپ حقیقت و معرفت وطریقت اور شریعت کے بحر بے کنار تھے آپ علوم عالیہ اور
آلیہ پر کامل دسترس رکھتے تھے۔ہم ان کی زندگی کے بارے میں مختصر سامطالعہ
کرتے ہیں۔
حضورحافظُ الحدیث بحثییَّت ِمدرس:۔
آپ کے انداز تربیت و تدریس پر کچھ گفتگو کرتے ہیں تو شیخُ النحو والصرف ،ماھرِ
علوم ُفصاحت و بلاغت ،استاذُالاساتذہ استاذالعلماء حضرت علامہ مولانا حافظ
محمد نذیر صاحب دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں کہ''
١:۔قبلہ شاہ صاحب زیادہ سے زیادہ محنت کے قائل تھے۔
٢:۔طلباء کی معقول بات پر ان کی حوصلہ افزائی فرماتے ۔
٣:۔ آپ ایک ہی طالبعلم سے عبارت پڑھوانے کے قائل نہ تھے نہ ہی باری کے ساتھ
بلکہ کسی سے بھی عبارت پڑھوا لیتے۔
٤:۔ آپ پابندی سے عبارت پڑھواتے۔
٥:۔ آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اساتذہ کو اپنا ظاہر وباطن درست رکھنا
چاہیئے تا کہ طلباء کے لئے عملی نمونہ بن سکیں۔
٦:۔ حضرت حافظ الحدیث فرماتے تھے کہ دینی تعلیم کو مبادی علوم و فنون کے
ساتھ عبادت و ریاضت قرار دیتے ۔
حضور حافظ الحدیث اعلیٰ پائے کے مدرس تھے۔آپ معقول و منقول اسباق خود
پڑھایا کرتے تھے۔آپ ایسے پیارے انداز اور ایسی صلاحیت سے بیان فرمایا کرتے
تھے کہ ذی استعداد طلباء کے ساتھ ساتھ کم استعداد والے طلبائ( کند ذہن
طلبائ)بھی مطمئن ہوجایا کرتے تھے ۔آپ کے طریقہ تدریس میں اصلاح احوال اور
تحقیق کا پہلو نمایا ں ہوتا تھا۔اور تربیت میں یہاں تک سختی تھی کہ جامعہ
کے بورڈ پر رقم تھا کہ طلباء کی ذمہ داری مستحبات کی پابندی ہے۔
جب کوئی آپ سے مسئلہ دریافت کرنے آتا تو آپ فرماتے کہ جاؤ میرے کمرے کی
فلانی الماری کی فلانی شلف میں فلانی کتاب کے فلانے صفحہ کی فلانی لائن میں
دیکھ لو۔تمھارا مسئلہ رقم ہے۔المختصر آپ کا انداز تدریس ایسا تھا کہ ہر
کوئی آپ کے انداز کا گرویدہ تھا آپ کا انداز تدریس ایسا کہ ہر طرف سے طلباء
آپ کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔
حضورحافظُ الحدیث بحثییَّت ِمربی:۔
قبلہ شاہ صاحب لوگوں کے ظاہر و باطن کی اصلاح فرمایا کرتے تھے۔جب آپ کے پاس
طلباء یا مہمان وغیرہ جمع ہوتے تو آپ مختصرااصلاح احوال پر مبنی فقرہ لازمی
ارشاد فرماتے۔آپ نے طلباء کی خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کیا ۔اور زنگ آلود
مزاج کو صیقل کیا۔آپ کی ہر ہر ادا میں وعظ و نصیحت ہوا کرتی تھی۔آپ نے
طلباء کی تربیت جلال سے بھی کی اور جمال سے بھی کی، دعا سے بھی کی اور دوا
سے بھی کی ،درسگاہ سے بھی کی اور نگاہ سے بھی کی۔
آپ نے مکتوبات(خطوط) سے بھی ہر خاص و عام کی نصیحت کی اور ہر خط کے آخر میں
رقم فرماتے کہ
اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔دنیا یوم چند آخر کار باخدا وند
آپ سے صرف شاگردی اختیار کرنے والوں نے ہی تربیت حاصل نہیں کی بلکہ زندگی
میں ایک بار ملاقاتکرنے والوں پر بھی آپکی تربیت کا اثر ہوا۔
جاری ہے |