ابن عباس محمدی (کرلا)
عید الفطر کا تہوار پھر آچکا ہے دل خوشیوں اور مسرت سے لبریز ہیں لیکن
گذشتہ کئی سالوں کی طرح امسال بھی عیدالفطر کا تہوار ایسے موقع پر آرہا ہے
جب کہ پوراعالم اسلام لہولہان ہے اور سارا جسم زخموں سے چھلنی ہے ہر بار کی
طرح اس بار بھی پرانے زخم کی بھر پائی سے قبل ہی قوم و ملت کو نئے نئے زخم
لگ رہے ہیں ۔حالانکہ عید الفطر خوشیوں کا تہوار ہے ۔لیکن حالات نے قوم کو
چکی کے دو پاٹ میں تبدیل کردیا ہے ایک طرف خوشی اور مسرت کے شادیانے ہیں ۔امن
وسکون کی زندگی ہے ۔بچے بڑے سب عید کو اپنے اپنے انداز میں منا رہے ہیں زرق
برق لباس ،سوئیاں ،خوشبو ،مہندی ،پکوان غرض کہ وہ ساری نعمتیں مہیا ہیں جو
عید کی خوشیوں کو دوبالا کر دیتی ہیں لیکن اے کاش کہ سارے عالم اسلام کی
یہی حالت ہوتی کہ ہر جگہ مسلمان امن و سکون کی زندگی گذار رہے ہوتے ہر گھر
میں خوشی ہر لب پر مسکراہٹ ہوتی ۔ والدین اور پورے گھر والے عید کی خوشیوں
کو آپس میں تقسیم کرتے بہنیں بھائیوں کی اوربیویاں شوہر کے گھر آنے کی
منتظر ہوتیں اور شوہر اپنے دامن میں دنیا جہان کی خوشیاں لانے کی کوشش میں
مصروف رہتا محبت کی فضاء میں خوشیوں کے ترانے ہوتے لیکن افسوس کہ ایسا نہیں
ہے لہولہان عالم اسلام کے کتنے ہی خطے ہیں جہاں مسلمان تو ہیں لیکن بدنصیب
ان کے لبوں پر نہ تو مسکراہٹ ہے نہ انکی زبانوں پر محبت کے ترانے ہیں دیدار
چاند تو ان کے نصیب میں ہے لیکن عید کی خوشیاں ان سے روٹھی ہوئی ہیں عید
سعید کے اس پر مسرت موقع پر بھی ان کے لئے صرف محرومیاں ہی محرومیاں ہیں
مائیں عید کے دن اپنے جگر گوشوں کو عیدی دینے یا انھیں نیا لباس پہناکر عید
کی نماز اداکرنے کیلئے بھیجنے کے بجائے انھیں لیکر بموں اور گولیوں کی زد
سے بچنے کے لئے ایک جگہ سے دوسری جگہ بھاگتی رہتی ہیں کیونکہ ان کے شوہر ان
جنگوں کا لقمہ بن چکے ہیں۔یا انھیں اسلام کی پیروی کے جرم میں پابند سلاسل
کردیا گیا وہ جیل میں عید کا چاند تو دیکھ سکتے ہیں لیکن اس خوشی کے موقع
پر اپنی بیوی بچے والدین سے نہیں مل سکتے ہیں تنہائی میں انھیں یاد کرے رو
سکتے ہیں لیکن ان کے ساتھ عید کی خوشیاں نہیں منا سکتے ہیں۔ خود ہمارے ملک
میں آسام اوراتر پردیش سمیت دیگر بہت ساری ریاستوں میں حالات انتہائی خراب
ہیں نہ جانے کتنے عورتیں بیوہ ہو چکی ہیں فسادات نے کتنے گھروں کو برباد
کردیا ہے لاکھوں لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں جن
ہاتھوں نے کل تک اپنے بچوں کو اس مبارک موقع پر عیدی دی تھی اور فطرے کا
انتظام کیا تھا ا ب وہی دینے والے ہاتھ خود فطرے اور زکوة کی طلب میں اٹھ
رہے ہیں جنھیں کل تک عید کی مناسبت سے کپڑوں کے انتخاب کرنے میں بہت سا وقت
ضائع کرنا پڑتا تھا اب وہ اپنے گھر کی دہلیز سے دور کیمپوں میں امداد کے
منتظر ہیں کہ کسی طرح سے کوئی بھی لباس مل جائے جس سے ہم اپنی ستر پوشی
کرسکیں اور اپنے بچے کچھے گھر والوں کی عزت بچا سکیں۔کل تک جن بچوں کے دل
میں عید کے ارمان تھے آج انکے دل میں دہشت اور خوف کے لہراتے سائے ہیں کل
تک جو بچے اپنی ماں کے سامنے مچلتے تھے اب وہ مارے ڈر کے انکے بغل میں چھپے
ہوئے ہیں ہونٹوں پر پپڑیاں جمی ہوئی ہیں پیاس سے حلق خشک ہو چکے ہیں لیکن
دل میں ابھی اسلام کی محبت زندہ ہے موت کے اس رقص میں ابھی بھی یہ جذبہ
سلامت ہے اسلام کی خاطر دنیا کی ساری ذلت گوارہ ہے لیکن اے کاش کہ ان جذبات
پر اسلام کی خالص تعلیمات کا عکس ہوتا پیارے نبی ۖ کی سنتوں کا اہتما م
ہوتا تو اس دیوانگی میں بھی فرزانگی کا مزہ آجاتا ۔ بہت ساری گھروں میں
بہنیں اپنی بھائیوں کا انتظار کر رہی ہیں کہ کب ہمارے بھائی آئیں گے جو
ہمارے لئے مہندی اور ہماری پسند کے لباس لیکر آئیں گے انتظار کرتے کرتے ان
کی آنکھ ویران ہو چکی ہیں روتے روتے ان کی آنکھوں کا آنسو خشک ہوچکا ہے
لیکن بھائیوں کا کوئی پتہ نہیں ہے کیونکہ انکے بھائی پولیس کے مظالم کا
شکار بن کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا دئے گئے ہیں ننھے منھے بچے عید کا
چاند دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں انھیں اس بات کا انتظارہے کہ محلے میں سب کے
پاس کپڑے آگئے ہیں۔وہ بھی اپنے ابو کے پاس آکر کہتا ہے کہ ابو ابو چاند نکل
آیا ہے مجھے بھی کپڑے دلا دو اور میں ایک نیا جوتا بھی لوں گا باپ اپنے
معصوم بچے کا چہرہ دیکھتا ہے اس کی آنکھوں میں آنسو آ رہے ہیں لخت جگر کی
معصوم طلب اس کے دل کے ٹکڑے ٹکڑے کر رہی ہے کہ میرے لاڈلے نے مجھ سے نئے
کپڑے کی فرمائش کی ہے محلے کی عورتوں نے بھی عید کی بھرپور تیاریاں کر رکھی
ہیں میری بیوی بھی حسرت سے دیکھ رہی ہے نگاہیں بہت دیکھ رہی ہیں طلب کر رہی
ہیں لیکن لب سے کچھ کہہ نہیں پارہی ہیں کیونکہ وہ بھی جانتی ہے کہ میں پانچ
سال بعد جیل کی سلاخوں سے چھوٹ کر آیا ہوں پیشانی پر لگا دہشت گردی کاالزام
ابھی پوری طرح سے ختم بھی نہیں ہوا ہے لیکن گھر کی ساری پونجی ختم ہوچکی ہے
کیسے آگے کیس کی پیروی ہوگی کیسے گھر میں چولہا جلے گا ؟نئے کپڑے تو بہت
دور کی بات ہے۔جب کہ گھر کے پرانے برتن بھی ضمانت کی رقم کا انتظام کرتے
کرتے بک گئے ہیں ۔بوڑھا باپ بھی بیچارہ اپنے جوان بیٹے کا انتظار انتظار
کرتے کرتے تھک کر قبر میں جا کر سو گیا ہے ۔کاش کہ ہمارے دل کے اندر اپنے
ان مظلوم بھائیوں کا درد پیدا ہوسکے اور ہم اپنی عید کی خوشیوں میں انھیں
شریک کرسکیں اگر ہمارے پاس عید کے لئے کئی جوڑے کپڑے ہوں تو ہم اپنے ان
محروم بھائیوں اور بہنوں کا بھی خیال کریں اور ہمارے جو بھائی جیل کی
سلاخوں کے پیچھے ہیں ہم ان کے اہل خانہ کہ غم کو تقسیم کرنے کی کوشش کریں
یہی تو عید کاپیغام ہے کہ ہم محبت کو عام کریں اپنے بھائیوں کے دکھ درد میں
شریک ہوں ۔اور اس بات کی کوشش کریں کہ ہمارے اپنے محلے میں ہماری معلومات
کی حد تک عید کے لئے کسی ماں کی آنکھ سے آنسو نہیں گریں گے کسی بہن کو اپنے
سر پر آنچل کی کمی نہیں محسوس ہونے دیں گے کوئی بچہ غربت کی وجہ سے عید کے
دن خوشیوں سے محروم نہ ہوگا آئیے قوم کے لئے ایک نئی صبح کی شروعات کریں ۔ |