پاکستان میں عید پر عید اور رویت ہلال

پاکستان میں ایک طویل عرصے سے رویت ہلال کا مسئلہ متنازعہ رہا ہے۔ 2 یا 3 عیدیں تو اب ہمارے معاشرے کی روایت بن چکی ہیں۔ مشرق وسطٰی میں یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ رویت کا اعلان کرے گی اور کسی اور ادارے کو انفرادی یا اجتماعی سطح پر ریاست کے اعلان سے انحراف کا تصور ہی محال ہے۔ لیکن پاکستان میں ہر صوبے میں ڈیڑھ اینٹ کی مساجد بسانے والوں نے یہ ذمہ داری بھی اپنے سر لے رکھی ہے۔ جو مولوی اپنی گلی کا نظام نہیں سمجھ سکتا وہ رویت کا فیصلہ کرنے چلے ہیں۔ جہالت کی انتہا ہے۔ سائنس مریخ پر مشن کے دعوے کر رہی ہے۔ (قطع نظر کہ کتنی صداقت ہے ان میں ) ۔ اور ہمیں وقت سے پہلے اور وقت کے بعد بھی چاند نظر آتا رہتا ہے۔

محاورہ پڑھا کرتے تھے کہ دن میں تارے نظر آنا۔ اب ہمارے مولوی کو دن میں چاند بھی نظر آتا ہے۔ پتا نہیں یہ چاند کہتے کسے ہیں۔

ویسے تو رویت کا معاملہ اس جدید دورمیں سائنسی شکل اختیار کر چکا ہے۔ لیکن ہمارے قنوطی اور قدامت پسند علماء کرام اس کو سائنسی درجہ دینے کو ہرگز تیار نہیں اور اس کے جواب میں ان کے پاس تاویلات کی ایک لمبی فہرست ہے۔

ماہرین فلکیات اور سائنس تو یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ کس خطے میں ہوا کا دباؤ کب اور کہاں سے داخل ہو گا۔ سورج گرہن کب اور کتنے منٹ پر شروع اور ختم ہو گا۔ ایسے ہی چاند گرہن۔ اور کن کن علاقوں میں دیکھا جا سکے گا۔ لیکن دُوسری طرف ہمارے “عظیم” مذہبی رہنما اپنے طور پر اس بات کا فیصلہ نہیں کر پائے کہ چاند کب اور کتنے بجے ظاہر ہو گا۔ مشکل ہے تو سائنس سے ہی رہنمائی لے لیں۔ سائنس بھی تو قرآن کی باندی ہے۔ لیکن یہ نہیں لیں گے۔ اگر لینی پڑ گئی تو ان کی دال روٹی کیسے چلے گی۔ بلّے بلّے کیسے ہو گی۔ سپارک کرتی ہوئی لائٹس میں پریس کانفرنس کیسے ہو گی۔
حد ہوتی ہے قدامت پسندی کی بھی۔

حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ “مومن کے لئے ضروری ہے کہ وہ زمانے کی بصیرت رکھتا ہو”
اور یہ 1200 سال پرانے زمانے سے نکلنا نہیں چاہتے۔

نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسّلم نے فرمایا چاند ہی دیکھ کر روزے شروع کرو اور چاند ہی دیکھ کر روزہ موقوف کرو اور اگر بادل ہو جائے تو تیس دن پورے کر لو ۔

حدیث میں تو کوئی شک نہیں لیکن اجتہاد کا حکم کہاں جائے گا۔ اُس دور میں تو سائنس کی ترقی ہی نہیں تھی۔ صحابہ کرام کی وجہ سے رویت کی شہادت معتبر تھی۔ آج کس پر اعتبار کیا جائے۔ یہاں تو ایک گلی میں چاند نظر آرہا ہوتا ہے اور ساتھ والی میں نہیں۔ حضور علیہ الصلٰوۃ والسّلام نے تو یہ بھی فرمایا تھا کہ اپنی تلواریں اور گھوڑے تیار رکھو۔ اس دور میں ہم تلواریں اور گھوڑے جنگ میں کیوں استعمال نہیں کرتے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سائنس کی ترقی کو نظر انداز کرنا اسلام کا مقصد و منشاء نہیں۔ سائنس پر تو قرآن میں 750 سے زیادہ آیات موجود ہیں۔

ایک ادارہ بنایا جا سکتا ہے جس میں مختلف علماء کرام اور کچھ ماہرین فلکیات شامل ہوں۔ وہ جو فیصلہ کریں وہ قابل عمل اور سارے ملک میں عملدرآمد ہو۔ یہی اجتہاد بھی ہے۔ ایک ہی ملک میں 3-4 عیدیں جہالت ، نفاق، اختلاف نہیں تو اور کیا ہے۔
Muhammad Atif Nawaz
About the Author: Muhammad Atif Nawaz Read More Articles by Muhammad Atif Nawaz: 7 Articles with 9643 views Blogger
Writer
Student Spiritual Sciences
.. View More